Type Here to Get Search Results !

دیہات میں جمعہ قائم کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر جامع مسجد میں جانا کیسا ہے؟

 (سوال نمبر 4583)
دیہات میں جمعہ قائم کرنے کے بعد اسے چھوڑ کر جامع مسجد میں جانا کیسا ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
 دیہات کی چھوٹی سی مسجد شریف میں ایک امام صاحب نے نماز جمعہ شروع کرائی ہے ابتدا میں تو کم وبیش چالیس پچاس آدمی نمازجمعہ کے لیۓ جمع ہو جاتے تھے مگر کم وبیش صرف دس بارہ آدمی نماز جمعہ کے لیۓ جمع ہوتے ہیں اور اس مسجد شریف میں جمعہ شریف کے علاوہ جماعت ونماز کی کوئی مستقل پابندی بالکل نہیں ہوتی ہے ایسے حالات وہاں کے لوگ اس جگہ جمعہ بند کرکے اپنی پہلی مرکزی جامعہ مسجد شریف جو عرصہ دراز سے نماز وجماعت و جمعہ سے آباد ہے اسی میں آکر نماز جمعہ پڑھنا چاہتے ہیں تو کیا ایسی صورت میں کہ جہاں شرائط نہ پائی جاتی ہوں وہاں سے جمعہ بند کرکے دوسری بڑی مرکزی جامعہ مسجد میں جمعہ پڑھنے سے گنہگار تو نہیں ہوں گے ؟
برائے مہربانی مذہب حنفی کی روشنی میں جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں ۔ 
سائل:- محمد اقبال ارشدی پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
پہلی بات دیہات میں شرائط جمعہ نہیں پائی جاتی ہے اس لئے امام صاحب کو جمعہ قائم ہی نہیں کرنی چاہئے۔۔
جیسا کہ سوال میں مذکور ہے اب دس بارہ لوگ ہوتے ہیں اور اب جامع مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھنا چاہتے ہیں۔
تو مذکورہ صورت میں جامع مسجد جمعہ کے لیے جا سکتے ہیں البتہ اس مسجد کو پنجوقتہ نماز سے اباد رکھنا ضروری ہے۔
یاد رہے کہ اگر جامع مسجد میں جانے کی وجہ سے یا دور ہونے کی وجہ سے اگر دیہاتی جمعہ بھی چھوڑ دیں گے تو پھر نہ جایے اسی مسجد میں جمعہ کی نماز پڑھیں اور بعد میں ظہر کی بھی پڑھیں۔۔
اور جماعت سے پڑھیں جبکہ کوئی فتنہ نہ ہو ورنہ اہل علم ظہر کی نماز لازم پڑھیں گے۔
واضح رہے کہ مذہب حنفی میں دیہات میں جمعہ قائم کرنا ناجائز ہے ہاں اگر جمعہ پہلے سے قائم ہو تو اسے بند بھی نہیں کیا جائے گا کہ عوام جس طرح سے بھی اللہ ورسول کا نام لیں بہتر ہے. 
یعنی مذکور گاؤں میں جمعہ کی نماز قائم کرنا ناجائز ہے لیکن چوں کہ عوام نے قائم کرلی ہے اس لیے اب اسے روکا بھی نہیں جائے گا.
جمعہ کے بعد باجماعت ظہر پڑھنے میں کسی فتنے کا اندیشہ نہ ہو نہ ہی یہ خوف ہو کہ عوام ظہر کے ساتھ جمعہ پڑھنا بند کر دیں گے تو وہاں پر باجماعت ظہر پڑھنے میں کوئی حرج نہیں، ہاں جہاں فتنے کا اندیشہ یا یہ ڈر ہو کہ عوام ظہر کی نماز کے ساتھ جمعہ بھی ترک کردیں گے تو وہاں تقاضائے مصلحت یہ ہے کہ باجماعت ظہر قائم کرنے سے بچا جائے اور پابند نماز اور بغیر فتنہ انگیزی کے حق قبول کرنے والے افراد کو جمعہ کے ساتھ حکیمانہ طریقہ پر ظہر پڑھنے کی تلقین کی جائے اور اگر بغیر فتنہ انگیزی کے ظہر باجماعت کے لیے ماحول سازگار ہونا مظنون بہ ظن غالب ہو تو ظہر کی نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے
لا جمعة و لا تشريق إلا في مصر (درایہ ص ١٣١)
ہدایہ میں ہے 
لا تجوز فی القری۔ (ج 1 ص 148)
در مختار میں ہے
تکرہ تحریما ای لانہ اشتغال بما لا یصح لان المصر شرط الصحۃ”
دیہات میں جمعہ کی نماز مکروہ تحریمی ہے، کیوں کہ یہ ایک غیر صحیح عمل میں مشغول ہونا ہے اس لیے کہ صحت جمعہ کے لئے شہر کا ہونا شرط ہے
فتاوی فیض الرسول میں ہے
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھنا مذہب حنفی میں جائز نہیں، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو منع نہ کریں گے کہ شاید اس طرح اللہ و رسول کا نام لے لینا ان کے لیے ذریعہ نجات ہو جائے گا”
مزید مصنف فرماتے ہیں 
دیہات میں جمعہ کی نماز جائز نہیں ہے، لیکن عوام اگر پڑھتے ہوں تو انہیں منع نہ کیا جائے، کہ وہ جس طرح بھی اللہ و رسول کا نام لیں غنیمت ہے، (ص 406 ج1)
بہار شریعت میں ہے
لہٰذا جمعہ یا شہر میں پڑھا جائے یا قصبہ میں یا ان کی فنا میں اور گاؤں میں جائز نہیں (ج 1ص 763)
فتاوی مفتی اعظم ہند میں ہے
گاؤں میں جمعہ ناجائز ہے، جہاں ہوتا ہو وہاں روکا نہ جائے کہ فتنہ ہے، نیز یہ کہ وہ اتنے سے بھی جائیں گے واللہ تعالیٰ اعلم. انہیں آہستہ آہستہ اس کی تلقین کی جائے کہ وہ ظہر بھی پڑھ لیں.
مزید ارشاد ہے 
وہ ظہر بھی جماعت ہی سے پڑھنے کو کہا جائے کہ بے عذر ترک جماعت گناہ ہے۔
(ج ٣ص١٢٣-١٢٤)
فتاوی فیض الرسول میں ہے
دیہات میں جمعہ کی نماز پڑھ لینے سے ظہر کی فرض نماز ساقط نہیں ہوتی لہذا دوسرے ایام کی طرح جمعہ کے دن بھی ظہر کی نماز با جماعت پڑھنا واجب ہے۔
(فتاویٰ فیض الرسول ج ١ص٤٠٦)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
30/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area