(سوال نمبر 4608)
مرد اور عورت کی نماز پڑھنے میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مرد اور عورت کی نماز پڑھنے میں کیا فرق ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
نماز میں وہ کتنی باتیں ہیں جن میں حکم ہے کہ عورتیں مرد کے خلاف کریں
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔۔۔
سائل:- نسیم احمد اویسی سلطانپور یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقت، قرات، نیت، رکعات وغیرہ میں مرد و زن کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔
یاد رہے کہ مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے شریعت کی رو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی ان کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے۔عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں۔
اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقہ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو
١/ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھے تک اٹھائے اور سینے پر ہاتھ باندھ لے،
اور مرد اپنے دونوں ہاتھ کان کے لو تک اٹھائے اور ناف کے نیچے باندھے۔
٢/ رکوع میں عورت دونوں ہاتھ کی انگلیاں ملاکر گھٹنے پر رکھے اور دونوں بازو، پہلووٴں سے ملائے رکھے،
اور مرد رکوع میں انگلیاں کھلی رکھے اور اپنے گھٹنے پکڑلے،
٣/ عورت سجدے میں پیٹ کو رانوں سے ملاکر کہنیوں کو زمین پر بچھا کر اور بازوٴں کو پہلووٴں سے ملاکر رکھے یعنی خوب سمٹ کر سجدہ کرے .
اور مرد خوب کھل کر سجدہ کرے یعنی پیٹ کو رانوں سے اور بازوٴں کو پہلووٴں سے جدا رکھے، پہلے سجدہ کے بعد خوب اچھی طرح بیٹھ جائے تب دوسرا سجدہ کرے،
٤/ عورت سجدے میں مردوں کی طرح قدمین کو کھڑا نہیں کرے گی بلکہ تورک کی حالت میں قبلہ کی طرف کرے اور قعدہ میں بھی عورت تورک کرے یعنی سرین پر بیٹھے اور اپنے دونوں پاوٴں داہنی طرف نکال دے.
جب کہ مرد قعدے میں بایاں پیر بچھاکر بیٹھ جائے اور دائیں پیر کو کھڑا رکھے،
یہ سب مسائل حدیث و فقہ کی نصوص سے ثابت ہیں حوالے کے لئے قانون شریعت بہار شریعت فتاوی رضویہ جنتی زیور سنی بہشتی زیور کا مطالعہ کریں
احادیث مبارکہ میں بھی عورت اور مرد کی نماز کا فرق موجود ہے۔
1/ چنانچہ صحابی رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "قال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔
مجھ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو ہاتھ کانوں تک بلند کرو اور اور عورت اپنے ہاتھوں کو سینے تک اٹھائے۔(مجمع الزوائد ومنبع الزوائد، ج 2، ص 272، دارالفکر، بیروت)
2/ حضرت ابو جحفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:" إن علیا رضی اللہ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔
بے شک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نماز کے قیام میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ناف کے نیچے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔
جواب عنایت فرمائیں مہربانی ہوگی۔۔۔
سائل:- نسیم احمد اویسی سلطانپور یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
وقت، قرات، نیت، رکعات وغیرہ میں مرد و زن کی نماز میں کوئی فرق نہیں۔
یاد رہے کہ مرد اور عورت کی جسمانی ساخت میں جو فرق پایا جاتا ہے شریعت کی رو سے شرعی اَحکام و مسائل میں بھی ان کا پاس و لحاظ رکھا گیا ہے۔ طہارت کے مسائل ہوں یا حج کے روزہ کے مسائل ہوں یا زکوٰۃ کے۔عورت کے عورت ہونے کا کسی نہ کسی حکم سے اِظہار ہو جاتا ہے جس طرح نمازِ جمعہ و عیدین مردوں پر فرض ہے عورتوں پر نہیں۔
اِسی طرح نماز جیسی افضل عبادت میں بھی بعض مخصوص مواقع پر عورت کا طریقہ نماز مرد سے مختلف رکھا گیا تاکہ عورت کے پردہ کا لحاظ رکھا جائے اس کے اعضائے نسوانی کا اعلان و اظہار نہ ہو
١/ عورت تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھے تک اٹھائے اور سینے پر ہاتھ باندھ لے،
اور مرد اپنے دونوں ہاتھ کان کے لو تک اٹھائے اور ناف کے نیچے باندھے۔
٢/ رکوع میں عورت دونوں ہاتھ کی انگلیاں ملاکر گھٹنے پر رکھے اور دونوں بازو، پہلووٴں سے ملائے رکھے،
اور مرد رکوع میں انگلیاں کھلی رکھے اور اپنے گھٹنے پکڑلے،
٣/ عورت سجدے میں پیٹ کو رانوں سے ملاکر کہنیوں کو زمین پر بچھا کر اور بازوٴں کو پہلووٴں سے ملاکر رکھے یعنی خوب سمٹ کر سجدہ کرے .
