قسط اول
عورت طلاق کا دعویٰ کرتی ہے اور شوہر انکار کرتا ہے تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟
عورت طلاق کا دعویٰ کرتی ہے اور شوہر انکار کرتا ہے تو اس صورت میں شرعی حکم کیا ہوگا؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے علما ہے مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ زید شادی کے کچھ عرصہ کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا اور طلاق دے کر اپنے گھر سے نکال دیا ہندہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی آئی اور رہنے لگی اب ادھر ہندہ کا شوہر زید؛ طلاق کا انکار کرتا ہے اور ہندہ کو اپنے گھر لانے کی کوشش کررہا ہے لیکن ہندہ جانے پر راضی نہیں
(1) سوال طلب یہ ہے کہ اگر واقعی میں زید نے طلاق دے دی اور اس کی کوئی تحریر نہ ہوتو کیا طلاق صحیح پڑے گی یا نہیں ؟
(2) ہندہ قسم کھانے کو تیار ہے کہ میرا شوہر طلاق دے چکا ہے اور شوہر بھی قسم کھانے کو تیار ہے کہ طلاق نہیں دیا ہے تو اس صورت میں کس کے قسم پر اعتماد کیا جائے؛ ہندہ کے یا زید کے ؟
(3) چونکہ شوہر طلاق سے انکار کررہا ہے اور قسم کھانے کو تیار ہے تو اس صورت میں عورت اپنے سسرال جائے گی یا دوسری شادی کرسکتی ہے؟
سائل:- مولانا عبد الغفار خان نوری صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا بازار۔20 ذی القعدہ 1444
کیا فرماتے علما ہے مفتیان متین اس مسئلہ میں کہ زید شادی کے کچھ عرصہ کے بعد اپنی بیوی کو تین طلاق دے دیا اور طلاق دے کر اپنے گھر سے نکال دیا ہندہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی آئی اور رہنے لگی اب ادھر ہندہ کا شوہر زید؛ طلاق کا انکار کرتا ہے اور ہندہ کو اپنے گھر لانے کی کوشش کررہا ہے لیکن ہندہ جانے پر راضی نہیں
(1) سوال طلب یہ ہے کہ اگر واقعی میں زید نے طلاق دے دی اور اس کی کوئی تحریر نہ ہوتو کیا طلاق صحیح پڑے گی یا نہیں ؟
(2) ہندہ قسم کھانے کو تیار ہے کہ میرا شوہر طلاق دے چکا ہے اور شوہر بھی قسم کھانے کو تیار ہے کہ طلاق نہیں دیا ہے تو اس صورت میں کس کے قسم پر اعتماد کیا جائے؛ ہندہ کے یا زید کے ؟
(3) چونکہ شوہر طلاق سے انکار کررہا ہے اور قسم کھانے کو تیار ہے تو اس صورت میں عورت اپنے سسرال جائے گی یا دوسری شادی کرسکتی ہے؟
سائل:- مولانا عبد الغفار خان نوری صدر المدرسین دارالعلوم امجدیہ ثناء المصطفی مرپا بازار۔20 ذی القعدہ 1444
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
جب زید نے ہندہ کو تین طلاق دیدی تو تین طلاقیں واقع ہوگئیں طلاق کے لئے تحریر ہونا یا لڑکی کا اپنے کان سے سننا ضروری نہیں ۔
فتاوی برکاتیہ میں کہ شوہر نے اگر واقعی تین طلاق دیدی ہے تو اس کی عورت ہندہ اس پر حرام ہوگئی بغیر حلالہ کے دوبارہ وہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔
فتاوی برکاتیہ میں کہ شوہر نے اگر واقعی تین طلاق دیدی ہے تو اس کی عورت ہندہ اس پر حرام ہوگئی بغیر حلالہ کے دوبارہ وہ اس کے نکاح میں نہیں آسکتی۔
(فتاویٰ برکاتیہ ص 154)
