Type Here to Get Search Results !

کیا استاد طلبہ کو لکڑی سے مار سکتے ہیں؟


 (سوال نمبر 4442)
کیا استاد طلبہ کو لکڑی سے مار سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
 کیا فرماتے ہیں علماء کرام مفتیان عظام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں 
آج کل مدرسوں میں استاد بچوں کو کوئی بھی بات کے لیے مارتے ہیں کیا ان کا مارنا جائز ہے مثلاً کسی بچے نے جماعت کے ساتھ میں نماز پڑھی مگر ایک دو رکعتیں چھوڑ دی تو کیا استاد کے لیے حق بنتا ہے کہ اسے سزا دیں اور وہ بھی اس طرح کے لکڑی سے پانچ چھ لکڑی زور سے اس کو ماریں اور وہ چلچلّہ اٹھے کیا شرعاً ایسا مارنا جائز ہے کیا استاد کے لیے یہ حق ہے کہ وہ بچے کو گالیاں دیں یا برا بھلا کہے اور کچھ استاد اپنے گھر کا غصہ بچوں پہ نکال دیتے ہیں مثلاََ ان کے گھر پر کسی بات کو لے کر جھگڑا ہوا تو آکر کوئی بچہ تھوڑی سی بھی غلطی کرے تو استاد پورا غصہ اس بچے پر نکال لیتے ہیں اور اس کو بہت بوری طرح سے مارتے ہیں کیا ایسا مارنا جائز ہے 
  ازراہِ کرام جواب عنایت فرمائے 
سائل:- محمد محسن رضا حیدر پورہ کھدان اكولہ مہاراشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل

پہلی بات تو یہ ہے کہ شاگرد کو استاد پر ملامت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے استاد کا حق باپ سے زیادہ ہے کہ وہ بدنی باپ ہے اور استاد روحانی باپ ہے 
اعلٰی درجہ کا باپ استاد مربی ہے استاد کا مرتبہ پدر نسب کے مرتبہ سے زائد ہے۔
مذکورہ صورت میں 
استاد کا طلبہ کو لکڑی سے بدنی سزا مناسب نہیں پر بوقت ضرورت دینے میں حرج بھی نہیں جبکہ سخت ضرورت ہو بات اور ڈانت ڈپٹ سے کام نہ چل سکے اور سرزنش بھی کر سکتے ہیں جبکہ غلطی ہو مگر سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں دینی چاہیے بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہیں کرنی چائیے ۔
جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھی تو سزا کے مستحق ہے ہاں ایک دو رکعات چھوٹ جائے تو بھی سزا دے سکتے ہیں ایک وقت میں تین لکڑی تک مار سکتے ہیں۔اس سے زیادہ نہیں آقا علیہ السلام نے استاذ کی بچوں کو مارنے کے بارے میں فرمایا تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیز کرو کیونکہ اگر تم تین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو ﷲ تعالی قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا۔ اس لیے پہلے نصیحت پھر ڈانٹ ڈپٹ پھر لکڑی سے سزا ایک ساتھ 3 لکڑی مار سکتے ہیں شرعا ۔
استاد کو گالی دینا جائز نہیں ہے اس گالی پر وہ عنداللہ عاصی ہوں گے۔
بلا وجہ بغیر غلطی کے طلبہ کو مار نا جائز نہیں ہے اور بری طرح مارنا تو بالکل بھی جائز نہیں ہے۔
المرات میں ہے 
شاگرد کو استاد پر ملامت کرنے کا حق نہیں ہے (المرات ج ٧ ص ٩ مکتبہ المدینہ)
فتاوی رضویہ میں ہے 
اساتذہ و شیوخ علم شرعیہ بلاشبہ آبائے معنوی و آبائے روح ہیں جن کی حرمت وعظمت آبائے جسم سے زائد ہے کہ وہ پدر آب وگل ہے اور یہ پدر جان و دل، علامہ مناوی تیسیر جامع صغیر میں فرماتے ہیں
من علم الناس ذاک خیراب ذا ابوالروح لاابوالنطف 
یعنی استاد کا مرتبہ باپ سے زیادہ ہے کہ وہ روح کا باپ ہے، نہ نطفہ کا،،
الوالد ھو والد التربیۃ فرتبتہ فائقۃ رتبۃ والد التبنیۃ 
یعنی اعلٰی درجہ کا باپ استاد مربی ہے۔ اس کا مرتبہ پدر نسب کے مرتبہ سے زائد ہے۔
استاد کا بدنی سزا دینا جائز ہے پہلے سرزنش سے کام لینا جائز ہے مگریہ سزا لکڑی ڈنڈے وغیرہ سے نہیں بلکہ ہاتھ سے ہونی چاہئے اور ایک وقت میں تین مرتبہ سے زائد پٹائی نہ ہونے پائے، چنانچہ فتاوی شامی میں ہے کہ کسی آزاد بچے کو اس کے والد کے حکم سے مارنا جائز نہیں لیکن استاد تعلیمی مصلحت کے تحت پٹائی کرسکتاہے۔ امام طرسوسی نے یہ قید لگائی ہے کہ مارپیٹ زخمی کردینے والی نہ ہو اور تین ضربوں سے زائد بھی نہ ہو، لیکن ناظم نے اس قید کو رد کردیاکہ اس کی کوئی وجہ نہیں لہذا نقل کی ضرورت ہے اور شارح نے اس کو بر قرار رکھا۔ علامہ شرنبلالی نے فرمایا نقل کتاب الصلوۃ میں ہے کہ چھوٹے بچے کو ہاتھ سے سزادی جائے نہ کہ لاٹھی سے اور تین ضربوں سے تجاوز بھی نہ ہونے پائےاھ بتلخیص
(ردالمحتار کتاب الحظروالاباحۃ فصل فی البیع داراحیاء التراث العربی بیروت ۵/ ۲۷۶)
درجامع الصغار استروشنی است ذکر والدی رحمہ اﷲ تعالی من صلوۃ الملتقط اذا بلغ الصبی عشر سنین یضرب لاجل الصلوۃ بالید لابالخشب ولایجاوز الثلث وکذا المعلم لیس لہ ان یجاوز الثلث قال صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم لمرداس المعلم ایاک ان تضرب فوق الثلث فانک اذا ضربت فوق الثلث اقتص ﷲ منک
جامع صغار استروشنی میں ہے 
 میرے والد رحمہ ﷲ تعالی نے بحث صلوۃ ملتقط میں ذکر فرمایا کہ جب بچے کی عمر دس سال ہوجائے تو نمازی بنانے کے لئے اسے ہاتھ سے سزادی جائے لاٹھی سے نہیں اور تین مرتبہ سے تجاوز بھی نہ کیا جائے۔ یونہی استاد کے لئے روا نہیں کہ تین مرتبہ سے تجاوز کرے حضور اکرم صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم نے استاذ کی بچوں کو مارنے کے بارے میں فرمایا تین مرتبہ سے زائد ضربیں لگانے سے پرہیز کرو کیونکہ اگر تم تین مرتبہ سے زیادہ سزا دی تو ﷲ تعالی قیامت کے دن تم سے بدلہ لے گا
(احکام الصغار مسائل الصلوۃ دارالکتب العلمیہ بیروت ص۱۶) فتاوی رضویہ ج ٢٣ ص ١٥٧)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area