(سوال نمبر 4422)
مسجد میں خرفاتی کرنے والے کو دجال کے چیلے اور دجالی فتنہ کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
مسجد میں خرفاتی کرنے والے کو دجال کے چیلے اور دجالی فتنہ کہنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
زید نے کچھ نمازیوں کو دیکھا ک مسجد کے اندر خرافات کرتے ہیں تو زید نے بیان میں انکو دجال کے چیلے کہا اور دجالی فتنہ کہا نام کسی کا نہیں لیا تو زید پر شرع حکم کیا ہوگا۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-رضا یوپی الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مسجد میں خرافات کرنا اواز بلند کرنا اپنے گھروں کی طرح بلا تکلف اتھنا بیٹھنا جائز نہیں ہے ہے مسجد ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے اس لئے یہ جائز نہیں۔
اور مسجد میں فحش اور منکر بات تو کسی حال میں جائز نہیں اس سے نیکیاں اس طرح ختم ہو جاتی ہیں جس طرح آگ لکڑی کو جلاکر اور جانور گھاس کو کھا کر ختم کردیتا ہے
الاشباہ میں ہے
والکلام المباح ․․․․․․ أنہ یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب (الاشباہ)
فتاوی شامی میں ہے
والکلام المباح وقیدہ فی الظہیریة بأن یجلس لأجلہ وفی الشامی: فإنہ حینئذ لا یباح بالاتفاق لأن المسجد مابني لأمور الدنیا ․․․․․ وفی المدارک ومن الناس من یشتري لہو الحدیث المراد بالحدیث: الحدیث المنکر لما جاء ”الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمة الحشیش۔ انتہی (شامی أشرفی ۲/۳۷۸)
٢/زید نے مذکورہ لوگوں کو دجال کے چیلے یا دجال کا فتنہ کہا یہ غلط ہے گندگی کو گندگی سے پاک نہیں کیا جاتا اسے بھلائی سے نصیحت کرتے زید کی ان جملوں سے اگر ان لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو زید معافی مانگے اور ائندہ ایسے جملے سے اجتناب کریں۔
اور وہ لوگ جو مسجد میں غیر شرعی امور کئے اپنی خیر منائے اور مذکورہ حدیث پڑھیں کہ مسجد میں ائے تھے نیکی کرنے حدیث کی روسے ان کی نیکی کہاں گئی۔
فتاوی رضویہ میں ہے
مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔
سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں
مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی الله‘
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔
زید نے کچھ نمازیوں کو دیکھا ک مسجد کے اندر خرافات کرتے ہیں تو زید نے بیان میں انکو دجال کے چیلے کہا اور دجالی فتنہ کہا نام کسی کا نہیں لیا تو زید پر شرع حکم کیا ہوگا۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-رضا یوپی الہند
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
١/ مسجد میں خرافات کرنا اواز بلند کرنا اپنے گھروں کی طرح بلا تکلف اتھنا بیٹھنا جائز نہیں ہے ہے مسجد ایک پاکیزہ و مقدس مقام ہے مسجد عبادت کے لئے بنائی جاتی ہے مسجد میں دنیاوی باتیں کرنا اس کی حرمت و تقدس کے منافی ہے اس لئے یہ جائز نہیں۔
اور مسجد میں فحش اور منکر بات تو کسی حال میں جائز نہیں اس سے نیکیاں اس طرح ختم ہو جاتی ہیں جس طرح آگ لکڑی کو جلاکر اور جانور گھاس کو کھا کر ختم کردیتا ہے
الاشباہ میں ہے
والکلام المباح ․․․․․․ أنہ یأکل الحسنات کما تأکل النار الحطب (الاشباہ)
فتاوی شامی میں ہے
والکلام المباح وقیدہ فی الظہیریة بأن یجلس لأجلہ وفی الشامی: فإنہ حینئذ لا یباح بالاتفاق لأن المسجد مابني لأمور الدنیا ․․․․․ وفی المدارک ومن الناس من یشتري لہو الحدیث المراد بالحدیث: الحدیث المنکر لما جاء ”الحدیث فی المسجد یأکل الحسنات کما تأکل البہیمة الحشیش۔ انتہی (شامی أشرفی ۲/۳۷۸)
٢/زید نے مذکورہ لوگوں کو دجال کے چیلے یا دجال کا فتنہ کہا یہ غلط ہے گندگی کو گندگی سے پاک نہیں کیا جاتا اسے بھلائی سے نصیحت کرتے زید کی ان جملوں سے اگر ان لوگوں کی دل آزاری ہوئی ہو تو زید معافی مانگے اور ائندہ ایسے جملے سے اجتناب کریں۔
