مسجد اقصیٰ خطرات کے سائے میں کہاں ہیں اُمت مسلمہ کے جیالے؟
🙌ـ قبلۂ اوّل' کاتحفظ ہرمسلمان کی ذمہ داری 🙌
_________(❤️)_________
🙌ـ قبلۂ اوّل' کاتحفظ ہرمسلمان کی ذمہ داری 🙌
_________(❤️)_________
🌹ازقلم:- محمد افروز قادری چریاکوٹی🌹
الحمدللّٰہ وکفیٰ، وسلام علی رسلہ الذین اصطفیٰ، وعلیٰ خاتمھم المجتبیٰ محمد (ﷺ) وآلہ وصحبہ ائمة الہدیٰ ومصابیح الدجیٰ، ومن بہم اقتدی فاھتدیٰ۔ اما بعد!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : سُبْحَانَ الَّذِْی اسْریٰ بِعَبْدِہ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَی الْمَسْجِدِ الاقْصَی الَّذِْی بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ آیَاتِنَا انَّہ ھُوَ السَّمِیُْع الْبَصِیْرُ ۔
'وہ ذات(ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے'۔
عالمی منظرناموں اور حالاتِ حاضرہ پر نگاہ رکھنے والوں پر پوشیدہ نہ ہوگا کہ جملہ شعائر ِ اسلام میں سے اس وقت جس شعار سے سب زیادہ غفلت اور بے توجہی برتی جارہی ہے وہ فلسطین کی سرزمین پر موجود مسجد الاقصیٰ ہے۔ اُمت مسلمہ نے مذہبی وسیاسی اسباب کے ساتھ دیگر بہت سے ناقابل بیان وجوہات کے سبب اس مقدس مقام سے اپنی نظریں موند لی ہے، جسے اس دور کا سب سے بڑا اَلمیہ کہنا چاہیے۔
فلسطین کی سرگرم اِسلامی تحریک کے قائد وسرپرست شیخ رائد صلاح نے چند دہائیوں پہلے اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سلگتا ہوا سوال رکھاتھا کہ 'ارضِ مقدس الاقصیٰ' خطرے میں ہے، تواِسلام کے جیالے اس کے لیے کیاکررہے ہیں؟' مگر بدقسمتی سے اتنے بڑے سوال کو بہرے گانوں سے سناگیا اور اس کے لیے کوئی سنجیدہ جدوجہد شروع نہیں کی گئی۔ جس دور میں شیخ نے یہ سوال اُٹھایا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس کے لیے مناسب وقت نہ تھا؛ لیکن اس سوال کی اہمیت وناگزیریت موجودہ دور کے تناظر میں ـجب کہ روز بروز مسجدالاقصیٰ کے اوپر خطرات کے بادل نہ صرف منڈلارہے ہیں بلکہ گمبھیرشکل اختیار کررہے ہیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے؛ لہٰذا اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اسے سنجیدگی کے کانوں سے سنیں اور اس کے تحفظ وآزادی کے لیے کوئی ہمہ گیراِقدام کریں۔
مسجد اقصیٰ کے تعلق سے ہماری مجرمانہ خاموشی اورحقائق سے پردہ پوشی صاف پتارہی ہے کہ اُمت مسلمہ کے شعائر کے تحفظ کے حوالے سے ہم کتنے حساس ہیں!، بلکہ ہمارا یہ بزدلانہ سکوت دشمنوں کو نڈر ہوکر اپنا ہاتھ صاف کرنے اور اپنے نصب العین کے پانے میں بھرپور کمک فراہم کررہا ہے۔ دراصل ہم نے مسئلہ فلسطین کو کبھی اپنا اسلامی مسئلہ سمجھا ہی نہیں، اور نہ اس تعلق سے ہماری کبھی کوئی فکری تربیت ہوئی ہے۔ مگر ہمیں دل کی تختی پراسے نقش کرلینا چاہیے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں مسجداقصیٰ کا تحفظ اور ارضِ مقدس کی آزادی ہم مسلمانوں کی دینی واخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔ اور یہ ذمہ داری اِسلام اور پیغمبر اسلام نے اہل اسلام کے سروں پر عائد کی ہے۔ اور جدوجہد کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک صبح قیامت نہ طلوع ہوجائے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مسجداقصیٰ اورارضِ مقدس کے تعلق سے اسلامی نقطۂ نظرکیا ہے اور مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلے میں ہمیں کیا ہدایات جاری فرمائی ہیں۔محسن انسانیت تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسجداقصیٰ اور ارضِ مقدس کے ساتھ کیسا دلی لگائی تھا اور آپ اس حوالے سے کس قدر فکرمند تھے، اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ آپ نے صحابۂ کرام کے دلوں میں اس بات کو راسخ فرمادیاتھاکہ وہ جس طرح ہوسکے مسجداقصیٰ کو نعمت آزادی سے بہرہ مند کریں۔ چنانچہ تاریخی شواہد کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ عہد فاروقی میں بیت المقدس جاں باز مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہوجاتا ہے۔ یہ دراصل اسی اعلیٰ ترتیت کا نتیجہ وعلامت ہے جو حضرت فاروقِ اعظم نے معلم انسانیت علیہ السلام کی بارگاہ سے پائی تھی۔نیز مندرجہ ذیل روایت اس کی مزید توثیق کردے گی جس کی صحاحِ ستہ وغیرہ میں تخریج ہوئی ہے۔
حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں عرض کیایارسول اللہ! ہمیں کچھ بیت المقدس کی تاریخی واِسلامی حیثیت سے آگاہ فرمائیں تو آپ نے فرمایا :
