Type Here to Get Search Results !

اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈولو کی صحیح تفسیر اور ہند میں گستاخ رسول کا قتل کرنا کیسا ہے ؟


اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈولو کی صحیح تفسیر 
اور ہند میں گستاخ رسول کا قتل کرنا کیسا ہے ؟
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
  •┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
وانفقوا فی سبیل اللہ ولا تلقوا بایدیکم الی التھلکہ۔
اللہ کہ راہ میں خرچ کرو اور اپنے اپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو
اس آیت مبارکہ کا مفہوم بہت وسیع ہے، اور اس خیت سے ہزاروں مسائل حل ہوۓ ہیں اور ہوتے رہیں گے،،۔ لیکن اس ایت کو گستاخ کو قتل نہ کرنے پر فٹ کرنا تحریف ہے،، کیوں کہ یہ آیت خود مسلمانوں کو اللہ و رسول کے دشموں گستاخوں کفاروں سے لڑنے کا حکم دیں رہی ہے، اس آیت کی تفسیر یہ ہے جو بزرگوں نے کی ہے کہ جہاد کو ترک کرنا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا کہا گیا ہے ،نہ کہ یہ جو اج کل کے کچھ لوگوں نے اس ایت کا نقشہ ہی بدل دیا، اور قتل حربی کو بھی ناجائز بلکہ گناہ قرار دیں رہے ہیں،، فقط اس لیے کہ اگر یہ ایسا کرتا ہے تو یہ قتل کردیا جاۓ گا کہ حکومت اسے یقینی ہلاک کردے گی چونکہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے سب کچھ انہی کا ہے اس کا یہ فعل اس لیے ناجائز ہے، 
حالانکہ یہ انکی بہت بڑی غلطی ہے۔
چونکہ دور صحابہ میں بھی بعض لوگوں نے یہی خیال کیا ہوا تھا، کہ کفار کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہ اکیلا ان سے لڑے تو کیا یہ اپنی جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالنا ہوگا،، تو اس کا جواب حضرت ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے دیا تھا۔
 ہم اس آیات کا مطلب انہیں سے سمجھتے ہیں جن کے موجودگی میں یہ آیت نازل ہوئی ہے، اور اس ایات کو وہ آج کے ان لوگوں سے زیادہ سمجھنے اور علم والے تھے،،مراد صحابہ کرام ہے،
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ , أَخْبَرَنَا النَّضْرُ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ سُلَيْمَانَ , قَالَ : سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ , عَنْ حُذَيْفَةَ , وَأَنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ سورة البقرة آية 195 , قَالَ : نَزَلَتْ فِي النَّفَقَةِ .
 اور اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔“ اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ 
صحیح بخاری 4516
جس آیت سے گستاخ رسول کافر حربی کے قتل کو ناجائز کہا جا رہا ہے ،حضرت حزیفہ فرما رہے ہیں،، اس آیت کا مطلب ہے۔ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے رہنے کے بارے میں نازل ہوئی۔ اور ہلاکت اس طور پر ہے جہاد کو ترک کردینا اور اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنا۔ابو عمران کہتے ہیں ،ہم روم شہر میں تھے، رومیوں کی ایک بڑی جماعت ہم پر حملہ آور ہونے کے لیے نکلی تو مسلمان بھی انہی جیسی بلکہ ان سے بھی زیادہ تعداد میں ان کے مقابلے میں نکلے، عقبہ بن عامر رضی الله عنہ اہل مصر کے گورنر تھے اور فضالہ بن عبید رضی الله عنہ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ایک مسلمان رومی صف پر حملہ آور ہو گیا اور اتنا زبردست حملہ کیا کہ ان کے اندر گھس گیا۔ لوگ چیخ پڑے، کہنے لگے: سبحان اللہ! اللہ پاک و برتر ہے اس نے تو خود ہی اپنے آپ کو ہلاکت میں جھونک دیا ہے۔ ( یہ سن کر ) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ کھڑے ہوئے اور کہا: لوگو! تم اس آیت کی یہ تاویل کرتے ہو، یہ آیت تو ہم انصار کے بارے میں اتری ہے، جب اللہ نے اسلام کو طاقت بخشی اور اس کے مددگار بڑھ گئے تو ہم میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چھپا کر رازداری سے آپس میں کہا کہ ہمارے مال برباد ہو گئے ہیں ( یعنی ہماری کھیتی باڑیاں تباہ ہو گئی ہیں ) اللہ نے اسلام کو قوت و طاقت بخش دی۔ اس کے ( حمایتی ) و مددگار بڑھ گئے، اب اگر ہم اپنے کاروبار اور کھیتی باڑی کی طرف متوجہ ہو جاتے تو جو نقصان ہو گیا ہے اس کمی کو پورا کر لیتے، چنانچہ ہم میں سے جن لوگوں نے یہ بات کہی تھی اس کے رد میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر یہ آیت نازل فرمائی۔ اللہ نے فرمایا:
وأنفقوا في سبيل الله ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة ”اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہاتھوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو“ ( البقرہ: ۱۹۵ ) ، تو ہلاکت یہ تھی کہ مالی حالت کو سدھار نے کی جدوجہد میں لگا جائے، اور جہاد کو چھوڑ دیا جائے ( یہی وجہ تھی کہ ) ابوایوب انصاری رضی الله عنہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کی ایک علامت و ہدف کی حیثیت اختیار کر گئے تھے یہاں تک کہ سر زمین روم میں مدفون ہوئے۔
