Type Here to Get Search Results !

کیا ماں باپ کی بددعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟ قسط اول


•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈• 
قسط اول
عمر و رزق میں برکت کے متعلق تحقیق انیق مفتی اعظم بہار
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
(1)کیا ماں باپ کی بددعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟
(2) کیا صلہ رحمی سے عمر بڑھ جاتی ہے؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک صاحب فرمارہے ہیں کہ ماں باپ کی بددعا اس کے اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟ جبکہ دوسرے صاحب فرماتے ہیں کہ یہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ماں باپ کی بددعا قبول ہو 
جواب طلب ہے کہ ان دونوں میں کون قول صحیح ہے؟
(2) کیا یہ صحیح ہے کہ صلہ رحمی سے عمر یقیناً بڑھ جاتی ہے یعنی کسی کی عمر ساٹھ سال ہے اور صلہ رحمی کرتا ہے تو اس کی عمر اسی سال ہوجایے گی ۔؟
سائل:- مولانا عبد الغفار خان نوری مرپا شریف 
صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوہاب:- 

(1) کیا ماں باپ کی دعا اور بددعا اولاد کے حق میں قبول ہوتی ہے؟
یہ دونوں قول اپنی اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ والدین کی بددعا لگتی بھی ہے اور بددعا نہ بھی لگتی ہے لیکن دعا ضرور لگتی ہے ۔ لیکن اولاد کے حق میں خیر کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے ۔اس کے متعلق ایک حدیث شریف بھی ہے کہ :
والدین کی دعا اپنی اولاد کے لئے جیسے امت کے لئے دعائے نبی کے مثل ہے۔
اس لئے والدین کو چاہیے کہ ہمیشہ اپنی اولاد کے لئے دعائیں کرتے رہیں 
اولاد کی دعا بھی والدین کے حق میں قبول ہوتی ہے
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں
ورجل یدعو لوالدیہ
یعنی والدین کے حق میں دعا اولاد کی قبول ہوتی ہے اس لئے اولاد کو بھی چاہیے کہ ہمیشہ اپنے ماں باپ کے لئے دعائیں مانگتے رہیں۔
(احسن الوعا الآداب الدعا ص 71)
حدیث ابن ماجہ میں ہے کہ ۔
قال رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم ثلاث دعوات یستجاب لھن لاشک فیھن دعوۃ المظلوم ودعوۃ المسافر ودعوۃ الوالد لولدہ 
یعنی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔تین دعائیں قبول ہوتی ہیں :
 جن کی قبولیت میں کوئی شک نہیں! 1️⃣مظلوم کی دعا 2️⃣مسافر کی دعا 3️⃣ اولاد کے لئے باپ کی دعا ۔
اس حدیث کے تحت علامہ شادح ابن ماجہ محمد لیاقت علی رضوی حنفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
 باپ کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ باپ اپنی اولاد کے حق میں خواہ دعا کرے یا بددعا دونوں جلد قبول ہوجاتی ہیں اور جب باپ کی دعا قبول ہوتی ہے تو ماں کی دعا بطریق اولیٰ قبول ہوتی ہے اگرچہ حدیث میں ماں کی دعا کے بارہ میں ذکر نہیں کیا گیا ہے ۔لیکن بات یہی ہے کیونکہ ماں اپنی اولاد کے حق میں باپ کی بہ نسبت زیادہ شفیق ہوتی ہے ۔
مسافر کی دعا کے بارہ میں دو احتمال ہیں
 یا تو یہ کہ مسافر کی دعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اس کے ساتھ احسان اور اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کی بدعا اس شخص کے حق میں قبول ہوتی ہے جو اسے تکلیف و ایذا پہنچاتا ہے اور اس کے ساتھ برا سلوک کرتا ہے یا پھر یہ کہ مسافر کی دعا مطلقا قبول ہوتی ہے خواہ وہ اپنے لئے کرے یا دوسرے کے لئے! 
