Type Here to Get Search Results !

قسط دوم قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا کیسا ہے؟


 قسط دوم:- قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا کیسا ہے؟
♦•••••••••••••••••••••••••♦
حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ
 نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نیپال
_________(❤️)_________ 
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
(1)اپنے اکابرین کے صحیح اقوال کے خلاف غیر مفید بحث کا نہ آغاز بہتر نہ انجام اچھا
(2) بحمدہ سبحانہ وتعالی مگر فیض رب قدیر عاجز فقیر قادری سے وہ کام لے لیتا ہے جسے دیکھ کر انصاف والی نگاہیں کہ حسد سے پاک ہوں ناخواستہ کہ اٹھیں ۔
کم ترک الاول للاخر۔یعنی اگلے پچھلوں کے لئے کتنا علمی ذخیرہ چھوڑ گئے
(3) حدیث شریف میں ارشاد ہوا ہے کہ
عالم کا ہاتھ رب العزت کے دست قدرت میں ہے اگر وہ لغزش بھی کرے تو اللہ تعالیٰ جب چاہے اسے اٹھالے گا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 23 ص 687)
یعنی عالم دین اپنے گناہ میں وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ اسے جلد نجات,بخشتا ہے
(4) ضلع سرلاہی کے علمائے کرام اور مفتیان کرام سے ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار کی گزارش کی کہ آپ حضرات دونوں کے دلائل بڑھ کر انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں
(5) المرء یقیص علی نفسہ یعنی ہر شخص دوسرے کے بارے میں اپنی ذات کے حوالے سے قیاس کرتا ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد 23 ص 116)
عزیزم بابو حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ 
نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی سلمہ 
آپ کا پہلا مضمون میرے ایک قول پر آیا تھا تو قسط اول میں آپ کی ہر دلیل کا رد بلیغ کردیا گیا تھا لیکن پھر رات حضرت علامہ مولانا شاعر اسلام مداح رسول جناب شمیم انجم صاحب نیپالی موہن پور کے معرفت ایک مضمون آیا ہے میں تو جواب نہیں لکھتا کہ قسط اول کافی طوالت کے ساتھ جواب لکھ کر بھیجا تھا لیکن کچھ علماء کی عادت ہے کہ ہم اپنے ضد اپنی بے بنیاد بحث اور اپنی نئی تحقیق کے سامنے اپنے سے پہلے اکابرین کی تحقیق کو نہیں مانیں گے آج کل یہی ہورہا ہے اس فقیر نے علمائے اہل سنت کے بارہ مستند کتابوں سے ثابت کیا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں اور یقینا صد فی صد وہ تمام علمائے کرام مجھ سے زیادہ فقہی عبارتوں پر گہری نظر رکھنے والے تھے اور ان معتمد دلائل سے فتویٰ دیتے تھے جہاں تک میری اور آپ کی رسائی نہیں ہوسکتی 
آپ کی یہ دوسری تحریر ہے جو میرے سامنے ہے آپ تحریر فرماتے ہیں کہ 
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
حضور مصباح ملت مفتی اعظم بہار زاداللہ شرفکم 
عزیزم مولانا غلام قطب الدین کے ذریعہ آپ کا جواب موصول ہوا کافی مصروفیت کے بعد آج تھوڑی فرصت ملی ہے دلائل کے انبار پڑھ کر مسرت ہوئی ماشاء اللہ  
الغرض آپ کی تحریر میں تین چیزیں ہیں 
1: قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا ناجائز اس موقف پر کثیر فقہی جزئیات
2:جب کافر حربی کو دینے میں ثواب نہیں تو کیوں کر جائز ہوگا 
3: میرے سوالوں کے جوابات 
یہاں پر ہم دوسری اور تیسری چیز پر بحث کریں گے کیوں کہ ناجائز ہونے پر اس فقیر کی نظر میں بھی متعدد جزئیات ہیں 
اب سوال یہ ہے کہ :
1:کیا جس کام میں ثواب نہیں ہو وہ کام کرنا ناجائز ہے ؟ 
2:ثواب نہ ہونے کی وجہ سے اگر ناجائز ہو تو بہت سارے مسلمان وہ کام کرتے ہیں جس میں کوئ ثواب نہیں اس اعتبار سے کثیر مسلمان ناجائز کام میں ملوث ہونے کی وجہ سے گنہ گار ہوں گے  
فقیر قادری محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی کا جواب
حضرت نائب قاضی صاحب سلمہ 
میرے جواب کو صحیح سے پڑھیں تاکہ مسئلہ کا حل ہو جائے میں نے قسط اول میں لکھا ہے کہ 
ہندوستان کے کافر حربی ہے اور حربی کافر کو صدقات واجبہ اور صدقات نافلہ دونوں دینا جائز نہیں اور بے شک قربانی کا گوشت بھی صدقات نافلہ ہے لہذا قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں اور اگر دیا تو کوئی ثواب نہیں:
 اس کا مطلب ملاحظہ فرمائیں ۔
 کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت نہ دینے کی 
 کئی وجوہات ہیں جن میں سے قسط اول میں دو وجہوں پر گفتگو کی گئی تھی  
(1)اول یہ کہ قربانی کا گوشت صدقہ نافلہ ہے اور کافر حربی کو صدقہ واجبہ یا نافلہ دینا جائز نہیں
(2) دوئم یہ کہ اگر کوئی قربانی کا گوشت کافر حربی کو دیا تو اسے کوئی ثواب نہیں۔
اس سے یہ واضح نہیں ہوا کہ کافر حربی کو صرف اس لیے دینا جائز نہیں کہ وہ اہل ثواب سے نہیں ہے بلکہ تمام وجوہات میں ایک یہ بھی وجہ ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ کافر حربی کو صدقہ نافلہ یا صدقہ واجبہ دونوں دینا جائز نہیں ہے لہذا صاحب ہدایہ نے باب الوصیۃ میں فرمایا کہ
ان الوصیۃ للاذمی جائزۃ دون الحربی لانہ نوع احسان و لھذا المعنی قال فی باب الزکواۃ ان الصدقه النافلۃ یجوز اعطاء ھا اللذمی دون الحربی
 یعنی صاحب ہدایہ باب الوصیۃ میں انہیں آیتوں کی سند سے فرمایا کہ ذمی کے لئے وصیت جائز ہے اور حربی کے لئے حرام کہ وہ ایک طرح کا احسان ہے اور اسی کے سبب باب الزکواۃ میں فرمایا کہ نفلی صدقہ ذمی کو دینا حلال اور حربی کو دینا حرام
( فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 439) 
چلئے بقول نائب قاضی صاحب کے اسی وجہ کو مان لیا جائے کہ میری تحریر کا مطلب یہ ہے کہ کافر اہل ثواب سے نہیں اس لئے قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ۔
اب تمام سرلاہی ضلع کے علماء سے خصوصا اصل قاضی حضرت علامہ مولانا مفتی عبد الغفار صاحب سے گزارش ہے کہ میری اس دلیل کو مطالعہ غور سے کریں اور انصاف کریں 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
ہمارے ائمہ کرام نے حربی کو صدقہ نافلہ دینے کی ممانعت سے ان کی عورتوں بچوں کسی کو مستثنی نہ فرمایا حکم عام دیا جامع صغیر امام محمد و ہدایہ ودرر و عنایہ و کفایہ و جوہرہ ومستصفی پھر نیایہ و غایۃ البیان و فتح القدیر و بحر الرائق وکافی و تبین وتفسیر احمدی وفتح اللہ المبین و غنیہ ذوی الاحکام کتب معتمدہ میں ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 458)
  یہ کل سولہ (16) کتب معتمدہ سے ثابت ہے کہ کافر حربی کو صدقات نافلہ دینا جائز نہیں ہے اور نائب قاضی صاحب اپنے اول مضمون میں خود تحریر فرماتے ہیں کہ قربانی کا گوشت صدقہ نافلہ ہے جب قربانی کا گوشت صدقہ نافلہ ہے تو کافر حربی کو دینا جائز نہیں جیسا کہ صاحب ہدایہ نے بھی فرمایا ۔
 اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے سولہ (16) کتابوں سے ثابت کیا کہ کافر حربی کو صدقہ دینا جائز نہیں ہے  
*اب کافر حربی کو صدقہ دینا جائز کیوں نہیں اس کی وجہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ خود فرما رہے ہیں اور اپنے رسالہ میں ایک باب بنام یہاں کے کسی کافر فقیر کو بھیک دینا بھی جائز نہیں
 کہ تائید میں ۔سولہ کتابوں سے دلیل نقل فرماکر پھر لکھتے ہیں کہ
معراج الدرایہ میں ہے
صلۃ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ
 اس کا ترجمہ فتاوی رضویہ میں اس طرح ہے کہ 
حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 458)
اب آپ ذرا غور سے پڑھیں کہ اس عبارت سے دو باتیں واضح ہوئیں 
(1) کافر حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں
(2) اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے
یہاں نفل خیرات نہ دینے کی علت سرکار سیدی اعلی حضرت یہ فرماریے ہیں کہ کافر حربی کو خیرات دینے میں کوئی ثواب نہیں ہے اس لئے نفل صدقہ دینا حرام ہے یہاں لم یجز یعنی جائز نہیں کا ترجمہ کیا گیا کہ اسے نفل خیرات دینا حرام ہے  
پھر حضرت مفتی انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ لکھ رہے ہیں کہ:
(کیا جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے)
آپ نے اس عبارت کو محل استشھاد بنایا ہے :
" صلتہ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ"
اس عبارت میں (لذا لم یجز التطوع الیہ ) کو غیر ثواب پر دار مدار رکھا گیا ہے یعنی جب ثواب نہیں تو دینا بھی جائز نہیں 
میں کہتا ہوں کہ کیا عرف فقہ میں ( جواز ) صرف حلت ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ جو آپ نے لم یجز کو لم یحل پر محمول کرلیا 
اقول:- محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری سنئے مفتی انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نیپال میں کون ہوتا ہوں کہ لم یجز کو لم یحل پر محمول کرنے والا خود فتاوی رضویہ میں لم یجز کو لم یحل پر محمول کیا گیا ہے کاش آپ فتاوی رضویہ کا ایک بار مطالعہ کرلیتے پھر یہ الزام ہم پر نہیں لگاتے ۔
 ملاحظہ فرمائیں ۔
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے جو  
معراج الدرایہ سے نقل فرماتے ہیں کہ معراج الدرایہ میں ہے: 
صلۃ لایکون برا شرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ
 اس کا ترجمہ فتاوی رضویہ میں اس طرح کیا گیا کہ 
حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے:
اب آپ ذرا غور سے پڑھیں کہ اس عبارت سے دو باتیں واضح ہوئیں 
(1) کافر حربی سے نیک سلوک شرعا کوئی نیکی نہیں
(2) اس لئے اسے نفل خیرات دینا حرام ہے
یہاں نفل خیرات نہ دینے کی علت یہ ہے کہ کافر حربی کو خیرات دینے میں کوئی نیکی نہیں ہے اس لئے نفل صدقہ دینا حرام ہے یہاں لم یجز کو لم یحل پر محمول کیا گیا ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 458)
کیا جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے
اقول:- مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ آپ لکھتے ہیں کہ کیا جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے ۔ہم نے کب کہا کہ جائز نہیں حرام کے مقابل استعمال ہوتا ہے بلکہ فتاوی رضویہ ہی کی عبارت سے یہ ثابت ہے جو آپ نے اوپر پڑھا مزید دلیل ملاحظہ فرمائیں ۔
میں فقیر قادری ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار نے بارہ کتابوں سے ثابت کیا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا ناجائز ہے ممنوع ہے جائز نہیں ہے 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ :
اور ناجائز کا ترک واجب
(فتاوی رضویہ جلد جدید 21 ص 188)
دیکھئے یہاں ناجائز کا ترک واجب کہا گیا ہے 
ترک واجب و ناجائز۔ ممنوع اور حرام پر گفتگو
ترک واجب مکروہ تحریمی اور مکروہ تحریمی ہمارے امام محمد کے نزدیک حرام اور صاحبین کے نزدیک قریب حرام ہے اور مفتی بہ قول صاحبین کا ہے اور علماء مکروہ تحریمی کو حرام بھی کہتے ہیں اکثر فقہ میں حرام کا لفظ استعمال ہوا ہے
سر کار مفتی اعظم ہند قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ کافر ذمی کے ساتھ بر و احسان کی اجازت مگر کافر حربی کے ساتھ ممنوع (فتاوی مصطفویہ ص 450)
اس سے معلوم ہوا کہ کافر حربی کے ساتھ بر و احسان ممنوع ہے
اب سوال اٹھتا ہے کہ ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے
ممنوع کس کے مقابل میں آتا ہے؟
الجواب ۔فتاوی بریلی شریف میں ہے کہ ممنوع کبھی مکروہ تحریمی کے مقابل بولا جاتا ہے اور اس کا کرنا عبادت کو ناقص کردیا ہے اور کرنے والا گنہگار ہوتا ہے اگرچہ اس کا گناہ حرام سے کم ہے اور کئی بار اس ارتکاب کبیرہ ہے اور حرام یہ فرض کا مقابل ہے اس کا ایک بار بھی قصدا کرنا گناہ کبیرہ و فسق اور بچنا فرض ہے
(فتاوی بریلی جلد دوم ص 384)
 ہمارے علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ممنوع مکروہ تحریمی کے مقابل میں آتا ہے ۔اب آپ فیصلہ فرمائیں گے ناجائز یا منوع سے کیا مراد ہوسکتا ہے ؟
حضور صدر الشریعہ مفتی امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ۔ناجائز و حرام میں فرق ہے ہر ناجائز ۔حرام نہیں ۔اور حرام ضرور ناجائز
(فتاوی امجدیہ جلد چہارم ص 154)
لیکن ہر جگہ فرق نہیں ہوتا ہے ہاں بعض جگہ فرق بھی ہوتا ہے
اس کے حاشیہ میں ہے کہ
جواز عام ہے اور حلال خاص ۔اسی طرح ناجائز و حرام میں فرق ہے حرام کا ثبوت صرف اس دلیل سے ہوگا جس کا ثبوت و اثبات دونوں قطعی ہوں ۔اور طلب کف جازم ہو ۔
جب کہ ناجائز کا ثبوت تین طرح کی دلیلوں سے ہوتا ہے
(1) ثبوت قطعی 
(2) اثبات ظنی
(3)؛ طلب کف جارم 
ظاہر ہے کہ حرام ناجائز ضرور ہوتا ہے لیکن ہر ناجائز حرام نہیں ہوتا
آپ کا یہ بھی جزیہ آپ کے لیے مفید ثابت نہیں بلکہ میرے مؤقف کی تائید میں مفید ثابت ۔
اور قربانی کا گوشت صدقہ ہے اور 
صدقہ کے متعلق حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ:
ان الصدقۃ یبتغی بھا وجہ اللہ تعالیٰ والھدہۃ یبتغی بھا وجہ الرسول و قضاء الحاجۃ
یعنی صدقے سے اللہ عزوجل کی رضا مطلوب ہوتی ہے اور یدیہ سے نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی رضا اور اپنی حاجت روائی منظور ہوتی ہے۔
(کنز العمال جلد 6ص 347)
اب آپ بتائیں کہ کیا کافر کو صدقہ دینے سے خدا تعالیٰ کی رضا حاصل ہوگی؟ ہر گز حاصل نہ ہوگی اسی لئے فقہاء کرام نے تصریح فرمائی کہ کافر حربی کو صدقہ دینا حرام ہے
