Type Here to Get Search Results !

کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟ قسط اول


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
خطابات و القابات قسط اول
کیا افضل کے ہوتے ہوئے کسی مفضول شخص کو القابات دینا جائز ہے یا نہیں؟
(1) ردالمحتار علی الدرمختار شرح تنویر الابصار میں ہے کہ
وقدیوجد فی المفضول مالا یوجد فی الفاضل۔
کبھی مفضول میں ایسی فضلیت پائی جاتی ہے جو فاضل میں نہیں پائی جاتی۔(ردالمحتار جلد اول ص 151)
(2) و اذا اراد اللہ نشر فضیلۃ
طویت اتاح لھا لسان حسود
یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی کی پوشیدہ فضلیت کو پھیلانے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے لئے حاسد کو زبان دے دیتا ہے۔
(ردالمحتار جلد اول تقدیم المولف ص 101)
(3).حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ
ان یحسدونی فانی غیر لاثمھم قبلی من الناس اھل الفصل قد حسدوا۔
یعنی اگر وہ مجھ سے حسد کرتے ہیں تو میں ان کو ملامت کرنے والا نہیں مجھ سے پہلے اہل فضل لوگوں سے حسد کیا گیا۔
(4) ھم یحسدونی وشرالناس کلھم من عاش فی الناس یوما غیر محسود۔
یعنی وہ مجھ سے حسد کرتے ہیں اور سب لوگوں سے برا وہ شخص ہے جو لوگوں میں ایک دن گزارتا ہے جس میں اس سے حسد نہیں کیا جاتا
(5) فان الحسد لا یکون الا لذوی الکمال المتصفین باکمل الخصال۔
یعنی کیونکہ حسد صرف صاحب کمال لوگوں سے کیا جاتا ہے جو کامل خصال سے متصف ہوتے ہیں۔
(ردالمحتار جلد اول تقدیم المولف ص 100)
پیر طریقت رہبر راہ شریعت حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناءاللہ خان ثناء القادری المعروف بہ مفتی اعظم بہار
ناشر: -تحقیق مسائل جدیدہ اکیڈمی 
 باہتمام:- دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا شریف، ضلع سیتا مڑھی بہار
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ان سوالات کے بارے میں کہ 
(1) خطاب یا القاب کسے کہتے ہیں؟
(2) کیاجو خطاب افضل کا نہ ہو وہ مفضول کا نہیں ہو سکتا ؟
(3) کیا خطاب کے لئے سند یا اجازت کی ضرورت ہے؟
(4) اگر مرشد اپنے مرید یا خلیفہ کو کوئی لقب عطا کریں تو کیا وہ خلیفہ اس لقب کو قبول نہیں کر سکتا؟
سائل :- محمدسلیم الدین ثنائی
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم 
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-

سب سے پہلے لقب کے معنی و مفہوم کو سمجھیں۔ 
مولوی فیروز الدین لکھتے ہیں کہ وہ نام جو کسی خاص مدح یا ذم کے سبب پڑ گیا ہو۔ (فیروز اللغات ص)
لقب معنی وہ نام جس میں معنی تعریف یا مذمت کے نکلیں۔
(انسا ئیکلو پیڈیا آف اسلام ص 431)
اور خطاب کا معنی سرکار یا بادشاہ کی طرف سے اعزازی نام۔
( فیروز اللغات ص 593)
ماہنامہ کنز الایمان میں ہے کہ تاریخ حقائق و قرائن کی روشنی میں علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں ۔ولید بن عبد الملک وہ پہلا خلیفہ ہے جس نے اصلی نام سے خود کو پکارنے کی ممانعت کی اور عباسی خلیفہ میں سب سے پہلے القاب کو استعمال کیا۔
اسی طرح ابن فضل اللہ کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ بنو امیہ نے بھی عباسی خلفاء کی طرح القاب استعمال کیے ہیں۔ (کنز الایمان جنوری 2017)
