Type Here to Get Search Results !

کیا مداری سلسلہ سوخت ہو چکا ہے اور ان کے بیانات وغیرہ سننا کیسا ہے؟


(سوال نمبر 4811)
کیا مداری سلسلہ سوخت ہو چکا ہے اور ان کے بیانات وغیرہ سننا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
کیا مداری سلسلہ سوخت ہو چکا ہے اور ان کے بیانات وغیرہ سننا کیسا ہے؟ 
رہنمائی فرماٸیں بڑی نوازش ہوگی  
سائلہ:- سعدیہ فاطمہ شہر ناگپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

میرے علم کے مطابق مداری سلسلہ سوخت نہیں ہوا ہے آج بھی ان کے سلسلے کے شیخ دنیا میں موجود ہے اور لوگ ان کے سلسلے میں بیعت ہوتے ہیں. ان کے شرعی بیانات وغیرہ سننا جائز ہے۔
 البتہ شارح بخاری مفتی شریف الحق رحمت اللہ علیہ نے لکھا ہے سلسلہ وارثیہ میں مرید ہونا جائز نہیں 
بخاری شریف کی شرح میں فرماتے ہیں کہ سلسلہ وارثیہ میں مرید ہونا جائز نہیں کیوں کہ سرکار وارث پاک نے کسی کو خلافت عطا نہیں فرمائی.
اب مکمل تفصیل ملاحظہ کریں 
حضرت سیدبدیع الدین احمد قطب المداررضی اللہ تعالی عنہ.اسم گرامی:سید بدیع الدین احمد ہے.کنیت ابوتراب ھے بعض ممالک میں احمد زندان صوف کے نام سے مشہور ہیں,اہل تصوف اور اہل معرفت وحقیقت آپکو عبداللہ,قطب المدارفردالافراد کہتے ہیں مدارعالم,مدار دوجھاں مدار العالمین,شمس الافلاک آپکے القابات مقدسہ ہیں برصغیر ہندوپاک میں زندہ شاہ مدار اور زندہ ولی کے نام سے زیادہ شہرت حاصل ہے
آپکی ولادت باسعادت صبح صادق کے وقت پیر کے دن یکم شوال المکرم سنہ دوسوبیالس ھجری(242) مطابق(856)
عیسوی میں ملک شام کے شہرحلب میں محلہ,جنار
میں ہوئ صاحب عالم سے سن ولادت کی تاریخ نکلتی ہے والدماجد کا نام نامی سید قاضی قدوۃ الدین علی حلبی ہے اوروالدہ موصوفہ سیدہ فاطمہ ثانیہ عرف بی بی ہاجرہ سےمشہورہیں
آپ حسنی حسینی سید ہیں
حضرت سید بدیع الدین زندہ شاہ مدار رضی اللہ تعالی اپنا حسب ونسب ان الفاظمیں بیان فرماتے ہیں:اناحلبی بدیع الدین اسمی
      بامی وامی حسنی حسینی
     جدی مصطفے سلطان دارین
      محمداحمدومحمودکونین
(الکواب الدراریہ)
میں حلب کا رہنے والا ہوں میرانام بدیع الدین ہے,مسں کیطرف سے حسنی اورباپ کی طرف سے حسینی سید ہوں,میرے نانا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جنکی تعریف دوجھاں میں کی جاتی ہے,
حضرت قاضی حمید الدین ناگوری قدس سرہ القوی نے اپنےملفوظات میں آپکا شجرہ نسب اسطرح نقل فرمایا ہے
حضرت قطب المدار حضرت سید مولا علی ابن ابیطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی اولاد میں سے بہت بڑی ہستی کے مالک ہیں
آپکے والد ماجد کا شجرہ نسب یہ ہے سید علی حلبی ابن سید بہاءالدین ابن سیدظھیرالدین ابن سید احمد ابن سید محمد ابن سید اسماعیل ابن.سیدامامالائمہ جعفر صادق ابن امام الاسلام سید باقر امام الدارین امام زین العابدین ابن امام الشھداءامام حسین ابن امام الاولیاء حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین
والدہ ماجدہ کی طرف سے آپکا نسب نامہ یہ ہے
والدہ ماجدہ کا نام نامی فاطمہ ثانیہ عرف فاطمہ تبریزی دختر سید عبداللہ ابن سید زاہدابن سید ابو محمدابن سید ابو صالح ابن سید ابو یوسف ابن سید ابوالقاسم ابن سید عبداللہ محض ابن حضرت سید حسن مسثنی ابن امام العالمین حضرت سیدامام حسن امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم رضی اللہ تعالی عنھم اجمعین:
"پیدائش کے وقت کرامات کا ظہور"آپ جب شکم مادر سے اس جھاں تیرہ تارمیں جلوہ بار ہوئے توروئے انور کی تابانی سے وہ مکان جگمگا اٹھا جسمیں آپ پیدا ہوئے- پیدا ہوتے ہی جبین نیاز کوخالق بے نیاز کی بارگاہ میں بہر سجدہ جھکا دیا-زبان حق نواسے یہ صدا بلند ہوئ:لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ.
