(سوال نمبر 4440)
بت پرستی کی ابتدا کس نبی کے زمانے میں شروع ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بت پرستوں کی ابتدا کس بنی کے زمانے میں شروع ہوئی برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بت پرستی کی ابتداء حضرت نوح علیہ السلام کی امت سے شروع ہوئی
اللہ عزوجل کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرنے والی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا درد ناک عذاب آئے گا ،تاکہ ان کے لیے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم خالصتاً اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتو ں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درد ناک عذاب نہ آ جائے
جب حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے ترغیب دینے کی بناء پر بھی ان کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے دعوت دینے کا ایک اور انداز اختیار کیا ،حضرت نوح السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :"تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے عزت حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں کئی حالتوں سے گزار کر بنایا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں ہوئے ،پھر تمہیں خون کا لوتھڑا بنایا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا یہاں تک کہ اس نے تمہاری خلقت کامل کی ،اور تمہارا اپنی تخلیق میں نظر کرنا ایسی چیز ہے جو کہ اللہ پاک کی خالقیت ،قدرت اور اسکی وحدانیّت پر ایمان لانے کو واجب کرتی ہے۔
جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور اس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللہ نے حکم دیا تھا تو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں رد کر دیا ،اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی
اے میرے رب ! عزوجل (تو جانتا ہے کہ ) میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا ، تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیا ڈال لیں تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چھپا لیے ۔پھر میں نے انہیں محفلوں میں اس طرف بلند آواز سے اعلانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تونے مجھے حکم دیا تھا اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
فتاوی رضویہ میں ہے۔
دنیا میں بت پرستی کی ابتداء یوہیں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بنا کر گھروں اورمسجدوں میں تبرکا رکھیں اور ان سے لذت عبادت کی تائید سمجھی شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں صحیح بخاری وصحیح مسلم میں عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالی عنہما سے آیہ کریمہ
وقالوا لاتذرن الھتکم ولاتذرن ودا ولاسواعا ولایغوث ویعوق ونسرا
کافروں نے کہا ہرگز اپنے خداؤں کونہ چھوڑو، اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑو۔
کی تفسیرمیں ہے
قال کانوا اسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ھلکوا اوحی الشیطان الی قومھم ان نصبوا الی مجالسھم التی کانوا یجلسون انصابا وسموھا باسمائھم ففعلوا فلم تعبد حتی اذا ھلک اولئک ونسخ العلم عبدت
حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالی عنہما نے فرمایا یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک اور پارسالوگوں کے نام ہیں، جب وہ وفات پاچکے توشیطان نے بعد والوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ جہاں یہ لوگ بیٹھتے تھے وہیں ان مجالس میں انہیں نصب کردو (یعنی قرینے سے انہیں کھڑاکردو) اور جو ان کے نام (زندگی میں) تھے وہی نام رکھ دو، تو لوگوں نے (جہالت سے) ایساہی کیا۔ پھر کچھ عرصہ ان کی عبادت نہ ہوئی، یہاں تک کہ جب وہ تعظیم کرنے والے مرگئے اور علم مٹ گیا(اور ہرطرف جہالت پھیل گئی) توپھر ان کی عبادت شروع ہوگئی۔(القرآن الکریم ۷۱/ ۲۳)(صحیح البخاری کتاب التفاسیر باب ودا وسواعا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۳۲)
عبدبن حمیداپنی تفسیرمیں ابوجعفر بن المہلب سے راوی
قال کان ود رجلا مسلما وکان محببا فی قومہ فلما مات عسکروا حول قبرہ فی ارض بابل وجزعوا علیہ فلما رأی ابلیس جزعھم علیہ تشبہ فی صورۃ انسان ثم قال اری جزعکم علی ھذا فھل لکم ان اصورلکم مثلہ فیکون فی نادیکم فتذکرونہ بہ قالوا نعم فصورلھم مثلہ فوضعوہ فی نادیھم وجعلوا یذکرونہ فلما رأی مالھم من ذکرہ قال ھل لکم ان اجعل لکم فی منزل کل رجل منکم تمثالامثلہ فیکون فی بیتہ فتذکرونہ قالوا نعم فصورلکل اھل بیت تمثالامثلہ فاقبلوا فجعلوا یذکرونہ بہ قال وادرک ابنائھم فجعلوا یرون مایصنعون بہ وتناسلوا ودرس امر ذکرھم ایاہ حتی اتخذوہ الھا یعبدونہ من دون ﷲ قال وکان اول ماعبد غیرﷲ فی الارض ود الصنم الذی سموہ بود
ابوجعفرنے فرمایا:''ود'' ایک مسلمان شخص تھا جو اپنی قوم میں ایک پسندیدہ اور محبوب شخص تھا جب وہ مرگیا توسرزمین بابل میں لوگ اس کی قبرکے آس پاس جمع ہوئے اور اس کی جدائی پر بیقرار ہوئے (اور صبرنہ کرسکے) جب شیطان نے اس کی جدائی میں لوگوں کوبیتاب پایا تو وہ انسانی صورت میں ان کے پاس آیا او رکہنے لگامیں اس شخص کے مرنے پرتمہاری بیقراری دیکھ رہاہوں کیامناسب سمجھتے ہو کہ میں بالکل اس جیسی تمہارے لئے اس کی تصویر بنادوں، پھروہ تمہاری مجلس میں رہے پھر اس کی تصویردیکھ کرتم اسے یادکرو۔ لوگوں نے کہا ہاں یہ تواچھی تجویز ہے۔ پھرشیطان نے لوگوں کے لئے بالکل اسی جیسی اس کی تصویربنادی اور لوگوں نے اسے اپنی مجالس میں سجارکھا اور اس کی یادکرنے لگے۔ پھرجب شیطان نے دیکھا کہ اس کے ذکر سے لوگوں کی جوحالت ہوتی ہے۔ پھرشیطان کہنے لگا کیاتم یہ مناسب کہتے ہوکہ میں تم میں سے ہرشخص کے لئے اس کے گھرمیں اس کے بزرگ کاعکس تیارکرکے سجادوں تاکہ وہ اس کے گھرمیں موجود ہو، اور تم سب لوگ (انفرادی اوراجتماعی طورپر) اس کاتذکرہ کرتے رہو۔ لوگ کہنے لگے ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھر اس نے سب گھروالو ں کے لئے بالکل اسی جیسااس کاایک ایک فوٹوتیارکردیا پھرلوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کافوٹو دیکھ کر اسے یادکرتے رہے۔ راوی نے کہا اور ان کی اولاد نے یہ دور پالیا، پھر وہ دیکھتے رہے کہ جو کچھ ان کے بڑے کرتے رہے، اور پھر نسل آگے بڑھی (اور پھیلی) اور جب اس کے ذکر کاسلسلہ کچھ پرانا ہوگیا یہاں تک کہ جہالت سے پچھلے اورآنے والی نسلوں نے اسے خدابنالیا کہ ﷲ تعالی کوچھوڑکر اس کی عبادت کرنے لگے۔ (راوی نے کہا) سب سے پہلے زمین پر ﷲ تعالی کے علاوہ جس کی عبادت کی گئی وہ یہی بت ہے کہ جس کانام لوگوں نے ود رکھاہے۔
(الدرالمنثور بحوالہ عبدبن حمید تحت آیۃ ۷۱/ ۲۳ دارحیاء التراث العربی بیروت ۸/ ۷۴۔۲۷۳)