کسی نے حضور شارح بخآری رحمۃ اللہ علیہ سے سوال کیا کہ کیا مولانا سردار احمد صاحب محدث تھے ؟ اس سوال کے جواب میں حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بات یہی ہے کہ محدثین مقدمین میں ہوں یا حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی ہوں ۔ان سب کا محدث ہونا اس بنا پر ہے کہ ان حضرات نے احادیث کا درس دیا کافی بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ محدث اعظم یہ خطاب ہے ۔ خطاب علم ہے اور اعلام میں الفاط کے معانی لغویہ کا اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ ادنیٰ سی مناسبت کافی ہوتی ہے رد المحتار میں خزائن الاسرار بدیع الافکار فی شرح تنویر الابصار کے تحت " فی" کی توجیہ میں فرماتے ہیں
ان کان من جزء العلم فلا یبحث عن الظرفیہ والا فا لاولی حذف فی لان خزائن الاسرار ھو نفس الشرح و ظاھر الظرفیۃ یقتضی المغایرۃ۔
پھر ظرفیت کی توجیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
 ویمکن تعلقہ بمذکور نظراً الی المعنی الا صلی قبل العلمیۃ، فان الاُعلام وان کان المراد بھا اللفظ قدیلا حظ معھا المعانی الاصلیۃ با لتبعیۃ۔
 ان دونوں عبارتوں کو لکھ کر فرماتے ہیں کہ اس عبارت کا ماحصل یہ ہے کہ اعلام میں ان کے معنی قبل علمیت کا اعتبارمن کل الوجوہ ضروری نہیں، صرف لحاظ وضع واضع و تعین لفظ کا ہے۔
اسی کے آگے فرماتے ہیں کہ:
واُما توقف فھم معناہ العلمی علی فھم جزء بہ ففی حیز المنع فھم المعنی العلمی من امرئی القیس مثلاً یتوقف علی فھم ماوضع ذللک الفظ بازائہ وھو الشاعر المشھور وان جھل معنی کل من مفردیہ۔
ان تصریحات کو تحریر فرماکر لکھتے ہیں کہ دیکھئے صاف تصریح ہے کہ اعلام کے معنی سمجھنے کے لئے ہے. اس کے معنی لغوی کا جاننا ضروری نہیں ہے صرف اس موضوع لہ کا جاننا کافی ہے جس کے مقابلہ میں یہ وضع کیا گیا ہے۔
(فتاوی شارح بخاری چلد دوم ص 475)
اقول(محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار)
 اسی طرح 
محدث اعظم بہار، یا مفتی اعظم بہار، یا مفتی اعظم راجستھان ،یا محدث بہار یا محدث فیض پوری ،یا قاضی اعظم بہار ،یا خطیب اہل سنت. یا مناظر اہل سنت یا محدث سیتا مڑھی یا شیر بہار یا شیر مہاراشٹر ۔. یہ تمام خطاب ہے جو اعلام سے ہے تو اس کے صحت کے لیے اتنا کافی ہے کہ عرف میں اس ذات کے لئے وضع کیے گئے ہیں جن کو ان خطاب سے بزرگوں نے نوازا اس میں کسی کی توہین نہیں ہے اگرچہ ان سے کوئی بڑا عالم دوسرا ہوں۔
 پھر حضور شارح بخاری صاحب نزہۃ القاری فرماتے ہیں کہ اسی طرح محدث اعظم پاکستان. جب کہ خطاب ہےجو اعلام سے ہے تو اس کے صحت کے لئے اتنا کافی ہے کہ عرف میں حضرت مولانا سردار احمد صاحب کے لیے وضع کیا گیا ہے۔ عوام و خواص سب نے ان کے لیے یہ استعمال کیا اس کی صدہا نظیریں ہیں۔
 (1) فاروق اعظم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا خطاب ہے، حالانکہ کہ معنی لغوی کے اعتبار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہی پر صادق آتا ہے
