انبیاء علیہم السلام کا کوئی وارث نہیں ہوتا کیا یہ حدیث سیدہ پاک کے علم میں نہ تھی؟
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کیا فدک کے مطالبہ پر اجتہاد کیا تھا۔ ،اگر کیا تھا تو وہ اجتہاد کیا تھا کیوں کہ سیدہ پاک نے قرآن کی آیت سے استدلال کیا تھا، جب صریح آیت سے استدلال کیا تھا تو اجتہاد کیا سیدہ پاک نے یہ کہنا غلط ہے اور کیا سیدہ رضی اللہ عنہا کے علم میں وہ حدیث پہلے سے تھی یا نہیں۔براۓ کرم تفصیلی جواب عطا فرمائیں۔
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کیا فدک کے مطالبہ پر اجتہاد کیا تھا۔ ،اگر کیا تھا تو وہ اجتہاد کیا تھا کیوں کہ سیدہ پاک نے قرآن کی آیت سے استدلال کیا تھا، جب صریح آیت سے استدلال کیا تھا تو اجتہاد کیا سیدہ پاک نے یہ کہنا غلط ہے اور کیا سیدہ رضی اللہ عنہا کے علم میں وہ حدیث پہلے سے تھی یا نہیں۔براۓ کرم تفصیلی جواب عطا فرمائیں۔
سائل:- عبداللہ
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم و رحمتہ اللہ وبرکاتہ
الجواب ھو الھادی الی الصواب:-
یہ سوال مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے کیا ہے
فدک والے مسئلے میں سیدہ پاک نے اجتہاد نہیں کیا تھا، بلکہ آیت کے عموم سے استدلال کیا تھا انبیاء علیہم السلام کا ترکہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوتا،، یہ روایت سیدہ پاک کے علم میں ہی نہ تھی تو اجتہادی خطا کہنا بھی غلط ہے اگر سیدہ کے علم میں ہوتی تو آپ مطالبہ نہ کرتی یہ اعتراض شیعوں کا ہے وہ اس مسئلے پر مذکورہ اعتراض کرتے ہیں لیکن اب یہ اعتراض وہاں سے نکل کر سنیوں میں بھی آگیا ہے،، کچھ لوگ یہی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں،، اس اعتراض کا جواب بھی ہم ذکر کریں گے
دوسرا اعتراض۔
آیت سے جب استدلال کیا صریح آیت کے ہوتے ہوۓ اجتہاد نہیں کیا جاتا،، جب آیت سے استدلال کیا تو پھر خطا اجتہادی کہنا بھی غلط ہے،
جبکہ سیدہ پاک نے آیت کے عموم اور قیاس سے استدلال کیا تھا،، سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی ان سب کا ذکر میں تفصیلی طور پر کرتا ہوں،
سب سے پہلے اس پر کلام کرتے ہیں آپ کے علم میں وہ حدیث تھی یا نہیں،
فنقول وباللہ التوفیق،
نبی علیہ السلام نے اس حدیث پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی مطلع فرما دیا تھا کہ امام مسلم نے حضرت مالک بن اوس سے روایت کیا ہے،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے قسم دیکر پوچھا ،کہ کیا تم کو علم ہے رسول اللہ نے فرمایا تھا ہم کسی کو وارث نہیں بناتے،،ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے فرمایا ہاں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں اس حدیث پر مطلع تھے تو یقیناً سیدہ پاک بھی اس حدیث پر مطلع ہوں گی،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث میں نے ذکر کی ہے، وہ حدیث بہت طویل ہے، اس کو میں بعد میں نقل کرتا ہوں، اس سے پہلے ایک حدیث نقل کرتا ہو جو ہماری اس بات کی تائید کرتی ہے، کہ سیدہ پاک کو علم تھا اس حدیث کا، اس کے بعد صحیح مسلم کی طویل روایت نقل کروں گا،
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا، وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عند النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ،
عبد الرحمان بن ابی لیلی نے کہا
میں عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا۔
ابو داود باب خمس کے مصارف قرابت داروں کو حصہ دینے کا (بیان حدیث 2984)
اس حدیث پاک میں سیدہ پاک بھی موجود ہیں، حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث میں تقسیم کرنے کی بات کہی جارہی ہے، کہ نبی علیہ السلام کا جو کچھ ترکہ ہے وہ تقسیم ہوتا رہا کسی کی ذاتی ملک میں نہیں آیا ،،نبی علیہ السلام کے بعد بھی،، اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے انبیاء علیہم السلام کا وارث نہیں ہوتا، یہ حدیث سیدہ پاک کے علم میں تھی،، کہ سیدہ کی موجودگی میں ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی تھی،، اور اجازت مل بھی گئ تھی،،،،پتہ چلا سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث پاک تھی انبیاء کا وارث نہیں ہوتا،،،سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی اس کی تائید ان حدیثوں سے بھی ہوتی ہے،، جن میں یہ ذکر آیا ہے، کہ سیدہ پاک نے مطالبہ کیا تھا، اس حدیث میں ہمیں تین طرح کا ذکر ملتا ہے ایک یہ کی سیدہ پاک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا، دوسری روایت میں سیدہ پاک خود گئیں اور مطالبہ کیا، تیسری روایت میں ہے،، سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئیں تھی اور مطالبہ کیا یہ تینوں حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدہ کے علم میں وہ حدیث تھی خاص طور سے جس میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کا ذکر ہے کیونکہ اوپر ہم ذکر کر ائے ہیں اس حدیث کا علم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی تھا،، اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے علم میں ہونے کے بعد بھی سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں، تو اب یہ نہیں کہا جا سکتا کی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی اس حدیث کا علم نہ تھا جس طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علم تھا پھر بھی سیدہ پاک کے ساتھ جاتے ہیں اسی طرح سیدہ پاک کو بھی اس حدیث کا علم تھا اس حدیث کا علم ہونے کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر مطالبہ کرنا بھی صاف ظاہر کرتا ہے کی آپ کے علم میں وہ حدیث تھی بلکہ سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں اور ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی مطالبہ کرنے جاتے ہیں اب اس سے زیادہ صاف صریح کونسی بات کی ضرورت ہے وہ حدیث آپ سب کے علم میں ہونے کے بعد بھی کیوں مطالبہ کیا بار بار، اس کا جواب میں آگے استدلال کی بحث میں کروں گا،
پہلے میں ان تیوں حدیثوں کو نقل کرتا ہوں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ ، وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ ، وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عباس رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور خیبر میں بھی اپنے حصہ کا،
الجواب ھو الھادی الی الصواب:-
یہ سوال مجھ سے پہلے بھی کچھ لوگوں نے کیا ہے