نیزصحیحین بخاری ومسلم میں ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالی عنہا سے ہے
لمااشتکی النبی صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم ذکر بعض نسائہ کنیسۃ یقال لہا ماریۃ وکانت ام سلمۃ وام حبیبۃ رضی ﷲ تعالی عنھما اتتاارض الحبشۃ فذکرتا من حسنھا وتصاویرفیھا فرفع صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم رأسہ فقال اولئک اذا مات فیھم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجدا ثم صوروا فیہ تلک الصور و اولئک شرار خلق ﷲ عندﷲ
جب حضورصلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بیمارہوئے توآپ کی بعض بیویوں نے ایک گرجے کاذکر فرمایا کہ جس کوماریہ کہاجاتاتھا چنانچہ سیدہ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی ﷲ تعالی عنہما (ﷲ تعالی ان دونوں سے راضی ہو) ملک حبشہ میں تشریف لے گئیں، پھرانہوں نے وہاں یہ گرجا دیکھا، دونوں نے اس کے حسن او ر اس میں سجی تصویروں کاتذکرہ فرمایا، تو حضوراقدس صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک اٹھاکرفرمایا: جب ان لوگوں میں کوئی نیک اور صالح آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پرمسجد تعمیرکرتے پھر ان تصویروں کوسجاکر اس میں رکھ دیتے وہی ﷲ تعالی کی بدترین مخلوق ہیں۔
(صحیح البخای کتاب الجنائز باب بناء المسجد علی القبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۷۹)(صحیح مسلم کتاب المساجد باب النہی عن بناء المسجد علی القبور قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۰۱)
(فتاوی رضویہ ج ٢٤ ص ١٢٤ المكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
بت پرستی کی ابتدا کس نبی کے زمانے میں شروع ہوئی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ بت پرستوں کی ابتدا کس بنی کے زمانے میں شروع ہوئی برائے کرم قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-حافظ محمد نوشاد چشتی سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
بت پرستی کی ابتداء حضرت نوح علیہ السلام کی امت سے شروع ہوئی
اللہ عزوجل کے نبی حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بتوں کی پوجا کرنے والی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا اور انہیں یہ حکم دیا کہ وہ اپنی قوم کو پہلے سے ہی ڈرا دیں کہ اگر وہ ایمان نہ لائے تو ان پر دنیا و آخرت کا درد ناک عذاب آئے گا ،تاکہ ان کے لیے اصلاً کوئی عذر باقی نہ رہے ۔
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم سے فرمایا کہ اے میری قوم اگر تم خالصتاً اللہ عزوجل کی عبادت اور اس کی وحدانیت کا اقرار نہ کرو گے اور ان بتو ں سے کنارہ کشی اختیار نہ کرو گے تو مجھے خوف ہے کہ کہیں تم پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے درد ناک عذاب نہ آ جائے
جب حضرت نوح علیہ السلام کی طرف سے ترغیب دینے کی بناء پر بھی ان کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو حضرت نوح علیہ السلام نے دعوت دینے کا ایک اور انداز اختیار کیا ،حضرت نوح السلام نے اپنی قوم سے فرمایا :"تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر اس سے عزت حاصل کرنے کی امید نہیں رکھتے حالانکہ اس نے تمہیں کئی حالتوں سے گزار کر بنایا کہ پہلے تم نطفہ کی صورت میں ہوئے ،پھر تمہیں خون کا لوتھڑا بنایا، پھر گوشت کا ٹکڑا بنایا یہاں تک کہ اس نے تمہاری خلقت کامل کی ،اور تمہارا اپنی تخلیق میں نظر کرنا ایسی چیز ہے جو کہ اللہ پاک کی خالقیت ،قدرت اور اسکی وحدانیّت پر ایمان لانے کو واجب کرتی ہے۔