ثبوت طلاق کے لئے مرد کا اقرار یا عورت کی طرف سے گواہ کا ہونا ضروری ہے
سرکار سیدی مرشدی برحق حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
تحریری طلاق ہونا کوئی ضروری نہیں جب زید نے زبان سے طلاق دی طلاق ہوگئی مگر ثبوت طلاق کے لئے گواہ درکار ہیں یا زید کا اقرار جب یہ دونوں باتیں نہ ہوئیں تو صرف عورت کے کہنے پر حکم طلاق نہیں ہوسکتا زید نے اگر دی ہے تو اس پر فرض ہے کہ اقرار طلاق کرے اورحرام ہے کہ انکار کرےجب تک وہ جھوٹ انکار کرے گا حق اللہ حق العباد میں گرفتار رہے گا اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور عورت پر ظلم نہ کرے
ثبوت طلاق کے لئے مرد کا اقرار یا عورت کی طرف سے گواہ کا ہونا ضروری ہے
سرکار سیدی مرشدی برحق حضور مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
تحریری طلاق ہونا کوئی ضروری نہیں جب زید نے زبان سے طلاق دی طلاق ہوگئی مگر ثبوت طلاق کے لئے گواہ درکار ہیں یا زید کا اقرار جب یہ دونوں باتیں نہ ہوئیں تو صرف عورت کے کہنے پر حکم طلاق نہیں ہوسکتا زید نے اگر دی ہے تو اس پر فرض ہے کہ اقرار طلاق کرے اورحرام ہے کہ انکار کرےجب تک وہ جھوٹ انکار کرے گا حق اللہ حق العباد میں گرفتار رہے گا اللہ تعالیٰ سے ڈرے اور عورت پر ظلم نہ کرے
(فتاویٰ مصطفویہ ص 366)
اس عبارت سے تین باتوں کا واضح علم ہوا کہ۔
(1) صرف عورت کے کہنے پر حکم طلاق نہیں ہوسکتا۔
(2) ثبوت طلاق کے لئے مرد کا اقرار ضروری ہے۔
(3) یا عورت کے لئے شرعی گواہوں کو پیش کرنا ضروری ہوگا کیونکہ ثبوت طلاق کے لئے یہی دو طریقے ہیں۔
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر مرد نے متعدد لوگوں کے سامنے طلاق دینے کا اقرار کیا اور اس امر شرعی کے گواہ بھی موجود ہیں تو ہندہ پر طلاق پڑ جائے گی اور اب ان کے انکار کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا المرء ماخوذ باقرارہ۔
اس عبارت سے تین باتوں کا واضح علم ہوا کہ۔
(1) صرف عورت کے کہنے پر حکم طلاق نہیں ہوسکتا۔
(2) ثبوت طلاق کے لئے مرد کا اقرار ضروری ہے۔
(3) یا عورت کے لئے شرعی گواہوں کو پیش کرنا ضروری ہوگا کیونکہ ثبوت طلاق کے لئے یہی دو طریقے ہیں۔
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر مرد نے متعدد لوگوں کے سامنے طلاق دینے کا اقرار کیا اور اس امر شرعی کے گواہ بھی موجود ہیں تو ہندہ پر طلاق پڑ جائے گی اور اب ان کے انکار کرنے سے کچھ بھی نہیں ہوگا المرء ماخوذ باقرارہ۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد سوم ص 221)
طلاق ک ثبوت کے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے قرآن عظیم میں ہے (واشھدوا ذوا عدل منکم ( سورہ طلاق ) اس لئے صرف عورت کے بیان سے طلاق ثابت نہ ہوگی اگر کبھی آکر شوہر نے یہ کہا کہ میں نے طلاق نہ دی ہے تو اس کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہوگا
طلاق ان امور میں سے ہے جس میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت مقبول ہوتی ہے ۔شاہدین کا عادل ہونا قاضی پر قبول شہادت کو واجب کردیتا ہے عالمگیری میں ہے:
العدالۃ وھی شرط وجوب القبول علی القاضی لا جوازہ کذا فی بحر الرائق۔
طلاق ک ثبوت کے دو گواہوں کا ہونا ضروری ہے قرآن عظیم میں ہے (واشھدوا ذوا عدل منکم ( سورہ طلاق ) اس لئے صرف عورت کے بیان سے طلاق ثابت نہ ہوگی اگر کبھی آکر شوہر نے یہ کہا کہ میں نے طلاق نہ دی ہے تو اس کا قول قسم کے ساتھ معتبر ہوگا
طلاق ان امور میں سے ہے جس میں دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کی شہادت مقبول ہوتی ہے ۔شاہدین کا عادل ہونا قاضی پر قبول شہادت کو واجب کردیتا ہے عالمگیری میں ہے:
العدالۃ وھی شرط وجوب القبول علی القاضی لا جوازہ کذا فی بحر الرائق۔
یعنی عدالت قاضی کے اوپر شہادت کے قبولیت کے واجب ہونے کی شرط ہے ۔نہ کہ شہادت کے جواز کی شرط ہے ۔ایسا ہی بحر الرائق میں ہے
حدیث شریف میں
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔
حدیث شریف میں
البینۃ علی المدعی والیمین علی من انکر۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد سوم ص 231)
ہاں ہندہ کی طرف سے گواہوں سے ثبوت فراہم نہیں ہوا تو شوہر کا قول اس کی قسم کے بعد معتبر ہوگا اور اگر ہندہ نے شرعی گواہ سے ثبوت طلاق فراہم کردیا تو طلاق پڑھ جائے گی اب لڑکا کے قسم کا اعتبار نہ ہوگا
الجواب دوئم:-
مدعی کا حلف نہیں سنا جاتا بلکہ اس سے گواہ مانگے جاتے ہیں:
اب شوہر انکار کرتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور عورت قسم کھانے کو تیار ہے کہ طلاق دی تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
عورت کا قسم کھانا محض نامعتبر ہے کہ وہ مدعیہ ہے مدعی کا حلف نہیں سنا جاتا اس سے گواہ مانگے جاتے ہیں گواہ نہ دے سکے تو مدعا علیہ پر حلف رکھا جاتا ہے۔
ہاں ہندہ کی طرف سے گواہوں سے ثبوت فراہم نہیں ہوا تو شوہر کا قول اس کی قسم کے بعد معتبر ہوگا اور اگر ہندہ نے شرعی گواہ سے ثبوت طلاق فراہم کردیا تو طلاق پڑھ جائے گی اب لڑکا کے قسم کا اعتبار نہ ہوگا
الجواب دوئم:-
مدعی کا حلف نہیں سنا جاتا بلکہ اس سے گواہ مانگے جاتے ہیں:
اب شوہر انکار کرتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی اور عورت قسم کھانے کو تیار ہے کہ طلاق دی تو اس صورت میں کیا حکم ہوگا؟
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
عورت کا قسم کھانا محض نامعتبر ہے کہ وہ مدعیہ ہے مدعی کا حلف نہیں سنا جاتا اس سے گواہ مانگے جاتے ہیں گواہ نہ دے سکے تو مدعا علیہ پر حلف رکھا جاتا ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 373)
چونکہ عورت یعنی ہندہ دعویٰ کررہی ہے کہ زید نے مجھے طلاق دی ہے تو ہندہ مدعیہ ہوئی اور زید مدعا علیہ ہوا
مدعا علیہ یعنی وہ شخص جس پر دعوے کئے جائے
مدعی دعوی کرنے والا
نالشی ۔دعوےدار ۔سائل حریف رقیب سے (فیروز اللغات ص 1220)
اور لغت میں گواہ کی نسبت مدعاعلیہ سے نہیں بلکہ مدعی سے نسبت ہے ایک کہاوت ہے مدعی سست گواہ چست (فیروز اللغات ص,1220)
مدعیہ یعنی دعویٰ کرنے والی عورت:
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب مرد طلاق کا انکار کرتا ہے تو اس صورت میں گواہوں کی ثبوت طلاق کے لئے ضروری ہوگی وہ لائق شہادت ہوں گے تو طلاق ثابت ہوگی
اگر یہ شرط نہیں لگائی جائے تو روزانہ نہ جانے کتنی عورتیں بات بات پر اپنے شوہر سے نجات پانے کے لئے یہ طریقہ استعمال کرسکتی ہے اسی لئے شریعت نے یہ راہ نہ دی ورنہ روزانہ نہ جانے کتنی عورتیں اپنے شوہروں سے ناراض ہوکر ان کی قید سے نکلنے کے لئے طلاق لیا کرتیں ۔
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر طلاق نامہ پر گواہ شرعی نہ ہو تو خالی عورت کا یہ کہنا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دےدی ہے اور یہ اس کا طلاق نامہ ہے کافی نہیں بالخصوص اس صورت میں کہ شوہر قسم کھاکر طلاق کا اپنے سے انکار کررہا ہے۔
چونکہ عورت یعنی ہندہ دعویٰ کررہی ہے کہ زید نے مجھے طلاق دی ہے تو ہندہ مدعیہ ہوئی اور زید مدعا علیہ ہوا
مدعا علیہ یعنی وہ شخص جس پر دعوے کئے جائے
مدعی دعوی کرنے والا
نالشی ۔دعوےدار ۔سائل حریف رقیب سے (فیروز اللغات ص 1220)
اور لغت میں گواہ کی نسبت مدعاعلیہ سے نہیں بلکہ مدعی سے نسبت ہے ایک کہاوت ہے مدعی سست گواہ چست (فیروز اللغات ص,1220)
مدعیہ یعنی دعویٰ کرنے والی عورت:
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب مرد طلاق کا انکار کرتا ہے تو اس صورت میں گواہوں کی ثبوت طلاق کے لئے ضروری ہوگی وہ لائق شہادت ہوں گے تو طلاق ثابت ہوگی
اگر یہ شرط نہیں لگائی جائے تو روزانہ نہ جانے کتنی عورتیں بات بات پر اپنے شوہر سے نجات پانے کے لئے یہ طریقہ استعمال کرسکتی ہے اسی لئے شریعت نے یہ راہ نہ دی ورنہ روزانہ نہ جانے کتنی عورتیں اپنے شوہروں سے ناراض ہوکر ان کی قید سے نکلنے کے لئے طلاق لیا کرتیں ۔
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ اگر طلاق نامہ پر گواہ شرعی نہ ہو تو خالی عورت کا یہ کہنا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دےدی ہے اور یہ اس کا طلاق نامہ ہے کافی نہیں بالخصوص اس صورت میں کہ شوہر قسم کھاکر طلاق کا اپنے سے انکار کررہا ہے۔
(فتاویٰ بحر العلوم جلد سوم ص 231)
الحاصل کہ زید نے اگر طلاق دی ہے طلاق واقع ہوگئی اگر رجعی تو رجعی یا بائن دی تو بائن یا اگر تین دی تو بغیر حلالہ کے ہندہ حلال نہ ہوگی۔
اب اس صورت میں کہ زید انکار کرتا ہے تو عورت شرعی گواہ پیش کرے اگر عورت کے پاس گواہ نہیں ہے اگر ہے بھی شرعی گواہ نہیں ہے تو زید پر حلف ہے اب زید قسم کھائے زید کے قسم پر اعتبار ہوگا اور طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔
اگر عورت گواہ پیش نہ کر سکے اور شوہر نے قسم کھالی تو اس صورت میں عورت کو کیا کیا جائے۔
اس صورت میں طلاق ثابت نہ ہوگی کیونکہ شہادت ضروری ہے
اصول فقہ ہے کہ
الثابت بالبینۃ کالثابت بالمعاینہ
الحاصل کہ زید نے اگر طلاق دی ہے طلاق واقع ہوگئی اگر رجعی تو رجعی یا بائن دی تو بائن یا اگر تین دی تو بغیر حلالہ کے ہندہ حلال نہ ہوگی۔
اب اس صورت میں کہ زید انکار کرتا ہے تو عورت شرعی گواہ پیش کرے اگر عورت کے پاس گواہ نہیں ہے اگر ہے بھی شرعی گواہ نہیں ہے تو زید پر حلف ہے اب زید قسم کھائے زید کے قسم پر اعتبار ہوگا اور طلاق کا حکم نہ دیا جائے گا۔
