Type Here to Get Search Results !

هذا من فضل يارسول الله لکھنا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4573)
هذا من فضل يارسول الله لکھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق کہ 
 مسئلہ یہ ہے کہ اصل میں ہوتا ہے هذا من فضل ربي 
تو کسی نے لکھا ہوا ہے؟ هذا من فضل يا رسول الله 
آیت کو چینج کیا ہے، اس طرح لکھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد ندیم رضا قادری پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

مذکورہ صورت میں لکھنا جائز ہے کاتب نے ایت میں تغیر و تبدل کی نیت سے نہیں لکھا ہے بلکہ رسول کی محبت میں لکھا ہے ہم عرف میں بھی بولتے ہیں ہہ آقا کا فضل ہے آقا کی عنایت ہے 
اور جو کچھ بندے کو نعمت ملتی ہے وہ اقا علیہ السلام کے طفیل میں اس میں کوئی شک نہیں حدیث پاک میں ہے 
فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّه يُعْطِي
یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اوراللہ ہی عطا فرماتا ہے۔
(بخاری ج1 ص42 حدیث 71)
اس حدیثِ مبارکہ میں اس بات کی صراحت نہیں کہ سرورِد عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کیا عطا فرمانے والے ہیں اس صورت میں اصول کے مطابق معنیٰ یہ ہوگا کہ ہر نعمت کو تقسیم کرنے والے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہیں اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے واسطے کے بغیر کسی کو کچھ نہیں مل سکتا۔
اسی طرح قرآنی آیات میں جو دعائیں بصیغہ واحد وارد ہوئی ہیں انھیں دعا کے طور پر جمع کے صیغے کے ساتھ پڑھنا جائز ہے بالخصوص مواقع اجتماع میں
 قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم
 عَمِّم في دعائک فإن بین الدعاء الخاص والعام کما بین السماء والأرض
(رد المحتار: ۲/۲۳۵)
فقیہِ اعظم ہند حضرت علّامہ مفتی محمدشریف الحق امجدی علیہ رحمۃ اللہ القَوی فرماتے ہیں
مخلوق میں کسی کو حضورِاقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بِلا واسطہ کچھ نہیں مل سکتا ۔ 
خاری وغیرہ میں صحیح حدیث ہے کہ فرمایا 
اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي
قَاسِمٌ اور يُعْطِي دونوں کا متعلّق محذوف ہے جو عموم کا اِفادہ کرتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مخلوقات میں جس کو جو کچھ بھی دیتا ہے خواہ وہ نعمت جسمانی ہو یا روحانی ظاہری ہو یا باطنی سب حضورِ اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہاتھ سے دلاتا ہے۔اس لئے علامہ احمد خطیب قسطلانی شارح بخاری علیہ رحمۃ اللہ البارِی نے اَلْمَوَاھِبُ اللَّدُنیہ میں فرمایا جسے علامہ محمد بن عَبدُالباقی زُرقانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی نے باقی رکھا ھُوَصَلَّی اللہ ُتَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ خِزَانَۃُ السِّرِّ وَمَوْضِعُ نُفُوْذِالْاَمْرِ فَلَا یَنْقُلُ خَیْرٌاِلَّا عَنْہُ وَلَا یَنْفُذُ اَمْرٌ اِلَّا مِنْہُ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ۔یعنی حضورصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم خزانۃ السر (یعنی پوشیدہ راز) ہیں اور اللہ تعالٰی کے حکم کے نافذ ہونے کا مرکز ، اس لئے ہر چیز حضور ہی سے منتقل ہوتی ہے اور ہر حکم حضور ہی سے نافذ ہوتا ہے۔
(فتاویٰ شارح بخاری،ج1،ص351)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
29/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area