فدک والے مسئلے میں سیدہ پاک نے اجتہاد نہیں کیا تھا، بلکہ آیت کے عموم سے استدلال کیا تھا انبیاء علیہم السلام کا ترکہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوتا،، یہ روایت سیدہ پاک کے علم میں ہی نہ تھی تو اجتہادی خطا کہنا بھی غلط ہے اگر سیدہ کے علم میں ہوتی تو آپ مطالبہ نہ کرتی یہ اعتراض شیعوں کا ہے وہ اس مسئلے پر مذکورہ اعتراض کرتے ہیں لیکن اب یہ اعتراض وہاں سے نکل کر سنیوں میں بھی آگیا ہے،، کچھ لوگ یہی اعتراض کرتے نظر آتے ہیں،، اس اعتراض کا جواب بھی ہم ذکر کریں گے
دوسرا اعتراض۔
آیت سے جب استدلال کیا صریح آیت کے ہوتے ہوۓ اجتہاد نہیں کیا جاتا،، جب آیت سے استدلال کیا تو پھر خطا اجتہادی کہنا بھی غلط ہے،
جبکہ سیدہ پاک نے آیت کے عموم اور قیاس سے استدلال کیا تھا،، سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی ان سب کا ذکر میں تفصیلی طور پر کرتا ہوں،
سب سے پہلے اس پر کلام کرتے ہیں آپ کے علم میں وہ حدیث تھی یا نہیں،
فنقول وباللہ التوفیق،
نبی علیہ السلام نے اس حدیث پر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی مطلع فرما دیا تھا کہ امام مسلم نے حضرت مالک بن اوس سے روایت کیا ہے،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے قسم دیکر پوچھا ،کہ کیا تم کو علم ہے رسول اللہ نے فرمایا تھا ہم کسی کو وارث نہیں بناتے،،ہم نے جو کچھ چھوڑا ہے وہ سب صدقہ ہے حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں نے فرمایا ہاں جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ دونوں اس حدیث پر مطلع تھے تو یقیناً سیدہ پاک بھی اس حدیث پر مطلع ہوں گی،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث میں نے ذکر کی ہے، وہ حدیث بہت طویل ہے، اس کو میں بعد میں نقل کرتا ہوں، اس سے پہلے ایک حدیث نقل کرتا ہو جو ہماری اس بات کی تائید کرتی ہے، کہ سیدہ پاک کو علم تھا اس حدیث کا، اس کے بعد صحیح مسلم کی طویل روایت نقل کروں گا،
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْبَرِيدِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مَيْمُونٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا عَلَيْهِ السَّلَام يَقُولُ: اجْتَمَعْتُ أَنَا، وَالْعَبَّاسُ، وَفَاطِمَةُ، وَزَيْدُ بْنُ حَارِثَةَ عند النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنْ رَأَيْتَ أَنْ تُوَلِّيَنِي حَقَّنَا مِنْ هَذَا الْخُمُسِ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فَأَقْسِمْهُ حَيَاتَكَ كَيْ لَا يُنَازِعَنِي أَحَدٌ بَعْدَكَ فَافْعَلْ، قَالَ: فَفَعَلَ ذَلِكَ قَالَ: فَقَسَمْتُهُ حَيَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ وَلَّانِيهِ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى إِذَا كَانَتْ آخِرُ سَنَةٍ مِنْ سِنِي عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَإِنَّهُ أَتَاهُ مَالٌ كَثِيرٌ فَعَزَلَ حَقَّنَا، ثُمَّ أَرْسَلَ إِلَيَّ فَقُلْتُ: بِنَا عَنْهُ الْعَامَ غِنًى وَبِالْمُسْلِمِينَ إِلَيْهِ حَاجَةٌ فَارْدُدْهُ عَلَيْهِمْ فَرَدَّهُ عَلَيْهِمْ،
عبد الرحمان بن ابی لیلی نے کہا
میں عباس، فاطمہ اور زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم چاروں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوئے، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ! اگر آپ مناسب سمجھیں تو ہمارا جو حق خمس میں کتاب اللہ کے موافق ہے وہ ہمارے اختیار میں دے دیجئیے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نہ رہنے کے بعد مجھ سے کوئی جھگڑا نہ کرے، تو آپ نے ایسا ہی کیا، پھر میں جب تک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زندہ رہے اسے تقسیم کرتا رہا پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھے اس کا اختیار سونپا، یہاں تک کہ عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری سال میں آپ کے پاس بہت سا مال آیا، آپ نے اس میں سے ہمارا حق الگ کیا، پھر مجھے بلا بھیجا، میں نے کہا: اس سال ہم کو مال کی ضرورت نہیں جب کہ دوسرے مسلمان اس کے حاجت مند ہیں، آپ ان کو دے دیجئے، عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو دے دیا۔
ابو داود باب خمس کے مصارف قرابت داروں کو حصہ دینے کا (بیان حدیث 2984)
اس حدیث پاک میں سیدہ پاک بھی موجود ہیں، حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس حدیث میں تقسیم کرنے کی بات کہی جارہی ہے، کہ نبی علیہ السلام کا جو کچھ ترکہ ہے وہ تقسیم ہوتا رہا کسی کی ذاتی ملک میں نہیں آیا ،،نبی علیہ السلام کے بعد بھی،، اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے انبیاء علیہم السلام کا وارث نہیں ہوتا، یہ حدیث سیدہ پاک کے علم میں تھی،، کہ سیدہ کی موجودگی میں ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے تقسیم کرنے کی اجازت طلب کی تھی،، اور اجازت مل بھی گئ تھی،،،،پتہ چلا سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث پاک تھی انبیاء کا وارث نہیں ہوتا،،،سیدہ پاک کے علم میں وہ حدیث تھی اس کی تائید ان حدیثوں سے بھی ہوتی ہے،، جن میں یہ ذکر آیا ہے، کہ سیدہ پاک نے مطالبہ کیا تھا، اس حدیث میں ہمیں تین طرح کا ذکر ملتا ہے ایک یہ کی سیدہ پاک نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا، دوسری روایت میں سیدہ پاک خود گئیں اور مطالبہ کیا، تیسری روایت میں ہے،، سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئیں تھی اور مطالبہ کیا یہ تینوں حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ سیدہ کے علم میں وہ حدیث تھی خاص طور سے جس میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ کا ذکر ہے کیونکہ اوپر ہم ذکر کر ائے ہیں اس حدیث کا علم حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی تھا،، اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے علم میں ہونے کے بعد بھی سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں، تو اب یہ نہیں کہا جا سکتا کی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی اس حدیث کا علم نہ تھا جس طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو علم تھا پھر بھی سیدہ پاک کے ساتھ جاتے ہیں اسی طرح سیدہ پاک کو بھی اس حدیث کا علم تھا اس حدیث کا علم ہونے کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس جاکر مطالبہ کرنا بھی صاف ظاہر کرتا ہے کی آپ کے علم میں وہ حدیث تھی بلکہ سیدہ پاک کے ساتھ حضرت عباس رضی اللہ عنہ جاتے ہیں اور ایک روایت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی مطالبہ کرنے جاتے ہیں اب اس سے زیادہ صاف صریح کونسی بات کی ضرورت ہے وہ حدیث آپ سب کے علم میں ہونے کے بعد بھی کیوں مطالبہ کیا بار بار، اس کا جواب میں آگے استدلال کی بحث میں کروں گا،