مظلوم کی دعا کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص مظلوم کی مدد کرتا ہے یا اس کو تسلی و تسکین دلاتا ہے اور مظلوم اس کے حق میں دعا کرتا ہے تو اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
( شرح ابن ماجہ جلد 6 ص 368)
عن ام حکیم بنت وداع قالت سمعت رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم یقول دعاء الوالد یقضی الی الحجاب یعنی سیدہ ام حکیم وداع بیان کرتی ہے میں نے رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے والد کی دعا حجاب تک پہنچ جاتی ہے۔
(شرح ابن ماجہ جلد 6 ص 369)
حجاب جو اللہ تعالیٰ کی ذات کے پاس ہے 
یعنی اس دعا کو اللہ تعالیٰ جلد قبول فرماتا ہے ۔
صورت مسئولہ 
 کی دو صورتیں ہیں وہ بددعا کبھی قبول بھی ہوتی ہے اور کبھی قبول نہ بھی ہوتی ہے لیکن خیر کی دعا قبول ہوتی ہے اور بددعا نہیں لگتی ہے چونکہ  
کوئی ماں باپ دل سے اولاد کو بدعا نہیں کرتے ہیں اس لئے وہ بددعا مقبول نہیں ہوتی ہے  
اس کی دلیل یہ ہے کہ اگر کسی کی اولاد کسی مصیبت یا پریشانی میں مبتلا ہوجائے تو اس وقت ماں باپ بے چین ہوجاتے ہیں یہ اس کی محبت کی دلیل ہے اگرچہ پہلے سے ماں باپ ناراض کیوں نہ ہو اسی لئے والدین کی بددعا قبول نہیں ہوتی ہے اور اس قول کی دلیل حدیث میں بھی ہے
 حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ 
انی سالت اللہ ان لا یقبل دعاء حبیب علی حبیبہ
یعنی بے شک میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیاکہ کسی پیارے کی پیارے پر بددعا قبول نہ فرما (اس کو دیلمی وغیرہ نے عبداللہ بن عمر رضی آللہ تعالیٰ عنھما سے روایت کی )
پس ہر ماں باپ کی اولاد اس کے لئے پیاری ہوتی ہے نور نظر ہوتا ہے ۔دل کا ٹکڑا ہوتا ہے اس لئے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کی برکت سے وہ بددعا قبول نہیں ہوتی ہے ۔
اور اس کی دوسری صورت یہ ہے کہ 
ہاں اگر واقعی میں دکھی ہوکر دل سے بددعا کرتا ہے تو وہ قبول ہوجاتی ہے  
 حدیث شریف میں ہے کہ ماں باپ کی بددعا اولاد کے حق میں مقبول ہیں اس لئے کبھی بھی ماں باپ کا دل نہ دکھائے ایسا کوئی فعل یا بات نہ کرے جس سے ماں باپ کو تکلیف پہنچے اور وہ بددعا، کوسنا شروع کردیں ۔
قال الرضا : اپنے اور اپنے احباب کے نفس واہل و مال و اولاد پر بددعا نہ کرے ۔کیا معلوم کہ وقت اجابت ہو۔ بعد وقوع بلا پھر ندامت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں اپنی جانوں پر بددعا نہ کرو ۔
 اور اپنی اولاد پر بددعا نہ کرو۔اور اپنے خادم پر بددعا نہ کرو ۔اور اپنے اموال پر بددعا نہ کرو ۔کہیں اجابت ,(یعنی قبولیت) کی گھڑی سے موافق نہ ہو۔
اور حضور نبی کریم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم فرماتے ہیں:
 تین دعائیں بے شک مقبول ہیں : 
1️⃣ دعا مظلوم کی 
2️⃣اور دعا مسافر کی
3️⃣اور ماں باپ کا اپنی اولاد کو کوسنا
(احسن الوعا الآداب الدعا ص 67۔ رواہ مسلم و ابوداؤد و ابن خزیمۃ عن جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنھما اور رواہ الترمذی و حسنہ عن آبی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ) 
 اور دیلمی وغیرہ نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :
 انی سالت اللہ ان لایقبل دعاء حبیب علی حبیبہ 
یعنی بے شک میں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا کہ کسی پیارے کی پیارے پر بددعا قبول نہ فرمائے ۔
علامہ شمس الدین سخاوی اسے لکھ کر فرماتے ہیں:
صحیح حدیث سے ثابت کہ اولاد پر ماں باپ کی بددعا رد نہیں ہوتی ۔تو اس حدیث کو ان سے توفیق دیا چایئے انتھی ۔
  کے تحت 
امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلوی قدس سرہ العزیز فرماتے ہیں: بددعا دو طور پر ہوتی ہے ۔