اور مرد خوب کھل کر سجدہ کرے یعنی پیٹ کو رانوں سے اور بازوٴں کو پہلووٴں سے جدا رکھے، پہلے سجدہ کے بعد خوب اچھی طرح بیٹھ جائے تب دوسرا سجدہ کرے،
٤/ عورت سجدے میں مردوں کی طرح قدمین کو کھڑا نہیں کرے گی بلکہ تورک کی حالت میں قبلہ کی طرف کرے اور قعدہ میں بھی عورت تورک کرے یعنی سرین پر بیٹھے اور اپنے دونوں پاوٴں داہنی طرف نکال دے.
جب کہ مرد قعدے میں بایاں پیر بچھاکر بیٹھ جائے اور دائیں پیر کو کھڑا رکھے،
یہ سب مسائل حدیث و فقہ کی نصوص سے ثابت ہیں حوالے کے لئے قانون شریعت بہار شریعت فتاوی رضویہ جنتی زیور سنی بہشتی زیور کا مطالعہ کریں
احادیث مبارکہ میں بھی عورت اور مرد کی نماز کا فرق موجود ہے۔
1/ چنانچہ صحابی رسول حضرت وائل بن حجر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : "قال لی رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم : یا وائل بن حجر اذا صلیت فاجعل یدیک حذاء أذنیک والمرأۃ تجعل یدیھا حذاء ثدییھا۔
مجھ سے نبی کریم علیہ السلام نے فرمایا : اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو ہاتھ کانوں تک بلند کرو اور اور عورت اپنے ہاتھوں کو سینے تک اٹھائے۔(مجمع الزوائد ومنبع الزوائد، ج 2، ص 272، دارالفکر، بیروت)
2/ حضرت ابو جحفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے:" إن علیا رضی اللہ عنہ قال من السنۃ وضع الکف علی الکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔
بے شک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: نماز کے قیام میں ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر ناف کے نیچے رکھنا سنت سے ثابت ہے۔
(سنن ابو داؤد ج1ص 118مکتبہ رحمانیہ، لاھور)
3/ ابو داؤد شریف میں ہی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:" أخذ الکف علی الأکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔
نماز میں ناف کے نیچے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھنا ہے۔(سنن ابو داؤد جلد 1ص 118مکتبہ رحمانیہ، لاھور)
4/ اور امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’ کتاب المراسیل ‘‘میں یزیدبن حبیب سے نقل کیاہے، فرماتے ہیں: "أن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان، فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست فی ذٰلک کالرجل۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاگزر دوعورتوں پر ہوا جو نمازپڑھ رہی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاجب تم سجدہ کروتو اپنے گوشت (جسم ) کاکچھ حصہ زمین سے ملایاکرو، کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں۔
3/ ابو داؤد شریف میں ہی حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، آپ فرماتے ہیں:" أخذ الکف علی الأکف فی الصلوٰۃ تحت السرۃ۔
نماز میں ناف کے نیچے ایک ہاتھ کی ہتھیلی کو دوسرے ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر رکھنا ہے۔(سنن ابو داؤد جلد 1ص 118مکتبہ رحمانیہ، لاھور)
4/ اور امام ابوداؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’ کتاب المراسیل ‘‘میں یزیدبن حبیب سے نقل کیاہے، فرماتے ہیں: "أن رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مر علی امرأتین تصلیان، فقال إذا سجدتما فضما بعض اللحم إلی الأرض فإن المرأۃ لیست فی ذٰلک کالرجل۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاگزر دوعورتوں پر ہوا جو نمازپڑھ رہی تھیں ،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایاجب تم سجدہ کروتو اپنے گوشت (جسم ) کاکچھ حصہ زمین سے ملایاکرو، کیونکہ عورت سجدہ کرنے میں مرد کی طرح نہیں۔
