(سوال نمبر 4849)
فرض کی آخری دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کیوں نہیں کی جاتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ فرض نماز کی چار رکعتوں یا تین رکعتوں والی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کی جاتی ہے اور دوسری دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کیوں نہیں کی جاتی
اس میں حکمت کیا ہے مہربانی فرماکر اس سوال کا بحوالہ
عنایت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کیجئے جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاھور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لیں آقا علیہ السلام نے فرض کی آخری دو رکعتوں میں کبھی بلند اواز سے قرات نہیں کی اس لئے نہ کرنا سنت ہے اور ہمارے قبول کے لیے یہ کافی ہے چاہے کوئی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ ائے ۔
اور دوسری بات نماز میں قرات کی فرضیت کا محل صرف دو رکعتیں ہی ہیں۔یعنی چار رکعات والی فرض نمازوں میں فرضیت صرف دو رکعتوں میں قرات کرنے سے پوری ہو جاتی ہے باقی دو رکعتوں میں قرات کرنا فرض نہیں اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے
حدیث شریف میں ہے
حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ آخری دو رکعتوں میں خواہ قرات کرے خواہ خاموش کھڑا رہے خواہ تسبیح پڑھے۔ اور یہ مسئلہ چوں کہ اجتہاد سے نہیں سمجھا جا سکتا اس لیے ان حضرات کا قول گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمارے لیے کافی و شافی ہونا چاہیے
حدیث شریف میں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اصل نماز دو دو رکعات ہی تھی بعد میں سفر کی نماز کو اصل پر باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز کو بڑھا دیا گیا اس وجہ سے بھی اصل اور بڑھائی ہوئی نماز میں قرأت کے فرض ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے فرق رکھا گیا ہے کہ جو اصل نماز تھی اس میں قراءت فرض رکھی گئی اور جو نماز بعد میں اضافہ شدہ ہے اس میں قرأت فرض نہیں رکھی گئی
اس لئے چار رکعات والی فرض نمازوں میں صرف پہلی دو رکعتوں میں ہی قرات کرنا فرض ہے باقی دو رکعتوں میں قرات کرنا فرض نہیں ہے اور یہ حکم ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے معلوم ہوا ہے جو عبادات کی مقادیر کے بارے میں حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہیں
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
(وأما) بيان محل القراءة المفروضة فمحلها الركعتان الأوليان عينًا في الصلاة الرباعية هو الصحيح من مذهب أصحابنا. ..... (ولنا) إجماع الصحابة - رضي الله عنهم -، فإن عمر - رضي الله عنه - ترك القراءة في المغرب في إحدى الأوليين فقضاها في الركعة الأخيرة وجهر، وعثمان - رضي الله عنه - ترك القراءة في الأوليين من صلاة العشاء فقضاها في الأخريين وجهر، وعلي و ابن مسعود - رضي الله عنهما - كانا يقولان: المصلي بالخيار في الأخريين، إن شاء قرأ وإن شاء سكت وإن شاء سبح، وسأل رجل عائشة - رضي الله عنها - عن قراءة الفاتحة في الأخريين فقالت: ليكن على وجه الثناء ولم يرو عن غيرهم خلاف ذلك، فيكون ذلك إجماعًا؛ ولأن القراءة في الأخريين ذكر يخافت بها على كل حال فلاتكون فرضًا، كثناء الافتتاح ...... قالت عائشة - رضي الله عنها -: الصلاة في الأصل ركعتان، زيدت في الحضر وأقرت في السفر، والزيادة على الشيء لا يقتضي أن يكون مثله، ولهذا اختلف الشفعان في وصف القراءة من حيث الجهر والإخفاء، وفي قدرها وهو قراءة السورة ....... وهذا باب لا يدرك بالقياس فالمروي عنهما كالمروي عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 111)
الفتاوى الهندية میں ہے
وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة، كذا في النهر الفائق. وفي جميع ركعات النفل والوتر، هكذا في البحر الرائق۔
