(سوال نمبر 4592)
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے, یہ شعر پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت اور جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مذکورہ شعر محفل رسول ﷺ میں پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد زبیر احمد قادری موجولیا بازار ضلع سیتا مڑھی بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ شعر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے
اس میں شاعر قوم مسلم کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جیسا عمل کروگے ویسا پھل پائو گے عمل صالح جد جہد سعی و کوشش کچھ نہ کرو اور سوچو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے بس ہم جنتی ہیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے دنیا میں پم ہی بلند و بالا رہیں گے ایسا نہی ہے ہے بلکہ اس کے لیے عمل اور تدبیر حکمت سب کچھ کرنی ہوگی
اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات جیسے بلند درجہ سے نوازا اور اُسے زندگی جیسا خوبصورت عطیہ عطا کیا اب زندگی کو مزید خوبصورت پُرسکون اور مطمئن بنانے کے لئے عمل و حرکت درکار ہوتی ہے جب تک انسان حرکت نہ کرے تو اُسے کامیابی میسر نہیں ہوتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے بھوک لگتی ہے اور وہ رونے لگتا ہے اور دودھ پی کر بھوک مٹاتا ہے یہاں سے اُس کا عمل شروع ہوتا ہے اس طرح انسان ابتدا سے اتنہا تک عمل و حرکت کے دائرے میں مقید رہتا ہے علم تو سب ہی حاصل کرتے ہیں کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی کم۔ عمل کے بغیر علم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں ہر پل ہر قدم پر عمل کرنا ضروری ہے اس کے بعد ہی ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے
جو قومیں عمل سے محروم ہوتی ہیں وہ ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتیں وہ ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہتی ہیں
قرآن مجید میں ارشادہے انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
جب ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہوتی تو ہم تقدیر کا نام لیتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں جو تھا وہ ہمیں مل گیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لئے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے وہ ہے ہماری تقدیر۔ تقدیر برحق ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن تدبیر بھی اختیار کرنا لازمی ہے۔ اور تقدیر کو بھی وہی رب بدل دیتا ہے جب بندہ کوشش کرتا یے
اقا علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور پاکﷺ کی زندگی سراپا عمل اور جدوجہد سے پُر تھی۔ ایک طرف تو حضور پاکؐ کو خدا پر مکمل بھروسہ اور توکل تھا تو دوسری طرف آپﷺ نے اپنی زندگی میں تدبیر، جدوجہد اور کوشش و عمل کا راستہ بھی اختیار کیا۔
یاد رہے اگر حرکت رک جائے اور جمود طاری ہو جائے اِس کا نام موت ہے۔ پورا نظام کائنات حرکت کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ سورج، چاند، ستارے سبھی حرکت میں ہیں اسی طرح کسان کی زندگی محنت، کوشش اور جدوجہد کی بہترین مثال ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ شعر میں کوئی قباحت نہیں۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے, یہ شعر پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت اور جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
مذکورہ شعر محفل رسول ﷺ میں پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد زبیر احمد قادری موجولیا بازار ضلع سیتا مڑھی بہار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ شعر پڑھنے میں کوئی قباحت نہیں ہے
اس میں شاعر قوم مسلم کو یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ جیسا عمل کروگے ویسا پھل پائو گے عمل صالح جد جہد سعی و کوشش کچھ نہ کرو اور سوچو مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئے بس ہم جنتی ہیں اور مسلمان ہونے کی وجہ سے دنیا میں پم ہی بلند و بالا رہیں گے ایسا نہی ہے ہے بلکہ اس کے لیے عمل اور تدبیر حکمت سب کچھ کرنی ہوگی
اللہ تعالیٰ نے اپنی کائنات کی مخلوق میں انسان کو اشرف المخلوقات جیسے بلند درجہ سے نوازا اور اُسے زندگی جیسا خوبصورت عطیہ عطا کیا اب زندگی کو مزید خوبصورت پُرسکون اور مطمئن بنانے کے لئے عمل و حرکت درکار ہوتی ہے جب تک انسان حرکت نہ کرے تو اُسے کامیابی میسر نہیں ہوتی ہے۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اُسے بھوک لگتی ہے اور وہ رونے لگتا ہے اور دودھ پی کر بھوک مٹاتا ہے یہاں سے اُس کا عمل شروع ہوتا ہے اس طرح انسان ابتدا سے اتنہا تک عمل و حرکت کے دائرے میں مقید رہتا ہے علم تو سب ہی حاصل کرتے ہیں کوئی زیادہ تعلیم حاصل کرتا ہے کوئی کم۔ عمل کے بغیر علم کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی ہے۔ ہمیں ہر پل ہر قدم پر عمل کرنا ضروری ہے اس کے بعد ہی ہمیں کامیابی حاصل ہوتی ہے
جو قومیں عمل سے محروم ہوتی ہیں وہ ترقی کا خواب نہیں دیکھ سکتیں وہ ترقی کے دوڑ میں پیچھے رہتی ہیں
قرآن مجید میں ارشادہے انسان کے لئے وہی کچھ ہے جس کے لئے وہ کوشش کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔
جب ہمیں کوئی چیز میسر نہیں ہوتی تو ہم تقدیر کا نام لیتے ہیں کہ ہماری تقدیر میں جو تھا وہ ہمیں مل گیا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوقات کے لئے ایک اندازہ مقرر کر رکھا ہے وہ ہے ہماری تقدیر۔ تقدیر برحق ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے لیکن تدبیر بھی اختیار کرنا لازمی ہے۔ اور تقدیر کو بھی وہی رب بدل دیتا ہے جب بندہ کوشش کرتا یے
اقا علیہ السلام کی زندگی ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ حضور پاکﷺ کی زندگی سراپا عمل اور جدوجہد سے پُر تھی۔ ایک طرف تو حضور پاکؐ کو خدا پر مکمل بھروسہ اور توکل تھا تو دوسری طرف آپﷺ نے اپنی زندگی میں تدبیر، جدوجہد اور کوشش و عمل کا راستہ بھی اختیار کیا۔
یاد رہے اگر حرکت رک جائے اور جمود طاری ہو جائے اِس کا نام موت ہے۔ پورا نظام کائنات حرکت کے بل بوتے پر چل رہا ہے۔ سورج، چاند، ستارے سبھی حرکت میں ہیں اسی طرح کسان کی زندگی محنت، کوشش اور جدوجہد کی بہترین مثال ہے
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ شعر میں کوئی قباحت نہیں۔۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
01/10/2023
01/10/2023