(سوال نمبر 4891)
اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر اس کے جسم کو چھو سکتا ہے یا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر بیوی کا انتقال ہو گیا تو شوہر اس کے جسم کو چھو سکتا ہے یا نہیں۔حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرما کر شکریہ' کا موقع دیں
اگر بیوی کا انتقال ہوجائے تو شوہر اس کے جسم کو چھو سکتا ہے یا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر بیوی کا انتقال ہو گیا تو شوہر اس کے جسم کو چھو سکتا ہے یا نہیں۔حوالہ کے ساتھ جواب عنایت فرما کر شکریہ' کا موقع دیں
سائل:- محمد سبطین رضؔا مظفر پور بہار الہند۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بیوی کی وفات سے نکاح ختم ہوجاتا ہے لہٰذا شوہر اپنی بیوی کی وفات کے بعد اسے غسل نہیں دے سکتا نہ ہی بلا حائل اس کے جسم کو ہاتھ لگا سکتا ہے کیونکہ جب نکاح ہی ختم ہوگیا تو چھونے و غسل دینے کا جواز بھی جاتا رہا لہٰذا وہ اسے نہ چھو سکتا ہے نہ غسل دے سکتا ہے
یاد رہے بیوی کی وفات کے بعد شوہر کو صرف غسل دینے و بلاحائل چھونے کی ممانعت ہے باقی چہرہ دیکھنا ، کندھا دینا ، قبر میں اتارنا وغیرہ تمام امور جائز ہیں یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے یہ سب باتیں محض غلط لغو و فضول ہیں ان کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے (ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
تنویر الابصار میں ہے
(و يمنع زوجها من غسلها و مسها لا من النظر إليها علي الأصح) منية۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بیوی کی وفات سے نکاح ختم ہوجاتا ہے لہٰذا شوہر اپنی بیوی کی وفات کے بعد اسے غسل نہیں دے سکتا نہ ہی بلا حائل اس کے جسم کو ہاتھ لگا سکتا ہے کیونکہ جب نکاح ہی ختم ہوگیا تو چھونے و غسل دینے کا جواز بھی جاتا رہا لہٰذا وہ اسے نہ چھو سکتا ہے نہ غسل دے سکتا ہے
یاد رہے بیوی کی وفات کے بعد شوہر کو صرف غسل دینے و بلاحائل چھونے کی ممانعت ہے باقی چہرہ دیکھنا ، کندھا دینا ، قبر میں اتارنا وغیرہ تمام امور جائز ہیں یہ جو عوام میں مشہور ہے کہ شوہر اپنی بیوی کے جنازے کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ اس کا چہرہ دیکھ سکتاہے یہ سب باتیں محض غلط لغو و فضول ہیں ان کی شریعتِ مطہرہ میں کوئی حقیقت نہیں ہے (ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
تنویر الابصار میں ہے
(و يمنع زوجها من غسلها و مسها لا من النظر إليها علي الأصح) منية۔
(شامي، باب صلوة الجنازة، ٢/ ١٩٨)
خلاصة الفتاوي میں ہے:
وقال الإمام الأجل فخر الدين خان: يكره للناس أن يمنعوا حمل جنازة المرأة لزوجها مع أبيها و أخيها، و يدخل الزوج في القبر مع محرمها استحساناً، و هو الصحيح و عليه الفتوي. (١ / ٢٢٥)
فتاوی رضویہ میں میں سوال ہوا اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟ اس کے جواب میں
آپ فرماتے ہیں
جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا ، جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے۔کمانص علیہ فی التنویر والدر و غیرھما ۔اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔
اسی سے متصل ایک اور سوال ہوا : زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعد دیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں
شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا ، جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔ زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔
خلاصة الفتاوي میں ہے:
وقال الإمام الأجل فخر الدين خان: يكره للناس أن يمنعوا حمل جنازة المرأة لزوجها مع أبيها و أخيها، و يدخل الزوج في القبر مع محرمها استحساناً، و هو الصحيح و عليه الفتوي. (١ / ٢٢٥)
فتاوی رضویہ میں میں سوال ہوا اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟ اس کے جواب میں
آپ فرماتے ہیں
جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا ، جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے۔کمانص علیہ فی التنویر والدر و غیرھما ۔اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔
اسی سے متصل ایک اور سوال ہوا : زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعد دیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ تحریرفرماتے ہیں
شوہر کو بعدِ انتقالِ زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا ، جائز ہے اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔ زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 9،ص 138 ،رضا فاؤنڈیشن لاهور)
بہار شریعت میں ہے
عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔
بہار شریعت میں ہے
عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ شوہر عورت کے جنازہ کو نہ کندھا دے سکتا ہے نہ قبر میں اتار سکتا ہے نہ مونھ دیکھ سکتا ہے، یہ محض غلط ہے صرف نہلانے اور اسکے بدن کو بلاحائل ہاتھ لگانے کی ممانعت ہے۔
(بہارِ شریعت ج1،ص 813،مکتبۃ المدینہ کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
0511/2023
0511/2023