(ترمذی 2972)
یہ روایت ابوداؤد 2512 پر بھی ہے۔
قارئین کرام دیکھا آپ نے یہ شخص جب دشمنوں کی فوج میں گھس گیا تو اس وقت بھی کہنے لگے اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال لیا۔، تھیک اسی طرح جیسا کہ آج کچھ لوگ کہتے نظر آرہے ہیں، کہ گستاخ رسول کو ہلاک کرنا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،،، لیکن حضرت ایوب انصاری نے ان کا رد فرما دیا اور کہا ہلاکت یہ نہیں ہے جو یہ شخص اکیلا اتنی بڑی فوج میں گھس گیا ،،بلکہ ہلاکت تو یہ ہے اللہ کی راہ میں لڑنا ترک کردینا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ترک کردینا یہ ہلاکت ہے،،اور یہ آیت اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالوں اس کے رد میں نازل ہوئ کہ اللہ کی راہ میں لڑنا ترک کردینا اور خرچ نہ کرنا،،، اس حدیث مبارکہ سے یہ پوری طور پر صاف ہوجاتا ہے،، اللہ و رسول کے دشمنوں کو اگر کوئ ہلاک کرے ہر چند کے وہ اکیلا ہو ،اور وہ اس میں مارا بھی جاۓ تو یہ ہلاکت نہیں ہے، اور نہ ہی یہ ناجائز کام ہے،، کیوں کہ یہ اللہ و رسول کے دشمنوں کو ہلاک کرتے ہوۓ شہید ہوگیا ،،اور ہمیں حکم یہی ہے کہ ہم حربیوں کو ہلاک کرے انکا خون مباح ہے۔
اسی طرح کی ایک روایت تفسیر ابن مردویہ میں ہے کہ
قسطنطنیہ کی لڑائی کے وقت مصریوں کے سردار حضرت عقبہ بن عامر تھے اور شامیوں کے سردار یزید بن فضالہ بن عبید تھے، حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر میں اکیلا تنہا دشمن کی صف میں گھس جاؤں اور وہاں گھر جاؤں اور قتل کر دیا جاؤں تو کیا اس آیت کے مطابق میں اپنی جان کو آپ ہی ہلاک کرنے والا بنوں گا؟
آپ نے جواب دیا نہیں نہیں اللہ تعالٰی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتا ہے آیت (فقاتل فی سبیل اللہ لاتکلف الا نفسک) اے نبی اللہ کی راہ میں لڑتے رہے اپ اپنی جان کے مکلف یے مالک ہے اسی کو تکلیف دیں۔
فقاتل فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک۔
یعنی ائ نبی آپ اللہ کی راہ میں لڑتے رہیں آپ اپنی جان کے مالک ہے آپکو آپ کی ذات کا مکلف کیا گیا ہے،،، کے تحت تفسیر تبیان القران میں ہے:
اس ایت میں اللہ نے آپ کو جہاد کا حکم دیا ہے خواہ آپ کو تنہا کافروں سے جہاد کرنے کے لیے جانا پڑے۔ کچھ لوگ اس دور میں بھی جہاد سے روکا کرتے تھے منع کرتے تھے،، اس ایت میں فرمایا آپ لوگوں کے منع کرنے کی طرف توجہ نہ فرماۓ اپ خود اکیلے اللہ کی راہ میں لڑے،،،اب وہ لوگ بتاۓ جو اس بات کا رونا رو رہے ہیں کافر کو مارنے میں،، کہ اللہ کسی کی تاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا اور ،،گستاخ کو مارنا خود ہلاکت میں ڈالنا ہے،،وہ بتاۓ ذرا اس ایت میں تنہا جہاد کا مکلف نبی کو فرمایا ہے، کہ اپ اپنی جان کے مالک ہے اپ خود تنہا جہاد کرے لوگوں کے منع کرنے پر توجہ نہ دیں،، تو کیا اس ایات میں تنہا نبی کو اس کا مکلف قرار دینا نبی کی تاقت سے زیادہ بوجھ ڈالا گیا کہ آپ ہزاروں لاکھوں کفاروں سے لڑے اگرچہ آپ کو تنہا لڑنا پڑے،،اور کیا اس آیت میں نبی پاک کو ہلاکت میں ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے،،کہ جب کوئ ہزاروں سے لڑیگا تو یقینی طور پر قتل کردیا جاۓ گا،،،
اس کا جواب ہم ہنی لوگوں پر چھوڑتے ہیں جو اس بات کا رونا رو رہے ہیں، کہ تاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالا جاتا،،اور ہلاکت میں ڈالنا ہے خود کو نیز اوپر جو ہم نے ذکر کیا قسطنطنیہ کی لڑائ کے وقت براء بن عازب رضی اللہ سے سوال کیا ، اگر میں اکیلا دشمن کی فوج میں گھس جاؤ اور گھر جاؤ تو کیا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہوں گا، تو آپ نے فرمایا نہیں ہر گز نہیں اور یہ آیت پڑھی
 فقال فی سبیل اللہ لا تکلف الا نفسک۔
اور کہا تم اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والے نہیں ہوں گے بلکہ جان ہلاکت میں ڈالنے والا تو وہ انسان ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے رک جاۓ،، اب بتاۓ وہ لوگ جو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے سے وہ جو جان جانا مراد لے رہے ہیں، وہ کیا کہیں گے۔۔، حضرت ایوب انصاری اور حضرت براء بن عازب کے بارے میں، نیر اوپر بخاری کی راویت بھی ذکر کی ہے ہمیں مال نہ خرچ کرنا اللہ کی راہ میں یہ جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے، وہ لوگ بتاۓ مال نہ خرچ کرنے سے کیا جان چلی جاتی ہے اگر مال خرچ کرنے سے جان نہیں جاتی ہے تو پھر یہ مال کو خرچ نہ کرنا کیوں جان میں ہلاکت ڈالنا کہا گیا،،جبکہ انسان کے پاس مال ہو تو وہ زندگی آسانی سے گزار سکتا ہے، فکرات میں کم گھرے گا، ضروریات کو پورا کریگا،،مال جمع کرنے میں تو اس کے لیے اسانی ہے، تو کیوں خرچ نہ کرنے کو جان ہلاکت میں ڈالنا کہا گیا،، سیدھی اور اسان سی بات یہ ہے مال نہ خرچ کرنے میں اللہ کی نہ فرمانی لازم آتی ہے جو کی ہلاکت کا سبب ہے،، اس لیے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کرنے کو ہلاکت کہا گیا،،، جب کہ گستاخ رسول کو قتل کرنا تو خود حدیثوں سے ثابت ہے۔