اگر عورت گواہ پیش نہ کر سکے اور شوہر نے قسم کھالی تو اس صورت میں عورت کو کیا کیا جائے۔
اس صورت میں طلاق ثابت نہ ہوگی کیونکہ شہادت ضروری ہے
اصول فقہ ہے کہ
الثابت بالبینۃ کالثابت بالمعاینہ
یعنی شہادت سے ثابت شدہ مشاہدہ سے ثابت شدہ امر کی طرح ہے وہ بھی شہادت محض خبر نہ ہو بلکہ شرعی شہادت گزاریں
کیونکہ محض خبر پر کہ ہاں میں سنا تھا کہ فلاں نے طلاق دی یہ شرعی شہادت نہیں ہے بلکہ یقینی شرعی شہادت ہو اصول فقہ
*مجرد الخبر لایصلح حجۃ*.یعنی خبر محض حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اب ایک صورت ہے شوہر کا حلف اٹھانا
تلخیص فتاوی رضویہ میں ہے کہ شوہر کے حلف کے بعد عورت اسے جبرا واپس دلائی جائے گی (تلخیص فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 50)
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔
چونکہ عورت اپنے بیان میں اکیلی ہے ( یعنی شرعی گواہ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ) تو شوہر کے انکار کی صورت میں طلاق کا ثبوت نہ ہوسکے گا ۔اور وہ کسی دوسری جگہ شادی نہ کرسکے گی (فتاویٰ بحر العلوم جلد سوم ص 233)
کیونکہ طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہے حدیث شریف میں ہے:
الطلاق لمن اخذ بالساق
یعنی جس نے پوری ذمہ داری ہر بات کی لی ہے اسی کو طلاق کا اختیار ہے ۔ اور جب شوہر انکار ہی کررہا ہے تو اس کی بات پر یقین کرنا ہوگا اور طلاق کا ثبوت نہ ہوسکے گا
لیکن اگر زید واقعی میں طلاق دے چکاہےاور اب وہ انکار کررہا ہے تو انکار کرنا اللہ عزوجل کے یہاں زید کو کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ وہ زانی ہوگا اور سخت عذاب میں مبتلا ہوگا
قال اللہ تعالیٰ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ(پ:2:134)
یعنی اور طلاق دے کرشوہر کا انکار کرنا خدائے تعالیٰ کے یہاں کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ وہ زانی ہوگا اور سخت عذاب میں مبتلا ہوگا
جو اولاد ہوگی ولد الزنا ہوگی ہاں دنیا میں بیوی تو مل جائے گی لیکن آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا اس لئے جھوٹی قسم نہ کھائے وہ اس کے علاؤہ دوسری شادی کرسکتا ہے
اور اگر عورت کو یقین ہے کہ میرا شوہر مجھے واقع میں طلاق دے چکا ہے یقین کامل ہو صرف شک یا جھوٹ یا خبر محض نہ ہو بلکہ یقین کامل ہو کہ اصول فقہ
الیقین لایزول بالشک
کیونکہ محض خبر پر کہ ہاں میں سنا تھا کہ فلاں نے طلاق دی یہ شرعی شہادت نہیں ہے بلکہ یقینی شرعی شہادت ہو اصول فقہ
*مجرد الخبر لایصلح حجۃ*.یعنی خبر محض حجت بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی اب ایک صورت ہے شوہر کا حلف اٹھانا
تلخیص فتاوی رضویہ میں ہے کہ شوہر کے حلف کے بعد عورت اسے جبرا واپس دلائی جائے گی (تلخیص فتاوی رضویہ جلد چہارم ص 50)
حضور بحر العلوم حضرت علامہ مولانا مفتی عبد المنان اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔
چونکہ عورت اپنے بیان میں اکیلی ہے ( یعنی شرعی گواہ پیش نہ کرنے کی وجہ سے ) تو شوہر کے انکار کی صورت میں طلاق کا ثبوت نہ ہوسکے گا ۔اور وہ کسی دوسری جگہ شادی نہ کرسکے گی (فتاویٰ بحر العلوم جلد سوم ص 233)
کیونکہ طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہے حدیث شریف میں ہے:
الطلاق لمن اخذ بالساق
یعنی جس نے پوری ذمہ داری ہر بات کی لی ہے اسی کو طلاق کا اختیار ہے ۔ اور جب شوہر انکار ہی کررہا ہے تو اس کی بات پر یقین کرنا ہوگا اور طلاق کا ثبوت نہ ہوسکے گا
لیکن اگر زید واقعی میں طلاق دے چکاہےاور اب وہ انکار کررہا ہے تو انکار کرنا اللہ عزوجل کے یہاں زید کو کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ وہ زانی ہوگا اور سخت عذاب میں مبتلا ہوگا
قال اللہ تعالیٰ فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ(پ:2:134)
یعنی اور طلاق دے کرشوہر کا انکار کرنا خدائے تعالیٰ کے یہاں کچھ فائدہ نہ دے گا بلکہ وہ زانی ہوگا اور سخت عذاب میں مبتلا ہوگا
جو اولاد ہوگی ولد الزنا ہوگی ہاں دنیا میں بیوی تو مل جائے گی لیکن آخرت میں سخت عذاب کا مستحق ہوگا اس لئے جھوٹی قسم نہ کھائے وہ اس کے علاؤہ دوسری شادی کرسکتا ہے
اور اگر عورت کو یقین ہے کہ میرا شوہر مجھے واقع میں طلاق دے چکا ہے یقین کامل ہو صرف شک یا جھوٹ یا خبر محض نہ ہو بلکہ یقین کامل ہو کہ اصول فقہ
الیقین لایزول بالشک
یعنی یقین شک سے زائل نہیں ہوگا اس لئے پختہ یقین کامل ہے کہ میرا دولہا تین طلاق دے دیا ہے تو اس سے ہر ممکن اعتبار سے علیحدگی اختیار کریں
تو جس طرح ممکن ہو پیسہ وغیرہ دے کر یا دین مہر معاف کرکے یا مال دے کر یعنی کسی طرح اس سے رہائی حاصل کرلے اگر نہیں مانتا ہے تو پھر اپنے آپ کو اس پر قابو نہ دے اس سے کوئی رغبت نہ رکھے اپنی خواہش سے اس کے ساتھ میاں بیوی جیسا تعلق قائم نہ رکھے پس بیوی اگر رغبت نہ رکھے اپنی خواہش سے اس کے پاس نہ جائے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہجس طرح بن پڑے اس کے پاس سے بھاگے اور اسے اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو کبھی اپنی خواہش سے اس کے ساتھ زن و شوہر کا برتاؤ نہ کرے نہ اس کے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو پھر وبال اس پر ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا (تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 56)
تو جس طرح ممکن ہو پیسہ وغیرہ دے کر یا دین مہر معاف کرکے یا مال دے کر یعنی کسی طرح اس سے رہائی حاصل کرلے اگر نہیں مانتا ہے تو پھر اپنے آپ کو اس پر قابو نہ دے اس سے کوئی رغبت نہ رکھے اپنی خواہش سے اس کے ساتھ میاں بیوی جیسا تعلق قائم نہ رکھے پس بیوی اگر رغبت نہ رکھے اپنی خواہش سے اس کے پاس نہ جائے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہجس طرح بن پڑے اس کے پاس سے بھاگے اور اسے اپنے اوپر قابو نہ دے اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو کبھی اپنی خواہش سے اس کے ساتھ زن و شوہر کا برتاؤ نہ کرے نہ اس کے مجبور کرنے پر اس سے راضی ہو پھر وبال اس پر ہے لا یکلف اللہ نفسا الا وسعھا (تلخیص فتاویٰ رضویہ جلد چہارم ص 56)
