(سوال نمبر 4589)
کیا آل رسول ﷺ کو آخرت میں ان کی گناہوں کی سزا دی جائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا آل رسول ﷺ کو آخرت میں ان کی گناہوں کی سزا دی جائے گی یا نہیں۔
برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ عبد السبحان نظامی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
شرعی اصول تو سب کے لئے مساوی ہےاسلام کی ایسی کوئی تعلیمات نہیں ہیں قرآن و حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جس میں اگر کوئی جرم آل رسول سے سرزد ہو تو اسے استثناء حاصل ہو اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔ یعنی اگر کوئی نماز نہ پڑھے وہ چاہے جو ہو قیامت میں حساب و کتاب دینی ہے
سید اگر کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور بغیر توبہ کے دنیا سے چلا جائے یا سادات میں سے کوئی کافر ہو جائے تو شرعی اصول تو یہ ہے کہ اس کو اپنے گناہ کی سزا بھگتنی ہوگی
چونکہ اس پر اجماع ہے کہ فرشتے اور انبیاء کرام کے سوا کوئی معصوم عن الخطاء نہیں۔
وہ انبیاء کی طرح معصوم نہیں ہوتے البتہ اللہ تعا لیٰ اپنے مقرب بندوں کی حفاظت فرماتا ہے
گناہ ہوجانے کی صورت میں وہ اس پر قائم نہیں رہتے بلکہ فوراً توبہ کر کے اپنے گناہ معاف کرالیتے ہیں
قال اللہ تعالی
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ۔ (الآیۃ)
و فی مشكاة المصابيح عن عائشة- رضي الله عنها- أن قريشا أهمهم شأن المرأة المخزومية التي ( إ لی قولہ) وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يده۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ کیا آل رسول ﷺ کو آخرت میں ان کی گناہوں کی سزا دی جائے گی یا نہیں۔
برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- حافظ عبد السبحان نظامی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
شرعی اصول تو سب کے لئے مساوی ہےاسلام کی ایسی کوئی تعلیمات نہیں ہیں قرآن و حدیث میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے کہ جس میں اگر کوئی جرم آل رسول سے سرزد ہو تو اسے استثناء حاصل ہو اسلام کی نظر میں سب برابر ہیں۔ یعنی اگر کوئی نماز نہ پڑھے وہ چاہے جو ہو قیامت میں حساب و کتاب دینی ہے
سید اگر کسی گناہ کا ارتکاب کرے اور بغیر توبہ کے دنیا سے چلا جائے یا سادات میں سے کوئی کافر ہو جائے تو شرعی اصول تو یہ ہے کہ اس کو اپنے گناہ کی سزا بھگتنی ہوگی
چونکہ اس پر اجماع ہے کہ فرشتے اور انبیاء کرام کے سوا کوئی معصوم عن الخطاء نہیں۔
وہ انبیاء کی طرح معصوم نہیں ہوتے البتہ اللہ تعا لیٰ اپنے مقرب بندوں کی حفاظت فرماتا ہے
گناہ ہوجانے کی صورت میں وہ اس پر قائم نہیں رہتے بلکہ فوراً توبہ کر کے اپنے گناہ معاف کرالیتے ہیں
قال اللہ تعالی
فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ ۔ (الآیۃ)
و فی مشكاة المصابيح عن عائشة- رضي الله عنها- أن قريشا أهمهم شأن المرأة المخزومية التي ( إ لی قولہ) وايم الله لو أن فاطمة بنت محمد سرقت لقطعت يده۔
(متفق عليه) (2/ 1071)
یاد رہے سید زادے اگر شریعت کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے تو واقعی دوزخ کی آگ ان پر حرام ہوگی اور اگر اس کے برعکس کیا اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اور نیک اعمال نہ کیے تو دوزخ کی آگ حلال ہوگی۔
سید زادوں سے اگر آپ کی مراد وہ لوگ ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبی رشتہ دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہیں تو قانون شریعت میں سب برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہو یا کوئی اور شخص، اسلام کے قانون سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے جو شخص جرم کرے گا، اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔ اسلام نے تو ایسے سب فرق مٹا دیئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی آل نبی میں سے جرم کرے تو اسے سزا نہ ملے اور اگر وہی جرم کوئی اور مسلمان کرے تو اسے سزا ملے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی یہ نہ فرماتے جیسا کہ ہمیں اس واقعہ میں ملتا ہے جب ایک فاطمہ نامی انصاری عورت نے چوری کی اور وہ اس وقت کا بڑا اور معزز قبیلہ تھا وہ عورت امیر بھی تھی جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کی سزا میں تخفیف کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ یہی سزا فاطمہ بنت محمد کے لیے بھی ہوتی۔
اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی آپ کا لخت جگر اگر ایسا کام کرتی تو اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سزا دیتے۔ اس کے لیے بھی وہی قانون ہوتا جو دوسروں کے لیے ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی آل رسول میں سے کوئی جرم کرے اور اس کو سزا نہ ملے؟
وہ چاہے دنیوی سزا ہو یا اخروی سزا ہو۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
یاد رہے سید زادے اگر شریعت کے مطابق اپنی زندگیاں بسر کریں گے تو واقعی دوزخ کی آگ ان پر حرام ہوگی اور اگر اس کے برعکس کیا اور اسلامی تعلیمات کو پس پشت ڈالا اور نیک اعمال نہ کیے تو دوزخ کی آگ حلال ہوگی۔
سید زادوں سے اگر آپ کی مراد وہ لوگ ہیں جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نسبی رشتہ دار ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہیں تو قانون شریعت میں سب برابر ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آل ہو یا کوئی اور شخص، اسلام کے قانون سے کوئی بھی مستثنی نہیں ہے جو شخص جرم کرے گا، اسے اس کی سزا ضرور ملے گی۔ اسلام نے تو ایسے سب فرق مٹا دیئے ہیں ایسا نہیں ہے کہ اگر کوئی آل نبی میں سے جرم کرے تو اسے سزا نہ ملے اور اگر وہی جرم کوئی اور مسلمان کرے تو اسے سزا ملے۔ اگر ایسا ہوتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی یہ نہ فرماتے جیسا کہ ہمیں اس واقعہ میں ملتا ہے جب ایک فاطمہ نامی انصاری عورت نے چوری کی اور وہ اس وقت کا بڑا اور معزز قبیلہ تھا وہ عورت امیر بھی تھی جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا تو اس کی سزا میں تخفیف کی سفارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اللہ کی قسم اگر اس کی جگہ فاطمہ بنت محمد بھی ہوتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا۔ یہی سزا فاطمہ بنت محمد کے لیے بھی ہوتی۔
اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صاحبزادی آپ کا لخت جگر اگر ایسا کام کرتی تو اس کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سزا دیتے۔ اس کے لیے بھی وہی قانون ہوتا جو دوسروں کے لیے ہے تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اگر کوئی آل رسول میں سے کوئی جرم کرے اور اس کو سزا نہ ملے؟
وہ چاہے دنیوی سزا ہو یا اخروی سزا ہو۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
01/10/2023
01/10/2023