 اور کافر حربی کو تو خود حدیث اور قران میں قتل کرنے کا حکم دیا گیا ،، تو اس پر عمل کرتے ہوۓ اگر کوئ ہلاک بھی ہوجاتا ہے،۔ تو اس نے اپنی جان کو در حقیقت ہلاکت میں ڈالا ہی نہیں بلکہ اللہ و رسول کے حکم پر عمل کیا، جس پر اجر و ثواب ہے۔،،
اس ایت سے فقط یہ مراد لینا کہ مسلمان یقینی قتل کردیا جاۓ گا اور یہ آیت جبکہ جہاد نہ کرنے اور مال اللہ کی راہ میں نہ خرچ کرنے کے متعلق نازل ہوئ ہے، اس ایت کو اللہ و رسول کے دشمنوں کو کوئ قتل کرے، اس کو اس جگہ فٹ کردینا کہاں کا انصاف ہے،، بلکہ ہلاکت میں ڈالنا تو یہ بھی ہے
 آدمی کا گناہوں پر گناہ کئے چلے جانا اور توبہ نہ کرنا یہ اپنے ہاتھوں اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے، اس میں تو جان نہیں جاتی پھر بھی یہ ہلاکت ہے، ،زنا کرنا شراب پینا نماز ترک کرنا جو احکام ہم پر فرض ہوۓ ہیں اس کو ادا نہ کرنا یہ بھی تو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے،
جب کہ انسان کو گناہ میں لذت ملتی ہے اس میں تو جان نہیں جاتی،، لیکن یہ پھر بھی ہلاکت ہے۔ تفسیرابن ابی حاتم میں ہے کہ مسلمانوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اور ازدشنوہ کے قبیلہ کا ایک آدمی جرات کر کے دشمنوں میں گھس گیا ان کی صفیں چیرتا پھاڑتا اندر چلا گیا لوگوں نے اسے برا جانا اور حضرت عمرو بن عاص کے پاس یہ شکایت کی چنانچہ حضرت عمرو نے انہیں بلا لیا اور فرمایا قرآن میں ہے اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالو ۔ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں لڑائی میں اس طرح کی بہادری کرنا ،،اپنی جان کو بربادی میں ڈالنا نہیں بلکہ اللہ کی راہ میں مال خرچ نہ کرنا ہلاکت میں پڑنا ہے ،، اس روایت سے یہ بات سمنے آتی ہے حضرت عمرو نے لڑائی میں تنہا اتنے لوگوں سے لڑنا جان کو ہلاکت میں ڈالنا سمجھا،، لیکن حضرت ابن عباس نے ان کا رد فرمادیا اور کہا، بہادری سے لڑنا تنہاڑنا 
یہ ہلاکت نہیں بلکہ مال نہ خرچ اللہ کی راہ میں یہ ہلاکت ہے، اب بتاۓ گستاخ کو جہنم میں پہنچانا بہادری ہے یا بزدلی دلیری ہے کمزوری،، ظاہر سی بات ہے اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوۓ، گستاخ کو قتل کر ڈالنا بہادری کا کام ہے،،کمزوری ان لوگوں کے لیے ہے جو ناموس رسالت کے مسئلہ معاذ اللہ کمزور بنانا چاہتے ہیں،، جو لوگ یہ بول رہے ہیں گستاخ رسول کو قتل کروں سر تن سے جدا کا نعرہ لگانا بھی حرام ہے،، اور یہ کہنے والے کوئ عام لوگ نہیں ہے،،تو ایسے لوگ ضرور بزدل ہیں اور کل قیامت میں بیت سخت انکی اس پر پکڑ کی جاۓ گی
کہ جو اب اس نعرہ تک کو حرام قرار دیں رہے ہیں معاذ اللہ،،۔
 مفسرین فرماتے ہیں کہ گناہ ہو جائیں پھر بخشش سے ناامید ہو کر گناہوں میں مشغول ہو جانا اپنے ہاتھوں ہلاک ہونا ہے ، تہلکۃ سے مراد اللہ کا عذاب بھی بیان کیا گیا ہے ، قرطبی وغیرہ سے روایت ہے کہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں جاتے تھے اور اپنے ساتھ کچھ خرچ نہیں لے جاتے تھے اب یا تو وہ بھوکے مریں یا ان کا بوجھ دوسروں پر پڑے تو ان سے اس آیت میں فرمایا جاتا ہے کہ اللہ نے جو تمہیں دیا ہے اسے اس کی راہ کے کاموں میں لگاؤ اور اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو کہ بھوک پیاس سے یا پیدل چل چل کر مر جاؤ 
اس سے پہلی آیت میں قتال فی سبیل اللہ کا حکم ہے، یہ آیت بھی اسی حکم کی تکمیل ہے، یعنی جہاد میں اور اس کی تیاری میں خرچ کرتے رہو اور اس میں کوتاہی کر کے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو، کیونکہ اس صورت میں کفار تم پر غالب آجائیں گے، جو سراسر ہلاکت ہے
 ایک یہ تفسیر کی گئی ہے کہ نیک کاموں سے مت رکو کہ کہیں تم ہلاکت میں نہ پڑجاؤ یعنی رحمت خداوندی سے مایوس نہ ہو کر پھر ہلاکت میں گرفتار ہوجاؤ، اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو، 
 جس وقت اللہ کے دین کو روپے پیسے کی ضرورت ہو اس وقت جو لوگ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی سے جی چراتے ہیں وہ اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں ہلاکت میں ڈالتے ہیں۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے۔ غزوۂ تبوک کے موقع پر عام اپیل کی اور اس وقت جن لوگوں نے اپنے مال کو پیش نہ کیا ، انہوں نے اپنے کو ہلاکت میں ڈالا،،