ارض المحشر والمنشر، ائتوہ فصلوا فیہ، فان صلاةً فیہ کالف صلاة فی غیرہ۔ قلت: اریت ان لم استطع ان اتحمل الیہ؟ قال:(ۖ) فتھدی لہ زیتا یسرج فیہ، فمن فعل ذٰلک فھو کمن اتاہ ۔ ـرواہ بوداؤد وابن ماجة، وصححہ الالبانی
یعنی یہ مقام محشربھی ہے اور منشر بھی(یعنی بروزِ قیامت یہیں لوگوں کا حشر ونشرہوگا)۔ (اگراللہ توفیق دے تو)وہاں جائو اور جاکر نماز پڑھو؛ کیوںکہ وہاں پڑھی گئی ایک نماز دوسری مسجد میں اَدا کی گئی ہزار نماز کے برابر ہے۔ میں نے عرض کی: اگر میں وہاںجانے کی سعادت نہ پاسکوں تو کیا میں کچھ اور کرسکتی ہوں؟۔ فرمایا: پھر تم تیل کا نیاز بھیج دو ،جس سے وہاں سے فانوس جلائے جاسکیں۔ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو ایساہی ہے جیسے وہاں جانے کی سعادت پالیا۔
مذکورہ حدیث سے بہت سے فوائد ونتائج برآمد ہوتے ہیں، مثلا مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس اُمت مسلمہ کے لیے ہمیشہ بہت ہی اہمیت کا حامل ایجنڈا اور اِیشو ہونا چاہیے۔
اہل اسلام خصوصاً قائدین ملت اسلامیہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ اپنے معاشرے کے اَفراد کی فکر وسوچ، اُن کے کارنامے اور جدوجہد پر عقابی نگاہ رکھیں تاکہ وہ مسلم معاشرے کے عروج وارتقا میں بہترین کردار اَدا کرسکیں۔
ایسی جامع تربیت کے فقدان کے باعث بعض مسلم یہاں تک کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ بیت المقدس کے اندر فلسطین واسرائیل کے درمیان ہونے والا تصادم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ محض اپنی زمین ومکانات کی بازیابی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایک ممتاز معاصر مصری محقق شیخ محمد حسان نے مسجدالاقصیٰ اور بیت المقدس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے نیز کچھ ایسی ہی مفلوج ذہنیت رکھنے والوں کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے ایک مرتبہ کہاتھا :
القدس لیست قضیة ارض وحدود، بل انما ھی قضیة عقیدةٍ ووجود ۔
یعنی بیت المقدس کا مسئلہ کوئی ایک زمین یاسرحدوں کا معاملہ نہیںبلکہ یہ ہمارے عقیدہ و وجود کا اَٹوٹ مسئلہ وحصہ ہے۔
یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مسجد الاقصیٰ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟تواس کے جواب میں مندرجہ ذیل چند تاریخی حقائق وشواہد کی طرف اِشارہ کردینا کفایت کرے گا۔
٠ یہ مسلمانوں کو قبلہ اوّل ہے۔
٠ یہ سفر معراج کا ایک مقدس پڑائوہے۔
٠ یہ روے زمین پر عبادتِ الٰہی کے لیے تعمیر کیاجانے والا دوسرا گھر(مسجد) ہے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سینکڑوں انبیاے کرام نے جنم لیا اوریہیں کی خاک میں آسودۂ خواب ہیں۔
٠ بہت سے صحابۂ کرام کا وجودِ مسعود بھی یہاں دفن ہے۔
٠ یہاں بہت سے معجزات مشیت الٰہی سے دکھائے گئے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود 'مبارک مقام'قرار دیا ہے۔
٠ قرآنِ مقدس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ کوئی ٧٠ مرتبہ اس کا تذکرہ آیا ہے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جہاں اللہ کا پیغام لے کر فرشتے نزول پذیر ہوتے رہے ہیں۔
٠ پوری روے زمین پر یہی وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں سارے پیغمبروں نے بیک وقت محمدعربی علیہ السلام کی اِقتدا میں نماز اَدا کی۔
٠ خانۂ کعبہ کے علاوہ یہی وہ ایک ایسی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن میں نام لے کر آیا ہے۔
مصر کے مشہورِ زمانہ مفسرقرآن شیخ محمد متولی شعراوی نے مسجدالاقصیٰ کے مسلمانوں کے قبلہ اوّل ہونے کے حوالے سے اپنی مومنانہ فراست کو کام لاتے ہوئے ایک بڑی چشم کشا اور خوبصورت توضیح وتشریح پیش کی ہے۔ رقم طراز ہیں :
'اِسلام کے بالکل ابتدائی دور میں کعبہ' مشرکین کے بتوں سے بھرا ہوا تھااور اس قابل نہ تھا کہ اسے قبلے کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ چنانچہ اس مدت میں (وقتی طورپر) مسجد الاقصیٰ کو بطورِقبلہ اِستعمال کیاگیا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر جب کعبہ بتوں کی نحوست سے پاک کردیاگیا تومسلمانوں کو حکم ہوا کہ اَب اسے قبلہ کے طور پر اِستعمال کریں'۔
١ مسجدالاقصیٰ خطرے میں کیوں ہے؟ ۔ ٢ اِسرائیلی صیہونی مسجدالاقصیٰ کے گرد کیا کچھ کرنے کا ناپاک اِرادہ رکھتے ہیں؟؟۔ ٣ اور مجموعی طور پر مسجد الاقصیٰ اور ارضِ مقدس کے حوالے سے ان کے عزائم کیا ہیں؟؟؟۔
