Type Here to Get Search Results !

نکاح کے وقت اگر دلہن کچھ نہ بولے تو نکاح ہوگا یا نہیں؟

(سوال نمبر 4716)
نکاح کے وقت اگر دلہن کچھ نہ بولے تو نکاح ہوگا یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ور حمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  عورت نکاح کے وقت کچھ بولے ہی نہ کہ قبول ہے کہ نہیں ۔ نکاح ہو جائے گا کہ نہیں ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد عثمان شیخوپورہ پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

 باکرہ بالغہ لڑکی کا خاموش رہنا شرعاً اجازت شمار ہوتا ہے، خواہ باپ اجازت لے رہا ہو یا کوئی اور فرد، اور محرم ہو یا غیرمحرم، البتہ بہتر یہ ہے کہ ایسے موقع پرمحرم اجازت لے اور کسی ضرورت کی بنا پر نامحرم اجازت لے تو پردے کا اہتمام لازم ہے۔
حدیث شریف میں ہے 
روایت ہے حضرت ابن عباس سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بے خاوند والی عورت اپنے نفس کے مقابل اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے ۱؎ اور کنواری سے اس کے نفس کے متعلق اجازت لی جائے اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے ایک اور روایت میں ہے کہ شادی شدہ اپنے نفس کی اپنے ولی سے زیادہ حق دار ہے اور کنواری سے اجازت لی جائے اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے اور ایک روایت میں فرمایا شادی شدہ اپنے نفس کے بمقابلہ اپنے ولی کے بہت حقدار ہے،اور کنواری سے اس کا باپ اجازت لے گا اس کے نفس کے متعلق اور اس کی اجازت اس کی خاموشی ہے،(مسلم)
ہعنی خاوند والی بالغہ لڑکی خواہ کنواری ہو یا بیوہ یا مطلقہ اپنے نفس کی مختار ہے کہ اگر اس کا ولی کسی اور سے اس کا نکاح کردے اور یہ خود کسی دوسرے سے نکاح کرے تو اس کا اپنا کیا ہوا نکاح معتبر ہوگا نہ کہ ولی کا کیا ہوا نکاح۔معلوم ہوا کہ عاقلہ بالغہ کے نکاح کے لیے اجازت ولی شرط نہیں اس کے بغیر بھی ہوسکتا ہے،
یاد رہے باکرہ و ثیبہ کے حکم میں صرف یہ کہ باکرہ کی خاموشی اجازت ہے اور ثیبہ کی نہیں اسے صاف الفاظ میں اجازت دینا ہوگی،باقی مختار ہونے میں دونوں برابر ہیں
عاقلہ بالغہ لڑکی خواہ کنواری ہو خواہ بیوہ،خواہ طلاق والی اپنے نفس کی مختار ہے کہ اس کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوسکتا،اور اس کے نکاح کے لیے ولی شرط نہیں اور باکرہ کی خاموشی اس کی اجازت ہے مگر خاموشی اس وقت اجازت مانی جائے گی جب کہ اذن لینے والا اس کا ولی یا ولی کا وکیل ہو اور دولہا کا نام پتہ وغیرہ بتا کر اجازت مانگی جائے جس سے اسے دولہا کاپورا پتہ لگ جائے اگر ان میں سے کوئی چیز کم رہی تو خاموشی اجازت نہ ہوگی۔ (المرأة المناجیح ج 5 ص ٤٨ المكتبه المدينة)
حدیث پاک میں ہے 
عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : لا تنكح الأيم حتى تستأمر ولا تنكح البكر حتى تستأذن . قالوا : يا رسول الله وكيف إذنها ؟ قال أن تسكت 
وعن ابن عباس أن النبي صلى الله عليه و سلم قال : الأيم أحق بنفسها من وليها والبكر تستأذن في نفسها وأذنها صماتها . وفي رواية قال الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر تستأمر وإذنها سكوتها . وفي رواية : قال : الثيب أحق بنفسها من وليها والبكر يستأذنها أبوها في نفسها وإذنها صماتها . رواه مسلم
حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا ایم (یعنی بیوہ بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے اسی طرح کنواری عورت (یعنی کنواری بالغہ) کا نکاح نہ کیا جائے جب تک کہ اس کی اجازت حاصل نہ کرلی جائے یہ سن کر صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ اس کنواری عورت کی اجازت کیسے حاصل ہوگی ( کیونکہ کنواری عورت تو بہت شرم وحیا کرتی ہے) آپ ﷺ نے فرمایا اس طرح کہ وہ چپکی رہے یعنی کوئی کنواری عورت اپنے نکاح کی اجات مانگے جانے پر اگر بسب شرم و حیاء زبان سے ہاں نہ کرے بلکہ خاموش رہے تو اس کی یہ خاموشی بھی اس کی اجازت سمجھی جائے گی (بخاری ومسلم)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/10/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area