(سوال نمبر 4813)
کیا شرعی حق مہر سے کم بھی دے سکتے ہیں؟ اور معاف بھی کروا سکتے ہیں ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
شرعی حق مہر موجودہ پاکستانی رقم کی صورت میں کتنی ہو گا ؟سونا چاندی کی صورت میں کتنا ہو گا۔یا جتنا دینا چاہے ؟ شرعی حق مہر سے کم بھی دے سکتے ہیں اور معاف بھی کروا سکتے ہیں ؟شرعی اصلاح فرمائیں ۔شکریہ۔
سائلہ:- آسیہ بی بی شہر مظفر گڑھ پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ ٣٢ گرام ٦٥٥ ملی گرام چاندی کی قیمت بازار سے معلوم کریں۔جو قیمت ہو پاکستان میں وہ کم از کم مہر ہے زیادہ کی کوئی قید نہیں۔
کم از کم مہر کی مقدار دس درہم ہے۔
یعنی شریعت اسلام میں مہر کی کم سے کم مقدار بتائی گئی ہے دس درہم ہے
مہر فاطمی ایک (1) کلو گرام چاندی سے کچھ زیادہ تھا۔ لہٰذا قرآن وحدیث کے مطابق حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی۔ یہ لڑکی کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتا ہے، جتنا وہ چاہے مطالبہ کر سکتی ہے۔ فقہاء کرام نے کم سے کم مقدار دس (10) درہم رکھی ہے یعنی اس سے کم حق مہر نہیں ہو سکتا، زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
حق مہر زیادہ رکھنے کا مقصد لڑکی کی عزت و وقار اور تحفظ ہوتا ہے۔ بہر حال دس درہم سے کم حق مہر نہیں ہو سکتا۔
کسی بھی دور میں مذکورہ چاندی کی مقدار کے حساب سے کم سے کم مہر کی قیمت نکالی جا سکتی ہے۔
٢/ چاندی کی صورت میں اس کا وزن دس درھم یعنی بتیس (٣٢) گرام چھ سو پچپن (٦۵۵) ملی گرام کے برابر ہو اور سونا ہونے کی صورت میں اس کی قیمت مذکورہ بالا مقدار کی چاندی کی قیمت کے برابر ہو (فتاوی مسائل ورلڈ)
٣/ شوہر حق میر سے کم نہیں دے سکتا ہے۔
٤/مہر بیوی کی ملکیت ہے وہ چاہے تو معاف کرے چاہے تو نہ کرے بیوی پر کوئی جبر نہیں شوہر کو دینا فرض ہے
حدیث پاک میں ہے
عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ أَنَّهُ قَالَ سَأَلْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ کَمْ کَانَ صَدَاقُ رَسُولِ ﷲِ؟ قَالَتْ کَانَ صَدَاقُهُ لِأَزْوَاجِهِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ أُوقِيَةً وَنَشًّا قَالَتْ أَتَدْرِي مَا النَّشُّ؟ قَالَ قُلْتُ لَا قَالَتْ نِصْفُ أُوقِيَةٍ فَتِلْکَ خَمْسُ مِائَةِ دِرْهَمٍ فَهَذَا صَدَاقُ رَسُولِ ﷲِ لِأَزْوَاجِهِ
’’حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن کہتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہما سے سوال کیا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم (اپنی ازواج کا) مہر کتنا رکھتے تھے؟ فرمایا حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی ازواج کا مہر بارہ اوقیہ اور ایک نُش رکھتے تھے۔ پھر فرمایا کیا تم جانتے ہو کہ نش کی کتنی مقدار ہے؟ میں نے کہا نہیں۔ فرمایا: نصف اوقیہ، اور یہ (کل مقدار) پانچ سو درہم ہیں اور یہی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ازواج کا مہر ہے‘۔
(مسلم، الصحيح، 2: 1042، رقم: 1426، دار احياء التراث العربي بيروت)
مہر فاطمی ایک کلو گرام چاندی سے کچھ زیادہ تھا۔ لہٰذا قرآن وحدیث کے مطابق حق مہر کی مقدار متعین نہیں کی گئی۔ یہ لڑکی کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوتا ہے، جتنا وہ چاہے مطالبہ کر سکتی ہے۔ فقہاء کرام نے کم سے کم مقدار دس درہم رکھی ہے یعنی اس سے کم حق مہر نہیں ہو سکتا، زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے۔
مہر کی کم سے کم مقدار دس درہم یعنی تقریباً بتیس گرام چاندی کا بھائو بازار سے معلوم کر لیں اتنی مقدار درجہ فرض میں لازم وضروری ہے
قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَیْہِمْ فِیْ اَزْوَاجِہِمْ (القرآن)
اور حدیث لا مہر اقل من عشرة دراہم کی وجہ سے اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواجِ مطہرات اور بنات طاہرات کا جو مہر مقرر فرمایا اس کی مقدار موجودہ وزن سے ایک کلو پانچ سو تیس گرام سات سو آٹھ ملی گرام(1.531kg) چاندی ہے، اسی مقدار کو سنت مقدار کہتے ہیں اور یہی مقدار مہر فاطمی کی ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/10/2023
26/10/2023