پہلے سوال کی تحلیل کے طور پر یہ تین نکات بیان کیے جاتے ہیں (جوکہ یہودیوں کے مزعومہ ہیں) :
١۔١ بیت المقدس کواسرائیل کے صیہونی یہودی کی دائمی راجدھانی بننی چاہیے۔
١۔٢ بیت المقدس ان کی دائمی راجدھانی ہے۔ اور اس کی تکمیل ہیکل سلیمانی کے بغیر نامکمل تصور کی جائے گی۔
١۔٣ ہیکل سلیمان کی مسجد الاقصیٰ کے ملبے پر بہرحال تعمیرثانی کی جانی چاہیے؛ کیوںکہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر ہیکل پہلے تعمیرکیاگیاتھا۔
اس سہ نکاتی پروٹوکول کی روشنی میں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بدباطن صیہونیوں کی دیرینہ تمنا ہے کہ مسجدالاقصیٰ کو مسمار کردیا جائے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان صیہونیوں کا یہ دعویٰ بالکل بلادلیل، تاریخی حقائق سے کوسوں دور اور محض اُن کی ذہنی خرافات کا شاخسانہ ہے۔ حتیٰ کہ یہودیوں کے تاریخی صحیفے بھی اس کی توثیق نہیں کرتے۔ یہ بے بنیاد حقیقت ماضی قریب میں کوئی چالیس سال قبل کی گئی آثارِ قدیمہ کے حوالے سے ایک تحقیق کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ دراصل ان لوگوں نے ایک غیرجانبدار ماہرآثارقدیمہ کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ انھیں اندرونِ مسجد الاقصیٰ اور اُس کے گردونواح کے تعلق سے دستاویزی تحقیق پیش کرسکے؛ چنانچہ تحقیق تمام کے بعد جب اس نے اپنی آخری رپورٹ تحریر کی تو اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا کہ '(ہمیں اپنی تحقیق کے دوران) ایسا کوئی آرکیولوجیکل پروف نہیں ملا کہ مسجد الاقصیٰ کے نیچے کبھی ہیکل سلیمان کی تعمیرعمل میں آئی تھی'۔
دوسرا سوال یہ تھاکہ اِسرائیلی صیہونی مسجدالاقصیٰ کے گرد کیا کچھ کرنے کا ناپاک اِرادہ رکھتے ہیں؟؟۔
بالائی سطروں میں بیان کیا جاچکا ہے کہ صیہونیوں کا مسجدا لاقصیٰ کے حوالے سے اِنتہائی اقدام یہ ہے کہ اسے مکمل ڈھا دیاجائے۔ آئیے دیکھتے ہیںکہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے وہ اب تک کیا کچھ کرچکے ہیں۔
٢۔١ ٢١اگست ١٩٦٩ء کوصیہونیوں نے میکائیل روہن نامی ایک انتہا پسند اسرائیل یہودی کے ہاتھوں مسجدالاقصیٰ کو جلانے کی ناپاک کوشش کی۔
٢۔٢ صیہونی' مسلسل مسجد الاقصیٰ کی تہوں کو اس اُمید پر کھودے جارہے ہیں کہ شاید کہیں ہیکل سلیمانی کے کچھ آثار مل جائیںتاکہ وہ ثابت کرسکیں کہ یہ ہیکل سلیمانی کا محل ہے، ساتھ ہی انہدام مسجد الاقصیٰ کا ان کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوجائے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسجدالاقصیٰ کی بنیاد کی تہوں میں کی جانی مسلسل کھدائی کے نتیجے میں وہ اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہے کہ کسی بھی وقت منہدم ہوسکتی ہے۔
٢۔٣ مزید برآں ان لوگوں نے مسجدالاقصیٰ کی بیرونی دیواروں کواسپرے کرنے کے لیے ایک ایسا مہلک کیمیکل ایجاد کیا ہے جوانھیں اتنا خستہ کردے کہ اپنا وجود بھی برداشت نہ کرسکیںاور اینٹیں باہم غیرمربوط ہوکرکسی بھی لمحہ ڈھہ پڑیں۔
جب انھیں اِس بات کا اِحساس ہوا کہ اِنہدامِ مسجد الاقصیٰ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا یہ درست وقت نہیں ہے، تو انھوں نے اس کی بنیاد اور چھت کے اِستحکام کی غرض سے کھوکھلے پن کی دوبارہ مرمت شروع کردی ۔تعمیر مسجدالاقصیٰ کی دوبارہ مرمت کے عمل کے دوران انھوں نے اس خلا کو پُر کردیاتاکہ اس کے تہ خانے میں ایک چھوٹا سا سینیگوگ(معبد ِیہود) بنایا جاسکے۔ چنانچہ سینیگوگوں کی تعدادہمہ وقت بڑھتی چلی جارہی ہے، اور یہ دراصل ان کے مجوزہ ہیکل سلیمانی کی تیاری کے مرحلے ہیں۔
اس وقت یہ لوگ اس کوشش میں جٹے ہوئے ہیں کہ مسجد الاقصیٰ کو دو حصوں میں ویسے ہی تقسیم کردیا جائے، جس طرح یہ اپنی شاطرانہ چالوں سے ہبرون کے اندر اِبراہیمیہ مسجد کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسجد الاقصیٰ اور ارضِ مقدس کے حوالے سے ان کے عزائم کیا ہیں؟؟؟۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی بلدیاتی محکموںکی طرف سے بہت سے ایسے یک طرفہ قواعد و ضوابط جاری کیے گئے ہیں جس نے ارضِ مقدس کے اطراف میں رہنے والے فلسطینی شہریوں کو توبری طرح متاثر کیا ہے،جب کہ دوسری طرف اسرائیلی باشندوں کا کھلے عام سپورٹ کیاگیا ہے۔ تو اب ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ اس دوغلی پالیسی کے پس پردہ کیا کچھ ہورہا ہے اور ہونے والا ہے؟۔
