(سوال نمبر 4814)
انگریزی بولنے اور سیکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
........................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انبیاء کرام علیھم السّلام کے جو زبان سکھائی گئی تھی کیا ان زبانوں کے اندر انگریزی زبان موجود تھی کہ نہیں جیسا کہ جاء الحق کتاب میں موجود ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کوسا ت لاکھ زبانیں سکھائی گئی تھیں ان میں کیا اج دنیا میں جو زبانیں بولی جا رہے ہیں ان میں کیا انگریز بھی موجود ہیں انگریزی بولنے اور سیکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے اس مسئلہ میں اور جن علماء کرام میں اختلاف ہے جواب عنایت فرما دیں
سائل:- محمد عمران خان پاکستان ضلع میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
انبیاء کرام کو جن زبانوں کی ضرورت تھی اللہ تعالی نے وہ تمام زبانیں تمام انبیاء کرام کو عطا فرمایا تھا اگر انگیزی کی ضرورت ہوگی تو یہ بھی عطا کیا ہوگا ۔
ہر نبی کو اپنی قوم کی زبان معلوم تھا ۔اور اسی زبان میں وحی نال ہوتی حضرت ادم علیہ السلام کو ساری زبانوں کا علم تھا ۔
انگریزی سیکھنا جائز یے ۔
اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے لوگوں کی زبان ان کے کلمات اور جملوں سے حضور رسول اللہﷺ کو متعارف کرایا تھا تا کہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (سورۂ ابراہیم4)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان کے ساتھ یعنی وحی اس قوم کی زبان میں نازل کی جاتی تھی اور وہ رسول اپنی قوم کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتا تھا ۔
لیکن حضرت رسول کریمﷺ کو تمام کائنات انسانی کی زبانوں سے واقفیت اور معلومات فراہم کر دی گئیں اور یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ سے کچھ بعید نہیں ہے۔ جہاں مختلف انبیاء ورسل کو حیران کن معجزے عطا فرمائے گئے تھے، وہاں حضور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کو ہمہ قسم کے معجزات اور محیر العقول کارناموں اور مافوق الفطرت واقعات سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ ان میں مختلف زبانوں سے واقفیت اور تعارف بھی ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
انگریزی بولنے اور سیکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے؟
........................................
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اور مفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ انبیاء کرام علیھم السّلام کے جو زبان سکھائی گئی تھی کیا ان زبانوں کے اندر انگریزی زبان موجود تھی کہ نہیں جیسا کہ جاء الحق کتاب میں موجود ہے کہ حضرت آدم علیہ الصلوۃ والسلام کوسا ت لاکھ زبانیں سکھائی گئی تھیں ان میں کیا اج دنیا میں جو زبانیں بولی جا رہے ہیں ان میں کیا انگریز بھی موجود ہیں انگریزی بولنے اور سیکھنے کے بارے میں کیا حکم ہے اس مسئلہ میں اور جن علماء کرام میں اختلاف ہے جواب عنایت فرما دیں
سائل:- محمد عمران خان پاکستان ضلع میانوالی پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
انبیاء کرام کو جن زبانوں کی ضرورت تھی اللہ تعالی نے وہ تمام زبانیں تمام انبیاء کرام کو عطا فرمایا تھا اگر انگیزی کی ضرورت ہوگی تو یہ بھی عطا کیا ہوگا ۔
ہر نبی کو اپنی قوم کی زبان معلوم تھا ۔اور اسی زبان میں وحی نال ہوتی حضرت ادم علیہ السلام کو ساری زبانوں کا علم تھا ۔
انگریزی سیکھنا جائز یے ۔
اللہ تعالی نے اپنی قدرت کاملہ سے لوگوں کی زبان ان کے کلمات اور جملوں سے حضور رسول اللہﷺ کو متعارف کرایا تھا تا کہ ان پر حجت تمام ہو جائے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے (سورۂ ابراہیم4)
اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس قوم کی زبان کے ساتھ یعنی وحی اس قوم کی زبان میں نازل کی جاتی تھی اور وہ رسول اپنی قوم کی زبان سے پوری طرح واقف ہوتا تھا ۔
لیکن حضرت رسول کریمﷺ کو تمام کائنات انسانی کی زبانوں سے واقفیت اور معلومات فراہم کر دی گئیں اور یہ اللہ تعالی کی قدرت کاملہ سے کچھ بعید نہیں ہے۔ جہاں مختلف انبیاء ورسل کو حیران کن معجزے عطا فرمائے گئے تھے، وہاں حضور رسول اللہ ﷺ کی ذات اقدس کو ہمہ قسم کے معجزات اور محیر العقول کارناموں اور مافوق الفطرت واقعات سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ ان میں مختلف زبانوں سے واقفیت اور تعارف بھی ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/10/2023