(کتاب المراسیل باب ماجاء فی من نام عن الصلوٰۃ ،ص 8،مطبوعہ افغانستان)
5/ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے حدثنا أبو بکر قال حدثنا أبو الأحوص عن أبی إسحاق عن الحارث عن علی قال إذا سجدت المرأۃ فلتحتفرو لتضم فخذیھا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:عورت جب سجدہ کرے تو چاہیے کہ زمین کے ساتھ چپک جائے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملا لے۔
6/ ایک اور روایت میں ہے حدثنا أبو بکر قال نا أبو عبد الرحمٰن المقری عن سعید بن أیوب عن یزید ابن حبیب عن بکیر بن عبد اللہ بن الأشج عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاۃ المرأۃ فقال تجتمع و تحتفر۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: عورت اپنے جسم کو سمیٹے اور زمین کے ساتھ چمٹ کر رہے۔
7/ ایک اور روایت میں ہے حدثنا أبو بکر قال نا أبو الأحوص عن مغیرۃ عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتضم فخذیھا و لتضع بطنھا علیھما۔
حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملاکر رکھے۔
8/ ایک اور روایت میں ہے
حدثنا أبو بکر قال نا جریر عن لیث عن مجاھد أنہ کان یکرہ أن یضع الرجل بطنہ علی فخذیہ إذا سجد کماتضع المرأۃ۔ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد کے لیے یہ مکروہ جانتے تھے کہ وہ سجدے کی حالت میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملا کر رکھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص302 مکتبہ امدادیہ ملتان)
5/ اسی طرح مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے حدثنا أبو بکر قال حدثنا أبو الأحوص عن أبی إسحاق عن الحارث عن علی قال إذا سجدت المرأۃ فلتحتفرو لتضم فخذیھا۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:عورت جب سجدہ کرے تو چاہیے کہ زمین کے ساتھ چپک جائے اور اپنی رانوں کو پیٹ کے ساتھ ملا لے۔
6/ ایک اور روایت میں ہے حدثنا أبو بکر قال نا أبو عبد الرحمٰن المقری عن سعید بن أیوب عن یزید ابن حبیب عن بکیر بن عبد اللہ بن الأشج عن ابن عباس أنہ سئل عن صلاۃ المرأۃ فقال تجتمع و تحتفر۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: عورت اپنے جسم کو سمیٹے اور زمین کے ساتھ چمٹ کر رہے۔
7/ ایک اور روایت میں ہے حدثنا أبو بکر قال نا أبو الأحوص عن مغیرۃ عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتضم فخذیھا و لتضع بطنھا علیھما۔
حضرت ابراہیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ جب عورت سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے اور اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملاکر رکھے۔
8/ ایک اور روایت میں ہے
حدثنا أبو بکر قال نا جریر عن لیث عن مجاھد أنہ کان یکرہ أن یضع الرجل بطنہ علی فخذیہ إذا سجد کماتضع المرأۃ۔ حضرت مجاہد رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرد کے لیے یہ مکروہ جانتے تھے کہ وہ سجدے کی حالت میں عورت کی طرح اپنے پیٹ کو اپنی رانوں کے ساتھ ملا کر رکھے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص302 مکتبہ امدادیہ ملتان)
9/ اسی میں ایک اور مقام پر ہے
حدثنا أبو بکر قال نا ابن مبارک عن ھشام عن الحسن قال المرأۃ تضطم فی السجود ۔
امام حسن علیہ الرحمۃ نےفرمایا:عورت سجدوں میں سمٹ جائے ۔
10/ اسی میں ہے
حدثنا أبو بکر قال نا وکیع عن سفیان عن منصور عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنھا بفخذھا و لا ترفع عجیزتھا و لا تجافی کما یجافی الرجل۔
