Type Here to Get Search Results !

کیا اجتماعی قربانی قران و حدیث سے ثابت ہیں؟



اجتماعی قربانی قسط دوم
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ ذیل کے بارے میں
 کہ اس دور حاضر میں لوگ اجتماعی قربانی کرتے ہیں کیا اجتماعی قربانی قران و حدیث سے  ثابت ہیں نیز کیا اجتماعی قربانی کرنا جائز ہیں برائے کرم جواب عنایت فرمائیں دلیل کے ساتھ میں آپ کا مشکور رہونگا 
سائل:- محمد کمال الدین قادری 
متعلم جامعہ امجدیہ رضویہ گھوسی شریف ضلع مئو یوپی۔ 
ساکن۔ سیب نگر پوسٹ پولہٹہ ضلع سیتامڑھی (بہار)
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
سوال ؛ قربانی کسے کہتے ہیں ؟
الجواب : قربانی اراقۂ دم کا نام ہے اب اراقۂ دم ہوگئی قربانی ہوگئی ۔
سوال : اجتماعی قربانی کسے کہتے ہیں ؟
اجتماعی قربانی ؛ اجتماعی یعنی مجموعی طور پر یعنی قربانی کا مجموعی طور پراہتمام کرنا 
لفظ قربانی نام ہے خون بہانے کا اور یہ صاحب نصاب پر واجب ہے اور لفظ اجتماعی قربانی کا معنی ہوا مجموعی طور پر قربانی کرنا 
سوال : کیا اجتماعی قربانی یا شرکت کی قربانی دونوں ایک ہی ہے ؟
الجواب: دونوں میں فرق ہے 
اجتماعی یعنی مجموعی طور پر (فیروز اللغات ص 69)
یعنی وہ قربانی جو مجموعی طور پر کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
(فیروز اللغات ص 69)
اور شرکت والی قربانی شرکت یعنی شامل ہونا ۔شمولیت ۔ساجھا (فیروز اللغات ص 840) 
یعنی وہ قربانی جس میں سات آدمی حصے رکھتے ہیں اس سے زیادہ نہیں
اجتماعی قربانی کے دو اقسام ہیں
(1) اپنے گاؤں میں سات معین اشخاص کے نام سے جانور خرید کر اپنے ہی محلہ یا گاؤں یا اپنے شہر یا اس جگہ جہاں آپ جاکر قربانی کے سامنے کھڑے ہوکر ذبح میں شرکت کرسکتے ہیں پھر وزن کے حساب سے گوشت لے کر اپنے گھر آسکتے ہیں یہ سب کام آسانی سے ہو اگرچہ ایک ہی جگہ پر قربانی ہو یہ بلا کراہت جائز و درست ہے 
(2) دوسرا علانیہ اجتماعی قربانی (بغیر گوشت کی قربانی)اس اعلان پر دور دراز شہروں میں بغیر تحقیق کے روپیہ بھیجنےوالی قربانی جس کو آج کل ایک نیا نام اجتماعی قربانی (جسے بغیر گوشت کی قربانی۔ یعنی جانور کسی اور گاؤں میں ذبح کیا جائیگا اور گوشت اس گاؤں کے غرباء میں تقسیم کیا جائے گا اس طرح بول کر قربانی کے حصے بیچے جا رہے ہیں) دیا گیا اس کے ناظم کے بینک اکاؤنٹ میں روپیہ بھیج کر قربانی کرنے کا وکیل بناتا ہے  
اول میں کوئی اعتراض نہیں ہے
دوسرے میں تفصیل و تحقیق درکار ہے اس میں اگر خریداری صحیح سے ہوئی اور ملکیت ثابت ہوئی تو قربانی جائز ہوگی ورنہ قربانی ہوگی ہی نہیں اور آپ پر واجب باقی رہ جائے گا جس بنا پر آپ سخت گناہ گارہوں گے۔
اگر قربانی صحیح نہیں ہوئی تو دنیا میں وہ واجب کی ذمہ داری سے فارغ نہ ہوگا اور آخرت میں ثواب سے محروم ہوگا اور الٹا گنہگار ہوگا۔
 شرکت کی قربانی (گوشت والی قربانی) مطلقا بلا کراہت جائز و درست ہے اور شریعت کا بھی حکم ہے کہ ایک بڑے جانور میں سات حصے رکھےجائیں اسی کا نام شرکت کی قربانی ہے جیسے ایک شخص نے دس جانور قربانی کے حصے کے لئے خریدا اور وہ اپنے ہی گاؤں یا شہر یا لوگوں کو یا آس پاس کے لوگوں کے ہاتھ سے فی حصہ بیچا یہ بالکل جائز ہے اور اپنے ہی گاؤں میں یا بغل کے گاؤں میں سب افراد جاکر اپنے اپنے سامنے قربانی ذبح کروائے اور ہر شخص گوشت وزن کرکے لے کر گھر آئے۔
