(سوال نمبر4572)
پرفیوم لگا کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا الکحل والا پرفیوم لگا سکتے ہیں؟ اور کیا الکحل والا پرفیوم لگا کر نماز ہوجائے گی ؟
پرفیوم کا استعمال کرنا شرعاً کیسا یے؟شرعی رہنمائی فرمائیں
پرفیوم لگا کر نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا الکحل والا پرفیوم لگا سکتے ہیں؟ اور کیا الکحل والا پرفیوم لگا کر نماز ہوجائے گی ؟
پرفیوم کا استعمال کرنا شرعاً کیسا یے؟شرعی رہنمائی فرمائیں
سائلہ :- کنیز قادریہ سبا انصاری ایم پی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
پرفیوم استعمال کرنا جائز ہے
پرفیوم لگا کر نماز پڑھنا جائز ہے جبکہ اس میں کوئی حرام اشیاء نہ ملی ہوئی ہو
چونکہ پرفیوم میں الکحل اس قدرنہیں ہوتا کہ نشہ اجائے ۔
الکحل کئی قسم کاہوتاہے بعض پاک اوربعض ناپاک۔لہذالکحل اگر انگور یا کھجور سے کشید کرکے بنایا گیا ہو تو وہ ناپاک اور حرام ہے اوراس کااستعمال درست نہیں۔ اگر ان کے علاوہ کسی اور چیز سے بنایا گیا ہے تو اس کا اتنا استعمال جائز ہے جو نشے کی حد تک نہ پہنچتا ہو۔آج کل زیادہ تر الکحل انگور اور کھجور کے علاوہ اورچیزوں جیسے سبزیوں،گنے اور پٹرول وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، اس لیے ایسی خوشبو اور پرفیوم کا استعمال جائز ہے جس میں الکحل ملا ہوا ہو۔
اسی طرح فتاوی اہل سنت دعوت اسلامی میں ہے
فی زمانہ پرفیوم لگانا جائز ہے اور اس کو لگاکر نماز پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ اب لوگوں کا پرفیوم لگانے میں ابتلاے عام ہوچکا ہے ، لہذا عمومِ بلویٰ کی وجہ سے الکوحل والے پرفیوم کے استعمال کو جائز قرار دیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو گناہگار ہونے اور ان کی نمازوں کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے ۔
چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے
ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اَنَّ الْاَمْرَ اِذَا ضَاقَ اِتَّسَعَ”
یعنی بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ سختی کا باعث ہو تو اس میں وسعت آجاتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده و نصلي علي رسوله الكريم
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عزوجل
پرفیوم استعمال کرنا جائز ہے
پرفیوم لگا کر نماز پڑھنا جائز ہے جبکہ اس میں کوئی حرام اشیاء نہ ملی ہوئی ہو
چونکہ پرفیوم میں الکحل اس قدرنہیں ہوتا کہ نشہ اجائے ۔
الکحل کئی قسم کاہوتاہے بعض پاک اوربعض ناپاک۔لہذالکحل اگر انگور یا کھجور سے کشید کرکے بنایا گیا ہو تو وہ ناپاک اور حرام ہے اوراس کااستعمال درست نہیں۔ اگر ان کے علاوہ کسی اور چیز سے بنایا گیا ہے تو اس کا اتنا استعمال جائز ہے جو نشے کی حد تک نہ پہنچتا ہو۔آج کل زیادہ تر الکحل انگور اور کھجور کے علاوہ اورچیزوں جیسے سبزیوں،گنے اور پٹرول وغیرہ سے بنایا جاتا ہے، اس لیے ایسی خوشبو اور پرفیوم کا استعمال جائز ہے جس میں الکحل ملا ہوا ہو۔
اسی طرح فتاوی اہل سنت دعوت اسلامی میں ہے
فی زمانہ پرفیوم لگانا جائز ہے اور اس کو لگاکر نماز پڑھنا بھی جائز ہے کیونکہ اب لوگوں کا پرفیوم لگانے میں ابتلاے عام ہوچکا ہے ، لہذا عمومِ بلویٰ کی وجہ سے الکوحل والے پرفیوم کے استعمال کو جائز قرار دیا جائے گا تاکہ مسلمانوں کو گناہگار ہونے اور ان کی نمازوں کو برباد ہونے سے بچایا جا سکے ۔
چنانچہ الاشباہ والنظائر میں ہے
ذَکَرَ بَعْضُھُمْ اَنَّ الْاَمْرَ اِذَا ضَاقَ اِتَّسَعَ”
