آج مسلم لڑکیاں تیزی سے ارتداد کی شکار کیوں ہورہی ہیں ؟
اسباب و تدارک
اسباب و تدارک
_________(❤️)_________
ازقلم : مفتی محمد علاؤ الدین قادری رضوی ثنائی ، میراروڈ ممبئی
ازقلم : مفتی محمد علاؤ الدین قادری رضوی ثنائی ، میراروڈ ممبئی
••────────••⊰❤️⊱••───────••
اسلامی تعلیمات سے دوری یہ اصل ارتداد کی راہ ہموار کرتی ہے عقل تعلیم کے بغیر کسی کام کی نہیں ہوتی ، اسی طرح علم عقل کے بغیر مفید نہیں اگر انسان میں یہ دونوں ہوں تو اعتدال کی راہ پر انسان خود گامزن ہوتاہے یہی فطرت کا تقاضا ہے۔
اسلامی تعلیمات سے دوری یہ اصل ارتداد کی راہ ہموار کرتی ہے عقل تعلیم کے بغیر کسی کام کی نہیں ہوتی ، اسی طرح علم عقل کے بغیر مفید نہیں اگر انسان میں یہ دونوں ہوں تو اعتدال کی راہ پر انسان خود گامزن ہوتاہے یہی فطرت کا تقاضا ہے۔
خالص عصری علوم کی طرف انہماک بھی انسان کو دین اسلام سے دور و نفور کرتی ہے کہ زند گی کا تلخ تجربہ ہے انسا ن عصری علوم میں اعلیٰ تعلیم سے لیث تو ہوجاتا ہے مگر دینی علوم کا ایک حصہ بھی نہیں جانتاہے تو لازماً انسان دوسرے با طل مذاہب کی طرف بے لگام بھاگا پھرے گا چونکہ دیگر مذاہب میں کسی عمل کی ادائیگی میں بہت سختی ہے یا تو بہت نرم گوشہ اختیار کیاگیا ہے یہ یہی وہ نرم گوشہ ہے جسے ہم دوسرے لفظ میں آزادانہ طریقہ کہہ سکتے ہیں یہی وہ منہج ہے جس کی بنیاد پر انسان بآسانی شیطانی فریب کا شکار ہوجاتاہے پھر رفتہ رفتہ وہ ارتداد کا شکار ہوتاہے اس لئے ہر مسلم والد ین کےلئے ضروری ہے کہ وہ خود بھی دین و سنت کی حسب ضرورت تعلیم لیں ،سیرت رسول کے مخصوص حصے اپنے مطالعے میں لائیں اور اپنے بچوں کو بھی ان اسباق کی طرف توجہ دلائیں والدین پر یہ فرض کفایہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اس قدر دینی تعلیم و تربیت سے لیث تو کرہی دے کہ مستقبل میں کبھی کوئی اسے اسلام سے منحرف نہ کر سکے ورنہ آج غیر مسلم عصری تعلیم گاہ میں جو مسلم بچوں کے ذہن و فکر میں اسلام مخالف مواد بھرے جارہے ہیں وہ یقینا ہمارے بچوں کےلئے سم قاتل ہیں خصوصاً عیسائی میشنری تو بڑی تیزی کے ساتھ شہر وہ دیہاتی علاقوں میں انگلش میڈیم اسکول کے جو جال بچھا رکھے ہیں اور ان اسکولوں میں جس تیزی سے ہمارے بڑے گھرانے کے بچے اچھی تعلیم کے نام پر مہنگے فیس ادا کرکے اسلامی اقدار و روایات سے دور ہورہے ہیں یہ مسلم امہ کے لئے اچھی نوید نہیں۔
آج آٹھ لاکھ لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوئیں ہیں ، کل یہ اعدادو شمار بھی کرنا کہیں مشکل نہ ہوجائے اس لئے مسلم کمیونٹی کے جو بااثر و صاحب مال اشخاص ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے اپنے شہروں میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ عصری ادارے کھولیں جہاں عصری علوم پڑھانے کے لئے ٹیچرز و پروفیسرس ہوں وہیں دینی علوم کے اسباق کے لئے اچھے و باصلاحیت حفاظ ، علما ہوں جو جن شعبہ جات کے ماہر ہوں ان سے وہ کام لیا جائے ۔