نیز نبی علیہ السلام نے فرمایا طاعون سے نہ بھاگو طاعون سے بھاگنا جہاد سے بھاگنے والے کی مثل ہے،، مجھے ذرا بتاۓ اب طاعون اگر پھیل جاۓ تو اس سے بھاگنے کا حکم نہیں ہے،، لیکن اگر وہ وہاں سے اگر بھاگ جاۓ تو ممکن ہے اس کی جان بچ جاۓ،،تو کیا نبی علیہ السلام نے معاذ اللہ طاعون سے نہ بھاگو فرماکر لوگوں کی جان کو ہلاکت میں ڈال دیا،، کہ وہ نہ بھاگے اور مر جائیں تو کیا وہ اپنی جان کو ہلاکت میں دالنے ہوں گے،، ہرگز نہیں واللہ ہر گز ایسا نہیں ہے،، بلکہ جو نہ بھاگا اور مرگیا تو شہید ہے حدیث میں فرمایا گیا،، تو پتہ چلا صرف اپنی جان بچالیا زندہ وہاں سے بھاگ کر آجانے پر یہ صادق نہیں آتا کہ اس نے اپنی جان بچا لی کہ وہاں سے چلا آیا اور اپنی جان کو ہلاکت میں نہ ڈالا،،بلکہ طاعون سے نہ بھاگنا اگرچہ وہ وہاں مر جاۓ، تو یہ اپنے کو ہلاکت میں نہ ڈالنا کہلاۓ گا،، یعنی جو بھاگ کر ایا اس نے اپنی جان ہلاکت میں ڈالی اگرچہ زندہ بچا رہا ہو،، اور جو وہی رہ کر طاعون میں مر گیا بھاگا نہیں،، تو اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالا اگرچہ یہ مر گیا ہو وہاں،، وہ اسلیے کہ اس نے اللہ و رسول کا حکم مانا کہ وہ وہاں سے بھاگا نہیں ، اس لیے اس نے جان کو ہلاکت میں نہیں ڈالا،،اور جو بھاگ کر آیا اس نے اللہ و رسول کی نافرمانی کی جو کہ ہلاکت کا سبب ہے،، تو پتہ چلا زندہ رہنے والا بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہوا ،،اور جو نہ بھاگا وہ مرکر بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہوا کیوں کہ اس نے اللہ و رسول کا حکم مانا تھیک اسی طرح کہ کفار گستاخ کو ہمیں قتل کرنے کا حکم ہے کہ وہ اللہ و رسول کے دشمن ہیں
 اگر کسی نے قتل کردیا تو اس نے گستاخ کافر کو قتل کیا ، اور اس قتل میں وہ مارا گیا ،تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہوگا
طاعون سے بھاگنے والا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالتا ہے اگرچہ وہ زندہ بچ جاۓ،، کوئ یہ نہ سمجھے یہ فقط ہماری تحقیق یا راۓ ہے بلکہ خود امام اہلسنت
 فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں:
جان کوہلاکت میں ڈالنا 
کیا ہے محمد الرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے احکام کو نہ ماننا،ورنہ یہ آیت تحریم جہاد کے لئے عمدہ دستاویز ہوجائے گی،جو تہبلکہ چمکتی تلواروں اور برستے تیروں اور توپ کے متواتر گولوں کے سامنے ہے طاعون میں اس کا عشرعشیر بھی نہیں تو جہاد اکبر سے زائد حرام ہوگا اور جہاد سے بھاگنا فرض، حالانکہ قرآن نے اس کا عکس فرمایا ہے قرآن عظیم ترك جہاد وفرارعن الجہاد ہی کوتہلکہ فرماتا ہے جسے یہ عبدۃ الہوی ہلاك سمجھیں وہ نجات ہے اور جسے نجات سمجھ رہے ہیں وہ ہلاك ہے۔ابوایوب انصاری رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں:"ایت کریمہ لاتلقوا"ہم انصار میں اتری کہ جب دین متین کو ﷲ عزوجل نے عزت بخشی اور اسلام پھیل گیا ہم نے کہا اب جہاد کی کیا ضرورت ہے اب خانگی امور جو اتنے روزوں سے خراب پڑے ہیں بنالیں اس پرارشاد ہوا:
وانفقوا فی سبیل ﷲ ولاتلقوا بایدیکم الی التھلکۃ
اپنی جان اور مال جہاد میں خرچ کرو اور ترك جہاد کرکے اپنے ہاتھوں ہلاکت میں نہ پڑو۔
معالم شریف میں ہے:
فالتھلکۃ الاقامۃ فی الاھل والمال وترك الجھاد
"التہلکہ"اہل ومال سے وابستہ رہنا اور جہاد کے لئے نہ نکلنا ہے۔
امام اجل احمدبن حنبل مسند میں 
 جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت کرتے ہیں
 رسول ﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
الفار من الطاعون کالفارمن الزحف
طاعون سے بھاگنے والا ایساہے جیسے جہاد سے بھاگنے والا
ومن صبرفیہ کان لہ اجر شھید
اور جو اس میں صبر کئے بیٹھا رہے اس کے لئے شہید کا ثواب ہے۔
اور جہاد سے بھاگنے والے کو ﷲ عزوجل فرماتاہے:
" فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللہِ وَمَاۡوٰىہُ جَہَنَّمُ ؕ وَبِئْسَ الْمَصِیۡرُ۔، 
وہ بیشك ﷲ کے غضب میں پڑا اور اس کا ٹھکانا جہنم ہے اور کیا بری بازگشت ہے۔،۔
توثابت ہوا کہ طاعون سے بھاگنے والا ﷲ کے غضب میں جاتاہے اورجہنم اس کا ٹھکاناہے اسی کوفرمایا کہ:
 وَلَا تُلْقُوۡا بِاَیۡدِیۡکُمْ اِلَی التَّہۡلُکَۃِۚۖۛ 
اپنے ہاتھوں ہلاکت وغضب خدا اور استحقاق جہنم میں نہ پڑو۔۔
اب بتائیے کہ طاعون سے بھاگنا"تہلکہ"ہے یا اپنے رب عزوجل پرتوکل کرکے صابر ومقیم رہنا۔
ﷲ تعالٰی توفیق دے کہ احکام محمد الرسول ﷲ صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم کو اپنے ہوائے نفس سے رد نہ کیا جائے 
 ولاحول ولاقوۃ الاباﷲ العلی العظیم
فتاوی رضویہ جلد 24 صفحہ 191،،