اگر طلاق کے لئے پنچایت بیٹھی ہے تو پنچ صاحبان اپنے اثر و رسوخ سے زید کو خدا کے عذاب سے ڈرائے اور اس سے اس طرح قسم کھلائے کہ وہ خدا کے ڈر سے صحیح بات قبول کرلے
اگر واقعی میں زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی پھر بہانا بناتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی تو اسے خدا تعالیٰ سے خوف کرنا چاہئے کہ اس صورت میں اسے بیوی کو رکھنا حرام اور اشد حرام اور زنائے محض ہے ۔دونوں کا علیحدہ ہونا فرض ولازم ہے
اور پنچایت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ زید نے طلاق دی مگر محض نفسانیت کی خواہش پر انکار کردیا ہے تو اس کا سماجک بائیکاٹ کردیا جائے کیونکہ وہ فاسق و فاجر ہے تاکہ وہ حق بولنے پر مجبور ہوجائے
(1) اس کی صحبت سے دور رہیں
کیونکہ حکم ہے کہ
لاتصاحب الامومنا ای کاملا
یعنی مومن کامل کی ہی صحبت اختیار کرو
ا(2)اور ایسے فاسق کو سلام وکلام بند کردیا جائے کہ درمختار جلد پنجم ص 294 میں ہے
یکرہ السلام علی الفاسق لو معلنا
یعنی فاسق معلن کو سلام کرنا مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے
(3)فاسق کی دعوت قبول نہ کرے
عالمگیری جلد پنجم ص 518 میں ہے
لایجیب دعوۃ الفاسق المعلن لیعلم انہ غیر راضی بفسقہ
اگر واقعی میں زید نے اپنی بیوی کو تین طلاق دی پھر بہانا بناتا ہے کہ میں نے طلاق نہیں دی تو اسے خدا تعالیٰ سے خوف کرنا چاہئے کہ اس صورت میں اسے بیوی کو رکھنا حرام اور اشد حرام اور زنائے محض ہے ۔دونوں کا علیحدہ ہونا فرض ولازم ہے
اور پنچایت میں یہ بات ثابت ہوگئی کہ زید نے طلاق دی مگر محض نفسانیت کی خواہش پر انکار کردیا ہے تو اس کا سماجک بائیکاٹ کردیا جائے کیونکہ وہ فاسق و فاجر ہے تاکہ وہ حق بولنے پر مجبور ہوجائے
(1) اس کی صحبت سے دور رہیں
کیونکہ حکم ہے کہ
لاتصاحب الامومنا ای کاملا
یعنی مومن کامل کی ہی صحبت اختیار کرو
ا(2)اور ایسے فاسق کو سلام وکلام بند کردیا جائے کہ درمختار جلد پنجم ص 294 میں ہے
یکرہ السلام علی الفاسق لو معلنا
یعنی فاسق معلن کو سلام کرنا مکروہ یعنی مکروہ تحریمی ہے
(3)فاسق کی دعوت قبول نہ کرے
عالمگیری جلد پنجم ص 518 میں ہے
لایجیب دعوۃ الفاسق المعلن لیعلم انہ غیر راضی بفسقہ
یعنی فاسق کی دعوت قبول نہ کی جائے تاکہ وہ جان لے کہ آپ اس کے فسق سے خوش نہیں ہیں
(4)اور فاسق کی اہانت واجب ہے وہ قابل تعظیم وعزت نہیں ہے ۔
ردالمحتار میں ہے
وقد وجب اھانتہ شرعا
(4)اور فاسق کی اہانت واجب ہے وہ قابل تعظیم وعزت نہیں ہے ۔
ردالمحتار میں ہے
وقد وجب اھانتہ شرعا
یعنی فاسق کی اہانت واجب ہے
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری
مرپاوی سیتا مڑھی صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
21 ذوالقعدہ 1444۔ 11 جون 2023
ــــــــــــــــــــــ❣⚜❣ـــــــــــــــــــــ
ترسیل:-
محمد محب اللہ خان صاحب بانی مفتی اعظم بہار
ایجوکیشنل ٹرسٹ آزاد چوک سیتا مڑھی بہار