یعنی بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ جب کوئی معاملہ سختی کا باعث ہو تو اس میں وسعت آجاتی ہے۔
(الاشباہ والنظائر القاعدۃ الرابعہ ص 84 میر محمد کتب خانہ کراچی)
فتاویٰ رضویہ میں
اقول ولسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا وماضاق امر الااتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر ولایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کماھوجار فی باب الطھارۃ والنجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ والحرمۃ”
یعنی (میں کہتاہوں کہ) اور ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ عام مسلمان اگرکسی حرام میں مبتلا ہوجائیں تو وہ حلال ہوجاتا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمومِ بلوٰی شرعی طور پر اسبابِ تخفیف میں سے ہے، کوئی تنگی نہیں جس میں وسعت نہ پیداہو، جب یہ معاملہ ایک اختلافی مسئلہ میں واقع ہوا تو مسلمانوں کوتنگی سے بچانے کے لئے آسانی کی جانب کو ترجیح ہوگی۔ خادم فقہ پر پوشیدہ نہیں کہ جیسے یہ ضابطہ طہارت و نجاست میں جاری ہے۔ ایسے ہی حرمت و اباحت میں بھی جاری ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 25 ص 89رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں
والحرج مدفوع بالنص وعموم البلوی من موجبات التخفیف لاسیما فی مسائل الطھارۃ والنجاسۃ”
نص سے ثابت ہے کہ حرج دور کیا گیا اور عموم بلوی اسباب تخفیف سے ہے خصوصا مسائل طہارت اور نجاست میں۔
فتاویٰ رضویہ میں
اقول ولسنا نعنی بھذا ان عامۃ المسلمین اذا ابتلوا بحرام حل بل الامران عموم البلوٰی من موجبات التخفیف شرعا وماضاق امر الااتسع فاذا وقع ذٰلک فی مسئلۃ مختلف فیھا ترجح جانب الیسر صونا للمسلمین عن العسر ولایخفی علی خادم الفقۃ ان ھذا کماھوجار فی باب الطھارۃ والنجاسۃ کذٰلک فی باب الاباحۃ والحرمۃ”
یعنی (میں کہتاہوں کہ) اور ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ عام مسلمان اگرکسی حرام میں مبتلا ہوجائیں تو وہ حلال ہوجاتا ہے بلکہ مقصد یہ ہے کہ عمومِ بلوٰی شرعی طور پر اسبابِ تخفیف میں سے ہے، کوئی تنگی نہیں جس میں وسعت نہ پیداہو، جب یہ معاملہ ایک اختلافی مسئلہ میں واقع ہوا تو مسلمانوں کوتنگی سے بچانے کے لئے آسانی کی جانب کو ترجیح ہوگی۔ خادم فقہ پر پوشیدہ نہیں کہ جیسے یہ ضابطہ طہارت و نجاست میں جاری ہے۔ ایسے ہی حرمت و اباحت میں بھی جاری ہے۔
(فتاویٰ رضویہ ج 25 ص 89رضا فاؤنڈیشن لاہور)
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں
والحرج مدفوع بالنص وعموم البلوی من موجبات التخفیف لاسیما فی مسائل الطھارۃ والنجاسۃ”
نص سے ثابت ہے کہ حرج دور کیا گیا اور عموم بلوی اسباب تخفیف سے ہے خصوصا مسائل طہارت اور نجاست میں۔
(فتاویٰ رضویہ ج 4 ص391 رضا فاؤنڈیشن لاہور)
فائدہ عمومِ بلویٰ سے مراد وہ امر ہے کہ بلادِکثیرہ (یعنی کثیر شہروں) میں کثرت کے ساتھ رائج ہو, عوام و خواص سبھی اس میں مبتلا ہوں اور اس سے بچنا دشوار اور باعثِ حرج ہو.
(ہمارےمسائل اور ان کاحل ج 2 ص 140 بحوالہ:صحیفہ فقہ اسلامی)
(مفتی ابواسید عبیدرضا مدنی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
فائدہ عمومِ بلویٰ سے مراد وہ امر ہے کہ بلادِکثیرہ (یعنی کثیر شہروں) میں کثرت کے ساتھ رائج ہو, عوام و خواص سبھی اس میں مبتلا ہوں اور اس سے بچنا دشوار اور باعثِ حرج ہو.
(ہمارےمسائل اور ان کاحل ج 2 ص 140 بحوالہ:صحیفہ فقہ اسلامی)
(مفتی ابواسید عبیدرضا مدنی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/09/2023
29/09/2023