امام اہلسنت کی ان عبارات سے ثابت ہوگیا ،،زندہ بھاگر بچنے والا اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا ہے ،اور جو صبر کر کے مر جاۓ تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہے۔۔، تھیک اسی طرح جو کافر گستاخ کو مارکر اگر مارا جاۓ تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں ہے۔ چوں کہ اس کافر کو مارنے کا حکم تو ہمیں خود نبی علیہ السلام نے دیا ہے، کہ جو نبی کی شان میں گستاخی کرے اسے قتل کردو۔، اسلیے بہت سے صحابہ نے خود گستاخوں کو قتل کیا ہے اور اس قتل کی نبی پاک سے اجازت تک نہ لی،، لیکن جب خبر نبی کریم کو پہنچی تو فرمایا،،اس کا خون مباح ہے، یعنی گستاخ کے قتل پر اور صاحبی کی اس فعل پر تعریف فرمائی 
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتیں ہیں ایک اندھے کی لونڈی تھی جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر سب و شتم اور توہین کیا کرتی تھی، اس نے ایسا کرنے سے منع کیا، لیکن وہ باز نہ آتی، راوی کہتے ہیں، ایک رات جب وہ نبی علیہ السلام کی توہین کرنے لگی سب و شتم کیا تو اس اندھے نے خنجر اس کے پیٹ پر رکھا اور وزن ڈال دیا اسکی تانگوں کے پاس بچہ گر گیا، وہاں بستر پر خون ہی خون ہو گیا،، صبح کو اس کا ذکر نبی علیہ السلام سے کیا گیا، اور لوگ جمع ہو گۓ، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا،۔ میں اس شخص کو یہ قسم دیتا ہوں جس نے بھی یہ کام کیا ہے اس پر میرا حق ہے، یعنی وہ لونڈی ذمی تھی اس کا بدلا لینا ہے۔
وہ کھڑا ہوجاۓ تو وہ نابینا شخص کھڑا ہوگیا ، اور کہنے لگا یا رسول اللہ یہ لونڈی اپکی توہین کیا کرتی سب و شتم کرتی تھی، میں اس کو روکتا تو باز نہ آتی یہ باز نہ آئ تو میں نے اس کا قتل کردیا ، تو نبی علیہ السلام نے فرمایا خبر دار گواہ ہوجاؤ اس کا خون رائگاں ہے اس کی کوئ قدر قیمت نہیں،،،سنن ابو داؤد حدیث 4361، ،۔
 یہاں قابل فہم ایک بات یہ ہے، جس کا قتل کیا گیا وہ ایک ذمی تھی ، اس کے بعد بھی اس کو قتل کردیا گیا،،مزید یہ کہ نہ تو قتل کی اجازت حاکم اسلام یعنی نبی علیہ السلام سے لی اور نہ ہی وہ خود حاکم تھے بلکہ خود اس کا قتل کردیا،۔ اب سوال یہ ہوتا ہے ایک تو حاکم کی اجازت نہیں لی اور دوسرا یہ کہ وہ ذمی تھی ،تیسرا یہ کے وہ خود حاکم بھی نہیں تھے،، اب ایا کہ اس کا قتل جو کیا یہ جائز ہے یا نہیں، اس کا جواب میں بعد میں دوںگا پہلے مزید روایت ذکر کرتا ہوں،،جو کہ بلا حاکم اسلام کی اجازت کے بغیر قتل پر دلالت کرتی ہیں۔۔
اسی کی شاہد وہ روایت ہے جو شعبی سے مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں، کہ حضرت علی نے بیان کیا ،۔ ایک یہودی عورت نبی علیہ السلام کی توہین کیا کرتی تھی اور اپ پر سب شتم کرتی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا حتی کہ وہ مر گئ تو نبی علیہ السلام نے اس کا خون باطل قرار دیا،، یعنی جو مری ہے اس کے خون کی کوئ قدر نہیں، سنن ابو داؤد حدیث 4362
اس روایت میں بھی حاکم اسلام یعنی نبی علیہ السلام سے اجازت نہیں لی گئ ہے،۔ اسی طرح ایک وہ روایت ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نبی علیہ السلام کی اجازت کے بغیر منافق کا قتل کردیا تھا،، اس میں بھی قتل کی اجازت نہیں لی گئ ،،۔
اسی طرح عمیر بن عدی رضی اللہ نے اس عورت کو قتل کیا جو نبی علیہ السلام کی گستاخی کرتی تھی،،اور جب نبی علیہ السلام کو اس بات کی خبر ملی تو فرمایا اگر تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہو جس نے اللہ و رسول کی غیبی مدد کی ہے وہ عمیر رضی اللہ عنہ کو دیکھ لے،، جب حضرت عمیر واپس اۓ تو اس عورت کے بیٹے اور اس کے ساتھ ایک جماعت تھی گھیر گھیر لیا اور کہا، عمیر یہ کام تم نے کیا ہے ،حضرت عمیر نے فرمایا ہاں یہ میں نے کیا ہے تم کو جو کرنا ہے میرا کرلو اور مجھے ڈھیل نہ دو ،،اگر تم سب بھی گستاخی کروگے تو میں تم سب پر تلوار سے وار کروں گا یہاں تک کے میں مارا جاؤں یا تمہیں قتل کردوں گا اس دن سے اسلام بنی خطمہ میں پھیل گیا۔
حضرت عمیر کا جو واقعہ ذکر کیا میں نے یہ کئ کتب میں ہے کہیں شورٹ میں ذکر ہے اور کہیں تفصیل سے لیکن اس کو میں نے فتاویٰ رضویہ جلد 9 صفحہ 259 سے نقل کیا ہے،،۔
اس کے علاوہ گستاخ کے قتل پر کئ واقعات ہے،، سوال یہ پیدا ہوتا ہے گستاخوں کو نبی علیہ السلام نے خود قتل نہیں کیا اور نہ ہی قتل کرنے والوں کو حکم دیا،، حتی کی ذمی کو بھی قتل کیا گیا،، تو کیا یہ قتل کرنا ان کو ناجائز تھا اور حاکم اسلام موجود تھے انکی اجازت بھی نہ لی قتل کردیا ،اور نہ ہی وہ خود قاضی تھے،، ان سب روایت میں اس طرح تطبیق دی جاۓ گی،،
ذمی جب گستاخی کرتا ہے تو اس کا حکم مرتد والا ہو جاتا ہے،، اور مرتد کا خون مباح ہے،،ساتھ ہی یہ معلوم ہوا کہ گستاخ کا قتل نبی علیہ السلام کی موجودگی میں کیا گیا، اور نبی علیہ السلام نے اس پر نکیر نہیں فرمائ،،اور یہ بات اپ کو معلوم ہے جب صحابی کوئ کام کرے اور نبی اسپر نکیر نہ فرماۓ تو وہ کام جائز ہونے کی دلیل ہوتا ہے،، لہذا مرتد گستاخ بلا حاکم کی اجازت کے قتل کرنا جائز ہوا،، اور وہ اس لیے کہ اس کا خون مباح ہے،،، رہا یہ کہ حد لگانا حاکم کا کام ہے اور یہاں تو قتل صحابہ نے ہی کردیا حاکم نے حد لگائ نہیں،، تو اس کا جواب یہ ہے،، بیشک حد لگانا حاکم کا کام ہے لیکن اگر کوئ مرتد کو حاکم کی اجازت کے بغیر قتل کردے تو یہ قتل تو جائز ہے ، لیکن اس نے حاکم کے کام میں دخل اندازی کی ہے حاکم چاہے تو اس کو معاف فرما دیں اس دخل اندازی کرنے میں:
اس سے ان لوگوں کا بھی اعتراض ختم ہوجاتا ہے جو کہتے ہیں حاکم کے علاوہ کوئ قتل نہیں کر سکتا صرف حاکم کو ہی حق ہے ،،اس کی تائد میں فقہ کی کتب و فتاوی سے بھی کردیتا ہوں،،، اول تو یہ بات سب کو معلوم ہی ہے حد لگانا صرف حاکم کا کام ہے اس کے علاوہ کوئ عام حد نہیں لگا سکتا،،،جب یہ بات ثابت ہوگئ کہ حد صرف حاکم ہی لگاۓ گا تو اب سوال یہ بنتا ہے،،اگر کوئ حاکم کے لگانے سے پہلے اس کو قتل کردے تو یہ فعل کیسا ہے،، اوپر حدیث اور اصول کی روشنی میں جواب ہم دیں اۓ ہیں کی جائز ہے،، لیکن میں اپنی تائد کے لیے کچھ کتب فقہ و فتاوی کے نام ذکر کرتا ہوں،،جس میں جائز لکھا ہوا ہے،،میں یہاں ہر کتاب کی عبارت ذکر نہیں کروں گا ان کا نام ذکر کرتا ہوں جن کتب میں میں نے اس مسئلہ کو دیکھا ہے،،
 اور آجر میں 1 عبارت ذکر کردوں گا جن کو یہ عبارات دیکھنے کی خواہش ہو وہ ان کتب میں دیکھیں،،، 
باب مرتد کے احکام میں،،
1شامی 2 ادر مختار 3 ھدایہ 4 بنایہ 5 فتح القدیر 6 بحر الرائق 7 نہر الفائق 8 فتاوی عالمگیر 9 فتاوی بزازیہ،،۔
ان سب میں لکھا جائز لکھا ہے کراہت تنزیہ کے ساتھ۔،،
ھدایہ میں ہے
فان قتلہ قاتل قاتل قبل عرض الاسلام علیہ کرہ ولا شیء علی القاتل، و معنی الکراھیتہ ھاھنا ترک المستحب والنتفاء الضمان لان الکفر مبیح للقتل،،۔
اور فتح القدیر میں ہے 
فان قتلہ قاتل قبل عرض الاسلام علیہ،، او قطع عضوا منہ کرہ ذلک ولا شیء علی قاتل والقاطع لان الکفر مبیح و کل جنایتہ علی المرتد ھدر و معنی الکرھاتہ ھاھنا ترک المستحب فھی کراھتہ تنزیہ:
یعننی حاکم اسلام کے اسلام پیش کرنے سے پہلے کسی نے اس مرتد کو قتل کردیا یا کوئ عضو کاٹ دیا، تو اس پر کوئ حرج نہیں ہے کیوں کہ مرتد کا خون مباح ہے
ہاں مکروہ تنزیہ ہے جو کہ ترک مستحب ہے،،، اسی طرح باقی کتب میں بھی لکھا ہوا ہے،،لیکن شامی نے اور بعض نے کہا ہے اس قاتل کو تادیب کریں،، اب تادیب کا جو حکم دیا ہے وہ اس لیے نہیں کہ قتل کرنا ناجائز تھا،،بلکہ اس وجہ سے تادیب کا حکم دیا گیا ہے کہ حد لگانا حاکم کا کام ہے،، اور اس کے قتل کردینیں میں حاکم کے حق کو باطل کرنا لازم ایا جس وجہ سے تادیب کا حکم دیا گیا ، اب حاکم چاہے تو اس کو نصیحت کریں اور چاہیں ۔ تو معاف کردیں جیسا کہ اوپر ہم ذکر کر اۓ ہیں،،تو یہ جو بعض لوگ تادیب ہونے کہ وجہ سے رٹ لگاۓ ہوۓ ہے کہ قتل کیا اس وجہ تادیب ہے انکو سمجھنا چاہیے تادیب قتل کی وجہ سے نہیں بلکہ حق کے باطل ہونے کی وجہ سے ہے ،،اور ایک وجہ اور ہے وہ یہ ہے جن کے نزدیک مرتد پر اسلام پیش کرنا واجب ہے تو ان کے نزدیک اسلام پیش کردینے سے پہلے اگر کوئ قتل کریں تو یہ مکروہ تحریم ہے ،،لیکن ہم احناف کے یہاں اسلام پیش کرنا مستحب ہے جیسا کی مبسوط باب مرتد کے احکام میں ہے،، اسی وجہ سے تمام کتب میں مکروہ تنزیہ لکھا ہے کی اسلام پیش کرنے سے پہلے کوئ مرتد کو قتل کردیں تو کراہت تنزیہ ہے،،۔
امید ہے اب ان لوگوں کی سمجھ میں یہ مسئلہ آ جائیگا جو یہ کہتے نظر آرہے ہیں تادیب کی وجہ سے ناجائز ہے یا یہ کہ جو بھی الٹی سیدھی تاویل کرتیں نظر آرہے ہیں،، اور مسئلہ کو کتب فقہ سے سمجھنا نہیں چاہ رہے ہیں۔
جو لوگ یہ بول رہے ہیں اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے اس لیے ناجائز ہے ویسے تو اس کا جواب ہم اوپر تفصیل سے ذکر کر آۓ ہیں،،لیکن پھر بھی میں ان سے کچھ سوال کرتا ہوں ،،اور بات کو ختم کرتا ہوں،، اللہ کریں کہ دل میں اتر جاۓ میری بات:
در مختار اور دیگر کتب فقہ یہاں تک کہ بہار شریعت میں بھی یہ مسئلہ لکھا ہے۔
         کفر کرنے پر مجبور کیا گیا اور کفر نہ کیا اس وجہ سے قتل کر دیا گیا تو ثواب پائے گا اسی طرح نماز یا روزہ توڑنے یا نماز نہ پڑھنے یا روزہ نہ رکھنے پر مجبور کیا گیا یا حرم میں شکار کرنے یا حالت احرام میں شکار کرنے یا جس چیز کی فرضیت قرآن سے ثابت ہو اس کے چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اس نے اس کے خلاف کیا جو مکرِہ کرانا چاہتا تھا اور قتل کر ڈالا گیا سب میں ثواب کا مستحق ہے۔ ،،مجھے بتاۓ کہ جب اکراہ کی صورت میں بظاہر کفر کی اجازت قران اور حدیث نے دیں دی تو اب یہ کفر نہ بولے اور قتل کردیا گیا،، تو اس نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا یا نہیں ڈالا،،جب قران حدیث سے اجازت ہے اکراہ کی صورت میں تو اس نے اس پر عمل نہ کیا اور قتل کردیا گیا، تو اس میں ثواب کیوں مل رہا ہے جب کہ اس نے تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا تھا، اسی طرح نماز روزہ توڑنے یا چھوڑنے پر مجبور کیا گیا اور اس نے نہیں توڑا یا نہیں چھوڑا اور قتل کردیا گیا تو ،،ثواب کا مستحق کیوں جب کے کفر کرنے کی اجازت قران حدیث میں مل گئ اکراہ کی صورت میں یہ اس پر عمل کر کے اپنی زندگی بچاتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا ،،تو کیا اس نے بھی اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا اگر ہلاکت میں ڈالا تو اس پر ثواب کیوں، بلکہ اس پر تو عذاب ہونا چاہئے ،، تھا،،
