(سوال نمبر 4441)
حیض کو روکنے کے لیے دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دوائی کے ذریعے سے حیض کو روکنا کیسا ہے اور ایام مدت سے پہلے آنے کے دوائی استعمال کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بلاوجہ حیض روکنے والی دوا استعمال کرنا درست نہیں ہے کہ یہ جسم کے لئے مضر ہے
البتہ حج یا عمرہ یا روذہ کے لئے حیض کو روکنے والی دوا استعمال کر سکتی ہے اور حج اور عمرہ اور روزہ ادا ہوجائیں گے
یاد رہے دوا کے ذریعے حیض روکنا مناسب نہیں ہے حالت احرام یا طواف یا روزہ میں اگر حیض اجائے تو شریعت نے اس کی راہ نکالی ہے
یعنی حالت حیض میں نماز تو معاف ہی ہے البتہ روزے کی قضا ہے۔
(حج و عمرہ میں اگر حیض جائے یہ فتوی مطالعہ کریں)
کیوں کہ عورت کو ماہ واری آنا فطرت کا حصہ اور عورت کی صحت و تن دُرستی کی علامت ہے نیز اسے روکنا طبی نقطۂ نگاہ سے عموماً مضر ہے اور شریعت نے ان ایام میں اَحکام کے اعتبار سے سہولت دی ہے لہٰذا دوا وغیرہ کے ذریعے بتکلف حیض کو روکنا مناسب نہیں ہے،
حیض میں اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے کچھ حکمتیں رکھی ہیں اس کو روکنے کی صورت میں ان حکمتوں کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے حیض کو روکنے یا مؤخر کرنے کی ادویات اور علاج زمانہ نبوی میں بھی موجود ہوں گے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے سے روکا بھی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی ادویات جن سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو ڈاکٹر کے مشورے سے حج و عمرہ کے مبارک سفر میں یا روزہ کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔
تاہم دوا کے استعمال کے ذریعے اگر ماہواری روک دی جائے تو پاکی کے اَحکام لاگو ہوں گے یعنی اس دوران نماز روزہ درست ہوگا۔ کم عمر لڑکی اور بڑی عمر کی عورت دونوں کے لیے حکم یک ساں ہے۔
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)
(قوله: ابتلاء الله لحواء إلخ) أي وبقي في بناتها إلى يوم القيامة، وما قيل: إنه أول ما أرسل الحيض على بني إسرائيل فقد رده البخاري بقوله وحديث النبي صلى الله عليه وسلم أكبر، وهو ما رواه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحيض: هذا شيء كتبه الله على بنات آدم قال النووي: أي إنه عام في جميع بنات آدم
وفیه وبرده لایبقی ذا عذر، بخلاف الحائض.
(قوله: بخلاف الحائض) وهذا إذا منعته بعد نزوله إلی الفرج الخارج، کما أفاده البرکوي، لما مرّ أنه لایثبت الحیض إلا بالبروز، لا بالإحساس به، خلافاً لمحمد، فلو أحست به فوضعت الکرسف في الفرج الداخل ومنعته من الخروج فهي طاهرة، کما لو حبس المني في القصبة
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 283): کتاب الطهارة، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
حیض کو روکنے کے لیے دوا استعمال کرنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ دوائی کے ذریعے سے حیض کو روکنا کیسا ہے اور ایام مدت سے پہلے آنے کے دوائی استعمال کرنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- گلفام حسین رضوی مالیگاؤں، مہاراشٹرا انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بلاوجہ حیض روکنے والی دوا استعمال کرنا درست نہیں ہے کہ یہ جسم کے لئے مضر ہے
البتہ حج یا عمرہ یا روذہ کے لئے حیض کو روکنے والی دوا استعمال کر سکتی ہے اور حج اور عمرہ اور روزہ ادا ہوجائیں گے
یاد رہے دوا کے ذریعے حیض روکنا مناسب نہیں ہے حالت احرام یا طواف یا روزہ میں اگر حیض اجائے تو شریعت نے اس کی راہ نکالی ہے
یعنی حالت حیض میں نماز تو معاف ہی ہے البتہ روزے کی قضا ہے۔
(حج و عمرہ میں اگر حیض جائے یہ فتوی مطالعہ کریں)
کیوں کہ عورت کو ماہ واری آنا فطرت کا حصہ اور عورت کی صحت و تن دُرستی کی علامت ہے نیز اسے روکنا طبی نقطۂ نگاہ سے عموماً مضر ہے اور شریعت نے ان ایام میں اَحکام کے اعتبار سے سہولت دی ہے لہٰذا دوا وغیرہ کے ذریعے بتکلف حیض کو روکنا مناسب نہیں ہے،
حیض میں اللہ تعالیٰ نے بنات آدم کے لیے کچھ حکمتیں رکھی ہیں اس کو روکنے کی صورت میں ان حکمتوں کے ختم ہونے کا بھی اندیشہ رہتا ہے حیض کو روکنے یا مؤخر کرنے کی ادویات اور علاج زمانہ نبوی میں بھی موجود ہوں گے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے کی ترغیب نہیں دی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی ایسا کرنے سے روکا بھی نہیں ہے۔ اس لیے ایسی ادویات جن سے نقصان کا اندیشہ نہ ہو ڈاکٹر کے مشورے سے حج و عمرہ کے مبارک سفر میں یا روزہ کے لئے استعمال کی جاسکتی ہیں۔
تاہم دوا کے استعمال کے ذریعے اگر ماہواری روک دی جائے تو پاکی کے اَحکام لاگو ہوں گے یعنی اس دوران نماز روزہ درست ہوگا۔ کم عمر لڑکی اور بڑی عمر کی عورت دونوں کے لیے حکم یک ساں ہے۔
کما فی الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار)
(قوله: ابتلاء الله لحواء إلخ) أي وبقي في بناتها إلى يوم القيامة، وما قيل: إنه أول ما أرسل الحيض على بني إسرائيل فقد رده البخاري بقوله وحديث النبي صلى الله عليه وسلم أكبر، وهو ما رواه عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في الحيض: هذا شيء كتبه الله على بنات آدم قال النووي: أي إنه عام في جميع بنات آدم
وفیه وبرده لایبقی ذا عذر، بخلاف الحائض.
(قوله: بخلاف الحائض) وهذا إذا منعته بعد نزوله إلی الفرج الخارج، کما أفاده البرکوي، لما مرّ أنه لایثبت الحیض إلا بالبروز، لا بالإحساس به، خلافاً لمحمد، فلو أحست به فوضعت الکرسف في الفرج الداخل ومنعته من الخروج فهي طاهرة، کما لو حبس المني في القصبة
(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 283): کتاب الطهارة، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور،)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/09/2023
17/09/2023