Type Here to Get Search Results !

کسی صحابی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا کیسا ہے؟


(سوال نمبر 4790)
کسی صحابی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
کسی صحابی کے نام کے ساتھ علیہ السلام لکھا جاسکتا ہے اگر کوئی لکھدے تو اس کے لئیے کیا حکم ہے؟
سائل:- عبدالحمید قاسمی شکارپور سندھ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

علیہ الصلوۃ والسلام کا استعمال اصلاً انبیاءِ کرام علیہم السلام کےساتھ مخصوص ہے اور صحابہ کرام کے لیے رضی اللہ عنہ کا جملہ استعمال کیاجاتاہے اور یہی سلف صالحین کا تعامل رہاہے اس لیے علیہ السلام کو انبیاء کرام اور رضی اللہ عنہ کو صحابی کے لیے ہی استعمال کرنا چاہیے البتہ انبیاءِ کرام علیہم السلام کے ذکر کے ساتھ ضمناً دیگر حضرات کا تذکرہ ہو تو انہیں بھی دعا میں شامل کرتے ہوئے علیہم السلام کا استعمال کرسکتے ہیں مثلاً انبیاء اور صحابہ کرام کاتذکرہ ہو اور پھر سب کے لیے علیہم السلام کہا جائے تو درست ہے یا صحابہ کرام کے ساتھ تابعین یا دیگر شخصیات کا ذکر ہو تو سب کے لیے رضی اللہ عنہم کا استعمال درست ہوگا لہذا صحابی کے لیے رضی اللہ عنہ اور صحابیہ کے لیے رضی اللہ عنہا ہی استعمال کرنا چاہیے خصوصاً جب کہ علیہ السلام کا استعمال ایک مخصوص فرقے کا شعار بن چکا ہے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نام کے ساتھ علیہا السلام کے استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔
ملاعلی قاری رحمہ اللہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ علیہ السلام لکھنے کوشعارشیعہ واہل بدعت فرمایاہے اس لیے وہ منع فرماتے ہیں
ملاعلی قاری رحمہ اللہ کی عبارت مندرجہ ذیل ہے
أن قوله علي علیه السلام من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام۔
(الفقه الأکبر، ص:167،ط:قدیمی)
یاد رہے کہ اہل سنت والجماعت کے یہاں صلی اللہ علیہ وسلم اور علیہ السلام انبیائے کرام کے لیے لکھاجاتاہے صحابہ کے لیے رضی اللہ عنہ لکھنا چاہیے حضرت علی کے نامِ نامی پر کرم اللہ وجہہ بھی لکھتے ہیں
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے 
ثم الأولى أن يدعو للصحابة بالرضا فيقول رضي الله عنهم لأنهم كانوا يبالغون في طلب الرضا من الله تعالى ويجتهدون في فعل ما يرضيه ويرضون بما لحقهم من الابتلاء من جهته أشد الرضا، فهؤلاء أحق بالرضا، وغيرهم لايلحق أدناهم ولو أنفق ملء الأرض ذهبًا. والتابعين بالرحمة فيقول: رحمهم الله، ولمن بعدهم بالمغفرة والتجاوز، فيقول: غفر الله لهم وتجاوز عنهم؛ لكثرة ذنوبهم ولقلة اهتمامهم بالأمور الدينية۔
(البحر الرائق شرح كنز الدقائق (8 / 555)
الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة میں ہے 
(ويستحب الترضي للصحابة) وكذا من اختلف في نبوته كذي القرنين ولقمان، وقيل: يقال: صلى الله على الأنبياء وعليه وسلم، كما في شرح المقدمة للقرماني (الترحم للتابعين ومن بعدهم من العلماء والعباد وسائر الأخيار، وكذا يجوز عكسه) الترحم للصحابة والترضي للتابعين ومن بعدهم (على الراجح) ذكره القرماني، وقال الزيلعي: الأولى أن يدعو للصحابة بالرتضي وللتابعين بالرحمة ولمن بعدهم بالمغفرة والتجاوز 
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (6 / 754)
فتاوی شامی میں ہے
والظاهرأن علة منع السلام، ماقاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعارأهل البدع (شامی۶/۷۵۳)
شرح فقه أکبر میں ہے 
ولافرق بین السلام علیه وعلیه السلام إلا أن قوله:
علي علیه السلام من شعار أهل البدعة، فلایستحسن في مقام المرام۔
(شرح فقه أکبر ص ۲۰۴)
لہذا لفظ علیہ الصلاۃ والسلام انبیاء وملائکہ علیہم الصلاۃ والسلام کے ساتھ خاص ہے،غیر انبیاء کے لئے اس کااستعمال جائزنہیں، اس لیے حسین علیہ الصلاۃ والسلام یاعلی علیہ الصلاۃ والسلام کہنا جائز نہیں البتہ تبعاً استعمال کرنا جائزنہیں یعنی کسی نبی کے نام کے بعد آل نبی یا صلحاء کا ذکر آ جائے توسب کے لئے علیہم الصلاۃ والسلام کہنا جائز ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ مسلمانوں کے عرف ورواج نے اس سلامِ تعظیم (یعنی علیہ السلام) کو، جو کسی کے نام کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے، انبیاء کرام اور فرشتوں علیہم السلام کے نام کے ساتھ خاص کر دیا ہے، لہذا نبی اور فرشتے کےعلاوہ کسی اور کے نام کے ساتھ مستقل طور پر علیہ السلام نہیں کہہ سکتے ہاں بالتبع (انبیاء و ملائکہ علیہم السلام کے تابع کر کے) کہہ سکتے ہیں جیسے اللھم صل وسلم علی سیدنا ومولٰینا محمد وعلی اٰل سیدنا ومولٰینا محمد۔ یایوں علی نبیناوعلیہ السلام وغیرہ۔
لہٰذا اس تفصیل کے مطابق ائمہ اہلبیت و صحابہ کرام علیہم الرضوان یا اولیاء کرام وغیرہ بزرگانِ دین کے اسماء کے ساتھ مستقل طور پر علیہ السلام لکھنا،درست نہیں،اور اگر بالتبع ہو، تو حرج نہیں ہے (ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area