اسی طرح امام قاضی خاں نے فتاویٰ قاضی خاں کتاب السیر میں یہ مسئلہ ذکر کیا ہے کہ‌ ایک مسلمان اگر ایک ہزار مشرکوں پر حملہ کریں ان سے 
لڑیں تو اس میں کوئ حرج نہیں ہے ،،اب مجھے بتاۓ ایک انسان جب ایک ہزار مشرکوں سے لڑیں گا تو یقینی طور پر ہلاک ہوجائیں گا ،تو یہاں ایک ہزار سے لڑنے کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے کیا یہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں ہے،،۔ ہو سکتا ہے کوئ صاحب یہ بول اٹھے کے صاحب یہاں جہاد کی بات ہے اس لیے اجازت دی ہے اس لیے جان کو ہلاکت میں ڈالنا نہیں کہلاۓ گا،،، تو اس کا جواب یہ ہے قاض خاں اس کے آگے لکھتیں ہیں،،اگر اپنی سلامتی یا ان کی ذلت کا طمع ہو تو کوئ حرج نہیں اور یہ طمع نہ ہو تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،،اب مجھے بتاۓ جب ایک آدمی ایک ہزار سے لڑنے جاۓ گا تو وہ سلامت کیسے رہے گا، وہ تو یقینی طور پر قتل کردیا جاۓ گا،، پھر کہتے ہیں اگر اپنی سلامتی اور انکی ذلت کی طمع نہ ہو تو اپنی جان ہلاکت میں ڈالنا ہے، کہ اب کوی فائدہ ہی نہیں ہے،، اگر جہاد کر رہا ہے تو پھر قاضی خاں یہ کیوں فرما رہے ہیں جان کو ہلاکت میں ڈالنا ہے،، اگر جہاد میں جان ہلاکت میں ڈالنا ہے تو پھر جہاد تو فرض ہوگا ہی نہیں،، ان سب سوالوں کے جواب میں ان پڑ چھوڑ تا ہوں جو یہ رٹ لگاۓ ہوۓ ہیں گستاخ کو اسلیۓ نہ قتل کروں کی جان ہلاکت میں اۓ گی،، میں کہتا ہوں جب قاضی خاں یہ فرما رہے ہیں مشرک کی ذلت کا طمع ہو تو ہزار سے لڑنا جائز ہے اور یہ یقینی بات ہے جب ہزار سے لڑیں گا تو قتل کردیا جاۓ گا،، لیکن اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنے والا نہیں کہلاۓ گا،، تو پھر اگر ایک عاشق رسول اللہ و رسول کی رضا کے لیۓ کسی گستاخ کو قتل کردیں تو نا جائز کیوں ہوگا ،، اور اس گستاخ کو قتل کرنے میں کفار کی ذلت بھی یے، اور مسلمان کی غیرت بھی ہے،، تو جب ہزار سے لڑنا جائز ہے اس نیت کے ساتھ انکی ذلت ہوگی تو گستاخ کو قتل کرنا ناجائز کیوں ہوگا،،اس میں بھی تو کفار کی ذلت ہے، اور ہزار سے لڑیں میں اس کا قتل ہوجانا یقینی ہے،، جب کہ گستاخ کو قتل کرنے میں اس کا ہلاک ہونا یقینی نہیں ہے،،کیوں کہ حکومت اس کو قید کریں گی یہ بھی ہو سکتا ہے اس کو بیل مل جاۓ بعد میں،اور وہ ازاد ہوجاۓ،، کیا اپ دیکھتیں نہیں کتنے قتل کرنے والے بیل لیکر ازاد گھومتے ہیں،، پھر آخر میں جاکر یہ احتمال ہے کہ ہو سکتا ہے اسے سولی پر چڑا دیا جاۓ،، میری نظر میں خود ایسے لوگ ہے جن لوگوں نے قتل کیا ہوا ہے، لیکن اج وہ ازاد گھوم رہے ہیں۔
اسی طرح امام عالی مقام کوفہ گۓ اور آپ کے ساتھی بھی آپ کے ساتھ تھے صحابہ نے اور آپ کے بھائ نے بھی روکا یہاں تک کے حضرت محمد بن حنفیہ نے اپنے بچو کو نہ بھیجا کہ یہ بچے مشکل میں پڑ جائیں گے، لیکن امام عالی مقام پھر بھی گۓ
، کربلا میں آپ اور آپ کے ساتھی شہید ہوۓ تو کیا امام عالی مقام نے خود اپنی اور اپنے ساتھیوں کی جان ہلاکت میں ڈالی تھی، ان کا یہ فعل ناجائز تھا،،، ہو سکتا ہے اب کوئ کہے امام عالی مقام خود نہیں گۓ ان کو تو بلایا گیا تھا،، تھیک ہے یہ بات مان لیتیں ہیں،، اپ کو بلایا گیا تھا،،خود نہیں گۓ،، تو اس کا جواب یہ ہے جب آپ کو یہ خبر ملی کے امام مسلم شہید ہوگۓ ہیں،، تو آپ واپس بھی آسکتیں تھے،،چلیں واپس نہ بھی اۓ،،کربلا پہنچ گۓ،، تو جنگ شروع ہونے سے پہلے، یا شروع ہونے کے بعد یا آپ کے ایک یا 2 ساتھی شہید ہونے کے بعد،، آپ یزید کے ہاتھ پر بیعت تو کر سکتیں تھے، اپنی اور اپنے اصحاب کی جان بچانے کے لیے، پھر بعد میں واپس آکر جو چاہیں آپ کرتے اس بیعت کو توڑ دیتے،،، اور اس بیعت کرنے میں کوئ گناہ بھی نہ تھا چونکہ جان بچانے کے لیے کی جاتی،، خود امام اہلسنت فرماتے ہیں،،
دوصورتیں تھیں یا بخوف جان اس پلید کی وہ ملعون بیعت قبول کی جاتی کہ یزید کا حکم ماننا ہوگا اگرچہ خلاف قرآن وسنت ہو۔یہ رخصت تھی ثواب کچھ نہ تھا قال تعالٰی:" اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّۢ بِالۡاِیۡمٰنِ" مگر جو مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔یا جان دے دی جاتی اور وہ ناپاك بیعت نہ کی جاتی،یہ عزیمت تھی اور اس پر ثواب عظیم،اور یہی ان کی شان رفیع کے شایان تھی،اسی کو اختیار فرمایا:
(فتاویٰ رضویہ جلد 14 صفحہ 554)
امام اہلسنت خود فرما رہے ہیں یزید کی بیعت کرنے میں رخصت تھی لیکن ثواب نہ تھا،،