حضرت ادریس حلبی جوایک صاحب کشف وکرامت بزرگ ہیں روایت فرماتے ہیں کہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ جب اس عالم گیتی لو اپنے قدوم میمنت لزوم سے مشرف فرمایا توروح پاک صاحب لولاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ.وسلم مع جملہ اصحاب کبار وائمہ اطھار خانہ علی حلبی میں جلوہ افروز ہوئ اور سید علی حلبی اور فاطمہ ثانیہ کوسعید بیٹے کی ولادت کی مبارکباد دی-غیب دے ہاتف نے ھذا ولی اللہ ھذا ولی اللہ کا مژدہ سنایا-شاھدان بارگاہ لایزال نے اپنے لوح دل پر ان مبشرات کو نقش کرلیا اور آپ سعید ازلی قرار دیئے گئے-(تعلیم وتربیت:)اللہ تعالی جسکو اپنا برگزیدہ بناتا ہے اور اپنی محبوبیت کے لیے انتخاب فرماتا ہے اسکی تعلیم وتربیت کے لئے بھی بے نظیر اور بھترین انتظام فرماتا ہے چناچہ جب آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی عمر چار سال چار مہینہ اورچار دن کی ہوئ تو سلف صالحین کی سنت کے مطابق والد گرامی نے بمنشائے رحمانی آپکو رسم بسم اللہ خوانی کے لیئے قطب ربانی شیخ وقت حضرت حزیفہ مرعشی شامی متوفی ..276.ھ کی خدمت میں پیش کیا-
استاذ محترم حق استاذی ادا کیا.ابتدائ تعلیم سے لیکر شریعت کے تمام علوم وفنون سے آراستہ وپیراستہ کیا جب آپکی عمر مبارک 14,سال کی ہوئ تو علوم عقلیہ ونقلیہ میں آپکو مہارت تامہ حاصل ہو چکی تھی-حافظ قران مجید ہونے کہ ساتھ ساتھ آپ تمامی آسمانی کتابوں خصوصا توریت.زبور انجیل,کے بھی حافظ وعالم تھے
(تزکرۃالکرام تاریخ خلفایے عرب واسلام.ص493)
حضرت مخدوم اشرف جھاں گیر سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں'کہ بعض علوم نوادر مثلا ھیمیا,سیمیا'کیمیا'اور ریمیا'میں کامل دسترس رکھتے تھے-
(لطائف اشرفی فارسی..ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی)
بیعت وخلافت
ظاہری علوم سے فراغت کے بعد سعادت ازلیہ نے جزب دروں کو علم باطن کے حصول کہ لیے پابہ اشتییاق کردیا-جزبہ شوق نے زیارت حرمین شریفین کے لیے قدم بڑھایا-والدین کریمین سے اجازت طلب کی اور عازم مکہ اور مدینہ ہوگے-جب وطن سے باہر نکلے تو منشاے قدرت نے حریم دل سے صدادی کہ اے بدیع الدین!صحن بیت المقدس میں تمہاری مرادوں کا کلید لئے ہوے سر گروہ اولیاءبایزید بسطامی سراپا انتظار ہیں-آپ نے عزم کے رہوار کو بیت المقدس کی طرف موڑ دیا-259,,ھجری میں سلطان الاولیاء حضرت بایزید بسطامی 
عرف طیفور شامی قدس سرہ السامی نے صحن بیت المقدس میں نسبت,صدیقیہ,طیفوریہ,وبصریہ,طیفوریہ سے سرفراز فرمایا اور اجازت وخلافت کا تاج سر پر رکھ کر حلہ باطن سے آراستہ وپیراستہ فرمایا-تھوڑی مدت تک مرشد بر حق کی معیت میں رہکر عرفان کی نعمتوں سے مستفیض ومستفید ہوتے رہے-ذکرواشغال اورادو وظائف اور ریاضات ومجاہدات کے ذریعے طریقت وحقیقت اور سلوک کی منزلوں اور معرفت کے اسرارورموز کے مقامات کو طے کرتے رہے مرشد برحق نے ذکر دوام اور حبس دم کی بھی تعلیم فرمائ،