درمختار میں ہے کہ “ویقسم اللحم وزنا لا جزافا یعنی گوشت کو وزن کے اعتبار سے تقسیم کیا جائے اندازہ سے تقسیم نہیں کیا جائے ۔
سوال : آج کل جو واٹس ایپ پر اعلان کیا جاتا ہے کہ اجتماعی قربانی میں حصہ لیجئے یعنی فی حصہ 2500 اور ایک حصہ 3500 سو اور پورا جانور لینے پر رعایت کی جائے گی اس اجتماعی قربانی میں حصہ لینا کیسا ہے ؟ کیا اس سے قربانی ہو جائے گی ؟ 
الجواب :
فقہ کی کتابوں میں تو شرکت کی قربانی کا ذکر ہے لیکن لفظ اجتماعی قربانی(بغیر گوشت والی قربانی ) کے نام سے ذکر نہیں ہے کیونکہ یہ ایک نیا نام ہے جس کو کچھ لوگ کاروبار کے طور پر کھول لیا ہے ۔
قربانی کے لئے دو چیز اہم ہے 
(1) نیت 
(2) ملکیت 
(1) قربانی کرنے والے کی نیت ؛ قربانی کی ہو اور یہ قربانی کرنے کی نیت پہلے سے کرلی ہو یا وقت ذبح نیت کرے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام اہل سنت وجماعت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ بریلی شریف ارشاد فرماتے ہیں 
قربانی و صدقۂ فطر عبادت ہے اور عبادت میں نیت شرط ہے تو بلا اجازت ناممکن ہے ۔ ہاں اجازت کے لئے صراحتا ہونا ضروری نہیں دلالتاً کافی ہے (فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص
درمختار میں ہے” مع صحۃ النیۃ اذ لا ثواب بدونھا” یعنی ساتھ ہی نیت کا صحیح ہونا ضروری ہے کیونکہ نیت کے بغیر کوئی ثواب نہیں (درمختار کتاب الاضحیۃ) 
(2) جس جانور کی قربانی کرنی ہے تو بوقت ذبح اس پر ملکیت حاصل ہو خواہ وہ چھوٹا جانور ہو یا بڑا جانور ہاں بڑے جانور میں۔ ساتواں حصہ بوقت ذبح قربانی کرنے والے کی ملک ہو اگر اس پر اس کی ملکیت حاصل نہیں تو قربانی جائز نہیں ہوگی 
الحاصل یہ ضروری ہے کہ وہ جانور قربانی کرنے والے کی ملک میں ہو 
اب رہا آج کل کا ماحول جس میں ہمارے اہل سنت کے کچھ مفتیان کرام اجتماعی قربانی کا اعلان کرتے ہیں اور اہتمام بھی کرتے ہیں پہلے یہ اجتماعی قربانی کا اس قدر رواج نہیں تھا جو اب ہو رہا ہے میں خود دو تین سال سے واقف ہوا ہوں اور اس سال کافی تیزی سے یہ کاروبار آگے بڑھ رہا ہے ویسے 2022 ء میں ، میں نے اس کے خلاف ایک مضمون لکھا تھا خیر مختصر اجتماعی قربانی جائز ہے یا نہیں ؟ اس سے قربانی صحیح ہوگی یا نہیں ؟ اگر صحیح نہیں تو دلائل کیا ہے اور صحیح ہے تو اس کے دلائل کیا ہے ؟ 
 اجتماعی قربانی کا مسئلہ ؛ فقہ کے کئی ابواب سے متعلق ہے
(1) جانور کی خریداری کا تعلق کتاب البیوع سے ہے 
(2) جانور کی قربانی ۔ کتاب الاضحیہ سے تعلق رکھتا ہے 
(3) پھر قصاب کو خریداری اور کسی عالم کو اس کے ذبح کرنے کا وکیل بنانا ۔یہ باب وکالت سے تعلق ہے یعنی بیع ۔اضحیہ ۔ وکالت سے تعلق ہے اس لئے ہر تعلق پر ان شاءاللہ دلائل کے ساتھ اس قسط میں گفتگو کی جائے گی
قسط دوم ؛ ملکیت اور خریداری 
قسط سوم ؛وکیل کے ذریعہ خریداری  
قسط چہارم :بیع طعاطی کے متعلق 
قسط پنجم: جائز و ناجائز کی صورتیں  