 اور نہ کرنے میں ثواب عظیم اس لیے بیعت نہیں فرمائ،، میں کہتا ہوں جب امام عالی مقام نے بیعت نہ کی اور عزیمت پر عمل کیا ثواب پایا،،ہر چند کے آپ کے اصحاب بھی اس میں شہید ہوگۓ اور آپ بھی شہید ہوگۓ لیکن یہ نہیں کہا جاتا کہ اپ نے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالا،، اور معاذ اللہ ایسا کہے گا بھی تو وہی جو گستاخ حسین ہوگا۔، چاہتے تو رخصت پر عمل جائز تھا،،
۔، تو پھر اگر کوئی اللہ و رسول کی رضا کے لیے کسی گستاخ کو وہ بھی ایسا جو کے مرتد یا حربی ہو اسے قتل کردیں چے جاۓ کہ اس میں وہ خود ہلاک ہوجاۓ بعد میں، تو اس کو ثواب کیوں نہ ملیگا،، اس کا یہ فعل ناجائز کیوں ہوگا کیوں اس کو ثواب نہ ہوگا جب کہ امام اہلسنت نے تو خود فتاویٰ رضویہ میں کئ مقام پر حربی کافروں ہر اتنی سختی
فرماتے نظر اتے ہیں کہ، حربی کا خون مباح ہے اس کے خون کی حرمت نہیں،، اگر ایک جگہ پیاس سے کتا مر رہا ہوں اور وہیں پر حربی کافر بھی دونوں کو پیاس شدید لگی ہو کہ پانی نہ ملے تو مرجائیں گے تو فرماتے ہیں کتے کو پانی پلایا جاۓ حربی کو نہ پلایا جاۓ،،۔
اور رہی یہ حدیث،
لزوال الدنیا أھون علی اللہ من قتل رجل مسلم،،
ترمذی اور نسائ نے روایت کیا ہے،، اس سے یہ استدلال کرنا باطل ہے کہ کافر یا گستاخ رسول سے لڑا نہ جاۓ یا اسے قتل نہ کیا جاۓ،، چونکہ اس روایت کا مطلب صرف اتنا ہے۔
کہ ساری دنیا کا زوال اللہ کے نزدیک کسی مسلمان کے مارے جانے سے بہت زیادہ ہلکہ ہے،، یا اس جیسی دوسری روایات ہو کہ مسلمان کی حرمت کعبہ سے زیادہ ہے وغیرہ،،،ان روایات میں مسلمان کی قدر منزلت اللہ کے نزدیک کتنی زیادہ ہے یہ بتایا گیا ہے،،اور اپ کو معلوم ہے اللہ کے نزدیک یہ قدر منزلت اس وقت اور بڑ جاتی ہے جب کوئ کفار سے لڑتے ہوۓ قتل ہوجاۓ،، تو اس کو شہید کا مقام ملتا ہے،، تو اس سے اگر وہ مطلب نکالا جاے جو اج کل کچھ لوگ نکال رہے ہیں، کے گستاخ کو قتل نہ کرو، مسلمان کی قدر منزلت بہت ہے ہلاکت میں ڈالنا ہے وغیرہ،، تو پھر جہاد کرنا بھی ناجائز ہو جاۓ گا کہ اس میں بھی مسلمان قتل کردیا جاتا ہے، تو کیا اس حدیث سے استدلال کرتے ہوۓ جہاد کو بھی حرام قرار دیا جاۓ گا،،یا جو اپنا مال اپنے گھر والوں کی حفاظت کرتے ہوۓ قتل ہوجاۓ اس کو حدیث میں شہید کہا گیا ہے،، تو کیا حفاظت کرتے ہوۓ بھی قتل ہوجانا ناجائز ہو جاۓگا،،، اور اگر آپ اس روایت سے وہی مطلب نکال رہے ہیں جو اپ کہ رہے ہیں،، تو پھر مجھے بتاۓ،، ان روایت کے بارے میں کیا کہیں گے،، کی نماز ترک کرنے والے نے کفر کیا،،غیر اللہ کی قسم کھانے والے نے کفر کیا،،کسی کے نسب پر تہمت لگانے والے نے کفر کیا،،مسلمان مسلمان کو قتل کردیں تو اس نے کفر کیا، اس طرح کی جو اور روایات ہے جس میں لفظ کفر ایا ہے ،،تو اس کا مطلب کیا لیا جاۓ اگر ظاہر مراد لیا جاۓ تو،،پھر کچھ چند لوگ ہی مسلمان بچیں گے کہ جو یہ کام نہ کرتے ہو باقی سب کافر ہوجائیں گے معاذ اللہ،، اس کا جواب اپ ہی پرچھوڑتیں ہیں۔
گستاخ رسول کے قتل کے بارے میں ہمارا موقف وہی یے،، جو امام اہلسنت سنت کا ہے،، کہ حد لگانا تو حاکم کا کام ہے، عوام گستاخ سے بچیں دور رہے اسے قتل کرنے کا حکم بھی نہ دیا جاۓ گا کہ وہ قتل کرے کیوں کہ قتل کرنا حاکم کا کام ہے اور یہاں ہند میں اسلامی نظام نہیں یہ دار الکفر ہے اور حکم دار الاسلام، اور نہ ہی عوام پر اس یہ واجب ہے کہ گستاخ رسول کا قتل کریں۔،
 علماء اپنی تحریروں زبان سے رد کریں،،لیکن اگر کوئی شخص گستاخ رسول کو قتل کردیتا ہے،، چونکہ گستاخ مرتد ہوجاتا ہے،اور اس کا خون مباح ہوجاتا ہے،اور جو گستاخ پہلے سے ہی حربی ہو جسے قتل کرنے کا حکم پہلے سے ہی ہو،،، اگر وہ اس کو قتل کردیتا ہے تو یہ جائز ہے ناجائز نہیں اور نہ اس پر شرعی طور پر کوئ قصاص ہے،، فقہاء نے فرمایا ہے، اگر کوئ مسلمان مرتد کو قتل کردیں تو اس پر کوئ قصاص نہیں ہے،،
 جیسا کہ اگر نجاست درہم سے کم مقدار میں لگی ہو اور یہ عالم سے حکم معلوم کرے تو وہ فرماۓ کہ اس نجاست کو زائل کرکے نماز پڑھوں،، لیکن اگر وہ درہم سے کم مقدار میں نجاست لگی نماز پرھ لے تو اس کی نماز ہوجاۓ گی جائز ہے کراہت تنزیہ کے ساتھ ،، اسی طرح قتل کا حکم نہ دیا جاۓ گا ، لیکن اگر کوئ خود اللہ و رسول کی رضا کے لیے کفار کو ذلیل کرنے کے لیے اپنی غیرت دکھاتے ہوۓ قتل کردیں تو اس کا یہ عمل جائز ہے۔ ناجائز نہیں کہا جاۓ گا اور نہ ہی اس کو ملامت کی جاۓ گی ۔،جیسا کی ہم اوپر دلائل کے ساتھ ذکر کر اۓ ہیں
اللہ کریم ہمیں صحیح فہم فقہ حق بولنے لکھنے کہنے اور کفار اور گستاخ رسول پر سخت رہنے کی توفیق عطا فرماۓ۔
••────────••⊰۩۞۩⊱••───────••
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی دانش حنفی
 قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
بمطابق  4-7-2022
مقیم حال ہلدوانی نینیتال

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area