*قربانی کا گوشت کسی مسلم کو دینا یا صدقہ دینا ثواب ہے اور ثواب کا عبادت پر مرتب ہوتا ہے اور کافر اہل ثواب سے نہیں لہذا اس کو دینے میں کوئی ثواب نہیں جب ثواب نہیں تو قربانی اور صدقہ کا مطلوب حاصل نہیں اور مسلمان اہل ثواب ہے لہذا اس کا ثواب مسلمان کو پہنچتا ہے
(یہاں تک میری یعنی محمد ثناء اللہ خاں کی دلیل ہے) 
پھر حضرت قاضی موصرف صاحب لکھتے ہیں کہ 
جب حربی کافر کو دینا ثواب نہیں تو بے مقصد و مطلوب ہوا اسی بے مقصد ہونے کی وجہ سے خلاف مستحب کہا جا سکتا ہے نہ کہ ناجائز 
اور فتاوی رضویہ کی عبارت کا جو مطلب آپ نے بیان کیا ہے وسمجھ سے بالا تر ہے کیوں کہ سوال تو اہل ہنود کو دینے اور نہ دینے کے بارے میں ہے تو 
 کیا جواب یہی ہونا چاہئے کہ چوتھا حصہ نکالنا خلاف مستحب ہے ؟ 
دوسری بات میرے مجدد اعظم اعلی حضرت علیہ الرحمہ خود فرمارہے ہیں اسی جواب میں :" اور اگر غنی نے کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا گوشت کا اسے اختیار ہے "
اب یہاں پر ملاحظہ فرمائیں 
گوشت کا اسے اختیار ہے 
سوال : گوشت کا اختیار کسے ہے 
تو جواب : ہوگا غنی کو 
سوال: کس چیز کا اختیارہے 
تو جواب: ہوگا گوشت کا 
سوال: کس چیز کے لئے اختیار ہے 
تو جواب: ہوگا دینے کے لئے اختیار ہے
سوال: کس کو دینے کے لئے اختیار ہوگا
تو جواب ہوگا اہل ہنود کو دینے کے لئے اختیار ہوگا 
کیوں کہ سوال اہل ہنود کو دینے اور نہ دینے کے متعلق ہے تو جواب بھی اسی کے بارے میں ملے گا 
اب حضور خود غور فرمائیں کہ یہاں خود دینے کا اختیار بتایا گیا 
دوسری بات تین حصے کیوں لگاۓ جائیں گے ؟
تو جواب ہوگا دینے کے لئے صرف تین حصے رکھنے کے لئے نہیں بلکہ دینا بھی ہوگا تب ثواب مستحب کا مستحق ہوگا 
اب اس کا بر عکس چوتھا حصہ نکالنا دینے کے لئے ہی خلاف مستحب ہوگا یہی وجہ ہے کہ خود میرے مجدد اعظم حضور اعلی حضرت فرماتے ہیں کہ (لھذا انھیں دینا خلاف مستحب ہے ) تو یہاں بھی دینے ہی کا اعتبار کیا گیا ہے
 (یہاں تک مفتی انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ کی اپنے موقف کو ثابت کرنے کی دلیل ہے اب اس کے آگے اس فقیر کی دلیل ملاحظہ فرمائیں)
محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار
ویسےبھی اس دلیل پر قسط اول میں اس فقیر قادری ثناءاللہ خان نے بہت کچھ لکھ چکا ہوں لیکن پھر مفتی صاحب وہی بات دوہرا رہے ہیں خیر 
اس جگہ تین باتیں قابل دھیان ہے 
(1) کیا کافر حربی کو صدقہ نافلہ یا واجبہ دینا جائز ہے یا ناجائز 
،(2) سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے نزدیک کافر کو صدقہ نافلہ خصوصا قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب ہے یا ناجائز ہے
(3) کیا خلاف مستحب جائز ہوتا ہے یا ناجائز  
سوال اول کا جواب:-
 سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اپنے ایک رسالہ بنام 
الحجۃ الموتمنۃ فی ایۃ الممتحنۃ میں فقہ کی تقریبا سولہ کتابیں جو سب کے سب معتبر و مستند ہیں مثلا جامع صغیر امام محمد ۔وہدایہ ۔ودرر و عنائیہ و کفایہ و جوہرہ و مستصفی پھر نیایہ وغایۃ البیان و فتح القدیر و بحر الرائق و کافی وتںین وتفسیر احمدی و فتح اللہ المعین وغنیہ ذوی الاحکام کتب معتمدہ سے واضح بیان نقل فرمایا کہ 
کافر حربی کو صدقہ دینا نیک سلوک کرنا بھیک دینا اس پر مہربان کرنا سب حرام ہے
مفتی صاحب اس رسالہ کا مطالعہ ضرور کریں تاکہ ذہن صاف ہوجائے حق تک پہنچ جائے۔
سوال دوم کا جواب:-
برادران اسلام 
جب سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے سولہ کتابوں سے کافر حربی کو صدقہ واجبہ یا نافلہ دینے جو حرام ثابت کیا تو پھر خلاف مستحب کیوں کہیں گے کیا خلاف مستحب حرام ہے کیا جو کام حرام ہے وہ خلاف مستحب ہے کیا ان تمام باتوں سے معاذ اللہ اعلی حضرت غافل تھے کبھی نہیں جب سرکار اعلی حضرت حرام کہ رہے ہیں تو پھر قربانی کا گوشت بھی صدقہ نافلہ ہے اس کو دینے جو خلاف مستحب کیسے کہیں گے کہ اہل علم مانیں گے ہی نہیں 
جہاں سے مفتی صاحب نے لکھا وہ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 پر اسی دلیل کو نائب قاضی صاحب اپنے دل سے لگائے ہوئے ہیں کہ مجھ کو ایک دلیل مل گئی جو تمام علمائے احناف کے اقوال کو رد کرنے کے لئے کافی ہے اسی لئے اس دلیل کو آنکھ کا سرمہ لگائے ہوئے ہیں ۔
جبکہ اسی صفہ 456, کے بعد اگر صفہ 457 پڑھ لیتے تو اس دلیل کو بھول جاتے  
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے ایک سوال ہوا کہ
قربانی کا عقیقہ کا گوشت کافر کو دینا جائز ہے یا ناجائز اس سوال کے جواب میں 
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ۔وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 457)
اس سے واضح ہوا کہ امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کے نزدیک کافر حربی کو گوشت دینا جائز نہیں ہے جب جائز نہیں ہے تو خلاف مستحب کیسے ہوگا ۔اور جائز نہیں کو عربی میں لایجوز کہا جاتا ہے اور لایجوز کا ترجمہ فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 458 پر حرام کیا گیا ہے 
لایجوز للمسلم بر الحربی یعنی حربی کے ساتھ نیک سلوک مسلمان کو حرام ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید ص 458)
لیکن پھر بھی حصور علامہ مولانا مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ اپنی پرانی بات پر ہے کہ اعلی حضرت عظیم البرکت نے ہندو کو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب کہا
اب تمام علمائے سرلاہی سے گزارش ہے کہ اس دلیل کا مطالعہ ضرور کریں:
یہ دلائل مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب کہ تمام سوالات کے جوابات ہیں:
لایستحب یعنی خلاف مستحب کو لایجوز یعنی جائز نہیں ہے پر محمول کرنا جائز ہے دلیل کی دلیل کی وجہ سے
عزیزم بابو مفتی صاحب سلم نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نیپال
فتاوی رضویہ کی جو عبارت آپ کی دلیل ہے کہ سرکار سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ سے ایک سوال ہوا کہ ۔۔گوشت قربانی کا جو بقرعید میں اہل اسلام میں ہوتا ہے وہ اہل ہنود کو دیا جائے یا نہیں ۔؟
اس سوال کے جواب میں امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
قربانی اگر فقیر نے کی ہو اس کا گوشت کسی کافر کو دینا جائز نہیں ۔اگردے گا تو اتنے تاوان دینا لازم ہوگا اور اگر غنی نے کی تو ذبح کرنے سے اس کا واجب ادا ہوگیا ۔گوشت کا اسے اختیار ہے ۔مگر مستحب یہ ہے کہ کہ اس کے تین حصے کرلے ۔ایک حصہ اپنے لئے ۔ایک عزیزوں و خویشوں کے لئے ۔ایک تصدق کے لئے ۔یہاں کہ کفار دینا تینوں مدوں سے خارج ہے ۔لہذا انہیں دینا خلاف مستحب ہے اور اپنے مسلمان بھائی کو چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456)