پہلے میں ان تیوں حدیثوں کو نقل کرتا ہوں
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ أَنَّ فَاطِمَةَ ، وَالْعَبَّاسَ عَلَيْهِمَا السَّلَام أَتَيَا أَبَا بَكْرٍ يَلْتَمِسَانِ مِيرَاثَهُمَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَهُمَا حِينَئِذٍ يَطْلُبَانِ أَرْضَيْهِمَا مِنْ فَدَكَ ، وَسَهْمَهُمَا مِنْ خَيْبَرَ۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور عباس رضی اللہ عنہ ، ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اپنی میراث کا مطالبہ کرنے آئے، یہ فدک کی زمین کا مطالبہ کر رہے تھے اور خیبر میں بھی اپنے حصہ کا،
(صحیح بخاری حدیث 6725)
بخاری شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جاتی
اور ترمذی شریف میں روایت ہے
بخاری شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ جاتی
اور ترمذی شریف میں روایت ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: مَنْ يَرِثُكَ ؟ قَالَ: أَهْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ: فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا نُورَثُ، وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،،سے روایت ہے
فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس آکر کہا : آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟
انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم ( انبیاء ) کا کوئی وارث نہیں ہوتا“ ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
(ترمذی حدیث 1608)
ترمذی شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک کا تنہا جانا ذکر ہے اور سنن ابو داؤد میں روایت ہے،
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ( کسی کو ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے ( یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے ) ، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے ( بطور وراثت ) کچھ دینے سے انکار کر دیا۔
(سنن ابو داؤد حدیث 2968)
ابو داؤد کی اس حدیث میں سیدہ پاک نے کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا یہ ذکر ہے
اب میں مسلم شریف کی وہ طویل روایت نقل کرتا ہوں جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ ]، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدَا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ، لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: {مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} [الحشر:7 ]- مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا - قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللهِ، مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا، بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ، أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَق
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔ کہا : میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے مال ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔ کہا : میں نے کہا : اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں ( تو کیسا رہے؟ ) انہوں نے کہا : اے مال! تم لے لو ۔ کہا : ( اتنے میں ان کے مولیٰ ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ، عبدالرحمان بن عوف ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان کو اجازت دی ۔ وہ اندر آ گئے ، وہ پھر آیا اور کہنے لگا : کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔ تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین! میرے اور ان کے درمیانن فیصلہ کر دیں ۔ کہا : اس پر ان لوگوں نے کہا : ہاں ، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو ( جھگڑے کے عذاب سے ) راحت دلا دیں ۔ ۔ مالک بن اوس نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا ۔ ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم دونوں رکو ، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا ؟ ان سب نے کہا : ہاں ۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو کچھ چھوڑیں گے ، صدقہ ہو گا ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ، اس نے فرمایا ہے : جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ، اللہ کی قسم! آپ نے ( اپنی ذات کو ) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ، حتیٰ کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ، پھر جو باقی بچ جاتا اسے ( بیت المال کے ) مال کے مطابق ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے ) استعمال کرتے ۔ انہوں نے پھر کہا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی ( اور کہا ) : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ پھر کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے ، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو چھوڑیں گے ، صدقہ ہے ۔
(صحیح مسلم باب فے کا حکم حدیث 4577)
اس حدیث مبارکہ میں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ قسم دیکر معلوم کرتے ہیں کیا آپ کو اس حدیث کا علم نہیں تو ان دونوں حضرات کی جانب سے جواب ہاں میں ملتا ہے اس حدیث سے غور کرنے پر ایک اور بات معلوم ہوئی ،،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا،، آپ دونوں حضرات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی مطالبہ کرنے گۓ تھے،،انہوں نے فرمایا تھا، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دونوں حضرات مطالبہ کرنے آتے ہیں۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ،،سے روایت ہے
فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے پاس آکر کہا : آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟
انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم ( انبیاء ) کا کوئی وارث نہیں ہوتا“ ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
(ترمذی حدیث 1608)