جب حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی قوم تک اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور اس چیز سے ڈرایا جس سے ڈرانے کا اللہ نے حکم دیا تھا تو قوم نے ان کی بات نہ مانی اور حضرت نوح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو احکامات لے کر آئے تھے انہیں رد کر دیا ،اس پر حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کی
اے میرے رب ! عزوجل (تو جانتا ہے کہ ) میں نے اپنی قوم کو رات دن تیری توحید اور تیری عبادت کی طرف بلایا ، تیرے عذاب اور تیری قدرت سے ڈرایا تو انہوں نے اپنے کانوں میں انگلیا ڈال لیں تاکہ میری دعوت کو سن نہ سکیں اور اپنے کپڑے اوڑھ لیے اور منہ چھپا لیے ۔پھر میں نے انہیں محفلوں میں اس طرف بلند آواز سے اعلانیہ بلایا جس طرف بلانے کا تونے مجھے حکم دیا تھا اور ایک ایک سے آہستہ اور خفیہ بھی کہا اور دعوت دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔
فتاوی رضویہ میں ہے۔
دنیا میں بت پرستی کی ابتداء یوہیں ہوئی کہ صالحین کی محبت میں ان کی تصویریں بنا کر گھروں اورمسجدوں میں تبرکا رکھیں اور ان سے لذت عبادت کی تائید سمجھی شدہ شدہ وہی معبود ہوگئیں صحیح بخاری وصحیح مسلم میں عبدﷲ بن عباس رضی ﷲ تعالی عنہما سے آیہ کریمہ
وقالوا لاتذرن الھتکم ولاتذرن ودا ولاسواعا ولایغوث ویعوق ونسرا
کافروں نے کہا ہرگز اپنے خداؤں کونہ چھوڑو، اور ود، سواع، یغوث، یعوق اور نسر کو کبھی نہ چھوڑو۔
کی تفسیرمیں ہے
قال کانوا اسماء رجال صالحین من قوم نوح فلما ھلکوا اوحی الشیطان الی قومھم ان نصبوا الی مجالسھم التی کانوا یجلسون انصابا وسموھا باسمائھم ففعلوا فلم تعبد حتی اذا ھلک اولئک ونسخ العلم عبدت
حضرت ابن عباس رضی ﷲ تعالی عنہما نے فرمایا یہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے نیک اور پارسالوگوں کے نام ہیں، جب وہ وفات پاچکے توشیطان نے بعد والوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالا کہ جہاں یہ لوگ بیٹھتے تھے وہیں ان مجالس میں انہیں نصب کردو (یعنی قرینے سے انہیں کھڑاکردو) اور جو ان کے نام (زندگی میں) تھے وہی نام رکھ دو، تو لوگوں نے (جہالت سے) ایساہی کیا۔ پھر کچھ عرصہ ان کی عبادت نہ ہوئی، یہاں تک کہ جب وہ تعظیم کرنے والے مرگئے اور علم مٹ گیا(اور ہرطرف جہالت پھیل گئی) توپھر ان کی عبادت شروع ہوگئی۔(القرآن الکریم ۷۱/ ۲۳)(صحیح البخاری کتاب التفاسیر باب ودا وسواعا الخ قدیمی کتب خانہ کراچی ۲/ ۷۳۲)
عبدبن حمیداپنی تفسیرمیں ابوجعفر بن المہلب سے راوی
قال کان ود رجلا مسلما وکان محببا فی قومہ فلما مات عسکروا حول قبرہ فی ارض بابل وجزعوا علیہ فلما رأی ابلیس جزعھم علیہ تشبہ فی صورۃ انسان ثم قال اری جزعکم علی ھذا فھل لکم ان اصورلکم مثلہ فیکون فی نادیکم فتذکرونہ بہ قالوا نعم فصورلھم مثلہ فوضعوہ فی نادیھم وجعلوا یذکرونہ فلما رأی مالھم من ذکرہ قال ھل لکم ان اجعل لکم فی منزل کل رجل منکم تمثالامثلہ فیکون فی بیتہ فتذکرونہ قالوا نعم فصورلکل اھل بیت تمثالامثلہ فاقبلوا فجعلوا یذکرونہ بہ قال وادرک ابنائھم فجعلوا یرون مایصنعون بہ وتناسلوا ودرس امر ذکرھم ایاہ حتی اتخذوہ الھا یعبدونہ من دون ﷲ قال وکان اول ماعبد غیرﷲ فی الارض ود الصنم الذی سموہ بود
