Type Here to Get Search Results !

حضور حجتہ الاسلام! ایک مختصر تعارف تاریخ وصال 17/ جمادی الاولی پر خصوصی تحریر


حضور حجتہ الاسلام! ایک مختصر تعارف تاریخ وصال 17/ جمادی الاولی پر خصوصی تحریر 
________________________________________________
کتبہ:-(حافظ) افتخار احمد قادری  
♦•••••••••••••••••••••••••♦

تاج الاصفیاء،رئیس العلماء،آفتابِ شریعت وطریقت،شیخ المحدثین،راس المفسرین،حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله عنہ کی ولادت مرکز اہلسنت بریلی شریف میں ماہ ربیع الاول 1292ھ 1875ء میں ہوئی۔عقیقہ میں آپ کا نام حسب دستورِ خاندانی محمد رکھا گیا- جن کے اعداد 92/ ہیں اور یہی نام آپ کا تاریخی ہوگیا آپ کا عرفی نام ،،حامد رضا،، اور خطاب حجتہ الاسلام ہے۔
 تعلیم و تربیت:
حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله عنہ کی تعلیم و تربیت آغوشِ والد ماجد امام اہلسنّت مجدد دین وملت الشاہ امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله عنہ میں ہوئی۔والد ماجد آپ سے بڑی محبت فرماتے اور ارشاد فرماتے کہ ،،حامد منى وانا من حامد،، جملہ علوم و فنون آپ نے اپنے والدِ ماجد سے حاصل کیے۔یہاں تک کہ حدیث، تفسیر، فقہ وکتب، معقول ومنقول کو پڑھ کر صرف 19/ سال کی عمر شریف میں فارغ التحصیل ہوگئے۔
(فاضل بریلوی علمائے حجاز کی نظر میں، صفحہ 03)
حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله عنہ حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری رضی الله عنہ کے مرید و خلیفہ تھے اور آپ کو آپ کے والدِ ماجد امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی علیہ الرحمتہ والرضوان سے بھی اجازت و خلافت حاصل تھی۔آپ سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے چالیسویں امام و شیخ طریقت ہیں۔آپ اپنے والدِ ماجد کی تمام خوبیوں کے جامع، آپ کی شخصیت و حقانیت اسلام کی بولتی تصویر تھی، بیشتر غیر مسلم آپ کے چہرہ انور کو دیکھ کر حلقہ بگوش اسلام ہوئے، حسن کا ظاہری عالم یہ تھا کہ ایک نظر میں دیکھنے والا پکار اٹھتا ،،ھذا حجتہ الاسلام،، یہ اسلام کی دلیل ہیں- حرمین شریفین کی حاضری پر حضرت شیخ سید حسین دباغ اور سید مالکی ترکی نے آپ کی قابلیت کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا تھا: ،،ہم نے ہندوستان کے اطراف و اکناف میں حجتہ الاسلام جیسا فصیح و بلیغ نہیں دیکھا،، (تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ، صفحہ، 483)