١ تاکہ شہرفلسطین اورارضِ مقدس کی فضا کو صد فی صد یہودی رنگ میں رنگ دیاجائے،اوراسے کوئی یہودی شہربنادیاجائے۔
٢ اپنے مقصد کی باریابی کے لیے دوسرا اِقدام یہ ہورہاہے کہ وہ وہاں کی گلی کوچوں کے عربی نام کو یہودی ناموں میں تبدیل کرتے جارہے ہیں۔
٣ حتیٰ کہ قدیم عمارتوں کے عربی نام میں بھی تغیراَسما کا عمل جاری ہے۔ تبدیلی کے نام پر تاریخ کی یہ بدترین چوریاں بلکہ سینہ زوریاں اس لیے ہورہی ہیں تاکہ اسلامی وعیسائی تہذیب وثقافت کی باثروت تاریخ کو ایسا مسخ کردیا جائے کہ جیسے یہاں ان چیزوں کا کبھی کوئی وجود ہی نہ رہا ہو۔ (ہمارا ہندوستان بھی یہودیوں کے ان فارمولوں کو استعمال کرنے میں پیش پیش دکھائی دے رہا ہے)
٤ چندسال قبل سے ان لوگوں نے بیت المقدس کے مضافاتی علاقہ جات، مثلاًسلوان، بستان، اور علاقۂ شیخ علی جراح پر اپنی توجہات مرکوز کررکھی ہیں۔ ارضِ مقدس کے اند رموجود اسرائیلی بلدیہ نے ماضی قریب میں بہت سے قانون پاس کیے ہیںجن میں بڑی سختی سے اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ ان شہروں میں کئی نسلوں سے رہنے والے فلسطینیوں کو زورزبردستی بلکہ دھکے مار یہاں سے بہرصورت نکل جانے پر مجبورکیاجائے۔کتنی بار ایسا ہوا کہ ان کے عالیشان مکانات کو بلاوجہ مسمار کردیا گیااور ان کے مالکان بے بسی کی تصور بنے سامنے کھڑے منہ تکتے رہ گئے۔ بعض دفعہ اِنتہا پسندی اس شرمناک حد تک پہنچ گئی کہ ان صیہونیوں نے مالکانِ مکان کو مجبورومقہور کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بسے بسائے نشیمن کو اُجاڑ کر کربِ مسلسل کا مزہ چکھیں۔
یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے تاکہ انھوں نے وہاں 'باغِ ملک دائود'تعمیر کرنے کا جو خواب دیکھا ہے اس کے لیے جوازوجگہ فراہم کرسکیں، نیز وہاں کئی منزلہ عمارت بناکر اپنے ناپاک منصوبوں کی تنفیذ کو یقینی بناسکیں۔ چونکہ ہزاروں متوقع صیہونیوں یہودی زائرین جو ہیکل سلیمانی کو دیکھنے کی دیرینہ آرزو اپنے سینوں میں رکھتے ہیں ان کے لیے مناسب راہ ہموار کی جاسکے۔ پھر اس زیارت کے بعد وہ اپنے کنبہ وخاندان کے ساتھ'باغِ ملک دائود'میں پہنچ کر چین وسکون کا سانس اور اپنی پُر تعش زندگانی کا مزہ لے سکیں۔
خلاصۂ بحث کے طور پر کہاجاسکتا ہے کہ صیہونی جس عزم وارادے سے مصروفِ عمل ہیں لگتا ہے کہ وہ مسجدالاقصیٰ کو چھین کر، ارضِ مقدس کو ہڑپ کر، ہزاروں فلسطینیوں کواپنے گھروں سے بے دخل کرکے نیز ان کی جائیدار و زمینی خزانوں کو ہتھیا کرہی دم لیں گے۔ اِلا یہ کہ ہم مسلمان'ایک اُمت' کے طور پر نیز دنیا جہان کے انصاف پسندلوگ مسجد الاقصیٰ کے دفاع وتحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں اور ظالموں کواُن کے ہاتھوں سے پکڑ کر انھیں کیفرکردار تک پہنچائیں۔
ہم مسجد الاقصیٰ کی امدادواِعانت کے لیے بطورِ مسلم کیا کرسکتے ہیں؟
١ سب سے پہلی چیزیہ کہ ہمیں اللہ ورسول کے ساتھ اپنا روحانی وعرفانی تعلق مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔
٢ ہمیں چاہیے کہ ہم بیت المقدس اورمسئلہ فلسطین کاجغرافیہ وتاریخ کے حقائق کے پس منظر میں گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کریں۔
٣ اسرائیلی مصنوعات کا حتی المقدور بائیکاٹ کریں۔
٤ ہمیں چاہیے کہ ان ساری تنظیموں اور تحریکوں کا دامے، درمے ، قدمے، سخنے ہرطرح سے بھرپور تعاون کریں جو فلسطین کی حمایت ودفاع میں ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ اورارضِ مقدس کے ساتھ اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت فراہم کررہی ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان اسے صرف فلسطینیوں کا مسئلہ سمجھ کر چپ سادھے نہ بیٹھے رہیں بلکہ یہ بات لوح دل پر رقم کرلیں کہ القدس وہ اہم ترین سرزمین ہے جس پر اسلامی دنیا کی بقا کا دارومدا ہے، اگر خدا نخواستہ فلسطین محفوظ نہیں رہتا تو یاد رکھیں باقی اسلامی ممالک کی سالمیت بھی خطرے میں ہے۔
اللہ جل مجدہ قبلہ اول کی حفاظت فرمائے اور یہودیوں کو اسی طرح نشان عبرت بنائے جس طرح کبھی ابرہہ اور اس کے لاولشکر بنے تھے۔ وما ذالک علیک بعزیز یا رب۔ 🙌
الحمدللّٰہ وکفیٰ، وسلام علی رسلہ الذین اصطفیٰ، وعلیٰ خاتمھم المجتبیٰ محمد (ﷺ) وآلہ وصحبہ ائمة الہدیٰ ومصابیح الدجیٰ، ومن بہم اقتدی فاھتدیٰ۔ اما بعد!