ترمذی شریف کی اس حدیث میں سیدہ پاک کا تنہا جانا ذکر ہے اور سنن ابو داؤد میں روایت ہے،
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَوْهِبٍ الْهَمْدَانِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ عُقَيْلِ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَرْسَلَتْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ تَسْأَلُهُ مِيرَاثَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَيْهِ بِالْمَدِينَةِ وَفَدَكَ وَمَا بَقِيَ مِنْ خُمُسِ خَيْبَرَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ ، إِنَّمَا يَأْكُلُ آلُ مُحَمَّدٍ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَإِنِّي وَاللَّهِ لَا أُغَيِّرُ شَيْئًا مِنْ صَدَقَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ حَالِهَا الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَأَعْمَلَنَّ فِيهَا بِمَا عَمِلَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَبَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنْ يَدْفَعَ إِلَى فَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام مِنْهَا شَيْئًا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ( کسی کو ) ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا، وہ ان سے اپنی میراث مانگ رہی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ترکہ میں سے جسے اللہ نے آپ کو مدینہ اور فدک میں اور خیبر کے خمس کے باقی ماندہ میں سے عطا کیا تھا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا ہے، ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل اولاد اس مال سے صرف کھا سکتی ہے ( یعنی کھانے کے بمقدار لے سکتی ہے ) ، اور میں قسم اللہ کی! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں صدقہ کی جو صورت حال تھی اس میں ذرا بھی تبدیلی نہ کروں گا، میں اس مال میں وہی کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے، حاصل یہ کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو اس مال میں سے ( بطور وراثت ) کچھ دینے سے انکار کر دیا۔
(سنن ابو داؤد حدیث 2968)
ابو داؤد کی اس حدیث میں سیدہ پاک نے کسی کو بھیج کر مطالبہ کیا یہ ذکر ہے
اب میں مسلم شریف کی وہ طویل روایت نقل کرتا ہوں جس کا ذکر ہم نے اوپر کیا تھا۔
وحَدَّثَنِي عَبْدُ اللهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَسْمَاءَ الضُّبَعِيُّ، حَدَّثَنَا جُوَيْرِيَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَوْسٍ، حَدَّثَهُ، قَالَ: أَرْسَلَ إِلَيَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَجِئْتُهُ حِينَ تَعَالَى النَّهَارُ، قَالَ: فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِهِ جَالِسًا عَلَى سَرِيرٍ مُفْضِيًا إِلَى رُمَالِهِ، مُتَّكِئًا عَلَى وِسَادَةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَقَالَ لِي: يَا مَالُ، إِنَّهُ قَدْ دَفَّ أَهْلُ أَبْيَاتٍ مِنْ قَوْمِكَ، وَقَدْ أَمَرْتُ فِيهِمْ بِرَضْخٍ، فَخُذْهُ فَاقْسِمْهُ بَيْنَهُمْ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ أَمَرْتَ بِهَذَا غَيْرِي، قَالَ: خُذْهُ يَا مَالُ، قَالَ: فَجَاءَ يَرْفَا، فَقَالَ: هَلْ لَكَ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فِي عُثْمَانَ، وَعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَالزُّبَيْرِ، وَسَعْدٍ؟ فَقَالَ عُمَرُ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمْ فَدَخَلُوا، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: هَلْ لَكَ فِي عَبَّاسٍ، وَعَلِيٍّ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَذِنَ لَهُمَا، فَقَالَ عَبَّاسٌ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْكَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ، فَقَالَ الْقَوْمُ: أَجَلْ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، فَاقْضِ بَيْنَهُمْ وَأَرِحْهُمْ ]، فَقَالَ مَالِكُ بْنُ أَوْسٍ: يُخَيَّلُ إِلَيَّ أَنَّهُمْ قَدْ كَانُوا قَدَّمُوهُمْ لِذَلِكَ، فَقَالَ عُمَرُ: اتَّئِدَا، أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَا صَدَقَةٌ»، قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى الْعَبَّاسِ، وَعَلِيٍّ، فَقَالَ: أَنْشُدُكُمَا بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمَانِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «لَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَقَةٌ»، قَالَا: نَعَمْ، فَقَالَ عُمَرُ: إِنَّ اللهَ جَلَّ وَعَزَّ كَانَ خَصَّ رَسُولَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِخَاصَّةٍ، لَمْ يُخَصِّصْ بِهَا أَحَدًا غَيْرَهُ، قَالَ: {مَا أَفَاءَ اللهُ عَلَى رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَى فَلِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ} [الحشر:7 ]- مَا أَدْرِي هَلْ قَرَأَ الْآيَةَ الَّتِي قَبْلَهَا أَمْ لَا - قَالَ: فَقَسَمَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَكُمْ أَمْوَالَ بَنِي النَّضِيرِ، فَوَاللهِ، مَا اسْتَأْثَرَ عَلَيْكُمْ، وَلَا أَخَذَهَا دُونَكُمْ، حَتَّى بَقِيَ هَذَا الْمَالُ، فَكَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْخُذُ مِنْهُ نَفَقَةَ سَنَةٍ، ثُمَّ يَجْعَلُ مَا بَقِيَ أُسْوَةَ الْمَالِ، ثُمَّ قَالَ: أَنْشُدُكُمْ بِاللهِ الَّذِي بِإِذْنِهِ تَقُومُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ، أَتَعْلَمُونَ ذَلِكَ؟ قَالُوا: نَعَمْ، ثُمَّ نَشَدَ عَبَّاسًا، وَعَلِيًّا، بِمِثْلِ مَا نَشَدَ بِهِ الْقَوْمَ، أَتَعْلَمَانِ ذَلِكَ؟ قَالَا: نَعَمْ، قَالَ: فَلَمَّا تُوُفِّيَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: أَنَا وَلِيُّ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجِئْتُمَا تَطْلُبُ مِيرَاثَكَ مِنِ ابْنِ أَخِيكَ، وَيَطْلُبُ هَذَا مِيرَاثَ امْرَأَتِهِ مِنْ أَبِيهَا، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَا نُورَثُ مَا تَرَكْنَاهُ صَدَق