مفتی صاحب سلمہ
آپ اسی جواب سے بار بار دھوکا کھا رہے ہیں حالانکہ قسط اول میں اس کی شاندار شرعی وضاحت کردی گئی تھی لیکن آپ نے اس کو سمجھا نہیں یا نہیں مانا جو بھی وجہ ہو ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عبارت سے کسی کو بھی اشتنباء ہوسکتا ہے لیکن کیا آپ نے کبھی یہ خیال کیا ک اس جواب سے ہمارے وہ علماء۔ فقہاء ۔بصیرث رکھنے والے ۔علم میں مہارت رکھنے والے اور سخت تجربہ رکھنے والے اور علم کے سمندر ہیں جو فقہی نظائر و فقہی دلائل اور فقہی جزئیات اور اصول فقہ پر ہم سے زائد علم رکھنے والے ہیں وہ غافل نہیں تھے اس کے باوجود ان تمام فقہاء اہل سنت نے متعدد کتابوں میں اس کو علی الاطلاق ذکر فرمایا کہ:
قربانی کا گوشت حربی کافر دینا ناجائز ہے کسی نے فرمایا دینا جائز نہیں ہے کسی نے حکم دیا کہ ممنوع ہے جبکہ ان تمام علمائے کرام کی نگاہیں اس عبارت پر بھی تھی جبکہ میں کمزور علم والے ثناء اللہ خاں بار بار اس کو پڑھا تھا ایسا نہیں کہ ہم لوگ اس سے غافل ہیں اس کے باوجود ناجائز کا حکم دیا جارہا ہے آخر اس کی کوئی وجہ ہوگی یہاں تک آپ نے نظر کو نہیں دورایا کہ یہ فتویٰ فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 456 کا جس سے واضح ہوتا ہے کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب ہے اور خلاف مستحب جائز ہوتا ہے نہ کہ ناجائز ۔
لیکن فتاوی رضویہ کی دوسری عبارت کی چھان بین اگر کرتے تو دھوکہ نہ کھاتے 
عزیزم بابو مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب سلمہ
اگر آپ کے پاس فتاوی رضویہ ہے تو فتاوی رضویہ کی بیسویں جلد کھول کو صفہ 456, پرھ لیجئے جو عبارت آپ کی ٹھوس دلیل ہے اب آپ ٹھیک اس کے آگے اسی جلد فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 457 کا مطالعہ کریں اس صفہ پر ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ 
 ارشاد فرماتے ہیں کہ
انت کھانے کی چیز نہیں کہ۔پھینک دینے کی چیز ہے ۔وہ اگر کافر کو دے دی جائے تو حرج نہیں خبیث چیزیں خبیث لوگوں کے لئے اور خبیث لوگ خبیث چیزوں کے لئے 
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت اسے کے آگے تحریر فرماتے ہیں کہ ۔
یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں ۔وہ خاص مسلمانوں کا حق طیب چیزیں طیب لوگوں کے لئے اور طبیب لوگ طبیب چیزوں کے لئے
 پھر بھی کوئی اپنی جہالت سے دے گا تو قربانی میں کوئی فرق نہیں پڑتا:
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 457)
یہ دو جواب تھے
 (1) ایک جواب سے معلوم ہوا کہ کافر کو گوشت دینا خلاف مستحب ہے
 (2)‌ایک دوسرے جواب سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں۔وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے۔
(3) پھر ایک جگہ تیسرا سوال ہوا کہ قربانی کے حصے تین کرنا ۔ایک حصہ آپنا ۔دوسرا خویش و اقارب کا ۔تیسرا مسکینوں کا ۔ایا اگر مساکین لوگ اسلام سے نہیں ہیں تو اس حصہ کا کیا حکم ہے؟
 اس تیسرے سوال کے جواب میں:-
 سرکار سیدی مرشدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ ۔تین حصے کرنا صرف استحابی امر ہےکچھ ضروری نہیں۔چاہے سب اپنے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ۔یا سب مساکین کو بانٹ دیں ۔یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ ۔اصلا ثواب نہیں رکھتا
درمختار میں ہے 
اما الحربی ولومستامنا فجمیع الصدقات لایجوز لہ اتفاقا ۔بحر عن الخانیۃ وغیرھا
یعنی حربی اگر مستامن بھی ہو تو اس کو کوئی بھی صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے
بحر نے خانیہ وغیرہا سے نقل کیا ۔
پھر بحر الرائق میں معراج الدرایہ شرح ہدایہ سے ہے 
صلتہ لایکون بر اشرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
اس کا ترجمعہ فتاوی رضویہ میں اس طرح کیا گیا کہ اس سے (یعنی کافر حربی سے ) صلہ شرعا نیکی نہیں اسی لئے اس کو نفلی صدقہ بھی جائز نہیں لہذا عبادت نہ بنے گا 
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
عزیزم بابو مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب
اس فقیر قادری محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار نے آپ اور تمام قارئین کے سامنے فتاوی رضویہ سے تین فتاوے نقل کرکے پیش کیا
(1) پہلا فتاوی سے معلوم ہوا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا خلاف مستحب ہے
(2) دوسرا فتوی سے واضح ہوا کہ یہاں کے کافروں کو گوشت دینا جائز نہیں کہ وہ خاص مسلمانوں کا حق ہے
(3) تیسرا فتویٰ سے بخوبی واضح ہوا کہ یہاں اگر مسلم مساکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں ۔تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ ۔اصلا ثواب نہیں رکھتا ۔اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ نے اس کی تائید میں کہ کافر کو دینا اصلا نیکی نہیں رکھتا درمختار سے استدلال فرمایا کہ اس کو صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے اور ناجائز کیوں ہے تو اس کی تائید میں بحرالرائق میں معراجِ الدرایہ شرح ہدایہ سے دلیل دے رہے ہیں کہ 
کافر حربی سے صلہ شرعا نیکی نہیں اسی لئے اس کو نفلی صدقہ دینا بھی جائز نہیں اگر دیا تو عبادت نہ بنے گا یعنی تصدق کا حق ادا نہ ہوگا اور جب نہ ہوگا تو ثواب نہیں ملے گا اور جب ثواب نہیں ملے گا تو دینا جائز نہیں ہے
بس صاف طور سے معلوم ہوا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کے نزدیک کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے ہاں ایک فتویٰ سے زیادہ سے زیادہ یہ معلوم ہوا کہ کافر حربی کو دینا خلاف مستحب ہے ۔اور اپنے مسلمان بھائی کی چھوڑ کر کافر کو دینا حماقت ہے یہاں سمجھنے کی یہ بات ہے کہ جب دو جگہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں لکھا ہوا تو پھر سوال اٹھتا ہے کہ جو چیز جائز نہیں وہ خلاف مستحب کیسے ہوگا؟ کیونکہ مستحب اس کو کہتے ہیں جس کی بجاآوری عند الشرع محبوب اور پسندیدہ اور اس کا ترک کرنا عذاب و عتاب کا سبب نہ ہو کسی عمل کے مستحب و مندوب ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ اس کو ائمہ اسلام یا علمائے کرام نے پسند فرمایا ہو اس کا کرنا وجہ ثواب اور نہ کرنا وجہ عتاب وسرزتش نہیں مستحب کے مقابل خلاف اولی آتا ہے یعنی نہ کرنا بہتر اور کرلینے پر کوئی عذاب و عتاب یا سرزتش نہیں ۔