فرض کی آخری دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کیوں نہیں کی جاتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارہ میں کہ فرض نماز کی چار رکعتوں یا تین رکعتوں والی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کی جاتی ہے اور دوسری دو رکعتوں میں بلند آواز سے قرات کیوں نہیں کی جاتی
اس میں حکمت کیا ہے مہربانی فرماکر اس سوال کا بحوالہ
عنایت فرماکر شکریہ کا موقع فراہم کیجئے جزاک اللہ خیرا
سائل:- سید حسن علی بخاری شاھدرہ لاھور پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
سب سے پہلی بات تو یہ ذہن نشین کر لیں آقا علیہ السلام نے فرض کی آخری دو رکعتوں میں کبھی بلند اواز سے قرات نہیں کی اس لئے نہ کرنا سنت ہے اور ہمارے قبول کے لیے یہ کافی ہے چاہے کوئی حکمت سمجھ میں آئے یا نہ ائے ۔
اور دوسری بات نماز میں قرات کی فرضیت کا محل صرف دو رکعتیں ہی ہیں۔یعنی چار رکعات والی فرض نمازوں میں فرضیت صرف دو رکعتوں میں قرات کرنے سے پوری ہو جاتی ہے باقی دو رکعتوں میں قرات کرنا فرض نہیں اسی پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے
حدیث شریف میں ہے
حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کہ نمازی کو اختیار ہے کہ آخری دو رکعتوں میں خواہ قرات کرے خواہ خاموش کھڑا رہے خواہ تسبیح پڑھے۔ اور یہ مسئلہ چوں کہ اجتہاد سے نہیں سمجھا جا سکتا اس لیے ان حضرات کا قول گویا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہمارے لیے کافی و شافی ہونا چاہیے
حدیث شریف میں ہے
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اصل نماز دو دو رکعات ہی تھی بعد میں سفر کی نماز کو اصل پر باقی رکھا گیا اور حضر کی نماز کو بڑھا دیا گیا اس وجہ سے بھی اصل اور بڑھائی ہوئی نماز میں قرأت کے فرض ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے فرق رکھا گیا ہے کہ جو اصل نماز تھی اس میں قراءت فرض رکھی گئی اور جو نماز بعد میں اضافہ شدہ ہے اس میں قرأت فرض نہیں رکھی گئی
اس لئے چار رکعات والی فرض نمازوں میں صرف پہلی دو رکعتوں میں ہی قرات کرنا فرض ہے باقی دو رکعتوں میں قرات کرنا فرض نہیں ہے اور یہ حکم ہمیں صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے آثار سے معلوم ہوا ہے جو عبادات کی مقادیر کے بارے میں حدیثِ مرفوع کے حکم میں ہیں
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے
(وأما) بيان محل القراءة المفروضة فمحلها الركعتان الأوليان عينًا في الصلاة الرباعية هو الصحيح من مذهب أصحابنا. ..... (ولنا) إجماع الصحابة - رضي الله عنهم -، فإن عمر - رضي الله عنه - ترك القراءة في المغرب في إحدى الأوليين فقضاها في الركعة الأخيرة وجهر، وعثمان - رضي الله عنه - ترك القراءة في الأوليين من صلاة العشاء فقضاها في الأخريين وجهر، وعلي و ابن مسعود - رضي الله عنهما - كانا يقولان: المصلي بالخيار في الأخريين، إن شاء قرأ وإن شاء سكت وإن شاء سبح، وسأل رجل عائشة - رضي الله عنها - عن قراءة الفاتحة في الأخريين فقالت: ليكن على وجه الثناء ولم يرو عن غيرهم خلاف ذلك، فيكون ذلك إجماعًا؛ ولأن القراءة في الأخريين ذكر يخافت بها على كل حال فلاتكون فرضًا، كثناء الافتتاح ...... قالت عائشة - رضي الله عنها -: الصلاة في الأصل ركعتان، زيدت في الحضر وأقرت في السفر، والزيادة على الشيء لا يقتضي أن يكون مثله، ولهذا اختلف الشفعان في وصف القراءة من حيث الجهر والإخفاء، وفي قدرها وهو قراءة السورة ....... وهذا باب لا يدرك بالقياس فالمروي عنهما كالمروي عن النبي صلى الله عليه وسلم.
(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (1/ 111)
الفتاوى الهندية میں ہے
وتجب قراءة الفاتحة وضم السورة أو ما يقوم مقامها من ثلاث آيات قصار أو آية طويلة في الأوليين بعد الفاتحة، كذا في النهر الفائق. وفي جميع ركعات النفل والوتر، هكذا في البحر الرائق۔
(الفتاوى الهندية (1/ 71)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
31/10/2023
31/10/2023