اجتماعی قربانی (بغیر گوشت والی قربانی) کے اعلان پر جو لوگ روپیہ بھیجتے ہیں وہ لوگ نہ خود سے جانور خریدتے ہیں اور نہ ہی اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے ہیں بلکہ اجتماعی قربانی کرنے والے کو اپنا دو امور کا وکیل بناتے ہیں
(1) ایک قربانی کا جانور خریدنے کا کیونکہ قربانی کرنے والا خود جانور نہیں خریدتا ہے اس لیے اس کو اپنا وکیل بناتے ہیں
(2) دوسرا اس قربانی کو ذبح کرنے کا 
ان دو امور میں دوسرے امر کا مسئلہ زیادہ مشکل نہیں بلکہ بہت آسان ہے ۔ اس لئے کہ آدمی اپنی قربانی کے جانور کو اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا دوسرے سے ذبح کروائے بلکہ کسی شخص کی قربانی کے جانور کو دوسرا شخص اس کی اجازت کے بغیر ذبح کردے جب بھی قربانی ہو جائے گی
تبین الحقائق میں ہے کہ
“وذکر فی المحیط مطلقا من غیر قید فقال :ذبح اضحیۃ غیرہ بلا امرہ جاز استحسانا ولا یضمن لانہ فی العرف لایتو لی صاحب الاضحیۃ ذبحھا بنفسہ بل یفوض الی غیرہ فصار ماذو نالہ دلالۃ کالقصاب اذا شد رجل شاتہ للذبح فذبحھا انسان بغیر اذنہ لایضمن” یعنی محیط میں مطلقا بلا قید ذکر کیا تو فرمایا : کہ دوسرے کی قربانی کا جانور اس کے حکم کے بغیر ذبح کردیا تو استحسانا مالک کی قربانی جائز ہوگی ۔ذبح کرنے والے سے تاوان نہیں لیا جائے گا ۔اس لئے کہ عرف میں قربانی کرنے والا قربانی کے جانور ذبح کرنے کی کاروائی خود اپنے ہاتھ سے پوری نہیں کرتا بلکہ یہ کام دوسرے کو سونپتا ہے تو دوسرا دلالۃ ماذون ہے جیسے کہ قصاب جب کسی شخص نے اپنی بکری کو ذبح کے لئے باندھا تو ایک انسان نے بکری والے سے اجازت لیے بغیر بکری کو ذبح کردیا تو اس پر تاوان نہیں ۔(تبین الحقائق ج 6 ص 984)
الحاصل ذبح کا مسئلہ کوئی مشکل نہیں ہے قربانی کے جانور کو کوئی بھی مسلمان بسم اللہ پڑھتے ہوئے ذبح کرے تو قربانی جائز ہوگی۔
اجتماعی قربانی میں جانور خریداری کا مسئلہ بہت اہم ترین مسئلہ ہے کیونکہ اصول ہے کہ قربانی کا جانور قربانی کرنے والا خود خریدے تو کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے بلاکراہت جائز و درست ہے کہ خریدنے والا مالک ہوجاتا ہے اور اپنی ملکیت کے قربانی کے جانور کو خود اپنے ہاتھ سے ذبح کرے یا دوسرے سے ذبح کرائے یا دوسرا اس کی اجازت کے بغیر ذبح کردے بہر صورت قربانی جائز و درست ہوگی۔
اجتماعی قربانی میں عام طور پر بڑے جانوروں کی قربانی کی جاتی ہے البتہ حج میں چھوٹے جانوروں کی بھی قربانی کی جاتی ہے ۔چونکہ اجتماعی قربانی میں جانوروں کی خریداری بطریق وکالت ہوتی ہے اس لئے اس طریقہ سے خریدنا ضروری ہے جس سے وہ معین جانور اگر بکری کی نوع کا چھوٹا جانور ہو تو کامل جانور معین شخص ( جس کے نام سے قربانی ہے) ملک ہوجائے ۔ اور اگر اونٹ ۔ گائے۔ یا بھینس کی انواع میں سے بڑا جانور ہوتو سات معین افراد کے گروہ کی ملک ہو جائے اور اس معین جانور کا ایک ایک سبع سات حصہ داروں میں سے ایک ایک کی ملک ہو جائے یعنی وہ بڑا جانور ساتوں قربانی کرنے والی کی ملک ہو جائے 
زیر بحث مسئلہ میں قربانی کے جواز و عدم جواز کی بنا ذبح سے پہلے مضحی ( جس کی قربانی ہے) کی ملکیت ثابت ہونے اور نہ ہونے پر ہے اگر مضحی کی ملکیت ذبح سے پہلے ثابت ہو جائے تو قربانی جائز ہوگی ورنہ اس شخص کی قربانی جائز ہوگی ہی نہیں