ابوجعفرنے فرمایا:''ود'' ایک مسلمان شخص تھا جو اپنی قوم میں ایک پسندیدہ اور محبوب شخص تھا جب وہ مرگیا توسرزمین بابل میں لوگ اس کی قبرکے آس پاس جمع ہوئے اور اس کی جدائی پر بیقرار ہوئے (اور صبرنہ کرسکے) جب شیطان نے اس کی جدائی میں لوگوں کوبیتاب پایا تو وہ انسانی صورت میں ان کے پاس آیا او رکہنے لگامیں اس شخص کے مرنے پرتمہاری بیقراری دیکھ رہاہوں کیامناسب سمجھتے ہو کہ میں بالکل اس جیسی تمہارے لئے اس کی تصویر بنادوں، پھروہ تمہاری مجلس میں رہے پھر اس کی تصویردیکھ کرتم اسے یادکرو۔ لوگوں نے کہا ہاں یہ تواچھی تجویز ہے۔ پھرشیطان نے لوگوں کے لئے بالکل اسی جیسی اس کی تصویربنادی اور لوگوں نے اسے اپنی مجالس میں سجارکھا اور اس کی یادکرنے لگے۔ پھرجب شیطان نے دیکھا کہ اس کے ذکر سے لوگوں کی جوحالت ہوتی ہے۔ پھرشیطان کہنے لگا کیاتم یہ مناسب کہتے ہوکہ میں تم میں سے ہرشخص کے لئے اس کے گھرمیں اس کے بزرگ کاعکس تیارکرکے سجادوں تاکہ وہ اس کے گھرمیں موجود ہو، اور تم سب لوگ (انفرادی اوراجتماعی طورپر) اس کاتذکرہ کرتے رہو۔ لوگ کہنے لگے ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے۔ پھر اس نے سب گھروالو ں کے لئے بالکل اسی جیسااس کاایک ایک فوٹوتیارکردیا پھرلوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اس کافوٹو دیکھ کر اسے یادکرتے رہے۔ راوی نے کہا اور ان کی اولاد نے یہ دور پالیا، پھر وہ دیکھتے رہے کہ جو کچھ ان کے بڑے کرتے رہے، اور پھر نسل آگے بڑھی (اور پھیلی) اور جب اس کے ذکر کاسلسلہ کچھ پرانا ہوگیا یہاں تک کہ جہالت سے پچھلے اورآنے والی نسلوں نے اسے خدابنالیا کہ ﷲ تعالی کوچھوڑکر اس کی عبادت کرنے لگے۔ (راوی نے کہا) سب سے پہلے زمین پر ﷲ تعالی کے علاوہ جس کی عبادت کی گئی وہ یہی بت ہے کہ جس کانام لوگوں نے ود رکھاہے۔
(الدرالمنثور بحوالہ عبدبن حمید تحت آیۃ ۷۱/ ۲۳ دارحیاء التراث العربی بیروت ۸/ ۷۴۔۲۷۳)
نیزصحیحین بخاری ومسلم میں ام المومنین صدیقہ رضی ﷲ تعالی عنہا سے ہے
لمااشتکی النبی صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم ذکر بعض نسائہ کنیسۃ یقال لہا ماریۃ وکانت ام سلمۃ وام حبیبۃ رضی ﷲ تعالی عنھما اتتاارض الحبشۃ فذکرتا من حسنھا وتصاویرفیھا فرفع صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم رأسہ فقال اولئک اذا مات فیھم الرجل الصالح بنوا علی قبرہ مسجدا ثم صوروا فیہ تلک الصور و اولئک شرار خلق ﷲ عندﷲ
جب حضورصلی ﷲ تعالی علیہ وسلم بیمارہوئے توآپ کی بعض بیویوں نے ایک گرجے کاذکر فرمایا کہ جس کوماریہ کہاجاتاتھا چنانچہ سیدہ ام سلمہ اور ام حبیبہ رضی ﷲ تعالی عنہما (ﷲ تعالی ان دونوں سے راضی ہو) ملک حبشہ میں تشریف لے گئیں، پھرانہوں نے وہاں یہ گرجا دیکھا، دونوں نے اس کے حسن او ر اس میں سجی تصویروں کاتذکرہ فرمایا، تو حضوراقدس صلی ﷲ تعالی علیہ وسلم نے اپنا سرمبارک اٹھاکرفرمایا: جب ان لوگوں میں کوئی نیک اور صالح آدمی مرجاتا تو اس کی قبر پرمسجد تعمیرکرتے پھر ان تصویروں کوسجاکر اس میں رکھ دیتے وہی ﷲ تعالی کی بدترین مخلوق ہیں۔
(صحیح البخای کتاب الجنائز باب بناء المسجد علی القبر قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/ ۱۷۹)(صحیح مسلم کتاب المساجد باب النہی عن بناء المسجد علی القبور قدیمی کتب خانہ ۱/ ۲۰۱)
(فتاوی رضویہ ج ٢٤ ص ١٢٤ المكتبة المدينة)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
16_09/2023
16_09/2023