احکام شریعت
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غیر مسلم سے قرض لیا پھر وہ مرگیا تو ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
غیر مسلم سے قرض لیا پھر وہ مرگیا تو ادائیگی کی کیا صورت ہوگی؟
➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖➖
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک مسلم نے غیر مسلم سے ایک ہزار روپئے ادھار لئے تھے اب غیر مسلم مرگیا یا اسکے ایک ہزار روپئے کو کہاں دیا جائے جواب مع حوالہ عنایت فرمائیں
سائل:- مظاہر رضا رام پور یوپی انڈیا۔
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:-
جو شخص کسی غیر مسلم سے قرض لے پھر وہ مر جاۓ تو اس کے وارثین کو دے دیۓ جائیں اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر فقراء پر صدقہ کردیا جائے اس نیت سے نہیں کہ اس کا ثواب اس کافر کو پہونچے کہ اصلا وہ اس کا اہل ہی نہیں۔
سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں
جو شخص مرجاۓ اور کوئی وارث نہ چھوڑے نہ کسی کے نام وصیت کی ہوتو اس کے مال کا مستحق بیت المال ہے اور بیت المال کے ایسے مال کے مستحق مذہب جمہور پر فقراء مساکین عاجزین ہیں کہ ان کے کھانے پینے دوا دار وکفن دفن میں خرچ کیا جائے۔
در مختار میں ہے:
ورابعھما الضوائع مثل مالا یکون لہ اناس وارثونا
رد المحتار میں ہے:
الضوائع ای اللقطات فقولہ مثل مالا ای مثل ترکۃ لا وارث لھا اصلا اولھا وارث لا یرد علیہ فمصرفہ المشھور اللقیط الفقیر والفقراء الذین لا اوصیاء لھم فیعطی منھم نفقتھم وادویتھم وکفنھم وعقل جنایتھم کما فی الزیلعی وغیرہ وحاصلہ ان مصرفہ العاجزون الفقراء ملتطقا
اور یہ حکم جیسا مال مسلم کے لئے ہے یونہی مال کافر کے لئے بھی۔
عالمگیری میں ہے:
من مات من اھل الذمۃ ولا وارث لہ فمالہ لبیت المال کذا فی الاختیار شرح المختار
پس ایسی صورت میں وہ مال فقراء کو دے دے نہ اس نیت سے کہ اس صدقہ کا ثواب اس کافر کو پہونچے کہ کافر اصلا اہل ثواب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ خبیث مرگیا اور موت مزیل ملک ہے تو اب وہ اس مال کا مالک نہ رہا بلکہ حق بیت المال ہوا تو فقراء کو بذریعہ استحقاق مذکور دیا جاتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد ٢٥ ، کتاب المداینات ، صفحہ ٥٣ تا ٥٤)
واللہ تعالیٰ اعلم
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
✍️کتبــــــــــــــــــــــــــــه:
گدائے حضور انفاس ملت
سائل:- مظاہر رضا رام پور یوپی انڈیا۔
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
الجواب بعون الملک الوھاب:-
جو شخص کسی غیر مسلم سے قرض لے پھر وہ مر جاۓ تو اس کے وارثین کو دے دیۓ جائیں اگر وہ بھی نہ ملے تو پھر فقراء پر صدقہ کردیا جائے اس نیت سے نہیں کہ اس کا ثواب اس کافر کو پہونچے کہ اصلا وہ اس کا اہل ہی نہیں۔
سیدی سرکار اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی علیہ الرحمۃ والرضوان تحریر فرماتے ہیں
جو شخص مرجاۓ اور کوئی وارث نہ چھوڑے نہ کسی کے نام وصیت کی ہوتو اس کے مال کا مستحق بیت المال ہے اور بیت المال کے ایسے مال کے مستحق مذہب جمہور پر فقراء مساکین عاجزین ہیں کہ ان کے کھانے پینے دوا دار وکفن دفن میں خرچ کیا جائے۔
در مختار میں ہے:
ورابعھما الضوائع مثل مالا یکون لہ اناس وارثونا
رد المحتار میں ہے:
الضوائع ای اللقطات فقولہ مثل مالا ای مثل ترکۃ لا وارث لھا اصلا اولھا وارث لا یرد علیہ فمصرفہ المشھور اللقیط الفقیر والفقراء الذین لا اوصیاء لھم فیعطی منھم نفقتھم وادویتھم وکفنھم وعقل جنایتھم کما فی الزیلعی وغیرہ وحاصلہ ان مصرفہ العاجزون الفقراء ملتطقا
اور یہ حکم جیسا مال مسلم کے لئے ہے یونہی مال کافر کے لئے بھی۔
عالمگیری میں ہے:
من مات من اھل الذمۃ ولا وارث لہ فمالہ لبیت المال کذا فی الاختیار شرح المختار
پس ایسی صورت میں وہ مال فقراء کو دے دے نہ اس نیت سے کہ اس صدقہ کا ثواب اس کافر کو پہونچے کہ کافر اصلا اہل ثواب نہیں بلکہ اس وجہ سے کہ وہ خبیث مرگیا اور موت مزیل ملک ہے تو اب وہ اس مال کا مالک نہ رہا بلکہ حق بیت المال ہوا تو فقراء کو بذریعہ استحقاق مذکور دیا جاتا ہے۔
(فتاویٰ رضویہ، جلد ٢٥ ، کتاب المداینات ، صفحہ ٥٣ تا ٥٤)
واللہ تعالیٰ اعلم
ــــــــــــــــــــــ❣♻❣ـــــــــــــــــــــــ
✍️کتبــــــــــــــــــــــــــــه:
گدائے حضور انفاس ملت
حضرت مفتی فداءالمصطفی رضوی صمدی انفاسی
صاحب قبلہ مدظلہ العالی۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی عبدالمالک صاحب قبلہ۔
✅الجواب صحیح والمجیب نجیح : حضرت مفتی عبدالمالک صاحب قبلہ۔
ـــــــــــــــــــــ❣♻❣ــــــــــــــــــــــ