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : سُبْحَانَ الَّذِْی اسْریٰ بِعَبْدِہ لَیْلاً مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَی الْمَسْجِدِ الاقْصَی الَّذِْی بَارَکْنَا حَوْلَہ لِنُرِیَہ مِنْ آیَاتِنَا انَّہ ھُوَ السَّمِیُْع الْبَصِیْرُ ۔
'وہ ذات(ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے تاکہ ہم اس (بندۂ کامل) کو اپنی نشانیاں دکھائیں، بیشک وہی خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے'۔
عالمی منظرناموں اور حالاتِ حاضرہ پر نگاہ رکھنے والوں پر پوشیدہ نہ ہوگا کہ جملہ شعائر ِ اسلام میں سے اس وقت جس شعار سے سب زیادہ غفلت اور بے توجہی برتی جارہی ہے وہ فلسطین کی سرزمین پر موجود مسجد الاقصیٰ ہے۔ اُمت مسلمہ نے مذہبی وسیاسی اسباب کے ساتھ دیگر بہت سے ناقابل بیان وجوہات کے سبب اس مقدس مقام سے اپنی نظریں موند لی ہے، جسے اس دور کا سب سے بڑا اَلمیہ کہنا چاہیے۔
فلسطین کی سرگرم اِسلامی تحریک کے قائد وسرپرست شیخ رائد صلاح نے چند دہائیوں پہلے اُمت مسلمہ کے سامنے ایک بڑا سلگتا ہوا سوال رکھاتھا کہ 'ارضِ مقدس الاقصیٰ' خطرے میں ہے، تواِسلام کے جیالے اس کے لیے کیاکررہے ہیں؟' مگر بدقسمتی سے اتنے بڑے سوال کو بہرے گانوں سے سناگیا اور اس کے لیے کوئی سنجیدہ جدوجہد شروع نہیں کی گئی۔ جس دور میں شیخ نے یہ سوال اُٹھایا تھا میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اس کے لیے مناسب وقت نہ تھا؛ لیکن اس سوال کی اہمیت وناگزیریت موجودہ دور کے تناظر میں ـجب کہ روز بروز مسجدالاقصیٰ کے اوپر خطرات کے بادل نہ صرف منڈلارہے ہیں بلکہ گمبھیرشکل اختیار کررہے ہیں بہت زیادہ بڑھ گئی ہے؛ لہٰذا اب وہ وقت آگیا ہے کہ ہم اسے سنجیدگی کے کانوں سے سنیں اور اس کے تحفظ وآزادی کے لیے کوئی ہمہ گیراِقدام کریں۔
مسجد اقصیٰ کے تعلق سے ہماری مجرمانہ خاموشی اورحقائق سے پردہ پوشی صاف پتارہی ہے کہ اُمت مسلمہ کے شعائر کے تحفظ کے حوالے سے ہم کتنے حساس ہیں!، بلکہ ہمارا یہ بزدلانہ سکوت دشمنوں کو نڈر ہوکر اپنا ہاتھ صاف کرنے اور اپنے نصب العین کے پانے میں بھرپور کمک فراہم کررہا ہے۔ دراصل ہم نے مسئلہ فلسطین کو کبھی اپنا اسلامی مسئلہ سمجھا ہی نہیں، اور نہ اس تعلق سے ہماری کبھی کوئی فکری تربیت ہوئی ہے۔ مگر ہمیں دل کی تختی پراسے نقش کرلینا چاہیے کہ کتاب وسنت کی روشنی میں مسجداقصیٰ کا تحفظ اور ارضِ مقدس کی آزادی ہم مسلمانوں کی دینی واخلاقی ذمہ داری بنتی ہے۔ اور یہ ذمہ داری اِسلام اور پیغمبر اسلام نے اہل اسلام کے سروں پر عائد کی ہے۔ اور جدوجہد کا یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہے گا جب تک صبح قیامت نہ طلوع ہوجائے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ مسجداقصیٰ اورارضِ مقدس کے تعلق سے اسلامی نقطۂ نظرکیا ہے اور مصطفی جانِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سلسلے میں ہمیں کیا ہدایات جاری فرمائی ہیں۔محسن انسانیت تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مسجداقصیٰ اور ارضِ مقدس کے ساتھ کیسا دلی لگائی تھا اور آپ اس حوالے سے کس قدر فکرمند تھے، اس کااندازہ اس سے لگائیں کہ آپ نے صحابۂ کرام کے دلوں میں اس بات کو راسخ فرمادیاتھاکہ وہ جس طرح ہوسکے مسجداقصیٰ کو نعمت آزادی سے بہرہ مند کریں۔ چنانچہ تاریخی شواہد کی روشنی میں ہم دیکھتے ہیں کہ عہد فاروقی میں بیت المقدس جاں باز مسلمانوں کے ہاتھ فتح ہوجاتا ہے۔ یہ دراصل اسی اعلیٰ ترتیت کا نتیجہ وعلامت ہے جو حضرت فاروقِ اعظم نے معلم انسانیت علیہ السلام کی بارگاہ سے پائی تھی۔نیز مندرجہ ذیل روایت اس کی مزید توثیق کردے گی جس کی صحاحِ ستہ وغیرہ میں تخریج ہوئی ہے۔
حضرت میمونہ بنت سعد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہِ رسالت میں عرض کیایارسول اللہ! ہمیں کچھ بیت المقدس کی تاریخی واِسلامی حیثیت سے آگاہ فرمائیں تو آپ نے فرمایا :
ارض المحشر والمنشر، ائتوہ فصلوا فیہ، فان صلاةً فیہ کالف صلاة فی غیرہ۔ قلت: اریت ان لم استطع ان اتحمل الیہ؟ قال:(ۖ) فتھدی لہ زیتا یسرج فیہ، فمن فعل ذٰلک فھو کمن اتاہ ۔ ـرواہ بوداؤد وابن ماجة، وصححہ الالبانی