اس تصریحات سے واضح ہوا کہ خلاف مستحب کام کرنا ناجائز نہیں ہوتا ہے جب اس کو خلاف مستحب مانا جائے گا تو کثیر علمائے کرام کے اقوال پر ضرب پڑے گا خصوصاً سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے حکم پر کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں پر سوال اٹھنے لگے گا اس لئے اب ان تمام اقوال ہیں تطبیق کی ضرورت ہے لیکن یہاں تطبیق کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ نے اپنے دو جواب میں کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں ہے کی تصریح فرمائی صرف ایک جواب دیں بطور تقسیم کے دینے کو خلاف مستحب فرمایا یہی سے آپ دھوکہ کھا بیٹھےاگر چھان بین کرتے تو آپ کا یہ بھی اشکال دور ہوجاتا خیر فقیر قادری کی تحقیق میں ہے کہ کبھی خلاف مستحب لایجوز کے معنی ہیں آتا ہے لہذا یہاں بھی خلاف مستحب سے ناجائز ہی مراد لیا جائے گا سماعت فرمائیں
چلئے عزیزم بابو مفتی صاحب سلمہ
آپ ہی کے مطابق کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا خلاف بھی مستحب ہے جیسا کہ بقول آپ کے فتاوی رضویہ میں ہے چلئے میں آپ کی بات کو ایک سیکنڈ کے لئے نہ مانتے ہوئے بھی مان لیتا ہوں تو سماعت فرمائیں کہ فقہاء کرام نے فرمایا کہ خلاف مستحب کا ارتکاب کرنا جائز ہے ناجائز نہیں ہے مگر آج میں آپ کو ایک نئی تحقیق پیش کررہا ہوں کہ بعض مسائل میں دلیل کی دلیل کہ وجہ سے خلاف مستحب کا ارتکاب جائز نہیں ہوتا ہے یعنی کبھی دلیل کی دلیل کی وجہ سے خلاف مستحب بمعنی جائز نہیں ہے آپ کو یا کسی کو بھی تعجب ہوگا لیکن یہ میدان افتاء ہے یہاں کافی مطالعہ کی ضرورت ہے ۔ملاحظہ فرمائیں 
خلاف مستحب کو عربی میں لایستحب کہا جاتا ہے یعنی خلاف مستحب جس کا معنی اچھا نہیں ہے ۔مستحب نہیں ہے:
کبھی لایستحب لا یجوز یعنی جائز نہیں کے معنی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ہمیشہ نہیں بلکہ دلیل کے اعتبار سے ۔
جیسے فتاوی رضویہ میں ہے کہ
وکذا الاسکاف او الخیاط اذا استوجر علی خیاطۃ شئی من زی الفساق ویعطی لہ فی ذالک کثیرا اجر لایستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ اس کا ترجمہ کیا گیا کہ 
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ 
اقول ۔ولایستحب ھھنا للنھی لاجل التشبیہ المذکورہ وبدلیل الدلیل ففی الخانیۃ مسئلۃ الطبل لایجوز لانہ اعانۃ علی المعصیۃ و فی اوئل شھاداٹ الھندیۃ عن المحیط الاعانۃ علی المعاصی من جملۃ الکبائر
اور یہی حکم ہے موچی اور درزی کا کہ جب اسے کسی ایسی چیز کے لئے اور بنانے پر اجرت دی جائے جو فاسقوں کی وضع اور شکل کا لباس ہو اور اس میں اسے زیادہ اجرت دینے کا وعدہ کیا جائے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ یہ کام کرے اس لئے کہ گناہ پر یہ دوسرے کی امداد کرنا ہے 
اقول یعنی سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں کہ
*یہاں لایستحب بمعنی نہی ہے تشبیہ مذکورہ کی وجہ سے اور دلیل کی دلیل کی وجہ سے۔*۔چنانچہ فتاوی قاضی خان میں طبلہ بجانے کے متعلق ہے کہ جائز نہیں اس لئے کہ یہ گناہ پر امداد دینا ہے ۔اور فتاوی عالمگیری کی بحث :اوئل شہادت : میں محیط سے نقل کیا گیا کہ گناہ کے کاموں میں کسی کی امداد کرنا کبیرہ گناہوں میں شامل ہے
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 21 ص 210 بحوالہ فتاوی قاضی خان اور فتاوی ہندیہ )
صورت بحث میں تمام علمائے احناف کے نزدیک کافر حربی کو صدقہ دینا جائز نہیں ہے اب کوئی دیا تو گناہ پر امداد کرنا ہوا یعنی اعانۃ علی المعصیۃ ہوا جو نا جائز ہے
مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب غور سے پڑھیں کہ
اس عبارت میں صاف آیا ہوا ہے کہ
لایستحب لہ ان یعمل لانہ اعانۃ علی المعصیۃ جس کا ترجمہ کیا گیا کہ 
اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ یہ کام کرے اس لئے کہ گناہ پر یہ دوسرے کی امداد کرنا ہے
یہاں لایستحب یعنی خلاف مستحب کو لایجوز یعنی جائز نہیں پر محمول کیا گیا ہے
اور اس کی تائید میں سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
اقول یہاں لایستحب بمعنی نہی ہے تشبیہ مذکورہ کی وجہ سے اور دلیل کی دلیل کی وجہ سے اب ان تصریحات کی وجہ سے یہ مسئلہ بخوبی حل ہوگیا کہ کافر حربی کو کوئی صدقہ دینا یا اس کے ساتھ نیک سلوک کرنا یا صلہ رحمی کرنا یا غمخواری کرنا سب قرآن و حدیث اور اقوال ائمہ احناف کے خلاف ہے اور ممانعت کا ثبوت حاصل اب کوئی مسلمان کسی کافر حربی کو قربانی کا گوشت دیا تو ناجائز کام پر امداد کرنا ہوا لہذا ناجائز ہوگا یعنی دلیل کی دلیل کی وجہ سے خلاف مستحب کو لایجوز پر محمول کیا جائے گا ۔اب ہمین یقین کامل ہے کہ مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ کے تمام اشکال دور ہوگئے ہوں گے 
 پھر مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ لکھتے ہیں کہ 
اور آپ نے اس عبارت :
 لابأس للمسلم ان یعطی کافرا حربیا أو ذمیا وأن یقبل الھدیۃ منہ لما رویاھ
اب یہاں حضور غور فرمائیں (کافرا حربیا ) کو (ذمیا) کے مقابل میں ذکر کیا یعنی جو ذمی ہے وہ حربی نہیں اور جو حربی ہے وہ ذمی نہیں ذمی کو امان حاصل ہے حربی کو امان حاصل نہیں اور اور حربی مستامن یہ بھی ذمی میں شامل ہے معنوی اعتبار سے فتاوی رضویہ میں ہے مستامن کے لئے جواز نکلتا ہے اور مستامن بھی مثل ذمی معاہد ہے 
اس لئے حربی مستامن ذمی میں معنا داخل ہے اور جب ذمی میں مستامن داخل ہے تو (کافرا حربیا ) سے مستامن مراد نہیں ہے کیوں کہ (ذمیا میں )مستامن داخل ہی ہے 
اور جب ذمی میں مسامن داخل تو لامحالہ کافرا حربیا سے غیر مستامن مراد ہوگی کیوں کہ یہ لفظ اس کے مقابل میں ذکر کیا گیا ہے اور مقابل اسی وقت ہوسکتا ہے جب دونوں کے معنی میں تضاد ہو 
اور سیر کبیر یہ متون کی کتب سے ہے اور متون شروح اور فتاوی پر مقدم ہے 
اقول:- محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی
شریر کبیر کے متعلق قسط اول میں لکھا چکا ہے کہ اس سے مراد مستامن معاہد ہے محیط اور عالمگیری اور فتاوی رضویہ سے جواب دیا چکا گیا ہے مزید لکھنے کی ضرورت نہیں ہے 
حضرت عزیزم مفتی موصوف صاحب سلمہ پھر لکھتے ہیں کہ:
اور کافر حربی کو دینے پر اخر میں ایک عقلی دلیل بھی دی گئ ہے مکارم اخلاق سے تو جب دلیل دی جاے تو اس مسئلہ کے معتبر ہونے کا اشارہ ہوتا ہے 
(محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی کا جواب ملاحظہ فرمائیں) 
قاضی صاحب آپ کے نزدیک کافر حربی کو دینے پر آخر میں ایک عقلی دلیل بھی گئی ہے مکارم اخلاق سے.تو جب دلیل دی جائے تو اس مسئلہ کے معتبر ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
جیسا کہ آپ کی تحریر میں واضح ہے ۔
رد بلیغ کافر حربی کے ساتھ مکارم اخلاق کا