الحمد للہ ! مہاراشٹرا میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اس طرز پر آج برسوں سے کام کررہے ہیں جیسے پونا شہر میں آپ ’’اعظم کیمپس ‘‘ کا دورہ کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کا تجربہ کر سکتے ہیں یہ وہ مسلم ادارہ ہے جہا ں عصری علوم میں تقریبا تمام شعبہ جات ہیں جو اسی شہر کے با اثر حضرات کے زیر نگرانی رواں دواں ہیں ، اس وقت اعظم کیمپس کے روح رواں جناب ڈاکٹر پی ، اے انعام دار ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے ادارہ کو عروج ہی نہیں بخشا بلکہ پوری دنیا میں قومی ملی طور پر مسلم سماج کا شبیہ بھی روز روشن کی طر ح چمکدار بنانے میں ایک اہم کلیدی رول ادا کیا ہے اس قومی اثاثے کو بنا نے ، سنوار نے ، نکھار نے ، چمکانے اور بام عروج پر پہنچانے میں محتر مہ عابدہ انعام دار کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا کہ پی ، اے انعام دار کا ہے یہ دو شخصیتیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے اعظم کیمپس کو علم و آگہی کا وہ گلشن بنادیا جس کی خوشبو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی ۔اسی طر ح گلبرگہ کی انعام دار یونانی میڈیکل کی تعمیری ، تعلیمی خدمات ہما رے لئے ایک مثالی پروجیکٹ ہے جس کی ارتقا میں ڈاکٹر قمر الزماں انعام دار اور ان کے برادر عزیز جناب شاکرا نعام دار کی جدو جہد شامل ہے ، یو پی کی زمین پر حضرت سید امین میاں برکاتی نے دینی و عصری علوم میں جس ادارہ کا قیام آج چند سالوں قبل کیا جسے ہم ’’ جامعہ البرکات علی گڑھ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں یقینا یہ ادارے ہمارے لئے آئیڈیل ہیں جو قوم کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتی ہیں اگر ہم اپنے مسلکی تشخص پر قائم رہتے ہوئے بھی ان اداروں کو سامنے رکھ کر کام کیا تو اب بھی وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم سے بھی آشنا رکھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری بچیاں بہت حد تک ارتداد سے بچ سکتی ہیں ۔
اسی طرح بے پردگی ، بے حیا ئی، فحش فلمیں ،بیہودہ احباب کی بری صحبتیں بھی ہماری اولادوں کو صراط مستقیم سے ہٹا رہی ہیں ۔زندگی پر صحبت کا بہت اثر ہوتا ہے ، آدمی جس طبیعت کے لوگوں کی صحبت میں اپنی صبح و شام گذارتا ہے اسی طبیعت کا اس پر اثر بھی ہوجاتاہے اس لئے اچھی صحبت انتہائی ضروری ہے ۔
ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ دینی مسائل سیکھنے کے لئے گوگل یونیورسٹی پر بھروسہ نہ کر یں بلکہ علمائے ملت اسلامیہ کو اپنے گھر پر مدعو کریں اور با ضابطہ مختصر دینی پروگرام ترتیب دیں تا کہ گھر کا ماحول دینی ہو جب گھر کا ماحول دینی ہوگا تو بچہ یا بچی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں گے اسے شیطانی حربے سے بچنے میں آسانیاں ہوں گی ۔
ملک میں جتنے مدارس چل رہے ہیں ہر ایک کے ذمہ دار کو چا ہئے کہ وہ اپنی جامعات میں منظم طور پر عصری علوم کا انتظام کریں اور بچوں کو تمام مقابلہ جاتی امتحانات میں بٹھائیں تاکہ یہ بچے سرکار کےاہم شعبوں میں صرف ملازم ہی نہ ہوں بلکہ یہ ہماری قوم کا ترجمان بھی ہوں اس طرح ہم ملک میں کھوئی ہوئی بر سوں کی سیاسی بصیرت کا امین ہو سکیں گے یہی بچے کل ہمیں اس ملک میں شان سے جینے ، رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔ فی الحال شرح تعلیم کی جو فیصد ہماری ہے وہ کافی افسوس ناک ہے ، ارتدادو پستی کی اصل سبب جہالت بھی ہے یوں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ جسے چاہتاہے ہدایت سے نوازتا ہے ۔ آج ہی کی بات ہے کہ میں (راقم الحروف )میڈیکل کے لئے اہلیتی رجسٹر یشن کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو حیران ہو گیا کہ ہماری شمولیت دس فیصد بھی نہیں ہے تو بتا ئیں ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کس قدر بھیانک ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یاد رکھیں ! آج جہاں آپ اپنے ہی ملک میں مآب لینچنگ کے ذریعہ مارے جارہے ہیں اور سرکاریں تماشا بیں ہیں ، وہیں کل ہم طبی نقطہ نظر سے دوران علاج مارے جاتے رہیں گے اور اس وقت ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا ۔
آج آٹھ لاکھ لڑکیاں ارتداد کا شکار ہوئیں ہیں ، کل یہ اعدادو شمار بھی کرنا کہیں مشکل نہ ہوجائے اس لئے مسلم کمیونٹی کے جو بااثر و صاحب مال اشخاص ہیں انہیں چاہئے کہ اپنے اپنے شہروں میں اسلامی تعلیمات کے ساتھ عصری ادارے کھولیں جہاں عصری علوم پڑھانے کے لئے ٹیچرز و پروفیسرس ہوں وہیں دینی علوم کے اسباق کے لئے اچھے و باصلاحیت حفاظ ، علما ہوں جو جن شعبہ جات کے ماہر ہوں ان سے وہ کام لیا جائے ۔
الحمد للہ ! مہاراشٹرا میں ایسے بہت سے ادارے ہیں جو اس طرز پر آج برسوں سے کام کررہے ہیں جیسے پونا شہر میں آپ ’’اعظم کیمپس ‘‘ کا دورہ کر کے تعلیمی و تربیتی نظام کا تجربہ کر سکتے ہیں یہ وہ مسلم ادارہ ہے جہا ں عصری علوم میں تقریبا تمام شعبہ جات ہیں جو اسی شہر کے با اثر حضرات کے زیر نگرانی رواں دواں ہیں ، اس وقت اعظم کیمپس کے روح رواں جناب ڈاکٹر پی ، اے انعام دار ہیں جنہوں نے اپنی انتھک کوششوں سے ادارہ کو عروج ہی نہیں بخشا بلکہ پوری دنیا میں قومی ملی طور پر مسلم سماج کا شبیہ بھی روز روشن کی طر ح چمکدار بنانے میں ایک اہم کلیدی رول ادا کیا ہے اس قومی اثاثے کو بنا نے ، سنوار نے ، نکھار نے ، چمکانے اور بام عروج پر پہنچانے میں محتر مہ عابدہ انعام دار کا بھی اتنا ہی رول ہے جتنا کہ پی ، اے انعام دار کا ہے یہ دو شخصیتیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے اعظم کیمپس کو علم و آگہی کا وہ گلشن بنادیا جس کی خوشبو ہمیشہ محسوس کی جاتی رہے گی ۔اسی طر ح گلبرگہ کی انعام دار یونانی میڈیکل کی تعمیری ، تعلیمی خدمات ہما رے لئے ایک مثالی پروجیکٹ ہے جس کی ارتقا میں ڈاکٹر قمر الزماں انعام دار اور ان کے برادر عزیز جناب شاکرا نعام دار کی جدو جہد شامل ہے ، یو پی کی زمین پر حضرت سید امین میاں برکاتی نے دینی و عصری علوم میں جس ادارہ کا قیام آج چند سالوں قبل کیا جسے ہم ’’ جامعہ البرکات علی گڑھ ‘‘ کے نام سے جانتے ہیں یقینا یہ ادارے ہمارے لئے آئیڈیل ہیں جو قوم کی ڈوبتی نیا کو پار لگا سکتی ہیں اگر ہم اپنے مسلکی تشخص پر قائم رہتے ہوئے بھی ان اداروں کو سامنے رکھ کر کام کیا تو اب بھی وہ دن دور نہیں کہ ہم اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم کے ساتھ دینی تعلیم سے بھی آشنا رکھ سکتے ہیں جس کا مطلب یہ ہوا کہ ہماری بچیاں بہت حد تک ارتداد سے بچ سکتی ہیں ۔