(2) غوث الثقلین حضور سیدنا شیخ محی الدین عبد القادر رض اللہ عنہ کا لقب ہے، حالانکہ کہ اس کے معنی لغوی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ مختص ہیں
(3) صاحب شرح وقایہ کا لقب، صدر الشریعہ ہے حالانکہ کہ اس کا معنی لغوی ایسا ہے جو سوائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کسی پر صادق نہیں
 ان سب کے جواب میں یہی کہا جائے کہ یہ سب القابات و خطابات ہیں جن کے حقیقی لغوی معنی ملحوظ نہیں بلکہ صرف وضع و تعین کے اعتبار ہے جس کے لئے معروف ہوگیا اس پر بولا جائے گا ۔اور یہ خطاب اپنے عصر ،زمانہ کے اعتبار سے متعین ہوئے ہیں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ یقینا حتما حضرت محدث پاکستان ڈے بدرجہا افضل ہے واعلی برتروبالا ہے۔
(فتاویٰ شارح بخاری ج 3 ،ص 476)
(2) سوال دوم کا جواب:- 
( کیا جو خطاب افضل کا نہ ہو وہ مفضول کا نہیں ہو سکتا ؟)
آج کل جیسا کہ پاکستان میں محدث سردار احمد صاحب کے متعلق یہ ہوا اٹھی کہ جب وہ محدث نہیں ہیں وہی وبا صوبہ بہار میں پھیلی ہوئی ہے کہ فلاں اس عہدہ کے لائق ہے نہیں اس سے فلاں بڑا عالم ہیں ان کو دیجائے مگر 
 یہ محاورہ صحیح نہیں ہے کیونکہ ، حضور شارح بخاری فقیہ الہند حضرت مفتی امجد علی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ بہت بڑا مغالطہ ہے کہ جو سائل نے سمجھ رکھا کہ جو خطاب افضل کا نہ ہو وہ مفضول کا نہیں ہوسکتا اگر سائل کے سمجھے ہوئے اس قاعدہ کو درست مان لیا جا ئے تو لازم آئے گا کہ حضرت عمر کا جو خطاب فاروق اعظم یے، حضرت عثمان کا غنی ہے، حضرت علی شیر خدا ہے، حضرت امام اعظم کا امام اعظم امام الائمہ، حضرت غوث اعظم کا غوث الثقلین ہے، صاحب شرح وقایہ کا صدر الشریعہ ہے، ان کے دادا کا تاج الشریعہ ہے، یہ سب ناجائز یا کم از کم نادرست ہوں۔
        کہ 
(الف) حضرت عمر سے حضرت ابوبکر افضل ہیں ان کا خطاب حضرت فاروق اعظم نہیں
(ب) حضرت عثمان سے حضرت عمر و حضرت ابوبکر دونوں افضل ان کا خطاب غنی نہیں،
(ت) پھر یہ تینوں حضرات حضرت علی سے افضل
ان تینوں کا لقب شیر خدا نہیں
(ث) یہ سب حضرات حضرت امام اعظم سے بدرجہا افضل مگر کسی صحابی کا خطاب امام اعظم اور امام الائمہ نہیں
 (ج) یہ تمام حضرات صاحب شرح وقایہ اور ان کے دادا سے بدرجہا افضل ہیں ،مگران میں کسی کا خطاب صدر الشریعہ و تاج الشریعہ نہیں۔
 یہ اس بات کی دلیل ہے کہ سائل کا سمجھا ہوا، قاعدہ درست نہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں کہ مفضول کا لقب ایسا رکھا جائے جو افضل کام نہ ہو۔
(فتاویٰ شارح بخاری کتاب العقائد جلد سوم ص 476)
( نوٹ) اس سے معلوم ہوا کہ اگر زید کو کوئی لقب یا خطاب ملا اور اس سے کوئی بڑا عالم اس علاقہ میں ہے تو ان کی توہین نہیں ہے اور نہ یہ شرعاً منع ہے اور نہ کوئی حرج ہے۔
(تیسرا سوال کا، جواب کیا خطاب کے لئے سند یا اجازت کی ضرورت ہے؟)
     الجواب
حضور شارح بخاری مفتی شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ  محدث کی تعریف اس طرح کرتے ہیں کہ 
جو شخص سنت یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل و تقریر کے ساتھ مشغول ہو یعنی اسے پڑھتا ہو پڑھاتا ہو، نشر واشاعت کرتا ہو، وہ محدث ہے۔
