(سوال نمبر 4445)
جو امام سنت غیر موکدہ ترک کرنے کا عادی ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی امام سنتے غیر موکدہ چھوڑنے کی عادت بنالے تو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد تاج الدین متھرا یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے
سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔
البتہ اگر امام سنت موکدہ ایک آدھ بار ترک کیا تو گناہ ہے نماز مکروہ تنزیہی ہوگی اگر عادت ہے پھر اس کے پیچھے نماز نہیں۔
سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ شبانہ روز میں بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں دو صبح سے پہلے اور چار ظہر سے پہلے اور دو بعد اور دو مغرب و عشاء کے بعد جو ان میں سے کسی کو ایک آدھ بار ترک کرے مستحق ملامت و عتاب ہے۔ اور ان میں سے کسی کے ترک کا عادی گنہگار و فاسق و مستوجب عذاب ہے۔ اور فاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور اس کو امام بنانا گناہ ہے صرح به فی الغنیة عن الحجة (فتاوی رضویہ قدیم ج سوم ص ٢٠١)
والله ورسوله اعلم بالصواب
جو امام سنت غیر موکدہ ترک کرنے کا عادی ہو اس کے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ اگر کوئی امام سنتے غیر موکدہ چھوڑنے کی عادت بنالے تو اسکے پیچھے نماز پڑھنا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-محمد تاج الدین متھرا یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ امام کے پیچھے نماز پڑھنا جائز ہے
سنت مؤکدہ اور غیر مؤکدہ میں فرق یہ ہے کہ سنت مؤکدہ کا پڑھنا لازم ہے اور اس نماز کو بلا کسی عذر کے چھوڑنے والا گناہ گار ہوتا ہے جب کہ سنت غیر مؤکدہ کے پڑھنے پر بہت ثواب ملتا ہے لیکن بلا عذر چھوڑنے پر کوئی گناہ نہیں ملتا۔ چوں کہ سنت غیر مؤکدہ نفل نماز کے درجہ میں ہے، اس لیے اس پر نفل نماز والے احکام ہی جاری ہوتے ہیں۔
البتہ اگر امام سنت موکدہ ایک آدھ بار ترک کیا تو گناہ ہے نماز مکروہ تنزیہی ہوگی اگر عادت ہے پھر اس کے پیچھے نماز نہیں۔
سیدی سرکار اعلی حضرت امام احمد رضا خان بریلوی علیہ الرحمہ تحریر فرماتے ہیں کہ شبانہ روز میں بارہ رکعتیں سنت مؤکدہ ہیں دو صبح سے پہلے اور چار ظہر سے پہلے اور دو بعد اور دو مغرب و عشاء کے بعد جو ان میں سے کسی کو ایک آدھ بار ترک کرے مستحق ملامت و عتاب ہے۔ اور ان میں سے کسی کے ترک کا عادی گنہگار و فاسق و مستوجب عذاب ہے۔ اور فاسق معلن کے پیچھے نماز پڑھنا مکروہ تحریمی اور اس کو امام بنانا گناہ ہے صرح به فی الغنیة عن الحجة (فتاوی رضویہ قدیم ج سوم ص ٢٠١)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
17/09/2023
17/09/2023