(1) ایک یہ کہ داعی کا قلب حقیقۃ اس کا یہ ضرر نہیں چاہتا ۔یہاں تک کہ اگر واقع ہوتو سخت صدمہ میں گرفتار ہو ۔جیسے ماں باپ غصے میں اپنی اولاد کو کوس لیتے ہیں ۔مگر دل ان کا مرنا یا تباہ ہونا نہیں چاہتے ۔اور اگر ایسا ہوتو اس پر ان سے زیادہ بے چین ہونے والا کوئی نہ ہوگا ۔ ۔دیلمی کی حدیث میں اسی قسم بددعا کے لئے وارد کہ حضور رؤف رحیم رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے *اس کا مقبول نہ ہونا اللہ تعالیٰ سے مانگا۔نظیر اس کی وہ حدیث صحیح ہے کہ حضور صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے عرض کی : الہی میں بشر ہوں ۔بشر کی طرح غضب فرماتا ہوں ۔تو جسے میں لعنت کروں یا بدعا دوں اسے تو اس کے حق میں کفارہ و اجر و باعث طہارت کر۔ اس سے صاف واضح ہے کہ وہاں نام بھی کام 
(2) دوسری اس کے خلاف کہ داعی کا دل حقیقۃ اس سے بے زار اور اس کے اس ضرر کا خواست گار ہے ۔اور یہ بات ماں باپ کو (معاذ اللہ) اسی وقت ہوگی جب اولاد اپنی شقاوت سے عقوق کو اس درجہ حد سے گزار دے کہ ان کا دل واقعی اس کی طرف سے سیاہ ہو جائے ۔اور اصلا محبت نام کو نہ رہے ۔بلکہ عداوت آجائے ۔ماں باپ کی ایسی ہی بددعا کے لئے فرماتے ہیں کہ رد نہیں ہوتی ۔
والعیاذ باللہ تعالیٰ سبحانہ وتعالی ھذا ۔ما ظہرلی واللہ تعالیٰ اعلم
(احسن الوعا لاداب الدعا اور ذیل المدعا لاحسن الوعا ص 67)
ماں باپ کی بددعا کی یہ نوبت کم ہی آتی ہے کوئی ماں باپ دل سے دکھی ہوکر اپنی اولاد پر بددعا نہیں کرتے ہیں اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ماں باپ کس قدر ناراض ہو اگر اس کی اولاد کسی پریشانی میں مبتلا ہوجاتے ہیں تو والدین بے چین ہوجاتے ہیں گھبرا جاتے ہیں اس پریشانی سے نجات دلوانے کے لئے در بدر کی ٹھوکڑے کھاتے رہتے ہیں اسی محبت کی وجہ سے بددعا کی یہ نوبت نہیں آئی ہے ہاں کبھی کبھی زبان سے کوستے ہیں مگر پھر بعد میں افسوس بھی کرتے ہیں
(2) ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے سے عمر میں برکت ہوتی ہے اور صلہ رحمی سے بھی عمر و رزق میں برکت ہوتی ہے
عمر و رزق میں برکت کا آسان طریقہ
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من سرہ ان یمد لہ فی عمرہ و یزداد فی رزقہ فلیبر والدیہ و لیصل رحمہ
یعنی جسے یہ پسند ہو کہ اس کی عمر دراز فرمائی جائے اور اس کے رزق میں برکت ہو۔ اسے چاہیے کہ اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرے اور صلہ رحمی سے پیش آئے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول ص 244 ۔اسے امام احمد نے روایت کیا ۔ان کے راوی صحیح کے راوی ہیں ۔اور یہ حدیث مختصر صحیح میں بھی ہے )
(2) حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
من بر والدیہ طوبی لہ زاد اللہ فی عمرہ
یعنی جس نے اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کیا ۔اسے مبارک ہو (یا اس کے لئے جنت میں شکری طوبی ہے ) ۔اللہ تعالیٰ اس کی عمر دراز فرمائے (الترغیب والترہیب ۔اسے ابو یعلیٰ ۔طبرانی ۔اور حاکم نے زبان بن قائد عن سہل بن معاذ ابیہ کے طریق سے روایت کیا۔حاکم نے صحیح الاسناد کہا)
(3) حضور مصطفی جان رحمت صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں
ولا یزید فی العمر الا البر
یعنی عمر میں اضافہ صرف والدین کی خدمت سے ہوسکتا ہے 
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 244)
(3) حضرت سلمان رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالی ہے 
لایرد القضاء آلا الدعاء ولا یزید فی العمر الا البر
یعنی قضاء (تقدیر) کو صرف دعا ٹال سکتی ہے ۔اور عمر میں اضافہ صرف والدین کی خدمت و اطاعت ہی کرسکتی ہے۔
(الترغیب والترہیب جلد اول مترجم ص 244) 
ان تمام احادیث سے واضح ہوا کہ والدین کی اطاعت سے عمر میں اضافہ ہوتا ہے 
آپ نے اوپر پڑھا ہوگا کہ والدین کی اطاعت اللہ تعالیٰ کی اطاعت ہے 
 ۔کیونکہ 
اولاد کے لئے والدین اللہ و رسول جل جلالہ و صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سائے اور (اللہ تعالیٰ) کی ربوبیت و رحمت کے مظہر ہیں ولہذا قرآن عظیم میں اللہ جل جلالہ نے اپنے حق کے ساتھ ان کا ذکر فرمایا کہ ان اشکرلی ولوالدیک یعنی حق مان میرا اور اپنے ماں باپ کا