اب دیکھنا یہ ہے کہ اجتماعی قربانی کے لئے جانوروں کی خریداری میں کس صورت میں جانور قربانی والوں کی ملک ہوگا اور کس صورت میں ان کا ملک نہ ہوگا۔
اجتماعی قربانی میں قربانی کے جانوروں کی خریداری کی متعدد صورتیں عمل میں لائی جاتی ہیں 
(1) پہلی صورت کہ اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والا ناظم یا اجتماعی قربانی کا اعلان کرنے والا شخص لوگوں کی جانب سے قربانی کے لئے وکیل بناتے ہیں اور پیسے وصول کرنے سے پہلے ہی جانوروں کو خرید لیتے ہیں۔
(2) دوسری صورت کہ لوگوں سے پیسے وصول کرلیتے ہیں اس کے بعد جانوروں کی خریداری کرتے ہیں لیکن ایک ایک جانور متعین کرکے سات سات لوگوں کے گروہ کی نیت سے نہیں خریدتے۔
(3) تیسری صورت کہ ناظم کسی قصائی سے کہہ دیتا ہے کہ تم پچاس یا سو یا دو سو یا پانچ سو ان اوصاف کے لاؤ میں تم سے خرید لونگا وہ قصائی جانور خرید خرید کر جمع کرتا ہے پھر اجتماعی قربانی کا ناظم اس قصائی سے سارے جانور ایک ساتھ خرید لیتا ہے ۔ایک ایک جانور متعین کرکے سات سات افراد کے گروہ کی نیت سے نہیں خریدتا ہے ۔
(4) چوتھی صورت کہ اجتماعی قربانی کا مہتمم پیسے تو خود جمع کرتا ہے لیکن قربانی کے لئے جانور خود نہیں خریدتا ہے دوسرے کو وکیل بناتا ہے
اقول : پہلی صورت میں اجتماعی قربانی کا اہتمام کرنے والا مہتمم جانور خریدنے کا وکیل بنائے جانے سے پہلے ہی جانور خرید لیتا ہے اس لئے وہ جانوروں کو خریدتے وقت وہ کسی کا وکیل نہیں ولہذا جانوروں کی خریداری بطور وکالت ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں اس لئے ان جانوروں کا مالک خود وہ خریدار ہوتا ہے جو بعد میں قربانی کے لئے لوگوں سے پیسے وصول کرتا ہے لیکن ایک جانور کو متعین کرکے سات سات متعین افراد کے گروہ کو بیع نہیں کرتا ہے اور نہ ہی ایک ایک معین جانور کا سبع سبع ایک ایک شخص کو بیع کرتا ہے۔
دوسری اور تیسری صورتوں میں جس وقت اجتماعی قربانی کا مہتمم جانور خریدتا ہے اس وقت وہ وکیل شرا بن چکا ہے اور چوتھی صورت میں تو وکیل نے وکیل بنایا اس صورت میں وکیل اول نے موکلین سے وکیل بنانے کا اذن لے لیا ہو یا وکیل اول کے سامنے خریدے یا علی سبیل التنزل عرفا اجازت مانی جائے تو اس کی وکالت درست ہوگی 
الحاصل : وکیل اگر اس وقت ایک ایک اونٹ یا بھینس کو معین کرکے قربانی کے لئے پیسے دینے والے سات سات معین افراد کے ایک ایک گروہ کی نیت سے خریدتا یا ان جانوروں کو خریدنے کی اضافت ان سات سات معین افراد کے مال کی طرف کرتا یعنی اس طرح کہتا :
*کہ میں اس جانور کو فلاں فلاں سات افراد کے مال سے خریدتا ہوں تو ان دونوں صورتوں میں ایک ایک معین جانور ایک ایک معین گروہ کی ملک ہوجاتا اور اس معین جانور کا ایک ایک سبع اس معین گروہ کے ایک ایک فرد کی ملک ہوجاتا لیکن جب اجتماعی قربانی کے ناظم نے جو وکیل شرا ہے ایسا نہیں کیا تو اجتماعی قربانی کا ناظم اور وکیل جس نے جانوروں کو خریدا وہی ان جانوروں کا مالک ہوگیا اور اپنی اپنی قربانی کے لئے فی حصہ روپیے پیسے دینے والے موکلین جانوروں کے مالک نہ ہوئے لہذا اس صورت میں کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوئی کیونکہ ملکیت نہیں پائی گئ