حضرت ابراہیم علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جب عورت سجدہ کرے تواسے چاہیے کہ اپنے پیٹ کواپنی ران سےملادے اوراپنی سرین نہ اٹھائے اورمردوں کی طرح بازووں کوکروٹوں سے جدانہ کرے ۔
حدثنا أبو بکر قال نا ابن مبارک عن ھشام عن الحسن قال المرأۃ تضطم فی السجود ۔
امام حسن علیہ الرحمۃ نےفرمایا:عورت سجدوں میں سمٹ جائے ۔
10/ اسی میں ہے
حدثنا أبو بکر قال نا وکیع عن سفیان عن منصور عن إبراھیم قال إذا سجدت المرأۃ فلتلزق بطنھا بفخذھا و لا ترفع عجیزتھا و لا تجافی کما یجافی الرجل۔
حضرت ابراہیم علیہ الرحمۃ نے فرمایا:جب عورت سجدہ کرے تواسے چاہیے کہ اپنے پیٹ کواپنی ران سےملادے اوراپنی سرین نہ اٹھائے اورمردوں کی طرح بازووں کوکروٹوں سے جدانہ کرے ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص303 مکتبہ امدادیہ ملتان)
11/ نور الایضاح میں ہے
رفع الیدین للتحریمۃ حذاء الأذنین للرجل ۔۔۔۔۔ و رفع الیدین حذاء المنکبین للحرۃ علی الصحیح لأنہ ذراعیھا عورۃ و مبناہ علی الستر۔تحریمہ کے لیے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھانا مرد کے لیے (سنت)ہے۔ اور کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا صحیح مذہب کے مطابق آزاد عورت کے لیے (سنت) ہے۔ اس لیے کہ اس کی کلائیاں بھی عورت ہیں اور اس کی بنا ستر پر ہے۔
12/ اسی میں ہے
و یسن وضع الرجل یدہ الیمنی علی الیسری تحت سرتہ لحدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔۔۔ و یسن وضع المرأۃ یدیھا علی صدرھا من غیر تحلیق لأنہ أستر لھا۔
اور مرد کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ناف کے نیچے اپنے ہاتھ اس طرح باندھے کہ اس کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ہو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حدیث مبارکہ کی وجہ سے۔۔۔۔ اور عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بغیر انگلیوں کا حلقہ بنانے کے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے کیونکہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
13/ اسی میں ہے
و یسن مجافاۃ الرجل بطنہ عن فخذیہ ، و مرفقیہ عن جنبیہ، و ذراعیہ عن الأرض، و یسن انخفاض المرأۃ و لزقھا بطنھا بفخذیھا۔سجدہ کرتے وقت مردکے لئے سنت ہے کہ وہ اپنے پیٹ کورانوں سے ،اپنی کہنیوں کواپنے پہلوؤں سے،اوراپنی کلائیوں کو زمین سے جُدارکھے جبکہ عورتوں کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ زمین کی طرف سمٹ کرسجدہ کرے اوراپنے پیٹ کواپنی رانوں سے ملائے رکھے۔
11/ نور الایضاح میں ہے
رفع الیدین للتحریمۃ حذاء الأذنین للرجل ۔۔۔۔۔ و رفع الیدین حذاء المنکبین للحرۃ علی الصحیح لأنہ ذراعیھا عورۃ و مبناہ علی الستر۔تحریمہ کے لیے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھانا مرد کے لیے (سنت)ہے۔ اور کندھوں کے برابر ہاتھ اٹھانا صحیح مذہب کے مطابق آزاد عورت کے لیے (سنت) ہے۔ اس لیے کہ اس کی کلائیاں بھی عورت ہیں اور اس کی بنا ستر پر ہے۔
12/ اسی میں ہے
و یسن وضع الرجل یدہ الیمنی علی الیسری تحت سرتہ لحدیث علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔ ۔۔۔ و یسن وضع المرأۃ یدیھا علی صدرھا من غیر تحلیق لأنہ أستر لھا۔
اور مرد کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ ناف کے نیچے اپنے ہاتھ اس طرح باندھے کہ اس کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ہو، حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی حدیث مبارکہ کی وجہ سے۔۔۔۔ اور عورت کے لیے سنت یہ ہے کہ وہ بغیر انگلیوں کا حلقہ بنانے کے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھے کیونکہ اس میں اس کے لیے زیادہ پردہ ہے۔