;حضرت بایزید بسطامیرضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال :
مرشد برحق نے مرید صادق کو عرفان حق اور مشاہدات حقیقت کا ایسا لطیف احساس اور سلیم جزبہ عطا فرمایا کہ آپ مشاہدہ ذات الہی اور درک صفات لا متنا ہیہ میں محو ومستغرق رہنے لگے -دوسو اکسٹھ ہجری کا سورج اپنے آٹھویں برج میں قدم رکھ چکا تھا چودہویں رات کا چاند اپنی پر شباب چاندنی سے جبین.کائنات کو منور ومجلی کر چکا تھا~داعی اجل نے حضرت سلطان العارفین بایزید بسطامی رضی اللہ تعالی عنہ کے در زیست پر دستک دی اور عالم وقرب واقرب میں حضوری کا دعوت نامہ پیش کردیا ~۱ شعبان المعظم 261 ہجری مطابق 875ء میں اس دار فانی سے عالم بالا کی طرف کوچ کر گے ~اناللہ وانا الیہ راجعون 
حج بیت اللہ اور بارگاہ رسالت میں حاضری"
مرشد سے جدائ کے بعد حضرت سید بدیع الدین احمد قطب المدار قدس سرہ اپنے حاصل مراد معبود حقیقی کی یاد سے حریم دل کو آباد کرنے لگے اور ایک مخصوص مقام پر ذکر جان جاناں میں محو ومستغرق ہو گئے آپنے ایسی گوشہ نشینی اختیار فرمائ کے دنیا کہ تمام چیزوں سے قلب پاک معری ہوگیا آپکا باطن خالی اور مصفی ہوگیا اور دنیا و آخرت سے مجرد ہوگے تجلیات ربانیہ.کی ہمراہی اور مشاہدات حقانیہ کی ہمنوائ میں ایک طویل عرصہ گزر گیا ایک رات وارفتگی شوق کے عالم میں تھوڑی دیر کے لیے آنکھو کے دریچے بند ہوئے تھے کہ خواب میں مصطفے جان عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شبیہ مبارک جلوہ افروز ہوئ اور ایک شیریں آواز کانوں میں گونج اٹھی کے بدیع الدین تیری مرادوں کے حصول کا وقت قریب آگیا ہے گنبد خضری کے مکین تیرے نانا جان سنہری جالیوں سے تیری راہ دیکھ رہے ہیں آنکھیں کھلی تو دل کی دنیا میں مسرتوں کا طوفان برپا تھا وارفتگی شوق احساس و وجدان پہ چھاتی جلی گئ لیکن خرد نےسر گوشی کی کے اے شوق مچل .اے پاوں ٹہر .اے دلکی تمنا خوب تڑپ آپنے رہوار شوق کو خانہ کعبہ کی طرف موڑ دیا موسم حج شروع ہو چکا تھا فریضہ حج وزیارت ادا کیا جب جمال الہی کی تجلیوں کے فروغ سے قلب دروں کندن ہوگیا تو دل بیتاب پر مدینہ منورہ کے احساسات چھاتے چلے گئے وہ سر زمین جسکے نام کو سنکر اھل
ایمان کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں وہ نورانی گلیاں جنمیں جاروب کشی کے لیے آنکھیں اور پلکے آرزو مند رہتی ہیں مسجد نبوی کے وہ معطر منقش ستون جنہیں تصویروں میں دیکھکر ہی احساس وجدان سجدہ ریز ہوجاتے ہیں وہ کنبد خضری جس میں سے نور کی شعاعیں پھوٹ پھوٹ کر ساری کائنات کو روشن کرتی ہیں 
نسبت اویسیہ سے مشرف ہونا:
تاجدار اقلیم ولایت نے آپکو اپنے آغوش عاطفت میں لیکر آپکے روحانیت کو صیقل فرمایا اور قلب کو متحمل بار ولایت عظمی بناکر بارگاہ رسالت میں پیش کردیا رسول کائنات صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم دوبارہ بشمول عواطف فرماکر خانہ نبوت میں اسلام حقیقی تلقین فرمائ اور اپنے جمال جھاں آرا سے آپکے قلب وروح کو مزین فرماکر شرف اویسیت سے ممتاز فرمایا اور ہندوستان جانے کی تاکید فرمائی
اویسیت کا مطلب""قارئین !اویسیت کیا ہے ?اور اسکی شان کتنی نرالی ہے ?اسکے فہم وادراک کے لیے شاہ سمنا حضرت مخدوم اشراف جہانگیر سمنانی قدس سرہ النورانی کی بارگاہ میں تھوڑی دیر کے لیے حاضری دیتے ہیں ,آپ فرماتے ہیں کے شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ کا گفتہ کہ قومے ازاولیاء اللہ عزّوجل باشند کہ ایشاں کہ را مشائخ طریقت وکبرائے حقیقت اویسیان نامندکہ ایشاں را درظاہر ہربہ پیری احتیاج بنود زیراکہ ایشاں راحضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم در حجرہ عنایت خود پرورش می دہند بے واسطہ غیرے چنانکہ اویس دادہ ایں عظیم مقامی بود وروش عالی ترکرااینجارسانند وایں دولت بکہ رونماید بموجب آیتہ کریمہ ذالک فضل اللہ یوتیہن یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (لطائف اشرفی ملفوظات حضرت مخدوم اشرف سمنانی رضی اللہ تعالی عنہ لطیفہ 14/واں )
شیخ فرید الدین عطار قدس سرہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ عزوجل کے ولیوں میں سے کچھ حضرات وہ ہیں جنہیں بزرگان دین مشائخ طریقت "اویسی""کہتے ہیں ان حضرات کو ظاہر میں کسی پیر کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ وہ حضرت رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے حجرہ عنایت میں بذات خود انکی تربیت وپرورش فرماتے ہیں اسمیں کسی غیر کا کوئ واسطہ نہیں ہوتا ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اویس قرنی رضی اللی تعالی عنہ کو تربیت دی تھی یہ مقام اویسیت نہایت اونچا روشن اور عظیم مقام ہے کس کی یہاں تک رسائ ہوتی ہے اور یہ دولت کیسے میسر ہوتی ہے بموجب آیتہ کریمہ اللہ تعالی کا مخصوص فضل ہے وہ جسے چاہتاہے عطافرمادیتا ہے اور اللہ تعالی عظیم فضل والا ہے مزید فرماتے ہیں حضرت شیخ بدیع الدین المقلب شاہمدار ایشاں نیز اویسی بودہ اند وبسے مشرب عالی داشتند وبعضے علوم نوادر از ہیمیا وکیمیا وریمیا ازایشاں معائنہ شد کہ نادر ازیں طائفہ کسے راباشد (لطائف اشرفی فارسی ص 354/مطبوعہ نصرت المطابع دہلی )
حضرت شیخ بدیع الدین ملقب بہ شاہمدار قدس سرہ بھی اویسی ہوے ہیں نہایت ہی بلند مرتبہ ومشرب والے ہیں بعض نوادر علوم جیسے ہیمیا سیمیا کیمیا ریمیا انسے مشاہدہ میں آئے ہیں جو اس گروہ اولیاء میں نادر ہی کسی کو حاصل ہوتا ہے.