آپ کمالاتِ باطنی کے جامع، اپنے عہد کے لاثانی و بے نظیر مدرس، اور آپ کا تفسیر و حدیث کا درس خاص طور پر مشہور تھا، آپ عربی ادب میں منفرد حیثیت کے مالک اور شعر وادب کا بہت نازک و پاکیزہ ذوق رکھتے تھے، آپ نے مسلک اہلسنت و سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کی بے مثال خدمات انجام دیں اور ساری عمر مسلمانانِ اسلام کی فلاح و ترقی میں کوشاں رہے- آپ اپنے اسلاف آباؤ اجداد کے مکمل نمونہ اور اخلاق وعادات کے جامع تھے،آپ جب بات کرتے تو تبسّم فرماتے ہوئے،لہجہ انتہائی محبت آمیز ہوتا،بزرگوں کا احترام،چھوٹوں پر شفقت کا برتاؤ آپ کی شرست کے نمایاں جوہر تھے،آپ ہمیشہ نظریں نیچی رکھتے، درود شریف کا کثرت سے ورد فرماتے،یہی وجہ ہے کہ اکثر آپ کو نیند کے عالم میں بھی درود شریف پڑھتے دیکھا گیا۔آپ کی طبیعت انتہائی نفاست پسند تھی،آپ کا لباس آپ کی نفاست کا بہترین نمونہ ہوتا تھا،انگریز اور اس کی معاشرت کے آپ اپنے والدِ ماجد کی طرح شدید مخالف رہے۔آپ علوم و فنون کے شہنشاہ،زہد و تقویٰ میں یگانہ اور خطابت کے شہسوار تھے،آپ نے اپنے اسلاف کا جو نمونہ قوم کے سامنے چھوڑا ہے وہ ایک عینی شاہد کی زبانی ملاحظہ فرمائیں:
     ،،شیخ الدلائل مدنی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں: حجتہ الاسلام نورانی شکل وصورت والے ہیں، میری اتنی عزت کرتے کہ جب میں مدینہ منورہ سے ان کے یہاں گیا، کپڑا لے کر میری جوتیاں تک صاف کرتے اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتے ہر طرح خدمت کرتے کچھ روز کے قیام کے بعد جب میں بریلی شریف سے واپس عازم مدینہ ہونے لگا تو حضرت حجتہ الاسلام نے فرمایا: مدینہ منورہ میں سرکارِ اعظم میں میرا سلام عرض کرنا:
 اب تو مدینہ لے بلا گنبد سبز دے دکھا
حامد و مصطفےٰ رضا ہند میں ہیں غلام دو
   (تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ، صفحہ، 484) 
     آپ رضی الله عنہ نہایت ہی متقی اور پرہیز گار تھے- علمی و تبلیغی کاموں سے فرصت پاتے تو ذکر الٰہی اور درود شریف کے ورد میں مصروف ہو جاتے، آپ کے جسم اقدس پر ایک پھوڑا ہوگیا تھا، جس کا آپریشن ناگزیر تھا، ڈاکٹر نے بے ہوشی کا انجکشن لگانا چاہا تو آپ نے منع فرمایا اور صاف کہہ دیا کہ میں نشے والا ٹیکہ نہیں لگواوں گا، عالم ہوش میں دو تین گھنٹے تک آپریشن ہوتا رہا آپ درودشریف کا ورد کرتے رہے اور کسی بھی درد و کرب کا اظہار نہ ہونے دیا، ڈاکٹر آپ کی ہمت اور استقامت و تقویٰ پر ششدر رہ گیا-(ماہنامہ حجاز جدید دہلی، اپریل 1989ء صفحہ 51) 
علمی و تبلیغی کارنامے:
   حجتہ الاسلام رضی الله عنہ ایک بلند پایہ خطیب، مایہ ناز ادیب اور یگانہ روزگار عالم و فاضل تھے- دین متین کی خدمت و تبلیغ، ناموسِ مصطفےٰ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت، قوم کی فلاح و بہبود آپ کی زندگی کے اصل مقاصد تھے اور یہی سچ ہے کہ وہ غلبہ اسلام کی خاطر زندہ رہے اور سفر آخرت فرمایا تو پرچمِ اسلام بلند کرکے اس دنیا سے سرخرو اور کامران ہوکر گئے- آپ کے والدِ ماجد اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله عنہ نے خود ان کی علمی و دینی خدمت کو سراہا ہے اور ان پر ناز کیا ہے- مسلک اہل سنت وجماعت کی ترویج و اشاعت کی خاطر آپ نے برصغیر کے مختلف شہروں اور قصبوں کے دورے فرمائیں، گستاخانِ رسول سے مناظرے کیے، سیاست دانوں کے دام فریب سے