(سوال نمبر 4486)
کلمہ طیبہ میں محمد کے دال پر پیش اور اذان میں محمد کے دال پر زبر کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کلمہ شریف میں نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دال پر پیش پڑھی جاتی ہے
اور آتذان و تکبیر میں نام محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر زبر یا دو زبر پڑھی جاتی ہے
ان دونوں کا معنی الگ الگ سے سمجھا دیں کہ معنی میں کوئی فرق ہے یا کہ ایک ہی ہے
اگر ایک ہی ہے تو پیش اور زبر کی حکمت ارشاد فرما دیجئے جزاک اللّہ خیرا
سائل:- سید حسن علی نقوی بخاری شاہدرہ لاہور پنجاب پاکستان
................................
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲ۔
کو کلمہ طیبہ کہتے ہیں کلمہ طیبہ کا مطلب یہ ہے
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اذان میں
اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
جب الفاظ و جملے میں فرق ہے تو معنی میں بھی فرق ہے
البتہ مفہوم میں مقصود آقا علیہ السلام کو اللہ کا رسول ظاہر کرنا ہے ۔
اب رہی بات کہ محمد میں دال پر پیش کیوں؟
اور اذان میں محمد کے دال پر زبر کیوں؟
اسے سمجھنے کے لیے آسان لفظوں میں عربی گرامر نحو کے قواعد کے ایک جز کو سمجھنا ہوگا
أنَ ایسا حرف ہے کہ جب یہ کسی جملہ پر داخل ہوتا ہے تو پہلے اسم کو نصب زبر دیتا ہے اسی لیے اقامت میں أشہد أنَ محمدًا رَّرسولُ اللہ ہوگیا۔
اور کلمہ طیبہ میں أنّ یا اس جیسا کوئی حرف نہیں ہے تو اصل کے اعتبار سے جملہ کے دونوں اسم یعنی مبتدا اور خبر مرفوع پیش والے ہوں گے محمدٌ رسولُ اللہ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
کلمہ طیبہ میں محمد کے دال پر پیش اور اذان میں محمد کے دال پر زبر کیوں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کلمہ شریف میں نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دال پر پیش پڑھی جاتی ہے
اور آتذان و تکبیر میں نام محمد صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم پر زبر یا دو زبر پڑھی جاتی ہے
ان دونوں کا معنی الگ الگ سے سمجھا دیں کہ معنی میں کوئی فرق ہے یا کہ ایک ہی ہے
اگر ایک ہی ہے تو پیش اور زبر کی حکمت ارشاد فرما دیجئے جزاک اللّہ خیرا
سائل:- سید حسن علی نقوی بخاری شاہدرہ لاہور پنجاب پاکستان
................................
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
پہلے آپ یہ سمجھ لیں کہ لاَ اِلٰہَ اِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ ﷲ۔
کو کلمہ طیبہ کہتے ہیں کلمہ طیبہ کا مطلب یہ ہے
اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔
اذان میں
اَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّداً رَسُوْلُ اللّٰہِ
میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں
جب الفاظ و جملے میں فرق ہے تو معنی میں بھی فرق ہے
البتہ مفہوم میں مقصود آقا علیہ السلام کو اللہ کا رسول ظاہر کرنا ہے ۔
اب رہی بات کہ محمد میں دال پر پیش کیوں؟
اور اذان میں محمد کے دال پر زبر کیوں؟
اسے سمجھنے کے لیے آسان لفظوں میں عربی گرامر نحو کے قواعد کے ایک جز کو سمجھنا ہوگا
أنَ ایسا حرف ہے کہ جب یہ کسی جملہ پر داخل ہوتا ہے تو پہلے اسم کو نصب زبر دیتا ہے اسی لیے اقامت میں أشہد أنَ محمدًا رَّرسولُ اللہ ہوگیا۔
اور کلمہ طیبہ میں أنّ یا اس جیسا کوئی حرف نہیں ہے تو اصل کے اعتبار سے جملہ کے دونوں اسم یعنی مبتدا اور خبر مرفوع پیش والے ہوں گے محمدٌ رسولُ اللہ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/09/2023
20/09/2023