﴿﷽ﷻﷺ﴾
📕✅جاوید احمد غامدی صاحب اور سنت کی تعریف قسط دوم:-
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
ہم نے غامدی صاحب کی سنت کی خود ساختہ تعریف پر علمی تعاقب کیا جسکا لنک درج ذیل ہے۔
https://www.theahlesunnat.com/2023/12/Jaweed-ahmad-gamdi-aur-sunnat-ki-tarif-.html
https://www.theahlesunnat.com/2023/12/Jaweed-ahmad-gamdi-aur-sunnat-ki-tarif-.html
اس کے جواب میں غامدی صاحب کے اندھے مقلد Abdul Ahad Nadwi صاحب نے یہ دعوی کیا کہ میں نے صرف مقدمہ پڑھا ہے۔۔۔اندر کتاب میں تفصیل نہی پڑھی۔۔۔اسی لیے میں غامدی صاحب کا موقف نہی سمجھ سکا۔ اور ندوی صاحب نے یہ دعوی کیا کہ :-
📕 غامدی صاحب کے نزدیک تبیین، تفہیم و اسوہ حسنہ کی اصطلاح بھی ہے اور یہ تینوں بھی غامدی صاحب کے نزدیک دین ہیں :-
✅📗الجواب:-
📗اول :- کتاب کا مقدمہ ہی کتاب کا مغز ہوتا ہے۔۔کتاب کا مقدمہ ہی اسی لیے لکھا جاتا ہے کہ سمندر کو کوزے میں سمو کر پوری کتاب کا منہج و موقف مختصراً بیان کردیا جائے۔۔ اسی لیے اس طرح کا بہانہ بنانا بھی مفید نہی۔
📗دوم :- یہ بات غامدی کے اندھے مقلد کو ذہن نشین رہنا چاہیے کہ اگر ہم غامدی صاحب کی کسی عبارت پر گرفت کریں تو اصولاً اسے اسی عبارت پر ٹینیکل / فنی و علمی باتیں کرکے اس پر وارد اشکال دور کرنا چاہیے۔۔ اس کے بعد ہی ہم کسی دوسری عبارت پر بحث کریں گیں۔۔ان شاء اللہ۔
📕اگر کوئی کتاب کے مقدمہ میں اللہ کی شان میں گستاخی کرے اور کتاب کے اندر قرآن و سنت کے دلائل نقل کرے تو اس طرز عمل سے مقدمہ کی متنازعہ عبارت کے درست ہونے پر شرعی سرٹیفیکٹ الاٹ نہی ہوجائے گی۔۔۔الا یہ کہ وہ اس مخصوص عبارت پر وارد اشکالات کو اسی عبارت کی روشنی میں رفع کردے۔
📕غامدی صاحب میزان صفحہ نمبر 14 پر سنت کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
"سنت سے مراد دین ابراھیمی کی وہ روایات ہیں جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تجدید و اصلاح کے بعد اور اس میں بعض اضافوں کے ساتھ اپنے ماننے والوں میں دین کی حیثیت سے جاری فرمایا ہے" :
✅ابو نصر :- غامدی صاحب کی اس عجیب و غریب تعریف پر ہم نے اوپر مضمون میں تعاقب بھی کیا جسکا علمی جواب ندوی صاحب نہی دے سکے۔اور اسی مضمون میں اوپر لنک بھی اٹیچ کردیا ہے۔۔آپ حضرات تفصیل اسی لنک پر جاکر ملاحظہ کیجیے۔
آئیے دیکھتے ہیں کتاب کے اندر غامدی صاحب نے کیا لکھ رکھا ہے۔
📕📕 مقدمہ میں غامدی صاحب کا دعوی :-
📕سُنت یہی ہے اور اس کے بارے میں یہ بالکل قطعی ہے کہ ثبوت کے اعتبار سے اس میں اور قرآنِ مجید میں کوئی فرق نہیں ہے۔ وہ جس طرح صحابہ کے اجماع اور قولی تواتر سے ملا ہے، یہ اسی طرح ان کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے اور قرآن ہی کی طرح ہر دور میں امت کے اجماع سے ثابت قرار پائی ہے، لہٰذا اس کے بارے میں اب کسی بحث و نزاع کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے۔[2002 میزان 14]