یعنی یہ مقام محشربھی ہے اور منشر بھی(یعنی بروزِ قیامت یہیں لوگوں کا حشر ونشرہوگا)۔ (اگراللہ توفیق دے تو)وہاں جائو اور جاکر نماز پڑھو؛ کیوںکہ وہاں پڑھی گئی ایک نماز دوسری مسجد میں اَدا کی گئی ہزار نماز کے برابر ہے۔ میں نے عرض کی: اگر میں وہاںجانے کی سعادت نہ پاسکوں تو کیا میں کچھ اور کرسکتی ہوں؟۔ فرمایا: پھر تم تیل کا نیاز بھیج دو ،جس سے وہاں سے فانوس جلائے جاسکیں۔ اگر کسی نے ایسا کرلیا تو ایساہی ہے جیسے وہاں جانے کی سعادت پالیا۔
مذکورہ حدیث سے بہت سے فوائد ونتائج برآمد ہوتے ہیں، مثلا مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس اُمت مسلمہ کے لیے ہمیشہ بہت ہی اہمیت کا حامل ایجنڈا اور اِیشو ہونا چاہیے۔
اہل اسلام خصوصاً قائدین ملت اسلامیہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہمیشہ اپنے معاشرے کے اَفراد کی فکر وسوچ، اُن کے کارنامے اور جدوجہد پر عقابی نگاہ رکھیں تاکہ وہ مسلم معاشرے کے عروج وارتقا میں بہترین کردار اَدا کرسکیں۔
ایسی جامع تربیت کے فقدان کے باعث بعض مسلم یہاں تک کہنے سے بھی نہیں چوکتے کہ بیت المقدس کے اندر فلسطین واسرائیل کے درمیان ہونے والا تصادم اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ محض اپنی زمین ومکانات کی بازیابی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
ایک ممتاز معاصر مصری محقق شیخ محمد حسان نے مسجدالاقصیٰ اور بیت المقدس کی اہمیت پر روشنی ڈالتے نیز کچھ ایسی ہی مفلوج ذہنیت رکھنے والوں کو دوٹوک جواب دیتے ہوئے ایک مرتبہ کہاتھا :
القدس لیست قضیة ارض وحدود، بل انما ھی قضیة عقیدةٍ ووجود ۔
یعنی بیت المقدس کا مسئلہ کوئی ایک زمین یاسرحدوں کا معاملہ نہیںبلکہ یہ ہمارے عقیدہ و وجود کا اَٹوٹ مسئلہ وحصہ ہے۔
یہاں یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ مسلمانوں کے لیے مسجد الاقصیٰ کی اتنی اہمیت کیوں ہے؟تواس کے جواب میں مندرجہ ذیل چند تاریخی حقائق وشواہد کی طرف اِشارہ کردینا کفایت کرے گا۔
٠ یہ مسلمانوں کو قبلہ اوّل ہے۔
٠ یہ سفر معراج کا ایک مقدس پڑائوہے۔
٠ یہ روے زمین پر عبادتِ الٰہی کے لیے تعمیر کیاجانے والا دوسرا گھر(مسجد) ہے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جہاں سینکڑوں انبیاے کرام نے جنم لیا اوریہیں کی خاک میں آسودۂ خواب ہیں۔
٠ بہت سے صحابۂ کرام کا وجودِ مسعود بھی یہاں دفن ہے۔
٠ یہاں بہت سے معجزات مشیت الٰہی سے دکھائے گئے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جسے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے خود 'مبارک مقام'قرار دیا ہے۔
٠ قرآنِ مقدس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ کوئی ٧٠ مرتبہ اس کا تذکرہ آیا ہے۔
٠ یہ وہ سرزمین ہے جہاں اللہ کا پیغام لے کر فرشتے نزول پذیر ہوتے رہے ہیں۔
٠ پوری روے زمین پر یہی وہ ایک مقدس مقام ہے جہاں سارے پیغمبروں نے بیک وقت محمدعربی علیہ السلام کی اِقتدا میں نماز اَدا کی۔
٠ خانۂ کعبہ کے علاوہ یہی وہ ایک ایسی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن میں نام لے کر آیا ہے۔
مصر کے مشہورِ زمانہ مفسرقرآن شیخ محمد متولی شعراوی نے مسجدالاقصیٰ کے مسلمانوں کے قبلہ اوّل ہونے کے حوالے سے اپنی مومنانہ فراست کو کام لاتے ہوئے ایک بڑی چشم کشا اور خوبصورت توضیح وتشریح پیش کی ہے۔ رقم طراز ہیں :
'اِسلام کے بالکل ابتدائی دور میں کعبہ' مشرکین کے بتوں سے بھرا ہوا تھااور اس قابل نہ تھا کہ اسے قبلے کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ چنانچہ اس مدت میں (وقتی طورپر) مسجد الاقصیٰ کو بطورِقبلہ اِستعمال کیاگیا۔ پھر فتح مکہ کے موقع پر جب کعبہ بتوں کی نحوست سے پاک کردیاگیا تومسلمانوں کو حکم ہوا کہ اَب اسے قبلہ کے طور پر اِستعمال کریں'۔
١ مسجدالاقصیٰ خطرے میں کیوں ہے؟ ۔ ٢ اِسرائیلی صیہونی مسجدالاقصیٰ کے گرد کیا کچھ کرنے کا ناپاک اِرادہ رکھتے ہیں؟؟۔ ٣ اور مجموعی طور پر مسجد الاقصیٰ اور ارضِ مقدس کے حوالے سے ان کے عزائم کیا ہیں؟؟؟۔