اسی طرح بے پردگی ، بے حیا ئی، فحش فلمیں ،بیہودہ احباب کی بری صحبتیں بھی ہماری اولادوں کو صراط مستقیم سے ہٹا رہی ہیں ۔زندگی پر صحبت کا بہت اثر ہوتا ہے ، آدمی جس طبیعت کے لوگوں کی صحبت میں اپنی صبح و شام گذارتا ہے اسی طبیعت کا اس پر اثر بھی ہوجاتاہے اس لئے اچھی صحبت انتہائی ضروری ہے ۔
ہم مسلمانوں کو چاہئے کہ دینی مسائل سیکھنے کے لئے گوگل یونیورسٹی پر بھروسہ نہ کر یں بلکہ علمائے ملت اسلامیہ کو اپنے گھر پر مدعو کریں اور با ضابطہ مختصر دینی پروگرام ترتیب دیں تا کہ گھر کا ماحول دینی ہو جب گھر کا ماحول دینی ہوگا تو بچہ یا بچی دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں گے اسے شیطانی حربے سے بچنے میں آسانیاں ہوں گی ۔
ملک میں جتنے مدارس چل رہے ہیں ہر ایک کے ذمہ دار کو چا ہئے کہ وہ اپنی جامعات میں منظم طور پر عصری علوم کا انتظام کریں اور بچوں کو تمام مقابلہ جاتی امتحانات میں بٹھائیں تاکہ یہ بچے سرکار کےاہم شعبوں میں صرف ملازم ہی نہ ہوں بلکہ یہ ہماری قوم کا ترجمان بھی ہوں اس طرح ہم ملک میں کھوئی ہوئی بر سوں کی سیاسی بصیرت کا امین ہو سکیں گے یہی بچے کل ہمیں اس ملک میں شان سے جینے ، رہنے کا سبب بھی ہوں گے ۔ فی الحال شرح تعلیم کی جو فیصد ہماری ہے وہ کافی افسوس ناک ہے ، ارتدادو پستی کی اصل سبب جہالت بھی ہے یوں تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ جسے چاہتاہے ہدایت سے نوازتا ہے ۔ آج ہی کی بات ہے کہ میں (راقم الحروف )میڈیکل کے لئے اہلیتی رجسٹر یشن کی لسٹ دیکھ رہا تھا تو حیران ہو گیا کہ ہماری شمولیت دس فیصد بھی نہیں ہے تو بتا ئیں ملک میں مسلمانوں کا مستقبل کس قدر بھیانک ہے اگر یہ سلسلہ یوں ہی جاری رہا تو یاد رکھیں ! آج جہاں آپ اپنے ہی ملک میں مآب لینچنگ کے ذریعہ مارے جارہے ہیں اور سرکاریں تماشا بیں ہیں ، وہیں کل ہم طبی نقطہ نظر سے دوران علاج مارے جاتے رہیں گے اور اس وقت ہمارا کوئی پرسان حال نہ ہو گا ۔
آخری با ت !
یاد رکھیں ! ہمارے بڑوں نے تو ہمیں یہ سکھا گئے ہیں کہ :
آدھی رو ٹی کھاؤ اور بچوں کو پڑ ھاؤ
ہمیں اپنے آقا حضرت نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ وسلم کی یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ :علم نور ہے اور جہالت تاریکی۔
اگر آپ بہتر و روشن مستقبل کے خواہاں ہیں تو علم حاصل کریں اگرچہ صعوبت بھری زند گی گزارنی پڑ ے ۔
اللہ سبحا نہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع عطا فر ما ئے ۔
آمین !بجا ہ سید المر سلین۔
یاد رکھیں ! ہمارے بڑوں نے تو ہمیں یہ سکھا گئے ہیں کہ :
آدھی رو ٹی کھاؤ اور بچوں کو پڑ ھاؤ
ہمیں اپنے آقا حضرت نبی کر یم صلی اللہ علیہ وسلم وآلہ وسلم کی یہ بات ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ :علم نور ہے اور جہالت تاریکی۔
اگر آپ بہتر و روشن مستقبل کے خواہاں ہیں تو علم حاصل کریں اگرچہ صعوبت بھری زند گی گزارنی پڑ ے ۔
اللہ سبحا نہ تعالیٰ ہم سب کو علم نافع عطا فر ما ئے ۔
آمین !بجا ہ سید المر سلین۔
_________(❤️)_________
ترسیل فکر :- محمد شاہد رضا ثنائی
رکن اعلیٰ : افکار اہل سنت اکیڈمی میراروڈ ممبئی