امام مالک نے زہری سے روایت کی کہ انہیں مالک بن اوس نے حدیث بیان کی ، انہوں نے کہا : حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے میری طرف قاصد بھیجا ، دن چڑھ چکا تھا کہ میں ان کے پاس پہنچا ۔ کہا : میں نے ان کو ان کے گھر میں اپنی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پایا ، انہوں نے اپنا جسم کھجور سے بنے ہوئے بان کے ساتھ لگایا ہوا تھا اور چمڑے کے تکیے سے ٹیک لگائی ہوئی تھی ، تو انہوں نے مجھ سے کہا : اے مال ( مالک ) ! تمہاری قوم میں سے کچھ خاندان لپکتے ہوئے آئے تھے تو میں نے ان کے لیے تھوڑا سا عطیہ دینے کا حکم دیا ہے ، اسے لو اور ان میں تقسیم کر دو ۔ کہا : میں نے کہا : اگر آپ میرے سوا کسی اور کو اس کا حکم دے دیں ( تو کیسا رہے؟ ) انہوں نے کہا : اے مال! تم لے لو ۔ کہا : ( اتنے میں ان کے مولیٰ ) یرفا ان کے پاس آئے اور کہنے لگے : امیر المومنین! کیا آپ کو عثمان ، عبدالرحمان بن عوف ، زبیر اور سعد رضی اللہ عنہم ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان کو اجازت دی ۔ وہ اندر آ گئے ، وہ پھر آیا اور کہنے لگا : کیا آپ کو عباس اور علی رضی اللہ عنہما ( کے ساتھ ملنے ) میں دلچسپی ہے؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ تو اس نے ان دونوں کو بھی اجازت دے دی ۔ تو عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : امیر المومنین! میرے اور ان کے درمیانن فیصلہ کر دیں ۔ کہا : اس پر ان لوگوں نے کہا : ہاں ، امیر المومنین! ان کے درمیان فیصلہ کر کے ان کو ( جھگڑے کے عذاب سے ) راحت دلا دیں ۔ ۔ مالک بن اوس نے کہا : میرا خیال ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کو اسی غرض سے اپنے آگے بھیجا تھا ۔ ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : تم دونوں رکو ، میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں بنے گا ، ہم جو چھوڑیں گے وہ صدقہ ہو گا ؟ ان سب نے کہا : ہاں ۔ پھر وہ حضرت عباس اور علی رضی اللہ عنہما کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا : میں تم دونوں کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو کچھ چھوڑیں گے ، صدقہ ہو گا ؟ ان دونوں نے کہا : ہاں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خاص چیز عطا کی تھی جو اس نے آپ کے علاوہ کسی کے لیے مخصوص نہیں کی تھی ، اس نے فرمایا ہے : جو کچھ بھی اللہ نے ان بستیوں والوں کی طرف سے اپنے رسول پر لوٹایا وہ اللہ کا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے ۔ ۔ مجھے پتہ نہیں کہ انہوں نے اس سے پہلے والی آیت بھی پڑھی یا نہیں ۔ ۔ انہوں نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنونضیر کے اموال تم سب میں تقسیم کر دیے ، اللہ کی قسم! آپ نے ( اپنی ذات کو ) تم پر ترجیح نہیں دی اور نہ تمہیں چھوڑ کر وہ مال لیا ، حتیٰ کہ یہ مال باقی بچ گیا ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے اپنے سال بھر کا خرچ لیتے ، پھر جو باقی بچ جاتا اسے ( بیت المال کے ) مال کے مطابق ( عام لوگوں کے فائدے کے لیے ) استعمال کرتے ۔ انہوں نے پھر کہا : میں تمہیں اس اللہ کی قسم دیتا ہوں جس کے حکم سے آسمان اور زمین قائم ہیں! کیا تم یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : ہاں ۔ پھر انہوں نے عباس اور علی رضی اللہ عنہما کو وہی قسم دی جو باقی لوگوں کو دی تھی ( اور کہا ) : کیا تم دونوں یہ بات جانتے ہو؟ انہوں نے کہا : جی ہاں ۔ پھر کہا : جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جانشیں ہوں تو آپ دونوں آئے ، آپ اپنے بھتیجے کی وراثت مانگ رہے تھے اور یہ اپنی بیوی کی ان کے والد کی طرف سے وراثت مانگ رہے تھے ۔ تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا : ہمارا کوئی وارث نہیں ہو گا ، ہم جو چھوڑیں گے ، صدقہ ہے ۔
(صحیح مسلم باب فے کا حکم حدیث 4577)
اس حدیث مبارکہ میں ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ قسم دیکر معلوم کرتے ہیں کیا آپ کو اس حدیث کا علم نہیں تو ان دونوں حضرات کی جانب سے جواب ہاں میں ملتا ہے اس حدیث سے غور کرنے پر ایک اور بات معلوم ہوئی ،،، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا،، آپ دونوں حضرات حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھی مطالبہ کرنے گۓ تھے،،انہوں نے فرمایا تھا، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس دونوں حضرات مطالبہ کرنے آتے ہیں۔
یہ ساری روایات اس بات پر صریح طور پر دلالت کرتی ہیں، انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے،، اس حدیث کا علم سیدہ پاک کو بھی تھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی تھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو بھی تھا، اب سوال پیدا یہ ہوتا ہے جب ان سب حضرات کو اس حدیث کا علم تھا، تو کیوں بار بار مطالبہ کیا آخر کیا وجہ تھی حدیث معلوم ہونے کے بعد بھی مطالبہ کیا تو اس کا جواب یہی ہے آپ سب حضرات نے اجتہاد کیا تھا، جس وجہ سے مطالبہ کیا اسے میں تفصیلی طور پر ذکر کرتا ہوں
البدایتہ والنھایتہ میں ہے
وقد روینا ان فاطمتہ رضی اللہ عنھا احتجت او لا بالقیاس و بالعموم فی الآیتہ۔ فاجابھا الصدیق بالنص علی الخصوص بالمنع فی حق النبی۔
ہم نے روایت کیا ہے پہلے سیدہ پاک نے قیاس اور آیت کے عموم سے استدلال فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص کے ذریعہ جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کے ساتھ یہاں پر منع خاص ہے۔
(البدایتہ و النھایتہ ج 5 ص 289)
مذکورہ عبارت میں تین چیز بیان کی گئ ہے
ایک سیدہ پاک نے آیت کے عموم سے استدلال فرمایا
دوم یہ کی سیدہ پاک نے قیاس سے استدلال فرمایا
سوم یہ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص مختص سے جواب دیا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو وارثوں میں تقسیم کرنا ممنوع ہے
آپ سیدہ پاک نص مختص سے واقف تو تھی لیکن آپ نے یہ سوچا کہ یہ خبر واحد ہے، اور کتاب اللہ کے حکم عام کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے جائز نہیں ہے،، اسی لیے آپ نے مطالبہ فرمایا جیسا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی، رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
و اما عذر فاطمتہ فی طلبھا مع روایتہ لھا الحدیث فیحتمل انہ لکونھا رائت ان خبر الواحد لا یخصص القران کما قیل بہ فاتضح عذرہ فی المنع و عذرھا فی الطلب فلا یشکل علیک ذلک و تاملہ فانہ مھم،،
ترجمہ،، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ میں جو عذر پیش کیا ہے اس حدیث مبارکہ میں تو احتمال یہ کہ انہوں نے دیکھا کہ خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں تخصیص نہیں کی جا سکتی جیسا کہ کہا گیا ہے تو پس منع و طلب میں دونوں کے عذر کی وضاحت ہو گئ تو اب کوئی اعتراض باقی نہ رہا غور کیجیے کیوں کہ یہ بہت اہم ہے۔