فیض اویسیہ مداریہ کا اجرا:
حضرت.قطب.المدار رضی.اللہ.تعالی.عنہ کو بارگاہ قاسم.نعمات صلی اللہ.علیہ وسلم سے جو مخصوص نعمت اویسیت تفویض کی گئی آپ نے اس فیضان کو صرف اپنی ذات کیلیے مختص نہیں فرمایا بلکہ جودو سخا اور کرم وعطا سے کام.لیتے ہوئے آپ نے اس فیض کو دوسروں میں بھی تقسیم فرمایا چناچہ آپ کے ایک مریدو خلیفہ حضرت محمود کنتوری رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک مرتبہ عرض کیا کہ حضور اپنا سلسلہ مجھے عطا فرمایئں کریم ابن کریم نے نوازش کا دریا بہادیا ارشاد فرمایا :
اکتب اسمک ثم اسمی ثم اسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 
اپنانام لکھو پھر میرا نام رقم کرواور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ.وسلم کااسم گرامی نقش کرلو اور سلسلہ اویسیہ مداریہ سے مستفیض ہوجاو 
بندہ عشق شدی ترک نسب کن جامی 
کہ درایں راہ فلاں ابن فلاں چیزے نیست
جمال اولیا کوڑہ جہان آبادی کا نسبت اویسیہ سے مستفیض ہونا:
اکرام ونوازش کا یہ.سلسلہ یہی پر ختم.نہیں ہوجاتا ہے بلکہ وصال کے بعد بھی صاحبان قلب وظرف کو آپ شرف اویسیت سے نوازتے رہے ہیں چناچہ وقت کہ ولی کامل سلسلہ برکاتیہ رضویہ کے انتیسویں امام شیخ طریقت حضرت محمد جمال الدین عرف جمال اولیاء رحمۃ اللہ تعالی علیہ نے بھی بلا واسطہ آپ رضی اللہ تعالی عنہ سے فیض اویسیہ حاصل فرمایا
(تزکرہ مشائخ قادریہ رضویہ ص 310عبد المجتبی رضوی )
بارگاہ نبوت سے ہجروجدائی کا احساس:
اویسیت کی تفصیل جاننے کے بعد ایک مرتبہ پھر بارگاہ رسالت صلی اللہ.علیہ.وسلم میں حاضری دیجئیے اور تاریخ کا پچھلا ورق الٹ کر دیکھیے 
سے جسم وتن کے ساتھ ساتھ جہاں قلب وروح بھی روشن ہوچکا ہے لیکن شہر نبی چھوڑکر ہندوستان جانے کا ارشاد خرمن وصال پر ہجر کی بجلیاں کوند نے والی ہیں عاشق مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جسکے دل میں یہ صدا گونجتی ہو~
تیری گلی کو چھوڑ کر باغ جناں میں جائے کون؟
دل مضطر جدائی کی خبر.سنکر تڑپ تڑپ کر کس قدر بے چین ہوا ہوگا اہل دل ہی اسے محسوس کرسکتے ہیں
لب خاموش ہیں 
لہو لہو جگر آنکھ تر نہیں ہوتی 
یہ سوچ کر فغاں گلے میں آکر.رک گئی کہ شاید حضور کے نازک گوش مبارک تاب فغاں نہ اٹھا سکیں 
جزبہ عشق مدینہ سے
جدائی کیلیے قطعئی تیار نہیں ہے لیکن عقل سلیم کانوں میں.سرگوشی کرتی ہے آنے.والے کو تو جانا ہی ہوتا ہے ،،اللہ اکبر!آپ گھبرائیں نہیں کل شئی یرجع الی اصلہ پھر در حضور پہ حضوری کا شرف ملےگا ~آپ الوداعی سلام عرض کرتے ہیں 
(سفر ہندوستان )سرزمین ہند جس کے لالہ زاروں اور گلستانوں سے پھوٹی ہوئی ایمان ویقین کی خوشبو بارگاہ رسالت میں محسوس کی جاتی ہے اور حریم نبوت سے اہل جہاں کو یہ بشارت دی جاتی ہے کہ"ہندوستان سے ایمان کی خوشبو آرہی ہے ،ایمان کی.اس خوشبو سے اہل.ہند کے دل ودماغ کو معطر کرنے والے کا انتخاب ہوچکا ہے 