ملاحظہ فرمائیں 
اور سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم فرماتے ہیں کہ 
عنایہ امام اکمل میں ہے
التصدق علیھم مرحمۃ لھم و مواساۃ وھی منا فیۃ لمقتضی
انہیں خیرات دینا ان پر ایک طرح کی مہربانی اور ان کی غمخواری ہے اور یہ حکم قرآن مجید کے خلاف ہے۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 458) 
اس سے صاف واضح ہوا کہ کافر حربی کے ساتھ مہربانی غمخواری کرنا قرآن مجید کے خلاف ہے۔ مزید اس کے ساتھ نیک سلوک کرنا بھی حرام ہے 
پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ امام برہان الدین صاحب ذخیرہ نے محیط پھر علامہ جوی زادہ پھر علامہ شرنبلانی نے فرمایا ۔
لایجوز للمسلم بر الحربی یعنی حربی کے ساتھ نیک سلوک حرام ہے۔
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 14 ص 458) 
یہاں لایجوز کا معنی حرام کیا گیا ہے جبکہ جائز نہیں ہونا چاہیے لیکن فتاویٰ رضویہ میں اس عبارت کا جو ترجمہ کیا گیا ہے کہ حربی کے ساتھ نیک سلوک مسلمان کو حرام ہے۔۔
اب بتائیں عزیزم سلمہ کہ آپ کے نزدیک کافر حربی کو صدقہ دینا مکارم اخلاق ہے جبکہ ہمارے علماء کے نزدیک یہ خلاف قرآن مجید ہے اور پھر ہمارے ائمہ احناف صاحب ذخیرہ پھر محیط پھر علامہ جوی زادہ پھر علامہ شرنبلانی کے نزدیک کافر حربی کے ساتھ نیک سلوک کرنا مسلمان کو حرام ہے لہذا آپ کی اس دلیل کا بھی رد بلیغ ہوگیا
ہم کافر حربی کے ساتھ کوئی نیک سلوک کرنا حرام ہے ۔
اگر آپ کی دلیل کو قبول کیا جائے تو یہ ایک حرام ہوگا اور دوسرا قرآن مقدس کے حکم کے خلاف ہوگا جیسا کہ ہم سب کے امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے عنائیہ امام اکمل سے ارشاد فرمایا مزید میری دلیل یہ ہے کہ
 کیا قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا یا کھلانا کیا جائز ہے؟
کیا قربانی کے دن دوسرا بکرا خرید کر ہندو بھائی کو تقسیم کرنا جائز ہے؟
حصور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی رضوی رحمتہ اللہ علیہ صاحب بہار شریعت سے ایک سوال ہوا کہ
جو بکرا قربانی ہوتا ہے بہت سے بھائی ہندو بھائی کے گھر اپنے دوست آشنا کو ہندو بھائی کو تقسیم کرتے ہیں بہت سے لوگ منع کرتے ہیں کہ دوسری قوم میں نہ دینا چاہئے بہت سے لوگ دوسرا بکرا لاکر ہندو بھائی کو تقسیم کرتے ہیں اس سوال کے جواب میں 
حضور صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی صاحب رحمتہ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں کہ
ہندو تو مسلمانوں کو ذبح وقتل کرنے پر تیار ہیں ۔مگر افسوس یہ ہے کہ ان دشمنان دین کو اب تک آپ لوگ بھائی اور دوست ہی تصور کئے ہوئے ہیں ۔قران مجید میں فرمایا ۔یایھا الذین آمنوا لاتتخذوا عدوی و عدوکم اولیاء یعنی اے ایمان والوں میرے اور اپنے دشمن کو دوست نہ بناؤ سوال کا جواب یہ ہے کہ ان کافروں کو نہ قربانی کا گوشت دینا جائز ہے نہ اور دوسرا بکرا ذبح کرکے اس کا گوشت دینا جائز کہ جو جانور خدا کی عبادت کے لئے ذبح کیا گیا اور اس کا گوشت خدا کے دشمن کو دے کر خدا کی خوشنودی حاصل ہوگی ۔یا ناخوشی ۔اس کو ہر عاقل جان سکتا ہے۔
(فتاوی امجدیہ جلد سوم ص 318) 
قاضی صاحب آپ نے لکھا کہ ایک عقلی دلیل بھی ہے کہ کافر حربی کو صدقہ دینا مکارم اخلاق ہے جبکہ قرآن مجید میں دشمنوں کے ساتھ نرمی برتنے کو منع فرمایا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ کافر حربی مسلمانوں کا جانی ومالی دشمن ہے 
اب یہ فقیر ثناءاللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار تمام علمائے سرلاہی نیپال سے عرش گزارش ہے کہ آپ اپنے نائب قاضی کی بات مانیں گے یا اپنے ائمہ کرام اور قرآن مجید کا حکم مانیں گے انصاف آپ کے ہاتھ میں ہے دونوں کے دلائل آپ ملاحظہ فرمارہے ہیں:
 عبارتوں میں تعارض کی تو تطبیق یہ ہوگی کہ جب صلح مصالحت ہو اگرچہ دار الحرب ہی میں کیوں نہ ہو اس وقت تالیف کے لئے اور دعوۃ الی الاسلام کے لئے دینا جائز ہے جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے :
(اذا کان حربیا فی دارالحرب وکان الحال حال صلح ومسالمۃ فلاباس بأن یصلہ )
نائب قاضی صاحب سلمہ یہ دلیل بھی ہمارے سامنے موجود ہے آپ نے پوری عبارت مع حوالہ نہیں لکھا میں پوری عبارت تحریر کرتا ہوں تاکہ آپ سمجھے کہ ہم لوگ اس جزیہ سے غافل نہیں ہیں وہ یہ ہے 
 فتاوی عالمگیری میں تاتار خانیہ سے ہے
ذکر الامام رکن السلام علی السغدی  اذ کان حریبا فی دار الحرب وکان الحال حال صلح ومسالمۃ فلا باس بان یصلہیعنی امام رکن الاسلام علی سغدی نے فرمایا:
جب حربی دارالحرب میں ہو اور وہ وقت صلح و معاہدہ التوائے جنگ کا وقت ہو تو اس سے مالی سلوک میں حرج نہیں (فتاویٰ ہندیہ ۔جلد پنجم ص 347) 
دیکھا نائب قاضی صاحب سلمہ یہ فتاوی عالمگیری جلد پنجم ص 347 پر تاتارخانیہ سے نقل ہے 
یہ بھی دلیل آپ کے موقف کہ تائید کے لئے کافی نہیں ہے یہاں بھی حربی سے مستامن مراد ہے یعنی حربی غیر معاہد مراد ہے ۔دلیل ملاحظہ فرمائیں
الوصیۃ للحربی وھو فی دارھم باطلۃ لانھا بر وصلۃ وقد نھینا عن بر من یقاتلنا لقولہ تعالیٰ انما ینھکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدارین یعنی حربی کہ دار حرب میں ہو اس کے لئے وصیت باطل ہے اس لئے کہ وہ احسان و نیک سلوک ہے اور حربی کے ساتھ نیک سلوک سے ہمیں منع فرمایا گیا کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے ۔اللہ تمہیں ان سے منع کرتا ہے جو دین میں تم سے لڑے 
خود محیط نے تصریح فرمائی کہ:
اراد بالمحارب المستامن یعنی حربی سے مستامن مراد لیا اسی طرح عبارت موطا امام محمد میں ہے :
لاباس بالھدیۃ الی المشرک المحارب مالم یھد الیہ سلاح اودرع وھو قول آبی حنیفۃ والعامۃ من فقھائنایعنی حربی مشرک کو ہدیہ دینے میں حرج نہیں جب تک ہتھیار یا زرہ کا بھیجنا نہ ہو یہی قول امام ابو حنیفہ اور ہمارے عام فقہاء کا ہے ۔
خانیۃ امام فقیہ النفس میں ہے
اوصی مسلم لحربی مستامن بثلث مالہ ذکر فی الاصل انہ تجویز و قیل ھذا اقوال محمد وعن ابی حنیفۃ فی۔ روایۃ لاتجوز وان لم یکن الحربی مستامنا لا تجویز فی قولھم یعنی کسی مسلمان نے حربی مستامن کے لئے اپنے تہائی مال کی وصیت کی ۔مبسوط میں فرمایا ! یہ جائز ہے ۔بعض نے کہا ۔یہ قول امام محمد کا ہے ۔اور امام اعظم سے ایک روایت میں ہے کہ جائز نہیں اور اگر حربی مستامن نہ ہوتو بالاتفاق ناجائز ہے ۔
ردالمحتار میں ہے کہ ۔۔
نص محمد فی الاصل علی عدم جواز الوصیۃ للحربی صریحا
یعنی امام محمد نے اصل میں روشن تصریح فرمائی کہ حربی کے لئے وصیت جائز نہیں
بدائع امام ملک العلماء میں ہے کہ 