(ج 3 ص 473) اور نشرو اشاعت کا مطلب یہ نہیں کہ فن حدیث میں کوئی کتاب لکھی جاوے۔
اقول
 اسی طرح مفتی کے لئے کچھ قیود کے ساتھ محقق مسائل جدیدہ لکھتے ہیں کہ ان تمام امور کے. ساتھ ایک امر لازم یہ بھی ہے کہ جامع شرائط ماہر مفتی کی خدمت میں شب و روز حاضر رہ کر  افتاء کی تربیت حاصل کرے، جد و جہد کا خوگر بنے، اور کثرت مشق و مزاولت سے خود درج بالا امور کا ماہر ہوجائے
سوال.... کیا ہر حال میں جامع شرائط مفتی کے خدمت میں رہ کر ہی مشق کرنا ضروری ہے؟ 
جواب جی تمام فقہ کرام نے یہی فرمایا‌ لیکن ایک جگہ 
  محقق مسائل جدیدہ مفتی محمد نظام الدین رضوی تحریر فرماتے ہیں کہ اگر جامع شرائط مفتی کی خدمت میں رہنے کا موقع نہ میسر ہو تو مشکل اور پیچیدہ مسائل میں اپنے سے افقہ سے تبادلہ خیال کرے اور ان کے علم و تجربہ سے استفادہ کو غنیمت سمجھے
(فتاویٰ فقیہ ملت کے ص 13 کے مضمون فقیہ ملت و فتاوی فقیہ ملت کا فقہی مقام)
سوال کیا مفتی اعظم یا محدث اعظم کے لئے صوبہ و علاقہ کا سروے کرکے ہی انتخاب کرنا فرض ہے؟
جواب
بالکل نہیں یہ قول کسی ایسے شخص کا ہوگا جو فقہی قواعد و قوانین سے یا فقہی جزیہ اور اپنے مشائخ کی کتابوں سے یا احوال سے یا اقوال سے بے خبر ہوگا۔
  دیکھو! حضور صاحب نزہۃ القاری شرح بخاری فقیہ الہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ مجدد اعظم کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں کہ
مجدد کی عظمت اس کے کارناموں سے ظاہر ہوتی ہے حضرت شیخ مجدد الف ثانی نے یقیناً بہت اہم کارنامے انجام دیے ہیں اس کی بنا پر وہ یقیناً اس کے مستحق ہیں کہ ان کو مجدد کہا جائے مگر مجد اعظم اعلی حضرت امام احمد رضا قدس سرہ کے عظیم بے مثالی کارناموں کے مقابلے میں مجدد الف ثانی کے کارنامے ایسے نہیں کہ انہیں مجد اعظم کہا جائے۔ اعلی حضرت نے اصلاح عقائد و اعمال پر ایک ہزار کے قریب کتابیں تصنیف فرمائیں اور کئی لاکھ فتاویٰ کے جواب لکھے۔
(فتاویٰ شارح بخاری ج3 ص 346)
 اس قول سے معلوم ہوا کہ مجدد اعظم یا مفتی اعظم یا قاعد اعظم یا فقیہ اعظم کے انتخاب کے لئے صوبہ یا علاقہ کا سروے نہیں کرنا ہوگا بلکہ ان کے فقہی کارناموں اور ان کے دینی خدمات اور فتاوی کو دیکھا جائے گا۔
  سوال سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کو مجدد کا لقب کہاں سے ملا
الجواب حضور فقیہ الہند شارح بخآری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
مجدد کا خطاب مکہ معظمہ کے جلیل القدر عالم غالبا شیخ محمد اسماعیل نے دیا۔
(فتاویٰ شرح بخاری جلد سوم ص 346)
سوال:- کیا کسی کو کوئی مشائخ نے ان کے کارناموں کو دیکھ کر کوئی لقب سے نوازا تو کیا ضروری ہے سب اس کو مان ہی لیں؟
جواب :-
 یہ کوئی ضروری نہیں ہے ہاں کسی کی دینی خدمات کو دیکھ کر مانیں وہ بے حق پر ہے رد المحتار میں ہے کہ 
ماالفضل الا لاھل العلم انھم۔
علی الھدی لمن استھدی ادلاء
ووزن کل امرء ماکان یحسنہ
والجاھلون لاھل العلم اعداء۔
یعنی فضل نہیں مگر اہل علم کے لئے کیونکہ وہ ہدایت پر رہنمائی کرنے والے ہیں اس کی جو ہدایت طلب کرتا ہے ۔
 ہر شخص کی قدر ومنزلت اس کے علم کے مطابق ہوتی ہے جس کو اچھی طرح حاصل کرتا ہے۔