پہلے سوال کی تحلیل کے طور پر یہ تین نکات بیان کیے جاتے ہیں (جوکہ یہودیوں کے مزعومہ ہیں) :
١۔١ بیت المقدس کواسرائیل کے صیہونی یہودی کی دائمی راجدھانی بننی چاہیے۔
١۔٢ بیت المقدس ان کی دائمی راجدھانی ہے۔ اور اس کی تکمیل ہیکل سلیمانی کے بغیر نامکمل تصور کی جائے گی۔
١۔٣ ہیکل سلیمان کی مسجد الاقصیٰ کے ملبے پر بہرحال تعمیرثانی کی جانی چاہیے؛ کیوںکہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر ہیکل پہلے تعمیرکیاگیاتھا۔
اس سہ نکاتی پروٹوکول کی روشنی میں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے کہ بدباطن صیہونیوں کی دیرینہ تمنا ہے کہ مسجدالاقصیٰ کو مسمار کردیا جائے۔ یہاں یہ حقیقت بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ ان صیہونیوں کا یہ دعویٰ بالکل بلادلیل، تاریخی حقائق سے کوسوں دور اور محض اُن کی ذہنی خرافات کا شاخسانہ ہے۔ حتیٰ کہ یہودیوں کے تاریخی صحیفے بھی اس کی توثیق نہیں کرتے۔ یہ بے بنیاد حقیقت ماضی قریب میں کوئی چالیس سال قبل کی گئی آثارِ قدیمہ کے حوالے سے ایک تحقیق کے نتیجے میں ابھر کر سامنے آئی ہے۔ دراصل ان لوگوں نے ایک غیرجانبدار ماہرآثارقدیمہ کی خدمات حاصل کیں تاکہ وہ انھیں اندرونِ مسجد الاقصیٰ اور اُس کے گردونواح کے تعلق سے دستاویزی تحقیق پیش کرسکے؛ چنانچہ تحقیق تمام کے بعد جب اس نے اپنی آخری رپورٹ تحریر کی تو اس حقیقت کا برملا اعتراف کیا کہ '(ہمیں اپنی تحقیق کے دوران) ایسا کوئی آرکیولوجیکل پروف نہیں ملا کہ مسجد الاقصیٰ کے نیچے کبھی ہیکل سلیمان کی تعمیرعمل میں آئی تھی'۔
دوسرا سوال یہ تھاکہ اِسرائیلی صیہونی مسجدالاقصیٰ کے گرد کیا کچھ کرنے کا ناپاک اِرادہ رکھتے ہیں؟؟۔
بالائی سطروں میں بیان کیا جاچکا ہے کہ صیہونیوں کا مسجدا لاقصیٰ کے حوالے سے اِنتہائی اقدام یہ ہے کہ اسے مکمل ڈھا دیاجائے۔ آئیے دیکھتے ہیںکہ اپنے مقصد کو پانے کے لیے وہ اب تک کیا کچھ کرچکے ہیں۔
٢۔١ ٢١اگست ١٩٦٩ء کوصیہونیوں نے میکائیل روہن نامی ایک انتہا پسند اسرائیل یہودی کے ہاتھوں مسجدالاقصیٰ کو جلانے کی ناپاک کوشش کی۔
٢۔٢ صیہونی' مسلسل مسجد الاقصیٰ کی تہوں کو اس اُمید پر کھودے جارہے ہیں کہ شاید کہیں ہیکل سلیمانی کے کچھ آثار مل جائیںتاکہ وہ ثابت کرسکیں کہ یہ ہیکل سلیمانی کا محل ہے، ساتھ ہی انہدام مسجد الاقصیٰ کا ان کا دیرینہ خواب بھی شرمندۂ تعبیر ہوجائے۔ یہاں اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ مسجدالاقصیٰ کی بنیاد کی تہوں میں کی جانی مسلسل کھدائی کے نتیجے میں وہ اس قدر کھوکھلی ہوچکی ہے کہ کسی بھی وقت منہدم ہوسکتی ہے۔
٢۔٣ مزید برآں ان لوگوں نے مسجدالاقصیٰ کی بیرونی دیواروں کواسپرے کرنے کے لیے ایک ایسا مہلک کیمیکل ایجاد کیا ہے جوانھیں اتنا خستہ کردے کہ اپنا وجود بھی برداشت نہ کرسکیںاور اینٹیں باہم غیرمربوط ہوکرکسی بھی لمحہ ڈھہ پڑیں۔
جب انھیں اِس بات کا اِحساس ہوا کہ اِنہدامِ مسجد الاقصیٰ کے لیے کی جانے والی کوششوں کا یہ درست وقت نہیں ہے، تو انھوں نے اس کی بنیاد اور چھت کے اِستحکام کی غرض سے کھوکھلے پن کی دوبارہ مرمت شروع کردی ۔تعمیر مسجدالاقصیٰ کی دوبارہ مرمت کے عمل کے دوران انھوں نے اس خلا کو پُر کردیاتاکہ اس کے تہ خانے میں ایک چھوٹا سا سینیگوگ(معبد ِیہود) بنایا جاسکے۔ چنانچہ سینیگوگوں کی تعدادہمہ وقت بڑھتی چلی جارہی ہے، اور یہ دراصل ان کے مجوزہ ہیکل سلیمانی کی تیاری کے مرحلے ہیں۔
اس وقت یہ لوگ اس کوشش میں جٹے ہوئے ہیں کہ مسجد الاقصیٰ کو دو حصوں میں ویسے ہی تقسیم کردیا جائے، جس طرح یہ اپنی شاطرانہ چالوں سے ہبرون کے اندر اِبراہیمیہ مسجد کے ساتھ یہ معاملہ کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔
تیسرا سوال یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسجد الاقصیٰ اور ارضِ مقدس کے حوالے سے ان کے عزائم کیا ہیں؟؟؟۔