مسلمانوں کو نکالا، شدھی تحریک کی پسپائی کے لیے جی توڑ کوشش کی اور ہر جہت سے باطل اور باطل پرستوں کا مقابلہ کیا- آپ رضی الله عنہ سیاست دانوں کی چالوں کو خوب سمجھتے تھے اور اپنے زمانے کے حال سے پوری طرح باخبر رہ کر مسلمانوں کو سیاست و ریاست کے چنگل سے بچانے کی ہر ممکن جد وجہد کرتے رہے، ساتھ ہی ساتھ اس آندھی میں اڑنے والے مسلم قائدین اور دانشوران سے افہام وتفہیم اور حق نہ قبول کرنے پر ان سے ہر طرح کی نبرد آزمائی کے لیے بھی تیار رہتے- مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی پر ان کی کچھ سیاسی حرکات اور تحریرات کی بنا پر سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله عنہ نے ان پر فتویٰ صادر فرمایا، مولانا عبد الباری صاحب نے نجدیوں کے ذریعے حرمین شریفین کے قبہ گرانے اور بے حرمتی کرنے کے سلسلے میں لکھنؤ میں ایک کانفرنس بلائی تھی، حجتہ الاسلام رضی الله عنہ جماعت رضائے مصطفےٰ کی طرف سے چند مشہور علماء کے ہمراہ لکھنؤ تشریف لے گئے، وہاں مولانا عبد الباری صاحب اور ان کے متعلقین و مریدین نے زبردست استقبال کیا اور مولانا عبد الباری نے حجتہ الاسلام سے مصافحہ کرنا چاہا تو آپ نے ہاتھ کھینچ لیا، اور فرمایا کہ جب تک میرے والد گرامی کا فتویٰ ہے اور جب تک آپ توبہ نہیں کرلیں گے میں آپ سے نہیں مل سکتا- حضرت مولانا عبد الباری صاحب فرنگی محلی کا لقب صوت الایمان تھا، اُنہوں نے حق کو حق سمجھ کر کھلے دل سے توبہ کرلی اور یہ فرمایا: ،،لاج رہے یا نہ رہے میں الله تعالیٰ کے خوف سے توبہ کررہا ہوں مجھ کو اسی کے دربار میں جانا ہے- مولوی احمد رضا خاں نے جو کچھ لکھا ہے صحیح لکھا ہے۔(تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ، صفحہ، 486)
آپ رضی الله عنہ کو ایک بار دارالعلوم معینیہ اجمیر شریف میں طلباء کا امتحان لینے اور دارالعلوم کے معائنہ کے لیے دعوت دی گئی- طلباء کے امتحان وغیرہ سے فارغ ہو کر جب آپ چلنے لگے تو مولانا معین الدین صاحب اجمیری نے دارالعلوم کے معائنہ کے سلسلے میں کچھ لکھنے کی فرمائش کی- آپ نے فرمایا فقیر تین زبانیں جانتا ہے، عربی فارسی اور اُردو، آپ جس زبان میں کہیں لکھ دوں، مولانا معین الدین صاحب اس وقت تک اعلیٰ حضرت یا حجتہ الاسلام سے اتنے متاثر نہ تھے جتنا ہونا چاہیے- انہوں نے کہہ دیا عربی میں تحریر کردیجیۓ- حجتہ السلام رضی الله عنہ نے قلم برداشتہ کئی صفحہ کا نہایت ہی فصیح و بلیغ عربی میں معائنہ تحریر فرمایا- آپ کے اس قلم برداشتہ لکھنے پر مولانا معین الدین صاحب حیرت زدہ بھی ہو رہے تھے اور سوچ بھی رہے تھے کہ نہ جانے کیا لکھ رہے ہیں؟ کیونکہ ان کو بھی اپنی عربی دانی پر بڑا ناز تھا- جب معائنہ لکھ کر حجتہ الاسلام قدس سرہ العزیز چلے آئے تو بعد میں اس کے ترجمے کے لیے مولانا مرحوم بیٹھے تو اُنہیں حجتہ الاسلام رضی الله عنہ کی عربی سمجھنے میں بڑی دقت پیش آئی، بمشکل تمام لغت دیکھ کر ترجمہ کیا وہ بھی پورا ترجمہ نہیں کر سکے اور بعض الفاظ انہیں لغت میں بھی نہ ملے، بعد میں انہیں عرب علماء کی زبان اور ان کی کتب سے حاصل ہوئے تب جاکر انہیں ان الفاظ اور محاوروں کا علم ہوا-
