Type Here to Get Search Results !

ہندوؤں کے یہاں کھانا کھانا اور ان سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4481)
ہندوؤں کے یہاں کھانا کھانا اور ان سے تعلق رکھنا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ  ہندوؤں کے یہاں کھانا کھانا یا اور کوئی چیز یا انکے یہاں سے تعلق رکھنا انکے یہاں آنا جانا کیسا ہے؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد مشاہد رضا قادری اسمٰعیلی مقام بلرامپور انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

کافروں سے دلی دوستی و محبت کرنا شرعا جائز نہیں ہے ظاہراً خوش اخلاقی میں حرج ہے اگر پتا ہو کہ کھانا گوشت نہیں ہے تو کھانے میں حرج نہیں ہے ان کے یہاں آنے جانے میں حرج نہیں ہے 
فتاوی ہندیہ میں ہے 
ولا با س بالذھاب الی ضیافۃ اھل الذمۃ (فتاویٰ علمگیری ج ۵ ص ۳۴۷)
اعلی حضرت فتاوی رضویہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ وہ چیزیں جو خاص ہندؤں کے کھانے کے ہیں. ہاں ہندوں کے یہاں کا کھانا اگر گوشت ہوتو حرام ہے اور اس کے سوا اور چیزیں مباح ہیں .جب تک کہ انکی حرمت یا نجاست کی تحقیق نہ ہو اور بچنا اولی ہے...
(فتاویٰ رضویہ ج ۹ نصف ثانی ص)
حاصل کلام یہ ہے 
غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ اخلاق و نیک برتاؤ اور ظاہری خوش خُلقی سے پیش آنا درست ہے اور اسلامی اخلاق سے متاثر کرکے غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اسی کی اجازت ہے
جہاں تک قلبی تعلق اور دلی دوستی کی بات ہے تو یہ کسی غیر مسلم کے لیے رکھنا جائز نہیں ہے
ارشاد باری تعالیٰ ہے
لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ (آل عمران:28)
مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ 
یاد رہے کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں
١/ موالات یعنی دوستی ٢/ مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی
٣/ مواساۃ یعنی احسان و نفع رسانی
موالات تو کسی حال میں جائز نہیں
اور مدرات تین حالتوں میں درست ہے ایک دفعِ ضرر کے واسطے
دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے تیسرے ضیف کے لیے اور اپنی مصلحت و منفعتِ مال و جان کے لیے۔
اور مواسات کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز ہے ۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
20/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area