📕دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے ، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ (میزان 15, 2006)
✅✅ ابو نصر :- غامدی صاحب نے دین کو انہی دو صورتوں میں محصور کردیا ہے۔۔ایک قرآن اور دوسرے سنت جنکی تعداد غامدی نے 27 بنا رکھی ہیں۔۔۔۔اسکے علاوہ غامدی کے نزدیک کوئی بھی چیز دین نہی۔
صفحہ نمبر 15 پر واضح لکھتا ہے :- " رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا"۔ ( معاذاللہ)
📕📕📕عبدالاحد ندوی صاحب کا اعتراض :-
غامدی صاحب کے یہاں سنت کے علاوہ تبیین و تفہیم اور اسوہ حسنہ کی اصطلاح بھی ہے ( ہمارے علماء ان تینوں کے لیے ایک ہی لفظ "سنت" استعمال کرتے ہیں ) یہ تینوں بھی غامدی صاحب کے نزدیک "دین" ہے۔۔۔۔الخ
✅✅✅ الجواب :- غامدی صاحب نے مقدمہ صفحہ نمبر 15 پر آفتاب نصف النہار کی طرح واضح و بین لکھا یے۔
📕❗"دین لاریب، انھی دو صورتوں میں ہے۔ ان کے علاوہ کوئی چیز دین ہے ، نہ اسے دین قرار دیا جاسکتا ہے""" الخ
صفحہ نمبر 15 پر واضح لکھتا ہے :-
" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل اور تقریر و تصویب کے اخبارِ آحاد جنھیں بالعموم ’’حدیث‘‘ کہا جاتا ہے، ان کے بارے میں ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سے دین میں کسی عقیدہ و عمل کا ہر گز کوئی اضافہ نہیں ہوتا"۔ ( معاذاللہ)
اس عبارت کی وضاحت غامدی صاحب کی میزان کے اندر صفحہ نمبر 57 " مبادی تدبر سنت " سے کچھ اس طرح بنتی ہے :-
اصول و مبادی :-
مبادی تدبر سنت
سنن کیا ہیں ؟ اِنھیں ہم نے اِس مضمون کی تمہید میں بالکل متعین طریقے پر پیش کر دیا ہے۔
✅ابو نصر :- اس عبارت میں تو غامدی صاحب علی الاعلان دعوی فرما رہے ہیں کہ سنن کیا ہیں اسکو بالکل متعین طریقے پر تمہید / مقدمہ میں ہی پیش کر چکے ہیں۔۔۔جبکہ عبدالاحد ندوی اپنی جہالت سے مجبور ہوکر غامدی صاحب کے دعوی کے برعکس کتاب کے اندر کے مضمون پڑھ کر انکا موقف سمجھنے کی دعوت دے رہا ہے۔
📕غامدی صاحب کہ میزان صفحہ نمبر 57 سے 61 تک کی عبارات و اصول درج ذیل ہیں :-
📕پہلا اصول :-
❗پہلا اصول یہ ہے کہ سنت صرف وہی چیز ہو سکتی ہے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے دین ہو❗۔۔۔۔۔۔۔الخ
📕دوسرا اصول :-
دوسرا اصول یہ ہے کہ سنت کا تعلق تمام تر عملی زندگی سے ہے ،یعنی وہ چیزیں جو کرنے کی ہیں ۔علم و عقیدہ، تاریخ ،شان نزول اور اِس طرح کی دوسری چیزوں کا سنت سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لغت عربی میں سنت کے معنی پٹے ہوئے راستے کے ہیں:...الخ
📕تیسرا اصول :-