(تذکرہ مشائخ قادریہ برکاتیہ، صفحہ: 487)
 آپ زیارتِ حرمین شریفین سے بھی مشرف ہوئے- 1323ھ میں اپنے والدِ گرامی امام اہلسنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله عنہ کے ہمراہ تشریف لے گئے- یہ حج آپ کا علمی و تحقیقی میدان میں عظیم حج تھا اور جو کارہائے نمایاں آپ نے اس حج میں ادا فرمائے وہ ،،الدولتہ المکیہ،، کی ترتیب ہے، جسے سرکار اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری فاضلِ بریلوی رضی الله عنہ نے صرف آٹھ گھنٹے کی قلیل مدت میں قلم برداشتہ لکھا، مذکورہ کتاب کے اجزاء حجتہ الاسلام رضی الله عنہ کو دئے جاتے تھے تو آپ ان کو صاف کرتے تھے، پھر اس کا ترجمہ بھی آپ ہی نے کیا، یہ ترجمہ بہت ہی اہم ہے جو دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے، زیارتِ سرکارِ مدینہ صلی الله علیہ وسلم کا اشتیاق جس درجہ آپ کو تھا اس کا صحیح اندازہ آپ کے مندرجہ ذیل شعر سے ہوتا ہے:
اب تمنا میں دم پڑا ہے یہی سیارہ زندگی کا
بلالو مجھ کو مدینہ سرور نہیں تو جینا حرام ہوگا
     حجتہ الاسلام رضی الله عنہ صاحبِ تصنیف بزرگ تھے، ذیل میں آپ کی قلمی یادگار کی نشاندھی کی جاتی ہے قارئین ملاحظہ فرمائیں: الصارم الربانى على اسراف القاديانى سب سے پہلے آپ نے 1315ھ میں قادیانیوں کا رد لکھا- ترجمه الدولة المكيه بالمادة الغيبيه، حسام الحرمين على منحر الكفر والمين، حاشیہ ملا جلال، مقدمہ الاجازات المتینہ، نعتیہ دیوان، مجموعہ فتاویٰ-
اولادِ امجاد:
    حجتہ الاسلام رضی الله عنہ کے دو صاحب زادے اور چار صاحب زادیاں تھیں - صاحبزادگان کے نام یہ ہیں حضور مفسر اعظم ہند حضرتِ مولانا ابراھیم رضا خان جیلانی میاں حضرت مولانا حماد رضا خان نعمانی میاں
وصال:
     حجتہ الاسلام حضرت مولانا حامد رضا خان قادری بریلوی رضی الله عنہ 17/ جمادی الاول 1362ھ مطابق 23/ مئی 1943ھ بعمر 70/ سال عین حالتِ نماز میں دوران تشہد 10/ بجکر 45/ منٹ پر اپنے خالق حقیقی سے جاملے - 
انا لله وانا اليه راجعون 
جنازے کی نماز آپ کے خلیفہ خاص حضرتِ محدثِ اعظم پاکستان مولانا سردار احمد قادری قدس سرہ العزیز نے مجمع کثیر میں پڑھائی- آپ کا مزار مبارک خانقاہ عالیہ رضویہ بریلی شریف میں والد ماجد کے پہلو میں ہے- ہر سال عرس مبارک کی تاریخ میں بیشمار علماء ومشائخ کے ساتھ عوام شریک ہوتے ہیں اور اپنے اپنے دامنوں کو گوہر مراد سے پر کرتے ہیں- بریلی شریف کی خانقاہ کے علاوہ بھی برصغیر پاک و ہند میں آپ کے بے شمار متوسلین مذکورہ تاریخ پر آپ کے روحانی فیض سے مستفیض ہوتے ہیں-
_________(❤️)_________ 
کتبہ:- (حافظ) افتخار احمد قادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
 کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area