مسجد میں شیرینی دینے کی منت ماننا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کوئی شخص منت مانگتا ہے اور منت پوری ہونے کی خوشی میں مسجد میں شیرنی وغیرہ دیتا ہے یہ دینا فرض ہے واجب ہے یا سنت ہے یا مستحب ہے
دوسری بات یہ
کہ لوگ اس شیرنی کے لیے مسجد میں ہنگامہ شور و گول کرتے ہیں ایسا کرنا شریعت کے دائرے میں کیا ہے جواب عنایت فرمائے مع حوالہ۔ بہت مہربانی ہوگی
سائل:-غلام رسول اسمعیلی مقام بہار ضلع مدھوبنی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ منت نذر عرفی ہے نذر شرعی نہیں ہے۔
اس لئے پورا کرنا ضروری نہیں ہے مستحب ہے۔
فتاوٰی عالمگیری میں منت شرعی کےبارے میں ہے
أن النذر لا يصح إلا بشروط أحدها أن يكون الواجب من جنسه شرعا فلذلك لم يصح النذر بعيادة المريض
یعنی منت چند شرائط کے ساتھ درست ہوتی ہے،ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ جس چیز کی منت مانی ہے، وہ واجب کی جنس سے ہو، اسی لیے مریض کی عیادت کرنے کی منت ماننا شرعا درست نہیں۔(فتاوٰی عالمگیری،ج01،ص208،مطبوعہ پشاور)
ردالمحتار میں ہے
وفی البدائع ومن شروطہ ان یکون قربۃ مقصودۃ فلایصح النذر بعیادۃ المریض، تشیع الجنازۃ والوضوءوالاغتسال ودخول المسجد ومس المصحف،والاذان وبناء الرباطات والمساجد وغیر ذلک وان کانت قربالانھا غیر مقصودۃ
یعنی بدائع میں ہے منت کی شرائط میں سے ایک شرط ہے کہ وہ کام عبادت مقصودہ میں سے ہو،لہذا مریض کی عیادت کی منت،جنازے کے ساتھ جانے،وضو، غسل کرنے،۔مسجد میں داخل ہونے، قرآن چھونے کی،اذان دینے کی اور مسجدا ور پل بنانے کی منت وغیرہ شرعی منت نہیں ہے کیونکہ یہ کام اگر چہ عبادت ہیں مگر یہ عبادت مقصودہ نہیں ہیں۔(ردالمحتار،ج05،ص537ط کوئٹہ ایسا ہی فتاوی اہل سنت میں ہے)
سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا
(۱) زید نے نذر مانی کہ اگر میرا فلاں کام اﷲ کردے گا تو میں مولود شریف یا گیارھویں شریف وغیرہ کروں گا، تو کیا اس کھانے یا مٹھائی کو اغنیاء بھی کھاسکتے ہیں؟
(۲) زید نے یہ نذر مانی کہ اگر میرا کام ہوجائے گا تو میں اپنے احباب کو کھانا کھلاؤں گا، تو کیا اس طرح کی منت ماننا اور اس کا ادا کرنا زید پر واجب ہوگا یانہیں؟بینوا توجروا؟“
آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں
(۱) مجلس میلاد و گیارھویں شریف میں عرف و معمول یہی ہے کہ اغنیاء و فقراء سب کو دیتے ہیں جو لوگ ان کی نذر مانتے ہیں اسی طریقہ رائجہ کا التزام کرتے ہیں نہ یہ کہ بالخصوص فقراء پر تصدّق، تو اس کا لینا سب کو جائز ہے، یہ نذور فقہیہ سے نہیں ہے
(۲) یہ کوئی نذر شرعی نہیں، وجوب نہ ہوگا، اور بجالانا بہتر، ہاں اگر احباب سے مراد خاص معین بعض فقراء و مساکین ہوں تو وجوب ہوجائے گا۔
(فتاوی رضویہ، ج13،ص584، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں
مساجد میں شیرینی لے جائیں گے یا نمازیوں کو کھلائیں گے، یہ کوئی نذر شرعی نہیں، جب تک خاص فقراء کے لئے نہ کہے اسے امیر فقیر جس کو دے،سب لے سکتے ہیں۔(فتاوی رضویہ، ج13، ص585، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)
حاصل کلام یہ ہے مذکورہ منت مان سکتے ہیں پورا کرنا مستحب ہے
اور شرینی سے مسجد کو آلودہ نہ کی جائے ۔اداب مسجد کا خیال سب پر لازم ہے
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
21/09/2023