(الصواعق المحرقہ صفحہ 127)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے تو پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تخصیص کیوں کی تو اس کا جواب یہ ہے اگرچہ ہماری طرف نسبت کرتے ہوۓ حدیث احاد سے ہے، لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی علیہ السلام کی زبان حق ترجمان سے اپنے کانوں سے سنا ان کے لیے یہ حدیث متواتر، قطعی ہے اور متن کی قطعیت میں آیت موارث کے برابر ہے رہا آپ کا اپنے فہم کے مطابق محمول کرنا تو تمام ممکن احتمالات کو قرینہ حالیہ سے انتفاء کرکے آپ کے نزدیک وہ آیت کی عمومیت کو مخصوص کرنے کی قطعی حجت بن گئ کیوں کہ محسوسات کا درجہ متواترات سے اوپر ہے، اور یہ کہنا بھی غلط ہوگا کی یہ روایت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے روایت کی ہے،، بلکہ ہم اوپر صحیح مسلم کی روایت نقل کر آۓ ہیں ، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اس حدیث میں پوری صحابہ کی جماعت ہے اور قسم کھاکر اس روایت کی تصدیق کرتی ہیں، کہ ہم نے نبی علیہ السلام سے یہ سنا ہے، تو پتہ چلا اس روایت کو صرف تنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے روایت نہیں کیا بلکہ صحابہ کی جماعت نے اس کو روایت کیا ہے
ان روایتوں کو ذکر کرکے مزید جواب طویل نہیں کرنا چاہتا انصاف پسندوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے جب ایسا ہے تو یہ خبر واحد نہ رہی۔
اب جب یہ ثابت ہو گیا سیدہ پاک نے اجتہاد کیا تھا آیت کے عموم سے اور یہی اجتہاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو اب ہم اس طرف آتے ہے آپ نے قیاس سے استدلال کس طرح کیا تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قیاس سے استدلال فرمایا جیسا کی سنن ترمذی میں روایت ہے،
البدایتہ والنھایتہ میں ہے
وقد روینا ان فاطمتہ رضی اللہ عنھا احتجت او لا بالقیاس و بالعموم فی الآیتہ۔ فاجابھا الصدیق بالنص علی الخصوص بالمنع فی حق النبی۔
ہم نے روایت کیا ہے پہلے سیدہ پاک نے قیاس اور آیت کے عموم سے استدلال فرمایا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص کے ذریعہ جواب دیا کہ حضور علیہ السلام کے ساتھ یہاں پر منع خاص ہے۔
(البدایتہ و النھایتہ ج 5 ص 289)
مذکورہ عبارت میں تین چیز بیان کی گئ ہے
ایک سیدہ پاک نے آیت کے عموم سے استدلال فرمایا
دوم یہ کی سیدہ پاک نے قیاس سے استدلال فرمایا
سوم یہ کی حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نص مختص سے جواب دیا جو اس بات پر دلالت کرتی ہے کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مال کو وارثوں میں تقسیم کرنا ممنوع ہے
آپ سیدہ پاک نص مختص سے واقف تو تھی لیکن آپ نے یہ سوچا کہ یہ خبر واحد ہے، اور کتاب اللہ کے حکم عام کی تخصیص خبر واحد یا قیاس سے جائز نہیں ہے،، اسی لیے آپ نے مطالبہ فرمایا جیسا کہ علامہ ابن حجر ہیتمی، رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
و اما عذر فاطمتہ فی طلبھا مع روایتہ لھا الحدیث فیحتمل انہ لکونھا رائت ان خبر الواحد لا یخصص القران کما قیل بہ فاتضح عذرہ فی المنع و عذرھا فی الطلب فلا یشکل علیک ذلک و تاملہ فانہ مھم،،
ترجمہ،، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ میں جو عذر پیش کیا ہے اس حدیث مبارکہ میں تو احتمال یہ کہ انہوں نے دیکھا کہ خبر واحد کے ذریعہ قرآن میں تخصیص نہیں کی جا سکتی جیسا کہ کہا گیا ہے تو پس منع و طلب میں دونوں کے عذر کی وضاحت ہو گئ تو اب کوئی اعتراض باقی نہ رہا غور کیجیے کیوں کہ یہ بہت اہم ہے۔
(الصواعق المحرقہ صفحہ 127)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے جب خبر واحد سے قرآن کی تخصیص جائز نہیں ہے تو پھر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے تخصیص کیوں کی تو اس کا جواب یہ ہے اگرچہ ہماری طرف نسبت کرتے ہوۓ حدیث احاد سے ہے، لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی علیہ السلام کی زبان حق ترجمان سے اپنے کانوں سے سنا ان کے لیے یہ حدیث متواتر، قطعی ہے اور متن کی قطعیت میں آیت موارث کے برابر ہے رہا آپ کا اپنے فہم کے مطابق محمول کرنا تو تمام ممکن احتمالات کو قرینہ حالیہ سے انتفاء کرکے آپ کے نزدیک وہ آیت کی عمومیت کو مخصوص کرنے کی قطعی حجت بن گئ کیوں کہ محسوسات کا درجہ متواترات سے اوپر ہے، اور یہ کہنا بھی غلط ہوگا کی یہ روایت صرف حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی نے روایت کی ہے،، بلکہ ہم اوپر صحیح مسلم کی روایت نقل کر آۓ ہیں ، جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر ہے اس حدیث میں پوری صحابہ کی جماعت ہے اور قسم کھاکر اس روایت کی تصدیق کرتی ہیں، کہ ہم نے نبی علیہ السلام سے یہ سنا ہے، تو پتہ چلا اس روایت کو صرف تنہا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے روایت نہیں کیا بلکہ صحابہ کی جماعت نے اس کو روایت کیا ہے
ان روایتوں کو ذکر کرکے مزید جواب طویل نہیں کرنا چاہتا انصاف پسندوں کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے جب ایسا ہے تو یہ خبر واحد نہ رہی۔
اب جب یہ ثابت ہو گیا سیدہ پاک نے اجتہاد کیا تھا آیت کے عموم سے اور یہی اجتہاد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے کیا تھا تو اب ہم اس طرف آتے ہے آپ نے قیاس سے استدلال کس طرح کیا تھا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے قیاس سے استدلال فرمایا جیسا کی سنن ترمذی میں روایت ہے،
جَاءَتْ فَاطِمَةُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَتْ: مَنْ يَرِثُكَ ؟ قَالَ: أَهْلِي وَوَلَدِي قَالَتْ: فَمَا لِي لَا أَرِثُ أَبِي ؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا نُورَثُ، وَلَكِنِّي أَعُولُ مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُولُهُ، وَأُنْفِقُ عَلَى مَنْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُنْفِقُ عَلَيْهِ۔
فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم ( انبیاء ) کا کوئی وارث نہیں ہوتا“ ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
(سنن ترمذی حدیث 1608)
مسند احمد میں روایت ہے
عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّ فَاطِمَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ مَنْ یَرِثُکَ اِذَا مِتَّ؟ قَالَ: وَلَدِیْ وَأَھْلِیْ، قَالَتْ: فَمَا لَنَا لَانَرِثُ االنَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرَثُ۔)) وَلٰکِنِّیْ أَعُوْلُ مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَعُوْلُ وَأُنْفِقُ عَلٰی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُنْفِقُ۔
۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: جب آپ فوت ہوں گے تو آپ کا وارث کون ہوگا؟ انہوں نے کہا: میری اولاد اور میری بیوی، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث کیوں نہیں بن سکتے؟ انہوں نے کہا:کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ بیشک نبی کا وارث نہیں بنا جاتا۔ ہاں میں (ابو بکر) ان کی کفالت کروں گا کہ جن کی کفالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے اور میں ہر اس شخص پر خرچ کروں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پر خرچ کیا کرتے تھے۔
(مسند احمد حدیث 6349)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
نے قیاس سے استدلال فرمایا تھا، کیونکہ سیدہ پاک نے دیکھا جب کسی مومن مسلمان کا وصال ہوتا ہے تو اس کی وراث اس کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوتی ہے حتی کے کہ خلیفتہ المسلمین حضرت ابوبکر کی وراثت ان کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوگی تو میرے والد محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت بھی اسی طرح توتقسیم ہونی چاہے جیسا کی سیدہ پاک نے فرمایا لیکن جب حضرت ابوبکر سے حدیث سنی اور آپ پر دلیل واضح ہو گئ تو اپنے موقف سے رجوع فرما لیا اور پھر کبھی مطالبہ نہ فرمایا
اگر یہ باتیں ٹھیک سے پڑھنے کے بعد غور کرے اگر سیدہ پاک کے اس موقف کو اس معاملہ میں حق پر مانا جاۓ تو خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ضرور یہ ماننا پڑیگا کہ آپ سے اپنے اس موقف میں خطاۓ اجتہادی ہوئی حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کو ، تمام صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ خود سیدہ پاک نے قبول فرمایا،،
جیسا کی تفسیر رازی میں ہے
ان فاطمتہ علیھا السلام رضیت بقول ابی بکر بعد ھذہ المناظرتہ، و انعقد الاجماع علی صحتہ ذھب الیہ ابو بکر،،،
سیدہ پاک پر سلامتی ہو بیشک وہ اس مباحثہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کی صحت پر اجماع منعقد ہوگیا۔
(تفسیر رازی جلد 9 ص 514)
فاطمہ رضی الله عنہا نے ابوبکر رضی الله عنہ کے پاس آ کر کہا: آپ کی وفات کے بعد آپ کا وارث کون ہو گا؟ انہوں نے کہا: میرے گھر والے اور میری اولاد، فاطمہ رضی الله عنہا نے کہا: پھر کیا وجہ ہے کہ میں اپنے باپ کی وارث نہ بنوں؟ ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے کہ ”ہم ( انبیاء ) کا کوئی وارث نہیں ہوتا“ ( پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے کہا ) لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس کی کفالت کرتے تھے ہم بھی اس کی کفالت کریں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس پر خرچ کرتے تھے ہم بھی اس پر خرچ کریں گے۔
(سنن ترمذی حدیث 1608)
مسند احمد میں روایت ہے
عَنْ اَبِیْ سَلَمَۃَ أَنَّ فَاطِمَۃَ رضی اللہ عنہا قَالَتْ لِاَبِیْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ مَنْ یَرِثُکَ اِذَا مِتَّ؟ قَالَ: وَلَدِیْ وَأَھْلِیْ، قَالَتْ: فَمَا لَنَا لَانَرِثُ االنَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَقُوْلُ: ((إِنَّ النَّبِیَّ لَایُوْرَثُ۔)) وَلٰکِنِّیْ أَعُوْلُ مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یَعُوْلُ وَأُنْفِقُ عَلٰی مَنْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُنْفِقُ۔
۔ سیدنا ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا: جب آپ فوت ہوں گے تو آپ کا وارث کون ہوگا؟ انہوں نے کہا: میری اولاد اور میری بیوی، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث کیوں نہیں بن سکتے؟ انہوں نے کہا:کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ بیشک نبی کا وارث نہیں بنا جاتا۔ ہاں میں (ابو بکر) ان کی کفالت کروں گا کہ جن کی کفالت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کرتے تھے اور میں ہر اس شخص پر خرچ کروں گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس پر خرچ کیا کرتے تھے۔
(مسند احمد حدیث 6349)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا
نے قیاس سے استدلال فرمایا تھا، کیونکہ سیدہ پاک نے دیکھا جب کسی مومن مسلمان کا وصال ہوتا ہے تو اس کی وراث اس کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوتی ہے حتی کے کہ خلیفتہ المسلمین حضرت ابوبکر کی وراثت ان کی اولاد اور گھر والوں پر تقسیم ہوگی تو میرے والد محترم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت بھی اسی طرح توتقسیم ہونی چاہے جیسا کی سیدہ پاک نے فرمایا لیکن جب حضرت ابوبکر سے حدیث سنی اور آپ پر دلیل واضح ہو گئ تو اپنے موقف سے رجوع فرما لیا اور پھر کبھی مطالبہ نہ فرمایا
اگر یہ باتیں ٹھیک سے پڑھنے کے بعد غور کرے اگر سیدہ پاک کے اس موقف کو اس معاملہ میں حق پر مانا جاۓ تو خلیفہ راشد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں ضرور یہ ماننا پڑیگا کہ آپ سے اپنے اس موقف میں خطاۓ اجتہادی ہوئی حالاں کہ معاملہ ایسا نہیں ہے، بلکہ اس معاملہ میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے حق پر ہونے کو ، تمام صحابہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ بلکہ خود سیدہ پاک نے قبول فرمایا،،
جیسا کی تفسیر رازی میں ہے
ان فاطمتہ علیھا السلام رضیت بقول ابی بکر بعد ھذہ المناظرتہ، و انعقد الاجماع علی صحتہ ذھب الیہ ابو بکر،،،
سیدہ پاک پر سلامتی ہو بیشک وہ اس مباحثہ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے راضی ہو گئیں اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے موقف کی صحت پر اجماع منعقد ہوگیا۔
(تفسیر رازی جلد 9 ص 514)
وہ حضرات ان عبارتوں پر غور فرمائیں جو سرے سے ہی اس معاملہ میں اجتہاد کا انکار کرتے ہیں، کیا ان عبارتوں احادیث اور اقوال سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سیدہ پاک نے اجتہاد فرمایا تھا