اور وہ لوگ جو مسجد میں غیر شرعی امور کئے اپنی خیر منائے اور مذکورہ حدیث پڑھیں کہ مسجد میں ائے تھے نیکی کرنے حدیث کی روسے ان کی نیکی کہاں گئی۔
فتاوی رضویہ میں ہے
مسلمان کو بغیر کسی شرعی وجہ کے تکلیف دینا قطعی حرام ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا
وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا
وہ لوگ جو ایماندار مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی جرم کے تکلیف دیتے ہیں بے شک انہوں نے بہتان اور کھلا گناہ اپنے ذمے لے لیا۔
سیّدِ عالَم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں
مَنْ اٰذٰی مُسْلِمًا فَقَدْ اٰذَانِیْ وَ مَنْ اٰذَانِیْ فَقَدْ اٰذَی الله‘
جس نے مسلمان کو تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی۔
(معجم الاوسط، باب السین، من اسمہ: سعید، ۲/۳۸۶، الحدیث: ۳۶۰۷)
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔امامِ اَجل رافعی نے سیّدنا علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہٗ سے روایت کی، مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا
’لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلِمًا اَوْضَرَّہٗ اَوْمَاکَرَہٗ‘
یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔
(فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲۴ ص ۴۲۵ تا ۴۲۶ رضا فائونڈیشن لاہور)
مزید فرماتے ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت ِشرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو ،اسے ایذا پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگر چہ بات فی نفسہٖ سچی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں
من دعا رجلا بغیر اسمہ لعنته الملائکة فی التیسیر ای بلقب یکرھا لا بنحو یا عبدﷲ
جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے۔
بحرالرائق ودرمختار میں ہے
فی القنیة قال لیھودی او مجوسی یا کافر یاثم ان شق علیه ومقتضاہ انه یعزر لارتکابه الاثم۔
(فتاویٰ رضویہ رضویہ، رسالہ: اراء ۃ الادب لفاضل النسب، ج۲۳ ص۲۰۴ رضا فائونڈیشن لاہور)
یعنی جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی بالآخر اللہ تعالیٰ اسے عذاب میں گرفتار فرمائے گا۔امامِ اَجل رافعی نے سیّدنا علی کَرَّمَ اللہ وَجْہَہٗ سے روایت کی، مصطفی صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا
’لَیْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّ مُسْلِمًا اَوْضَرَّہٗ اَوْمَاکَرَہٗ‘
یعنی وہ شخص ہمارے گروہ میں سے نہیں ہے جو مسلمان کو دھوکا دے یا تکلیف پہنچائے یا اس کے ساتھ مکر کرے۔
(فتاویٰ رضویہ شریف ج ۲۴ ص ۴۲۵ تا ۴۲۶ رضا فائونڈیشن لاہور)
مزید فرماتے ہیں کسی مسلمان بلکہ کافر ذمی کو بھی بلا حاجت ِشرعیہ ایسے الفاظ سے پکارنا یا تعبیر کرنا جس سے اس کی دل شکنی ہو ،اسے ایذا پہنچے شرعاً ناجائز و حرام ہے اگر چہ بات فی نفسہٖ سچی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں
من دعا رجلا بغیر اسمہ لعنته الملائکة فی التیسیر ای بلقب یکرھا لا بنحو یا عبدﷲ
جو شخص کسی کو اس کا نام بدل کر پکارے فرشتے اس پر لعنت کریں تیسیر میں ہے یعنی کسی بد لقب سے جو اسے برا لگے نہ کہ اے بندہ خدا وغیرہ سے۔
بحرالرائق ودرمختار میں ہے
فی القنیة قال لیھودی او مجوسی یا کافر یاثم ان شق علیه ومقتضاہ انه یعزر لارتکابه الاثم۔
(فتاویٰ رضویہ رضویہ، رسالہ: اراء ۃ الادب لفاضل النسب، ج۲۳ ص۲۰۴ رضا فائونڈیشن لاہور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
14/09/2023
14/09/2023