وان کان مستامنا ذکر فی الاصل انہ یجوز
 یعنی امام محمد نے اصل میں فرمایا ک کافر اگر مستامن ہو تو اس کے لئے جائز 
 ان تمام تصریحات سے واضح ہوا کہ عالمگیری اور شامی میں سیر کبیر سب کی روایت سے مراد مستامن یعنی معاہد مراد ہے امام محمد نے خود بالکل کشف حجاب فرمادیا کہ 
حربی کے لئے وصیت باطل ہے اور کافر اگر مستامن ہو تو اس کے لئے وصیت جائز ہے اور وصیت و صدقہ میں فرق کی کچھ وجہ نہیں کہ دونوں بروصلہ ہیں اسی لئے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
شرح سیر کبیر کا اطلاق کہ ہر گو نہ حربی کے لئے جواز کا موہم ہے کیونکر مقبول ہوسکتا ہے کہ کریمہ انما ینھکم اللہ کا صاف منافی ہے
(فتاوی رضویہ جلد جدید 14 ص 460.461 462 بحوالہ ردالمحتار جلد پنجم ص 463 الدررالحکام شرح غررالاحکام جلد 2 ص 329 ۔المحیط البرہانی وغیرہ )
مفتی موصوف اپنے موقف کی تائید میں اب آخری دلیل پیش کررہے ہیں کہ تالیف قلوب کے لئے کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے یا کوئی بھی صدقہ دینا جائز ہے جبکہ ان کو کیا معلوم نہیں کہ 
قرآن شریف کا ارشاد کہ واغلظ علیھم یعنی کافروں اور منافقوں پر سختی کرو کے بعد کافروں سے عفو صفح کو فسخ فرمادیا اور مولفۃ القلوب کا سہم
 ( حصہ ) ساقط ہوگیا
امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے افضل الااساتذہ مام عطاء بن ابی رباح رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن کی نسبت امام اعظم فرماتے ہیں کہ میں نے ان سے افضل کسی کو نہ دیکھا وہ کریمہ واغلظ علیھم کو فرماتے ہیں کہ 
نسخت ھذہ الآیۃ کل شئی من العفہ و الصفح
یعنی اس آیۃ کریمہ نے ہر قسم کی معافی اور درگزر کرنے کو منسوخ کردیا ہے۔
(معالم التنزیل علی ہامش تفسیر خازن جلد 3 ص 122)
ہمارے ائمہ کرام نے متعدد کتابوں میں اس کو علی الاطلاق ذکر فرمایا کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے
وہ تمام حضرات عالم فقیہ بصیرت رکھنے والے ۔علم میں مہارت اور تجربہ رکھنے والے اور علم کا سمندر ہیں
الحاصل:
(1) کافر حربی ہم تمام مسلمانوں کا اور خدا تعالیٰ کا دشمن ہے
(2) کافر حربی کو قربانی کا گوشت خواہ کوئی صدقہ دینا جائز نہیں ہے
(3) قربانی کا گوشت ثواب کی نیت سے بانٹا جاتا یے اور کافر حربی ایمان سے خالی وہ کفر و شرک کی وجہ سے کافر اور مشرک ہے اس لئے وہ اہل ثواب سے نہیں اور جب اہل ثواب نہیں ہے اور قربانی کا گوشت ثواب ہی کے لئے تقسیم کیا جاتا ہے تو گوشت یا صدقہ واجبہ اور نافلہ دونوں دینا جائز نہیں بلکہ ثواب کی نیت سے دیا تو ایمان سے خارج
(4)مسلمان ایمان لانے کی وجہ سے اہل ثواب سے ہے اس لئے اس کو دینے میں کثیر ثواب حاصل اور مقصد قربانی بھی حاصل
(5) سرکار سیدی اعلی حضرت سے ایک سوال ہوا کہ 
قربانی کے حصے تین کرنا ۔ایک حصہ آپنا ۔دوسرا خویش و اقارب کا ۔تیسرا مسکینوں کا ۔ایا اگر مساکین لوگ اسلام میں سے نہیں ہیں ۔تو اس حصہ کا کیا حکم ہے ۔اور اگر کسی شخص نے قربانی کی اور تین حصے نہیں کئے اور سارا گھر میں رکھ لیا آیا قربانی درست ہے یا نہیں ؟
الجواب : سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ ارشاد فرماتے ہےکہ تین حصے کرنا استحابی ہے آمر ہے ( یعنی واجب نہیں ہے) کچھ ضروری نہیں چاہے سب اپنے لئے صرف میں کرلے یا سب عزیزوں قریبوں کو دے دے ۔یا سب مساکین کو بانٹ دیں ۔
یہاں اگر مسلمان مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ یہ کفار ذمی نہیں تو ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 14 ص 253) 
اس تصریحات کو پڑھیں اور سمجھیں کہ اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی,نے حربی کافر کو قربانی کا گوشت دینے سے کیوں منع کررہے ہیں قابل غور بات ہے 
  سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت سے سماعت فرمائیں:
(1) اگر مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے 
اب سوال اٹھتا ہے کہ کافر کو قربانی کا گوشت کیوں نہیں دیں ؟ تو اس کا جواب امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ خود دے رہے ہیں کہ 
اگر مسکین نہ ملے تو کافر کو اصلا نہ دے کہ کفار ذمی نہیں ہے
   یہاں کے کافر ذمی نہیں ہے بلکہ حربی ہے اس لئے ان کو قربانی کا گوشت نہ دے 
 ہمارے اعلی حضرت عظیم البرکت 
دوسری وجہ یہ تحریر فرمارہے ہیں کہ ان کو دینا قربانی ہو خواہ صدقہ اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا
اس تصریح سے واضح طور پر معلوم ہوا کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت نہ دینے کی ایک دوسری وجہ یہ ہے کہ وہ اصلا کچھ ثواب نہیں رکھتا ہے کیونکہ وہ اہل ثواب سے نہیں ہے ۔۔
اب سوال اٹھتا ہے کہ امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کے نزدیک کافر حربی کو قربانی کا گوشت خواہ کوئی صدقہ نافلہ نہ دینے کی وجوہات کیا ہیں؟
(1) کیا خلاف مستحب ہے جس کا ارتکاب کرنا جائز ہوتا ہے؟
  (2) یا ناجائز ہوتا ہے جس کا اعتکاف کرنا گناہ ہوتا ہے؟
(3) یا ثواب نہیں ملتا ہے جیسا کہ آدنی علم فقہ رکھنے والے کو یہ بات معلوم ہے کہ خلاف مستحب کام پر ثواب نہیں ملتا ۔
 تو برادران علمائے اہل سنت ضلع سرلاہی صاحبان آپ خود فیصلہ کریں کہ اس سے حضرت عظیم البرکت کے نزدیک کیا مراد ہے
 سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ اپنے اس موقف کہ کافر حربی کو قربانی یا صدقہ دینا جائز نہیں کو ثابت کرنے کے لئے ایک دلیل پیش کررہے ہیں وہ سماعت فرمائیں 
اما الحربی ولو مستامنا فجمیع الصدقات لاتجوز اتفاقا بحر عن الخانیۃ وغیرھا
یعنی حربی اگر مستامن بھی ہو تو اس کو کوئی بھی صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے ۔بحر نے خانیہ وغیرہا سے نقل کیا (فتاویٰ رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
تمام سرلاہی ضلع کے علمائے کرام اب آپ غور کریں کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا بالاتفاق ناجائز ہے
یہاں بالاتفاق کی قید ہے یعنی تمام علمائے احناف کے نزدیک یہ ناجائز ہے      
مفتی انظار عالم مصباحی صاحب نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نیپال سلمہ 
(1) آپ بتائیں کہ کیا خلاف مستحب کام کرنا ناجائز ہوتا ہے ؟ اگر نہیں ہوتا تو پھر سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کیوں فرماتے کہ یہاں کے کافروں کو دینا ناجائز ہے اس سے واضح ہوا کہ جس فتویٰ میں خلاف مستحب لکھا ہے تو اس کا دو جواب ہے ایک تو پہلی قسط میں لکھا ہوں اور دوسرا یہ کہ کبھی خلاف مستحب دلیل کی دلیل کی وجہ سے ناجائز ہوتا ہے جیسا کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ نے تصریح فرمائی ۔