سیدہ پاک کا مطالبہ اس وجہ سے تھا کہ آپنے سوچا آیت میراث کے مقابلے میں جو حدیث ہے وہ خبر واحد ہے، جس سے تخصیص جائز نہیں لیکن بعد میں آپ پر معاملہ واضح ہوگیا ،اسی کو اجتہاد کہا جاتا ہے مجتہد حکم شرع کے حصول کے لیے حتی الوسع کوشش کرے اگر دلیل کے مخفی ہونے کے سبب درست حکم کو نہ پا سکے تو مخطی ہے اور اگر مراد کو پہنچ جاۓ تو مصیب ہے اگر اجتہاد نہ کہا جاۓ تو کیا کہا جاۓ گا ؟
جب سیدہ مطالبہ کر رہی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو حدیث سنائی تو سیدہ پاک پر بھی یہ واضح ہو گیا کی اس معاملہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اجتہاد مصیب ہے، اور حدیث انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے، کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زیادہ بہتر جانتے ہیں،،خود سیدہ پاک نے یہ فرما دیا ،،مسند احمد میں روایت ہے
سیدہ پاک کا مطالبہ اس وجہ سے تھا کہ آپنے سوچا آیت میراث کے مقابلے میں جو حدیث ہے وہ خبر واحد ہے، جس سے تخصیص جائز نہیں لیکن بعد میں آپ پر معاملہ واضح ہوگیا ،اسی کو اجتہاد کہا جاتا ہے مجتہد حکم شرع کے حصول کے لیے حتی الوسع کوشش کرے اگر دلیل کے مخفی ہونے کے سبب درست حکم کو نہ پا سکے تو مخطی ہے اور اگر مراد کو پہنچ جاۓ تو مصیب ہے اگر اجتہاد نہ کہا جاۓ تو کیا کہا جاۓ گا ؟
جب سیدہ مطالبہ کر رہی تھی اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب آپ کو حدیث سنائی تو سیدہ پاک پر بھی یہ واضح ہو گیا کی اس معاملہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا اجتہاد مصیب ہے، اور حدیث انبیاء کسی کو وارث نہیں بناتے، کو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ زیادہ بہتر جانتے ہیں،،خود سیدہ پاک نے یہ فرما دیا ،،مسند احمد میں روایت ہے
عَنْ أَبِی الطُّفَیْلِ قَالَ: لَمَّا قُبِضَ رَسُولُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَتْ فَاطِمَۃُ إِلٰی أَبِی بَکْرٍ: أَنْتَ وَرِثْتَ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَمْ أَہْلُہُ؟ قَالَ: فَقَالَ: لَا، بَلْ أَہْلُہُ، قَالَتْ: فَأَیْنَ سَہْمُ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: فَقَالَ أَبُو بَکْرٍ: إِنِّی سَمِعْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَقُولُ: ((إِنَّ اللّٰہَ عَزَّ وَجَلَّ إِذَا أَطْعَمَ نَبِیًّا طُعْمَۃً ثُمَّ قَبَضَہُ، جَعَلَہُ لِلَّذِییَقُومُ مِنْ بَعْدِہِ۔)) فَرَأَیْتُ أَنْ أَرُدَّہُ عَلَی الْمُسْلِمِینَ، فَقَالَتْ: فَأَنْتَ وَمَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَعْلَمُ۔
سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث آپ ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے افراد؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: جی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث میں نہیں ہوں، بلکہ آپ کے اہل خانہ ہی ہیں، سیدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ کہاں ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب آپ نے کسی نبی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور اسکے بعد اپنے نبی کی روح کو قبض کر لیتا ہے تو وہ چیز اس کے خلیفہ کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ پس میں نے سوچا ہے کہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو پھر آپ ہی اس کو جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنی ہے، بہتر جانتے ہیں۔
(مسند احمد حدیث 12168)
اس حدیث میں سیدہ پاک واضح فرما رہی ہے، کہ آپنے جو نبی پاک سے حدیث سنی ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں،
اسی وجہ سے سیدہ پاک نے مطالبہ ترک کردیا تھا،
جو فیصلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، اس فیصلہ کے متعلق حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
قال زید واللہ لو رفع الامر فیھا الی لقضیت بقضاء ابی بکر۔
حضرت زید نے فرمایا اللہ کی قسم اگر یہ معاملہ میرے پاس آتا تو میں وہی فیصلہ کرتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا۔
( الصواعق المحرقتہ صفحہ 127)
اب نہ جانے جو لوگ سیدہ پاک کے اجتہاد کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کیا وجہ ہے،،۔ ورنہ علمائے کرام کی اقوال و عبارات احادیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ ، اجتہاد کرکے فرمایا تھا،
واللہ اعلم بالصواب
سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقال ہوا تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ہاں پیغام بھیجا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وارث آپ ہیں یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر کے افراد؟ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: جی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وارث میں نہیں ہوں، بلکہ آپ کے اہل خانہ ہی ہیں، سیدہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حصہ کہاں ہے؟ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جب آپ نے کسی نبی کو کوئی چیز عطا کرتا ہے اور اسکے بعد اپنے نبی کی روح کو قبض کر لیتا ہے تو وہ چیز اس کے خلیفہ کے کنٹرول میں آجاتی ہے۔ پس میں نے سوچا ہے کہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کر دوں، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تو پھر آپ ہی اس کو جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث سنی ہے، بہتر جانتے ہیں۔
(مسند احمد حدیث 12168)
اس حدیث میں سیدہ پاک واضح فرما رہی ہے، کہ آپنے جو نبی پاک سے حدیث سنی ہے، آپ زیادہ بہتر جانتے ہیں،
اسی وجہ سے سیدہ پاک نے مطالبہ ترک کردیا تھا،
جو فیصلہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے، اس فیصلہ کے متعلق حضرت زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،
قال زید واللہ لو رفع الامر فیھا الی لقضیت بقضاء ابی بکر۔
حضرت زید نے فرمایا اللہ کی قسم اگر یہ معاملہ میرے پاس آتا تو میں وہی فیصلہ کرتا جو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا۔
( الصواعق المحرقتہ صفحہ 127)
اب نہ جانے جو لوگ سیدہ پاک کے اجتہاد کا انکار کرتے ہیں ان کے پاس اس انکار کی کیا وجہ ہے،،۔ ورنہ علمائے کرام کی اقوال و عبارات احادیث سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے مطالبہ ، اجتہاد کرکے فرمایا تھا،
واللہ اعلم بالصواب
ــــــــــــــــــــــ❣🌟❣ـــــــــــــــــــــ
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ہلدوانی نینتال۔
9917420179 📲
9917420179 📲