(اجتماعی قربانی کا شرعی حکم مصنف قاضی شہید عالم رضوی کٹیہار )
خادم تدریس و افتاء جامعہ نوریہ رضویہ باقر گنج بریلی شریف ص 3 سے ص 6 س کی صورت یہ ہوگی کہ وہ یہ کہے کہ 
میں یہ جانور فلاں فلاں سات معین افراد کے لئے خرید رہا ہوں
(2) دوسری صورت یہ ہے کہ وکیل اس جانور کو خریدنے کی اضافت موکل کے مال کی طرف کرے اور مسئلہ دائرہ میں اس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ یہ کہے 
میں یہ جانور فلاں فلاں سات افراد کے مال سے خرید رہا ہوں تو ان دو طریقوں سے خریدا ہوا جانور ان معین موکلین کی ملک ہوگا اور ان موکلین کی طرف سے قربانی جائز و درست ہوگی
*اگر ایسا نہیں کیا تو وہ جانور موکل کی ملک نہ ہوگا بلکہ اجتماعی قربانی کا ناظم اور وکیل جس نے ان جانوروں کو خریدا ہے وہی ان جانور کا مالک ہو جائے گا اور جب یہ مالک ہوگا اور اس صورت میں قربانی کروانے والوں نے جو فی حصہ 1500.یا 2500 یا 3000 بھیجا ہے کسی کی قربانی صحیح نہیں ہوگی
اگر قربانی صحیح نہیں ہوئی تو دنیا میں وہ واجب کی ذمہ داری سے فارغ نہ ہوگا اور آخرت میں ثواب سے محروم ہوگا اور الٹا گنہگار ہوگا اور قربانی بھی نہیں ہوئی اور نہ گوشت کھایا بلکہ آپ پر واجب باقی رہ گئی جس کی وجہ سے آپ گنہگار ہوگئے تو پھر ایسا کام کیوں کیا جائے
 اجتماعی قربانی میں تمام شرکا کا سنی صحیح العقیدہ ہونا ضروری ہے اگر ایک بھی ایسا بدمذہب شامل ہوا جس کی گمراہی حد کفر کو پہنچی ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی ۔اور دوسری بات کہ تمام شرکا کی نیت قربانی یا تقرب کی ہو ۔اگر ایک شریک بھی ایسا ہوا جس کی نیت ۔صرف گوشت کھانا ہو تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی (فتاویٰ مفتی اعظم بہار جلد اول ص 177)
اور دوسرے شہر میں اجتماعی قربانی کرنے میں یہ بھی معلوم نہ ہوگا کہ اس میں کون کون شریک ہے اگر مرتد شریک ہے تو کسی کی قربانی نہیں ہوگی 
عقیقہ میں شرکت اسی طرح جائز ہے جیسے قربانی میں ۔جبکہ سب کی نیت خالص لوجہ اللہ ہو ۔ اگر ایک کی بھی نیت قربت کی نہ ہوگی اور باقی سب تقرب چاہیں گے ۔کسی کی قربت ادا نہ ہوگی سب گوشت ہوگیا۔
(فتاوی رضویہ جلد جدید 20 ص 595)
سب شریک کی نیت قربت کی ہو 
ضروری تحریر: اجتماعی کچھ سالوں سے منتظمین دو طرح کی کر رہے ہیں 
۱) مقامی سطح پر جس میں گوشت شرکت کرنے والے کو دیا جاتا ہے۔
۲) بیرون صوبہ جسے بغیر گوشت والی قربانی کہتے ہیں 
اور یہی بغیر گوشت والی قربانی فتنے کی وجہ ہے لوگ اسی پر اعتراض کر رہے ہیں ۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب 
◆ــــــــــــــــــــ۩۞۩ـــــــــــــــــــــ◆
کتبہ :- شیخ طریقت مصباح ملت محقق مسائل کنز الدقائق 
حضور مفتی اعظم بہار حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی سیتا مڑھی بہار صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
نوٹ قسط جاری ہے قسط سوم کا انتظار کریں

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area