حضرت قطب المدار رضی اللہ تعالی عنہ بانی اسلام کے نقیب بنکر عازم ہند ہورہے ہیں سمندری سفر درپیش ہے ہندوستان آنے والا جہاز ساحل عرب پہ تیار کھڑا ہے کوچ کا نقارہ بجنے والا ~لوگ اپنے اپنے زاد سفر کے ساتھ اپنی نشست گاہوں پر بیٹھ چکے ہیں ناخدا باربار ساحل کی طرف نگاہ ڈال رہا ہے کہ کوئی ہند مسافر چھوٹ نہ جائے حضرت قطب المدار عین وقت پر وہاں پہنچتے ہے اور مسافروں کی فہرست میں ایک فرد کا اضافہ کرلیا جاتا ہے ملاح.لنگر اٹھاتے ہیں اور جہاز جانب منزل رواں ہوتا ہے ~عین وسط سمندر میں توحید کا مبلغ اعلائے کلمۃ الحق کیلیے لوگوں کے درمیان کھڑا ہوتا ہے اور توحید ورسالت کا پیغام انھیں سناتا ہے :جب یہ صدا اہل.جہاز کے کانوں میں پہنچی تو ان کی شقاوتوں نے قبول حق سے انکار کرنے پر انھیں مجبور کردیا اور انکے ویران قلوب اور مردہ روحیں انوار اسلام سے معمور نہ ہوسکیں غضب الہی.کو جوش آیا اور جہاز طوفان کی زد میں آکر غرقاب ہوگیا آپکے سوا جہاز پر سوار سبھی مسافر وملاح بھی سمندری موجوں میں.دفن.ہوگئے قدرت خداوندی.سے شکستہ وغرقاب جہاز کا ایک تختہ بر آمد ہوا اللہ.کی.حفاظت میں اس تختہ کے سہارے.سمندر میں پیرنے لگے اسی حالت میاں.کچھ ایام گزرگئے بھوک وپیاس.سے نڈھال ہوگئے جسم مبارک کا پیراہن ژولیدہ ہوگیا آپ نے بارگاہ الہی میں دل سے یہ دعا کی الہی مرا گرسنگی نہ شود ولباس من کہنہ نہ گردد (درالمعارف ص 147/)
اے.اللہ جل شانہ ایسا کردے کہ مجھے بھوک نہ لگے اور میرا لباس میلا وپرانہ نہ ہو
دعا باب اجابت سے ٹکراتی ہے قبولیت اپنے.آغوش میں لیتی ہے صوبہ گجرات کے بندر کھمباچ کے ساحل پر آپ آکر لگتے ہیں بارگاہ بے نیاز میں جبین نیاز کو رکھ کر شکرانہ ادا کرتے ہیں
مقام صمدیت پر فائض.ہونا:
آپ نے سجدہ.سے سر.اٹھایا تو کانوں سے ایک صدا ٹکرائی ،سید بدیع الدین ادھر آئیے ،آپکا انتظار ہورہا ہے "آپنے اپنی نگاہوں کو ہرطرف دوڑایا ،کوئی منادی نظر نہیں آیا،معاوہی صدا دوبارہ کانوں سے ٹکرائی ،پھر آپنے.گردوپیش کا مطالعہ فرمایا ،تسری مرتبہ وہی صدا بلند ہوئی آپنے ارشاد فرمایا اس ویرانے میں کون ہے جو میرے نام سے واقف ہے ?ملائک عنصری کا سردار شتخیثا ایک حسین پیکر میں ظاہر ہوا ،ایک روایت میں ہے ابدال صحرائی ظاہر ہوا اور ایک روایت میں ہے کے کہ حضرت خضر علی نبیینا وعلیہ السلام تورو نما ہوئے اور فرمایا کہ صاحبزادے !عالم.علوی وسفلی میں آپکے نام کا اعلان کردیا گیا ہے سب آپکو جانتے ہیں آپ میرے ساتھ آئیے آپ انکے ساتھ ایک باغ میں تشریف لے گئے دیکھتے ہیں کے اس باغ میں ایک نہایت ہی خوبصورت اور عالیشان مکان ہے مکان.میں.ساتھ دروازے ہیں اور ہر دروازے پر ایک پیکر جمیل نگہبانی کے لیے مقرر ہے آپ دروازے عبور کرتے گئے اور تہنیت ومرحبا اور مبارک بادیاں حاصل کرتے گئے جب حویلی کے اندر تشریف لے گئے تو دیکھا ایک بہت ہی.