(سوال نمبر 4568)
کافر باپ کے نام پر مسجد میں پیسہ دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
میرا ایک دوست ہے جسکی شادی ایک غیر مسلم لڑکی جو راجپوت ہے اُس سے ہوئی ہے نکاح سے پہلے وہ وہ مسلمان ہو گئی اسکے والد کافر ہے محلے کے مسجد میں تعمیری کام کے سلسلے میں اسکے شوہر نے اپنے والد کے نام پر چندہ دیا
اب اسکی بیوی کہتی ہے کہ آپ اپنے والد کے نام سے پیسہ دینگے تو میں اپنے والد کے نام پر نہیں دے سکتی میں بھی دونگی اپنے والد کے نام پر اللہ کے گھر کے لیے اس کا شوہر کا کہنا ہے تمہارے والد کافر ہے اور کافروں کا پیسہ مسجد میں لگانا جائز نہیں جب کے واضح کردوں کہ پیسہ اسکے شوہر ہی کا ہے ذہن میں یہ خیال رکھ کر دینا فلاں کافر کے نام پر میں دے رہا ہوں تو کیا کافروں کے نام پر مسجد میں چندہ دینا کیسا ہے
کیا اس پیسے کو مسجد میں لگا نا جائز ہے ؟ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد رضوی عالم ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہندہ کا باپ جب کافر ہے تو اس کے لئے دعا مغفرت کرنا کفر ہے ۔
اگر ہندہ پیسہ اپنے باپ کے نام سے دیتی بھی ہے تو اس کے باپ کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ۔حصول ثواب کے لئے ایمان ضروری ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ پیسہ اس کے شوہر کا ہی ہے تو شوہر پیسہ مسجد میں دے سکتا یے اور اور اس پیسے کو مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔سسر کے نام سے دینے میں بھی کوئی فائدہ نہیں پہچھے گا سسر کو ۔
اعلی حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
اور اگر کافر اس طور پر روپے دیتا ہے کہ مسجد یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں اس کی کوئی مداخلت رہے گی یا اس بات کا اندیشہ ہو کہ مندر یا رام لیلا وغیرہ میں مسلمانوں کو چندہ دینا پڑے گا یا کافر کی تعظیم کرنی پڑے گی تو لینا جائز نہیں البتہ اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں۔
کافر باپ کے نام پر مسجد میں پیسہ دینا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں
میرا ایک دوست ہے جسکی شادی ایک غیر مسلم لڑکی جو راجپوت ہے اُس سے ہوئی ہے نکاح سے پہلے وہ وہ مسلمان ہو گئی اسکے والد کافر ہے محلے کے مسجد میں تعمیری کام کے سلسلے میں اسکے شوہر نے اپنے والد کے نام پر چندہ دیا
اب اسکی بیوی کہتی ہے کہ آپ اپنے والد کے نام سے پیسہ دینگے تو میں اپنے والد کے نام پر نہیں دے سکتی میں بھی دونگی اپنے والد کے نام پر اللہ کے گھر کے لیے اس کا شوہر کا کہنا ہے تمہارے والد کافر ہے اور کافروں کا پیسہ مسجد میں لگانا جائز نہیں جب کے واضح کردوں کہ پیسہ اسکے شوہر ہی کا ہے ذہن میں یہ خیال رکھ کر دینا فلاں کافر کے نام پر میں دے رہا ہوں تو کیا کافروں کے نام پر مسجد میں چندہ دینا کیسا ہے
کیا اس پیسے کو مسجد میں لگا نا جائز ہے ؟ جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد رضوی عالم ویسٹ بنگال انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ہندہ کا باپ جب کافر ہے تو اس کے لئے دعا مغفرت کرنا کفر ہے ۔
اگر ہندہ پیسہ اپنے باپ کے نام سے دیتی بھی ہے تو اس کے باپ کو کوئی ثواب نہیں ملے گا ۔حصول ثواب کے لئے ایمان ضروری ہے۔
مذکورہ صورت میں چونکہ پیسہ اس کے شوہر کا ہی ہے تو شوہر پیسہ مسجد میں دے سکتا یے اور اور اس پیسے کو مسجد میں صرف کر سکتے ہیں۔سسر کے نام سے دینے میں بھی کوئی فائدہ نہیں پہچھے گا سسر کو ۔
اعلی حضرت محدث بریلوی رضی اللہ تعالی عنہ تحریر فرماتے ہیں
اور اگر کافر اس طور پر روپے دیتا ہے کہ مسجد یا مسلمانوں پر احسان رکھتا ہے یا اس کے سبب مسجد میں اس کی کوئی مداخلت رہے گی یا اس بات کا اندیشہ ہو کہ مندر یا رام لیلا وغیرہ میں مسلمانوں کو چندہ دینا پڑے گا یا کافر کی تعظیم کرنی پڑے گی تو لینا جائز نہیں البتہ اگر نیاز مندانہ طور پر پیش کرتا ہے تو حرج نہیں۔
(فتاوی رضویہ ج 6 ص 396)
زید یا ہندہ کو مردہ کافر کی دعاء مغفرت کے نام سے مسجد میں پیسہ دینا جائز نہیں کہ یہ کفر ہے۔
چونکہ کافر کے لیے دعاے مغفرت حرام ہے جب کہ وہ زندہ ہوں اور اگر مر گئے ہوں تو ان کے لیے دعاے مغفرت کو علما نے کفر لکھا ہے جیسا فتاوی رضویہ میں ہے
کافر کے لیے دعاے مغفرت و فاتحہ خوانی کفر خالص و تکذیب قرآن عظیم ہے کما فی العالمگیریه۔(جلد :٢١،ص نمبر :228،جدید)
چونکہ کافر کے لیے دعاے مغفرت حرام ہے جب کہ وہ زندہ ہوں اور اگر مر گئے ہوں تو ان کے لیے دعاے مغفرت کو علما نے کفر لکھا ہے جیسا فتاوی رضویہ میں ہے
کافر کے لیے دعاے مغفرت و فاتحہ خوانی کفر خالص و تکذیب قرآن عظیم ہے کما فی العالمگیریه۔(جلد :٢١،ص نمبر :228،جدید)
اور بہار شریعت میں ہے
ماں، باپ اور اساتذہ کے لیے مغفرت کی دعا حرام ہے جب کہ کافر ہوں اور مر گئے ہوں تو دعاے مغفرت کو فقہا نے کفر تک لکھا ہے ہاں اگر زندہ ہوں تو ان کے لیے ہدایت و توفيق کی دعا کرے اھ
ماں، باپ اور اساتذہ کے لیے مغفرت کی دعا حرام ہے جب کہ کافر ہوں اور مر گئے ہوں تو دعاے مغفرت کو فقہا نے کفر تک لکھا ہے ہاں اگر زندہ ہوں تو ان کے لیے ہدایت و توفيق کی دعا کرے اھ
(بہار شریعت جلد ح 03 ص نمبر 73 درود شریف کے فضائل ومسائل)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
28/09/2023
28/09/2023