جاہل لوگ اہل علم کے دشمن ہوتے ہیں۔
(رد المحتار ص 124 المقدمۃ)
اور جو نہیں مانیں وہ بھی اپنی راہ پر مگر آپس میں تکرار نہ کریں ۔
 جو جانتا ہو اور انہیں اس لقب سے یاد کرتا ہو اور جو نہیں مانتا ہوں ان دونوں گروپ کو آپس میں تکرار نہیں کرنا چائیے  حضور شارح بخاری فرماتے ہیں کہ اس معاملے میں آپ مجددی حضرات سے بحث و مباحثہ نہ کریں  کسی کے ساتھ عقیدت کا معاملہ بہت خطرناک ہوتا ہے وہ نہیں مانتے نہ مانیں اہل سنت میں افتراق و انتشار نہیں ہونا چاہیئے۔
(فتاویٰ شارح بخاری ج3 ص 347)
 سوال:- کیا مشاٰئخ کے ذریعہ جو خطاب یا القاب عطا ہوتا ہے اسے قبول نہ کرنا چاہیئے ؟
 جواب۔۔ ہاں 
بالکل عطائے نعمت سمجھ کر قبول کرنا چاہیئے قبول نہ کرنا عقلمندی کی دلیل نہیں ہے۔ ہاں تکبر سے بچیں اور عاجزی وانکساری اختیار کریں لہذا جب ان کے شیخ ان کے ساتھ امتیاز خاص کا برتاو کریں تو اس کا قبول ممنوع نہیں۔امیر المومنین سیدنا مولی علی کرم اللہ وجہہ الکریم کہیں تشریف فرما ہوئے صاحب خانہ نے حضرت کے لئے مسند حاضر کی امیر المومنین اس پر رونق افروز ہوئے اور فرمایا کوئی گدھا ہی عزت کی بات قبول نہ کرے گا
(فتاوی رضویہ جلد جدید 23 ص 720)
کوئی بھی مشائخ اپنے ہم عصر علماء کو کسی لقب سے نوازتے ہیں اس کے دستور یہ ہے  
(1) اول ان کی دینی خدمات کو دیکھ کر عطا کرتے ہیں یعنی جو علماء حمایت دین و نصرت سنت میں مشغول رہتے ہیں 
(2) یا ہم عصر ہم موافق ہم مسلک ،ہم خیال، یا ان کی حق گوئی یعنی حامیان دین ان تمام چیزوں کو دیکھ کر عطا کرتے ہیں۔
(3) یا پھر عقیدت کا معاملہ ہوتا ہے۔
دلیل جیسا کہ سرکار اعلیٰ حضرت عظیم الشان امام احمد رضا بریلوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جب فقیر نے سرگرم حامیان دین کے خطاب تجویز کئے ہیں۔
(1) حضرت مولانا مولوی محمد وصی احمد صاحب کو الاسدالاسدالاسد۔
(2) مولوی قاضی عبد الوحید صاحب فردوسی کو 
ندوہ شکن ندوی فگن
(3) مولانا ہدایت رسول صاحب لکھنوی کو شیر بیشہ سنت
(4) حاجی محمد لعل خان صاحب قادری برکاتی مدراسی سلمہ کو حامی سنت ماحی بدعت۔
(5) اسی زمانے میں حضرت فاضل بدایونی قدس سرہ کو تاج الفحول سے تعبیر کیا
(فتاویٰ رضویہ جلد 16 جدید ص 202)
ان پانچ علماے کرام کو سرکار اعلیٰ حضرت نے ان کی دینی کاموں کو دیکھ کر خطاب سے نوازا  
( نوٹ) اقول
 "اس. بات سے معلوم ہوا کہ ہم عصر مشائخ اپنے چاہنے والے کو ان کی دینی خدمات دیکھ کر خطاب عطا کرتے ہیں کہ کریم سے کرم کی ہی امید ہوتی ہے اور اس نوازش و عطا کو لینے میں اور قبول کرنے میں کسی نے انکار نہیں کیا  کسی نے یہ نہیں عرض کی  کہ حضور میں اس لائق نہیں ہوں ہم سے زیادہ ان القاب کے دوسرے حقدار ہیں جو مجھ سے بڑے ہیں ان کو دیا جائے  اگر ان کو نہیں دیا گیا تو ان کی توہین ہوگی اور یہ لقب ملنا اور اسے قبول کرنا یہ سب فضل الہی ہے اور تقدیر کا فیصلہ ہے ذلک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہتا ہے عطا فرماتا ہے اور اللہ عظیم فضل والا ہے!
 جاری.....
نوٹ :- اگلی قسط بہت جلد منظر عام پر آنے والی ہے (انشاءاللہ)  
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area