عظیم الشان اور خوبصورت تخت بچھا ہوا ہے اور تاجدار کائنات فخر موجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مع اصحاب کبار کے جلوہ افروزہیں مقدر کو سرفرازی ملی حضوری میں شرف باریابی حاصل ہوا حضور صلی اللہ.علیہ.وسلم.نے بکمال شفقت آغوش عاطفت میں بٹھایا اسی اثنا میں ءایک شخص ایک خوان میں طعام ملکوتی اور بہشتی حلہ لیکر ظاہر ہوا قاسم نعمات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے نو لقمے آپکو کھلائے جسکے سبب تمام طبقات ارضی وسماوی آپ پر روشن ہوگئے ارشاد ہوا کے اب تمہیں کھانے پینے کی ضرورت نہ ہوگی اور جنتی حلہ پہناکر یہ.بشارت دی کہ اب کبھی یہ میلا پرانہ اور ژولیدہ نہ ہوگا اور اسکو دھونے اور صاف کرنے کی حاجت در پیش نہ ہوگی 
رخ روشن تابناک ہوگیا:اور نور مجسم صلی اللہ علیہ.وآلہ.وسلم نے آپکے چہرے پر اپنا دست منور پھیردیا جسکے سبب آپکا روئے مبارک اتنا روشن اور تابندہ ہوگیا کہ دیکھنے والے تاب نظارہ نہیں لاپاتے اور رخ روشن کی تجلیوں کو دیکھکر بے اختیار سجدہ ریز ہوجاتے "محض صورت دیکھکر کلمہ پڑھ لیتے اور پکار اٹھتے کہ جب اللہ کے اس محبوب کے
جمال کا یہ عالم ہے تو اس خالق حسن.وجمال کا کیا عالم ہوگا؟
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے صاحب طبقات شاہجہانی رقم طراز ہیں کہ ،ہرکہ اورا دیدے بے اختیار سجدہ کردے بجہت انوار الہی کہ درجبہ وے تاباں بود.
جوکوئی آپکو دیکھتا بے اختیار سجدہ کرتا ان انوار الہیہ کے سبب جو آپکی پیشانی میں تاباں تھے 
تاجدار ہند دارا شکوہ قادری نے آپکی اس عظمت شان کو بڑے پیرائے میں بیان کیا ہے ،فرماتے ہیں حضرت.شاہ مدار کا درجہ اور مرتبہ بہت بلند ہے جسکو بیان نہیں کیا جاسکتا ہے ،کہتے ہیں کے بارہ سال تک آپنے کچھ نہیں کھایا (1)جو کپڑا ایک مرتبہ پہن لیتے پھر اسکو دوبارہ دھونے کی ضرورت نہ پیش آتی ہمیشہ صاف اور پاک رہتے شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے لکھا ہے کہ آپ صمدیت پر فائز تھے یہ سالکوں کا مقام ہے اور حق تعالی نے آپکو وہ حسن وجمال عطا فرمایا تھا جو آپکو دیکھتا سجدہ میں گرجاتا اس لیے ہمیشہ چہرے پر نقاب ڈالے رہتے (سفینۃ الاولیاء..ص 236شہزادہ دارا شکوہ قادری ترجمہ محمد علی لطفی)صاحب تزکرۃ الکرام اسکی شہادت اس الفاظ میں دیتے ہیں "حضرت بدیع الدین شاہ مدار مرید شیخ طیفور بسطامی کے تھے کہتے ہیں کے وہ بظاہر کچھ نہیں کھاتے تھے اور انکا کپڑا کبھی میلا نہیں ہوتا تھا اور نہ اس پر مکھی بیٹھتی تھی اور انکے چہرے پر ہمیشہ نقاب پڑا رہتا تھا ،نہایت حسین وجمیل تھے چاروں کتب سماوی کے حافظ وعالم تھے کہتے ہیں کہ آپکی عمر شریف چارسو برس سے زیادہ تھی واللہ اعلم اور تمام دنیا کا سفر انھوں نے بھی کیا تھا اور وہ اپنے وقت کے قطب مدار تھے اس لیے لوگ شاہ مدار کہتے ہیں (تزکرۃ الکرام تاریخ خلفائے عرب واسلام ص 493 مولانا سید شاہ محمد کبیر ابوالعلام)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
26/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area