(سوال نمبر 4528)
کیا اپنی اولاد کو اپنی زکوٰۃ سے دینی تعلیم دلوا سکتے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زکوٰۃ کے پیسے مال وغیرہ سے اپنے لڑکے کو مدرسہ میں پڑھانا اور دینی تعلیم حاصل کرانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد رضاء الحق کٹیہاری انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں اچھی دینی تعلیم و تربیت دینا باپ پر ضروری ہے اور یہ اولاد کا حق ہے اور زکات تو فقراء و مساکین کا حق ہے اس لئے باپ اپنے بیتے پر کات صرف نہیں کر سکتے
یاد رہے کہ زکات اپنے اصول والدین ،دادا/دادی، نانا، نانی وغیرہ وفروع بیٹا/ بیٹی، پوتے /پوتی، نواسے/ نواسی وغیرہ) کو دینا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں باپ کا اپنے بیٹے کو زکات سے تعلیم دینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی ھندیہ میں ہے
و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
(کتاب الزکاۃ، ج 1 ،ص:188، ط: دار الفکر)
حاصل کلام یہ ہے کہ
باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ نہیں دے سکتا کیونکہ اگر بیٹا غریب ہے اور باپ صاحب حیثیت ہے تو باپ کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے بیٹے پر خرچ کرے کیونکہ اگر باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ دیگا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے
چنانچہ اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی(2/269) میں فرماتے ہیں
فرض زکاۃ میں سے والدین اور اولاد کو نہیں دیا جا سکتا، ابن منذر کہتے ہیں کہ: اہل علم کا اس بارے میں اجماع ہے کہ اولاد والدین کو ایسی صورت میں زکاۃ نہیں دے سکتی جب اولاد پر والدین کا خرچہ واجب ہوتا ہو، کیونکہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے گی تو اس طرح اولاد کو والدین پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی گویا کہ انہوں نے زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب خرچہ کو بچا لیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔
اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتے امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ والدین اولاد، پوتے دادا، دادی اور نواسے کو اپنی زکوۃ نہ دے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کیا اپنی اولاد کو اپنی زکوٰۃ سے دینی تعلیم دلوا سکتے ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ زکوٰۃ کے پیسے مال وغیرہ سے اپنے لڑکے کو مدرسہ میں پڑھانا اور دینی تعلیم حاصل کرانا کیسا ہے؟ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد رضاء الحق کٹیہاری انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ صورت میں اچھی دینی تعلیم و تربیت دینا باپ پر ضروری ہے اور یہ اولاد کا حق ہے اور زکات تو فقراء و مساکین کا حق ہے اس لئے باپ اپنے بیتے پر کات صرف نہیں کر سکتے
یاد رہے کہ زکات اپنے اصول والدین ،دادا/دادی، نانا، نانی وغیرہ وفروع بیٹا/ بیٹی، پوتے /پوتی، نواسے/ نواسی وغیرہ) کو دینا جائز نہیں ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں باپ کا اپنے بیٹے کو زکات سے تعلیم دینا جائز نہیں ہے۔
فتاوی ھندیہ میں ہے
و لايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي."
(کتاب الزکاۃ، ج 1 ،ص:188، ط: دار الفکر)
حاصل کلام یہ ہے کہ
باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ نہیں دے سکتا کیونکہ اگر بیٹا غریب ہے اور باپ صاحب حیثیت ہے تو باپ کیلئے یہ لازمی ہے کہ وہ اپنے بیٹے پر خرچ کرے کیونکہ اگر باپ اپنے بیٹے کو زکاۃ دیگا تو یہ ایسے ہی ہے جیسے کہ اس نے زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے
چنانچہ اس بارے میں ابن قدامہ رحمہ اللہ المغنی(2/269) میں فرماتے ہیں
فرض زکاۃ میں سے والدین اور اولاد کو نہیں دیا جا سکتا، ابن منذر کہتے ہیں کہ: اہل علم کا اس بارے میں اجماع ہے کہ اولاد والدین کو ایسی صورت میں زکاۃ نہیں دے سکتی جب اولاد پر والدین کا خرچہ واجب ہوتا ہو، کیونکہ اگر اولاد والدین کو زکاۃ دے گی تو اس طرح اولاد کو والدین پر خرچ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی گویا کہ انہوں نے زکاۃ دے کر اپنے ذمہ واجب خرچہ کو بچا لیا ہے، یا دوسرے لفظوں میں زکاۃ خود ہی رکھ لی ہے۔
اسی طرح اپنی اولاد کو بھی زکاۃ نہیں دے سکتے امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ والدین اولاد، پوتے دادا، دادی اور نواسے کو اپنی زکوۃ نہ دے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/09/2023
24/09/2023