تیسرا اصول یہ ہے کہ عملی نوعیت کی وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جن کی ابتدا پیغمبر کے بجاے قرآن سے ہوئی ہے ۔... الخ۔۔۔
📕چوتھا اصول :-
چوتھا اصول یہ ہے کہ سنت پر بطور تطوع عمل کرنے سے بھی وہ کوئی نئی سنت نہیں بن جاتی۔۔۔۔الخ
📕 پانچواں اصول :-
پانچواں اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں جو محض بیان فطرت کے طور پر آئی ہیں ،وہ بھی سنت نہیں ہیں،الاّ یہ کہ انبیا علیہم السلام نے اُن میں سے کسی چیز کو اٹھا کر دین کا لازمی جز بنا دیا ہو ۔
📕چھٹا اصول :-
چھٹا اصول یہ ہے کہ وہ چیزیں بھی سنت نہیں ہو سکتیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کی رہنمائی کے لیے اُنھیں بتائی تو ہیں ،لیکن اِس رہنمائی کی نوعیت ہی پوری قطعیت کے ساتھ واضح کر دیتی ہے کہ اُنھیں سنت کے طور پر جاری کرنا آپ کے پیش نظر ہی نہیں ہے.... الخ
📕ساتواں اصول :-
ساتواں اصول یہ ہے کہ جس طرح قرآن خبر واحد سے ثابت نہیں ہوتا ،اِسی طرح سنت بھی اِس سے ثابت نہیں ہوتی۔ سنت کی حیثیت دین میں مستقل بالذات ہے ۔
✅ابو نصر : اور اسی اصول کی تفصیل میں غامدی صاحب نے عبدالاحد ندوی کے جھوٹے دعوی کے برعکس اعلانیہ لکھا ہے۔
📕اِسی طرح یہ اُن کے اجماع اور عملی تواتر سے ملی ہے ،اِس سے کم تر کسی ذریعے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپ کی تفہیم و تبیین کی روایت تو بے شک، قبول کی جا سکتی ہے ،لیکن قرآن و سنت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتے۔...
✅✅✅ ابونصر :-
یعنی غامدی صاحب کے نزدیک "دین" وہی ہے جو قرآن و سنت ہیں۔۔۔اور قطعی الثبوت و متواتر ہیں۔۔ اور سنت کی تعداد غامدی صاحب کے نزدیک 27 ہیں۔۔۔۔ یعنی غامدی صاحب کے نزدیک :-
قرآن + 27 سنتیں = دین
یہی دین کا درجہ رکھتے ہیں۔۔۔
اور غامدی کے نزدیک :-
📕""رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپ کی تفہیم و تبیین کی روایت تو بے شک، قبول کی جا سکتی ہے ،لیکن قرآن و سنت کسی طرح ثابت نہیں ہو سکتے""۔... (میزان مبادی تدبر و سنت 61)
✅ابونصر :- یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ اور آپکے تفہیم و تبیین کی روایات قبول تو کی جاسکتی ہیں۔۔مگر انہیں "دین کا درجہ" قرآن و سنت کا درجہ کسی بھی طرح نہی دیا جا سکتا۔
یوں تو غامدی صاحب کے ہر ایک اصول کے تعاقب پر ایک کتاب و تفصیلی مضمون لکھا جاسکتا ہے. مگر پوسٹ کے طوالت سے بچنے کے لیے ان شاء اللہ غامدی صاحب کے بیان کیے ہر ایک اصول پر علیحدہ علیحدہ تفصیلی مضمون لکھونگا۔۔ ان شاءالله
وَمَا عَلَيْنَآ اِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ ( سورہ یس 17)
اور ہمارے ذمے کھلم کھلا پہنچا دینا ہی ہے
Muneeza K.محمد عدنانShahrukh Khaanعرفان اللہ