13/ اسی میں ہے
و یسن مجافاۃ الرجل بطنہ عن فخذیہ ، و مرفقیہ عن جنبیہ، و ذراعیہ عن الأرض، و یسن انخفاض المرأۃ و لزقھا بطنھا بفخذیھا۔سجدہ کرتے وقت مردکے لئے سنت ہے کہ وہ اپنے پیٹ کورانوں سے ،اپنی کہنیوں کواپنے پہلوؤں سے،اوراپنی کلائیوں کو زمین سے جُدارکھے جبکہ عورتوں کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ زمین کی طرف سمٹ کرسجدہ کرے اوراپنے پیٹ کواپنی رانوں سے ملائے رکھے۔
(ملخصا من نورالایضاح معہ حاشیۃ الطحطاوی،ص256تا 268قدیمی کتب خانہ کراچی)
14/ شیخ الاسلام ابوبکر بن علی بن محمد الحدادی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب میں عورت کی قعدہ کی ہیئت کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :"ان کانت امرأۃ جلست علی الیتھا الیسری وأخرجت رجلیھا من الجانب الأیمن لأنہ أستر لھا۔
اگر نمازی عورت ہے تو قعدہ میں الٹی سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں سیدھی طرف نکال دے کیونکہ اس طریقے میں اس کا زیادہ پردہ ہے ۔
14/ شیخ الاسلام ابوبکر بن علی بن محمد الحدادی علیہ الرحمۃ اپنی کتاب میں عورت کی قعدہ کی ہیئت کا حکم بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :"ان کانت امرأۃ جلست علی الیتھا الیسری وأخرجت رجلیھا من الجانب الأیمن لأنہ أستر لھا۔
اگر نمازی عورت ہے تو قعدہ میں الٹی سرین پر بیٹھے اور دونوں پاؤں سیدھی طرف نکال دے کیونکہ اس طریقے میں اس کا زیادہ پردہ ہے ۔
(الجوھرۃ النیرۃ، جلد 1،ص 65، قدیمی کتب خانہ، کراچی )
(ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
15/ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں
رکوع میں پیٹھ خوب بچھی رکھے یہاں تک کہ اگر پانی کا پیالہ اس کی پیٹھ پر رکھ دیا جائے تو ٹھہر جائے۔عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں پیٹھ سیدھی نہ کرے اور گھٹنوں پر زور نہ دے بلکہ محض ہاتھ رکھ دے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے اور پاؤں جھکے ہوئے رکھے مردوں کی طرح خوب سیدھے نہ کر دے۔عورت سمٹ کر سجدہ کرے ، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے، اور پیٹ ران سے، اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے۔دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور دہنا قدم کھڑا رکھنا اور دہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے اور عورت دونوں پاؤں دہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین پر بیٹھے ۔"
(ایسا فتاوی اہل سنت میں ہے)
15/ صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانامفتی محمد امجد علی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں
رکوع میں پیٹھ خوب بچھی رکھے یہاں تک کہ اگر پانی کا پیالہ اس کی پیٹھ پر رکھ دیا جائے تو ٹھہر جائے۔عورت رکوع میں تھوڑا جھکے یعنی صرف اس قدر کہ ہاتھ گھٹنوں تک پہنچ جائیں پیٹھ سیدھی نہ کرے اور گھٹنوں پر زور نہ دے بلکہ محض ہاتھ رکھ دے اور ہاتھوں کی انگلیاں ملی ہوئی رکھے اور پاؤں جھکے ہوئے رکھے مردوں کی طرح خوب سیدھے نہ کر دے۔عورت سمٹ کر سجدہ کرے ، یعنی بازو کروٹوں سے ملا دے، اور پیٹ ران سے، اور ران پنڈلیوں سے اور پنڈلیاں زمین سے۔دوسری رکعت کے سجدوں سے فارغ ہونے کے بعد بایاں پاؤں بچھا کر دونوں سرین اس پر رکھ کر بیٹھنا اور دہنا قدم کھڑا رکھنا اور دہنے پاؤں کی انگلیاں قبلہ رخ کرنا یہ مرد کے لیے ہے اور عورت دونوں پاؤں دہنی جانب نکال دے اور بائیں سرین پر بیٹھے ۔"
(ملخصا ازبہار شریعت، ج1،ح 3 ،ص 526تا530 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
04/10/2023
04/10/2023