اب میں ثناء اللہ خاں تمام ضلع سرلاہی کے مفتیان کرام اور علمائے کرام سے پوچھتا ہوں کہ آپ حضرات اپنے نائب قاضی صاحب کی بے دلیل اور غیر مفید بحث کو مانیں گے یا اپنے امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ کے حکم کو مانیں گے کہ فیصلہ آپ حضرات پر ہے
پھر میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت بریلی شریف قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں کہ کافر کو صدقہ دینا بالاتفاق ناجائز ہے آخر اس کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
 اس کا بھی جواب سماعت فرمائیں
 اس میں بھی قلم میرا ہوگا اور دلیل اعلی حضرت عظیم البرکت کی ہوگی
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت بحر الرائق میں معراج الدرایہ شرح ہدایہ سے لکھتے ہیں کہ
صلتہ کا یکون براشرعا ولذا لم یجز التطوع الیہ فلم یقع قربۃ
یعنی اس سے (کافر حربی سے ) صلہ شرعا نیکی نہیں اسی لئے اس کو نفل صدقہ بھی جائز نہیں۔لہذا عبادت نہ بنے گا  
اب سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام کی اس دلیل کو ضلع سرلاہی کے مفتیان کرام غور سے پڑھیں کہ آپ کے نائب قاضی ہم ہر الزام لگاریے ہیں جبکہ ہمارے اور آپ کے امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ خود اپنی دلیل میں بحر الرائق کتاب کی جزیہ کو قبول پیش کرکے ثابت کررہے ہیں کہ کافر حربی سے صلہ شرعا نیکی نہیں ہے 
کافر حربی سے صلہ شرعا نیکی نہیں یعنی ثواب نہیں اسی لئے اس کو صدقہ نافلہ دینا بھی جائز نہیں اور اس کو دینا ثواب بھی نہیں
بس یہاں بھی قلم میرا ہے اور دلیل سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان بریلوی قدس سرہ کی ہے اور امام اہل سنت نے بحرالرائق سے نقل فرماتے ہیں جو آپ سے بہت پہلے کے فقیہ ہیں
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 253)
قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں اس کی تائید میں یہ فقیر محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار نے قسط اول میں علمائے اہل سنت کے تقریبا بارہ کتابوں سے ثابت کیا کہ قربانی کا گوشت کافر حربی کو دینا جائز نہیں ہے اب مزید دلیل کی حاجت نہیں ہے اور بحث کا کوئی انتہا نہیں اس لئے بحث کو ختم کررہا ہوں 
*آپ تحریر فرماتے ہیں کہ ثواب نہ ہونے کی وجہ اگر ناجائز ہو تو بہت سارے مسلمان وہ کام کرتے ہیں جس میں کوئی ثواب نہیں اس اعتبار سے کثیر مسلمان ناجائز کام میں ملوث ہونے کی وجہ سے گنہگار ہوں گے۔
الجواب ۔اس جگہ آپ کا اصول غلط ہے چونکہ مسلمان خود اہل ثواب سے ہے اس کے صرف بد عمل چھوڑ کر ہر کام پر ثواب ملتا ہے یہاں تک کہ نیک نیت پر بھی ثواب حاصل ہوتا ہے اگرچہ وہ نیک کام انجام نہ دیا یہاں بات قربانی کے گوشت کا ہے جس کا مقصد ثواب حاصل کرنا ہے اور کافر کو دینے سے کوئی ثواب نہیں حاصل ہوتا ہے اس لئے دینا جائز نہیں ہے اور اس کی تائید میں میں نے اپنے دونوں قسطوں میں کافی صراحت کے ساتھ دلائل ہوں  
کافر حربی سے بر وصلہ منع اور مستامن معاہد سے جائز
آپ موصوف کی آخری دلیل عالمگیری سے ہے کہ 
ذکر الامام رکن السلام علی السغدی 
اذ کان حریبا فی دار الحرب وکان الحال حال صلح ومسالمۃ فلا باس بان یصلہ*یعنی امام رکن الاسلام علی سغدی نے فرمایا: جب حربی دارالحرب میں ہو اور وہ وقت صلح و معاہدہ التوائے جنگ کا وقت ہو تو اس سے مالی سلوک میں حرج نہیں۔
(فتاویٰ ہندیہ ۔جلد پنجم ص 347) 
مفتی موصوف کی اپنے موقف کی تائید میں آخری دلیل ہے
اس کا بھی جواب ملاحظہ فرمائیں
فتاوی عالمگیری کی اس جزیہ سے مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ دھوکہ کھا رہے ہیں کہ اس میں جو لفظ حربی آیا ہے اس سے مراد کافر حربی ہے حالانکہ اس حربی سے مراد مستامن ہے جیسا کہ خود فتاوی عالمگیری میں محیط ہے 
فتاوی عالمگیری میں ہے کہ
*لاباس بان یصل الرجل المسلم المشرک قریبا کان بعیدا محاربا کان او ذمیا و اراد بالحارب المستامن و اما اذا کان غیر المستامن من فلا ینبغی للمسم ان یصلہ بشئی کذا فی المحیط یعنی کوئی حرج نہیں ہے مسلمان مشرک سے کوئی مالی سلوک کرے خواہ وہ رشتہ دار ہو یا اجنبی ۔حربی ہو یا ذمی ۔حربی سے مستامن مراد لیا اور حربی غیر مستامن ہو تو مسلمان کو سزاوار نہیں کہ اس کے ساتھ کوئی نیک سلوک کرنے ایسا ہی محیط میں ہے۔
(فتاویٰ عالمگیری جلد پنجم ص 357) 
دیکھئے مفتی محمد انظار عالم مصباحی صاحب یہاں خود عالمگیری میں حربی سے مراد مستامن معاہد مراد لیا گیا ہے اور آپ کی دلیل عالمگیری کے صفہ 347 سے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر حربی سے نیک سلوک جائز ہے اور اسی کو آپ نے دلیل میں قبول کرکے برقرار رکھا لیکن کاش عالمگیری میں اس سے کچھ آگے صفہ 357 پڑھ لیتے تو آپ کا یہ بھی اشکال رفع ہوجاتا مگر آپ نے ایسا نہیں کیا لہذا یہ دلیل بھی آپ کے موقف کو ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں بلکہ غیر مفید ہے اور ہمارے لئے مفید ہے اب بھی تو آپ بات مان جائے
میں ثناء القادری مرپاوی ضلع 
 سرلاہی کے تمام علمائے کرام سے عرض گزار ہوں کہ فقہی عبارتوں کے معنی و مفہوم کو عزیزم نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نے زیادہ سمجھا یا سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت حضور مجدد اعظم سیدنا امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے زیادہ سمجھا اور ہمارے تمام علماء احناف نے زیادہ , سمجھا
 *سیر کبیر ۔فتاوی عالمگیری ۔ فتوی شامی اور فتاوی رضویہ کی ان عبارتوں کو جس کو ہمارے عزیز حضرت علامہ مولانا مفتی محمد انظارعالم مصباحی صاحب سلمہ نائب قاضی ادارہ شرعیہ ضلع سرلاہی نیپال نے سمجھ کر اپنی دلیل میں قبول فرماکر برقرار رکھا کیا ان عبارتوں 
  کو حضور مفتی اعظم ہند ۔حضور فقیہ ملت اور حضور بحر العلوم نے سمجھ نہیں پائیں کہ ان عبارتوں کے باوجود بھی فرمارہے ہیں کہ کافر حربی کو قربانی کا گوشت دینا جائز نہیں اس سے بر وصلہ نیک سلوک کرنا سب ممنوع ہے جائز نہیں ہے
  آپ خود غور فرمائیں۔۔  
واللہ اعلم باالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ:- فقیہ العصر محقق دورہ حضرت علامہ مولانا مفتی
محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
مرپاوی سیتا مڑھی بہار۔
14 ذوالحجہ 1444
3 جولائی 2023
نوٹ:-
کافی لمبی تحریر ہے اس لئے کچھ ٹائیپنگ غلطی ہوگئی ہو تو ہرسنل پر اطلاع کریں کچھ دلیل کو دوبارہ لکھا گیا ہے مضمون کے لحاظ سے اس لئے معاف فرمائیں گے

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area