صلہ رحمی کے مختصر فوائد:-
صلہ رحمی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے اور رزق میں کشادگی آجاتی ہے اور یہ حدیث مجربات میں سے ہے۔
امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے صحیح البخاری شریف میں ایک باب بنام 
:باب من یبسط لہ فی الرزق لصلۃ الرحم
 صلہ رحم کی وجہ سے جس کے رزق میں فراخی دی گئی باندھا اس کے تحت دو احادیث نقل فرماتے ہیں
عن سعید بن ابی سعید عن ابی ھریرۃ رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ ۔ان یبسط لہ فی رزقہ و ان ہنساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ۔ حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جس کو یہ بات پسند ہو کہ اس کے رزق میں وسعت دی جائے اور اس کی عمر دراز کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے ۔
دوسری حدیث میں ہے 
اخبرنی انس بن مالک رضی آللہ عنہ ان رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم قال من احب ان یبسط لہ رزقہ و ینساء لہ فی اثرہ فلیصل رحمہ
انس بن مالک نے یہ خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جس کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق کو کشادہ کیا جائے اور اس کی عمر کو بڑھایا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔
(بخاری شریف کتاب الآداب باب 882 حدیث 2614۔ 2615)
پھر امام بخاری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب البیع میں ایک باب بنام : باب من احب البسط فی الرزق۔جو روزی میں وسعت پسند کرے باندھا اس کے تحت ایک حدیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ 
قال محمد ھو الزھری عن انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ قال سمعت رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم یقول من سرہ یبسط لہ رزقہ او نساء فی اثرہ فلیصل رحمہ ۔حضرت انس بن مالک رضی آللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے میں نے سنا ہے جو رزق میں کشادگی یا عمر میں درازی چاہتا ہو وہ صلہ رحمی کرے۔
(صحیح البخاری شریف کتاب البیوع باب نمبر 277 حدیث 1212)
ینساء اس کا مادہ نساء ہے باب افعال سے انسا مصدر مضارع مجہول ہے اس کا معنی تاخیر کے ہیں اور اثر کے معنی یہاں بقیہ عمر کے ہیں ۔ینسا فی اثرہ کے معنی ہیں ۔یوخر فی بقیۃ عمرہ ۔اس کا حاصل یہ ہوا کہ اسے پسند ہو کہ اس کی عمر دراز ہو جائے
(نزہۃالقاری جلد پنجم ص 166)
صحیح بخاری و مسلم کے حوالے سے حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ احادیث شریف نقل فرماتے ہیں کہ
ابن ماجہ نے ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تقدیر کو کوئی چیز رد نہیں کرتی مگر دعا اور بر یعنی احسان کرنے سے عمر میں زیادتی ہوتی ہے ۔اور آدمی گناہ کرنے کی وجہ سے رزق سے محروم ہوجاتا ہے ۔
(2) حاکم نے مستدرک میں عاصم رضی آللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کی رسول اللہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کو یہ پسند ہو کہ عمر میں درازی ہو اور رزق میں وسعت ہو اور بری موت دفع ہو وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور رشتہ والوں سے سلوک کرے (اسلامی اخلاق و آداب ص 207.208)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صلہ رحمی کے مندرجہ ذیل فوائد ہیں
1️⃣ دعا سے تقدیر بدل جاتی ہے 
2️⃣ صلہ رحمی اور نیکی سے عمر لمبی ہوجاتی ہے 
3️⃣ صلہ رحمی اور نیکیوں سے رزق میں کشادگی آجاتی ہے 
یہ تمام احادیث مجربات میں سے ہیں! جاری
اسکی مکمل تفصیل اگلی قسط میں ملاحظہ فرمائیں......
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
 مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مورخہ 12ذوالقعدہ 1444
2جون 2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area