گزشتہ کئی دہائیوں سے اسرائیلی بلدیاتی محکموںکی طرف سے بہت سے ایسے یک طرفہ قواعد و ضوابط جاری کیے گئے ہیں جس نے ارضِ مقدس کے اطراف میں رہنے والے فلسطینی شہریوں کو توبری طرح متاثر کیا ہے،جب کہ دوسری طرف اسرائیلی باشندوں کا کھلے عام سپورٹ کیاگیا ہے۔ تو اب ذہن میں سوال اُٹھتا ہے کہ اس دوغلی پالیسی کے پس پردہ کیا کچھ ہورہا ہے اور ہونے والا ہے؟۔
١ تاکہ شہرفلسطین اورارضِ مقدس کی فضا کو صد فی صد یہودی رنگ میں رنگ دیاجائے،اوراسے کوئی یہودی شہربنادیاجائے۔
٢ اپنے مقصد کی باریابی کے لیے دوسرا اِقدام یہ ہورہاہے کہ وہ وہاں کی گلی کوچوں کے عربی نام کو یہودی ناموں میں تبدیل کرتے جارہے ہیں۔
٣ حتیٰ کہ قدیم عمارتوں کے عربی نام میں بھی تغیراَسما کا عمل جاری ہے۔ تبدیلی کے نام پر تاریخ کی یہ بدترین چوریاں بلکہ سینہ زوریاں اس لیے ہورہی ہیں تاکہ اسلامی وعیسائی تہذیب وثقافت کی باثروت تاریخ کو ایسا مسخ کردیا جائے کہ جیسے یہاں ان چیزوں کا کبھی کوئی وجود ہی نہ رہا ہو۔ (ہمارا ہندوستان بھی یہودیوں کے ان فارمولوں کو استعمال کرنے میں پیش پیش دکھائی دے رہا ہے)
٤ چندسال قبل سے ان لوگوں نے بیت المقدس کے مضافاتی علاقہ جات، مثلاًسلوان، بستان، اور علاقۂ شیخ علی جراح پر اپنی توجہات مرکوز کررکھی ہیں۔ ارضِ مقدس کے اند رموجود اسرائیلی بلدیہ نے ماضی قریب میں بہت سے قانون پاس کیے ہیںجن میں بڑی سختی سے اس بات پر زور دیاگیا ہے کہ ان شہروں میں کئی نسلوں سے رہنے والے فلسطینیوں کو زورزبردستی بلکہ دھکے مار یہاں سے بہرصورت نکل جانے پر مجبورکیاجائے۔کتنی بار ایسا ہوا کہ ان کے عالیشان مکانات کو بلاوجہ مسمار کردیا گیااور ان کے مالکان بے بسی کی تصور بنے سامنے کھڑے منہ تکتے رہ گئے۔ بعض دفعہ اِنتہا پسندی اس شرمناک حد تک پہنچ گئی کہ ان صیہونیوں نے مالکانِ مکان کو مجبورومقہور کیا کہ وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے بسے بسائے نشیمن کو اُجاڑ کر کربِ مسلسل کا مزہ چکھیں۔
یہ سب کچھ اس لیے ہورہا ہے تاکہ انھوں نے وہاں 'باغِ ملک دائود'تعمیر کرنے کا جو خواب دیکھا ہے اس کے لیے جوازوجگہ فراہم کرسکیں، نیز وہاں کئی منزلہ عمارت بناکر اپنے ناپاک منصوبوں کی تنفیذ کو یقینی بناسکیں۔ چونکہ ہزاروں متوقع صیہونیوں یہودی زائرین جو ہیکل سلیمانی کو دیکھنے کی دیرینہ آرزو اپنے سینوں میں رکھتے ہیں ان کے لیے مناسب راہ ہموار کی جاسکے۔ پھر اس زیارت کے بعد وہ اپنے کنبہ وخاندان کے ساتھ'باغِ ملک دائود'میں پہنچ کر چین وسکون کا سانس اور اپنی پُر تعش زندگانی کا مزہ لے سکیں۔
خلاصۂ بحث کے طور پر کہاجاسکتا ہے کہ صیہونی جس عزم وارادے سے مصروفِ عمل ہیں لگتا ہے کہ وہ مسجدالاقصیٰ کو چھین کر، ارضِ مقدس کو ہڑپ کر، ہزاروں فلسطینیوں کواپنے گھروں سے بے دخل کرکے نیز ان کی جائیدار و زمینی خزانوں کو ہتھیا کرہی دم لیں گے۔ اِلا یہ کہ ہم مسلمان'ایک اُمت' کے طور پر نیز دنیا جہان کے انصاف پسندلوگ مسجد الاقصیٰ کے دفاع وتحفظ کے لیے اُٹھ کھڑے ہوں اور ظالموں کواُن کے ہاتھوں سے پکڑ کر انھیں کیفرکردار تک پہنچائیں۔
ہم مسجد الاقصیٰ کی امدادواِعانت کے لیے بطورِ مسلم کیا کرسکتے ہیں؟
١ سب سے پہلی چیزیہ کہ ہمیں اللہ ورسول کے ساتھ اپنا روحانی وعرفانی تعلق مضبوط سے مضبوط تر کرنے کی ضرورت ہے۔
٢ ہمیں چاہیے کہ ہم بیت المقدس اورمسئلہ فلسطین کاجغرافیہ وتاریخ کے حقائق کے پس منظر میں گہرائی وگیرائی سے مطالعہ کریں۔
٣ اسرائیلی مصنوعات کا حتی المقدور بائیکاٹ کریں۔
٤ ہمیں چاہیے کہ ان ساری تنظیموں اور تحریکوں کا دامے، درمے ، قدمے، سخنے ہرطرح سے بھرپور تعاون کریں جو فلسطین کی حمایت ودفاع میں ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔ اورارضِ مقدس کے ساتھ اپنی وفاداری کا مکمل ثبوت فراہم کررہی ہیں۔
دنیا بھر کے مسلمان اسے صرف فلسطینیوں کا مسئلہ سمجھ کر چپ سادھے نہ بیٹھے رہیں بلکہ یہ بات لوح دل پر رقم کرلیں کہ القدس وہ اہم ترین سرزمین ہے جس پر اسلامی دنیا کی بقا کا دارومدا ہے، اگر خدا نخواستہ فلسطین محفوظ نہیں رہتا تو یاد رکھیں باقی اسلامی ممالک کی سالمیت بھی خطرے میں ہے۔
اللہ جل مجدہ قبلہ اول کی حفاظت فرمائے اور یہودیوں کو اسی طرح نشان عبرت بنائے جس طرح کبھی ابرہہ اور اس کے لاولشکر بنے تھے۔ وما ذالک علیک بعزیز یا رب۔ 🙌