(سوال نمبر 4600)
اگر نماز میں کسی سورت کی آیت چھوٹ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اگر کسی شخص نے سورہ قارعہ کی تلاوت کی اور سورہ قارعہ کی یہ آیت''فہو فی عیشۃ الراضیہ"کو چھوڑ دیا یعنی بھول سے چھوٹ گئی تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی اور اس سے نماز پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد شہاب الدین سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ آیت چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس لیے نماز نہیں ہوگی۔
قرآن مجید میں ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ(6) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍﭤ(7) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ(8) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌﭤ(9) وَ مَاۤ اَدْرٰكَ مَاهِیَهْﭤ (10) نَارٌ حَامِیَةٌ (11)
(ترجمۂ کنز الایمان)
تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں ۔وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی۔ایک آگ شعلے مارتی ۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ
جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ جنتی ہونگے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا ہعنی جہنم میں ہوں گے۔
لہذا اگر مذکورہ آیت چھوڑتے ہیں تو معنی ہوتا ہے جن کے پلڑے بھاری ہو یا ہلکے ہو جہنم میں ہوں گے جبکہ ایسا نہیں ہے۔اس وقت کے اندر دوبارہ نماز پڑھے اور وقت نکل جانے کے بعد قضا اداکرے۔
البتہ اگر غلطی سے نماز میں تلاوت کے دوران کوئی آیت چھوٹ جائے یا آیت کا کچھ حصہ بھول جائے اور قراءت کی فرض مقدارتین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیات کے برابر ہو پوری ہوجائے تو ایسی صورت میں نماز ادا ہو جائے گی جبکہ فساد معنی نہ ہو ۔
الفتاویٰ التاتارخانیۃ میں ہے
فرض القراء ۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ وہو الأصح، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ: أدنی ما یجوز من القراء ۃ في الصلاۃ في کل رکعۃ ثلاث اٰیات تکون تلک الاٰیات الثلاث مثل أقصر سورۃ من القراٰن، وإن قرأ باٰیتین طویلتین أو باٰیۃ طویلۃ تکون تلک الاٰیات مثل أقصر سورۃ في القراٰن یجزیہ ذٰلک"
(الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (رقم الفتوی: 1735، 59/2)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم یتغیر المعنی … لا تفسد".
"ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا لم تفسد ما لم یتغیر المعنی"
(الدر المختار مع رد المحتار: (396/2)
والله ورسوله اعلم بالصواب
اگر نماز میں کسی سورت کی آیت چھوٹ جائے تو نماز ہوگی یا نہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
اگر کسی شخص نے سورہ قارعہ کی تلاوت کی اور سورہ قارعہ کی یہ آیت''فہو فی عیشۃ الراضیہ"کو چھوڑ دیا یعنی بھول سے چھوٹ گئی تو کیا اس کی نماز ہو جائے گی اور اس سے نماز پر کوئی فرق پڑے گا یا نہیں ؟ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:- محمد شہاب الدین سیتا مڑھی بہار انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
مذکورہ آیت چھوٹنے کی وجہ سے معنی میں تغیر پیدا ہوتا ہے اس لیے نماز نہیں ہوگی۔
قرآن مجید میں ہے
فَاَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ(6) فَهُوَ فِیْ عِیْشَةٍ رَّاضِیَةٍﭤ(7) وَ اَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِیْنُهٗ(8) فَاُمُّهٗ هَاوِیَةٌﭤ(9) وَ مَاۤ اَدْرٰكَ مَاهِیَهْﭤ (10) نَارٌ حَامِیَةٌ (11)
(ترجمۂ کنز الایمان)
تو جس کی تولیں بھاری ہوئیں ۔وہ تو من مانتے عیش میں ہیں اور جس کی تولیں ہلکی پڑیں وہ نیچا دکھانے والی گود میں ہے اور تو نے کیا جانا کیا نیچا دکھانے والی۔ایک آگ شعلے مارتی ۔
آیت کا مفہوم یہ ہے کہ
جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔ جنتی ہونگے اور جن کے پلڑے ہلکے ہوں گے تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کو خسارے میں ڈالا ہعنی جہنم میں ہوں گے۔
لہذا اگر مذکورہ آیت چھوڑتے ہیں تو معنی ہوتا ہے جن کے پلڑے بھاری ہو یا ہلکے ہو جہنم میں ہوں گے جبکہ ایسا نہیں ہے۔اس وقت کے اندر دوبارہ نماز پڑھے اور وقت نکل جانے کے بعد قضا اداکرے۔
البتہ اگر غلطی سے نماز میں تلاوت کے دوران کوئی آیت چھوٹ جائے یا آیت کا کچھ حصہ بھول جائے اور قراءت کی فرض مقدارتین چھوٹی آیات یا ایک بڑی آیت جو تین چھوٹی آیات کے برابر ہو پوری ہوجائے تو ایسی صورت میں نماز ادا ہو جائے گی جبکہ فساد معنی نہ ہو ۔
الفتاویٰ التاتارخانیۃ میں ہے
فرض القراء ۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ یتأدی بآیۃ واحدۃ وإن کانت قصیرۃ وہو الأصح، وروی الحسن عن أبي حنیفۃ: أدنی ما یجوز من القراء ۃ في الصلاۃ في کل رکعۃ ثلاث اٰیات تکون تلک الاٰیات الثلاث مثل أقصر سورۃ من القراٰن، وإن قرأ باٰیتین طویلتین أو باٰیۃ طویلۃ تکون تلک الاٰیات مثل أقصر سورۃ في القراٰن یجزیہ ذٰلک"
(الفتاویٰ التاتارخانیۃ: (رقم الفتوی: 1735، 59/2)
الدر المختار مع رد المحتار میں ہے
وإن ترک کلمۃ من آیۃ فإن لم یتغیر المعنی … لا تفسد".
"ولو زاد کلمۃ أو نقص کلمۃ أو نقص حرفا لم تفسد ما لم یتغیر المعنی"
(الدر المختار مع رد المحتار: (396/2)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
03/10/2023
03/10/2023