(سوال نمبر 4433)
پندرہ دن کی نیت کر کے عمرہ پر جانے والا شخص مسافر ہو گا یا مقیم؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ پندرہ دن کی نیت کر کے عمرہ پر جانے والا شخص مسافر ہو گا یا مقیم ؟۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-ظہیر احمد آندھرا پردیش انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
92 کلو سفر کرنے سے انسان شرعی مسافر ہوجاتا ہے۔
مکہ پہنچنے پر اگر 15 دن ٹھہر کا ارادہ ہو تو مقیم ہوں گے ورنہ مسافر رہیں قصر کریں گے۔
یعنی اگر وہاں پہنچ کر مکہ مکرمہ میں پندرہ دن سے کم قیام کی نیت ہو تو آپ وہاں مسافر رہیں گے اور چار رکعت والی نمازوں میں قصر کریں گے
اور اگر مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو وہاں مقیم ہوں گے اور کسی نماز میں قصر نہیں کریں گے ۔
اسی طرح مدینہ منور میں بھی پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں وہاں مسافر رہیں گے اور پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی صورت میں مقیم ہوں گے
ملتقی الأبحر مع الجمع والدر میں ہے
ولا یزال علی حکم السفر حتی یدخل وطنہ أو ینوي مدة الإقامة ببلد آخر أو قریة وہي خمسة عشر یومًا أو أکثر
پندرہ دن کی نیت کر کے عمرہ پر جانے والا شخص مسافر ہو گا یا مقیم؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ پندرہ دن کی نیت کر کے عمرہ پر جانے والا شخص مسافر ہو گا یا مقیم ؟۔ برائے کرم تفصیلی جواب عنایت فرمائیں۔
سائل:-ظہیر احمد آندھرا پردیش انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
92 کلو سفر کرنے سے انسان شرعی مسافر ہوجاتا ہے۔
مکہ پہنچنے پر اگر 15 دن ٹھہر کا ارادہ ہو تو مقیم ہوں گے ورنہ مسافر رہیں قصر کریں گے۔
یعنی اگر وہاں پہنچ کر مکہ مکرمہ میں پندرہ دن سے کم قیام کی نیت ہو تو آپ وہاں مسافر رہیں گے اور چار رکعت والی نمازوں میں قصر کریں گے
اور اگر مکہ مکرمہ میں پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کا ارادہ ہو تو وہاں مقیم ہوں گے اور کسی نماز میں قصر نہیں کریں گے ۔
اسی طرح مدینہ منور میں بھی پندرہ دن سے کم قیام کی صورت میں وہاں مسافر رہیں گے اور پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کی صورت میں مقیم ہوں گے
ملتقی الأبحر مع الجمع والدر میں ہے
ولا یزال علی حکم السفر حتی یدخل وطنہ أو ینوي مدة الإقامة ببلد آخر أو قریة وہي خمسة عشر یومًا أو أکثر
(ملتقی الأبحر مع الجمع والدر ۱:۲۴۰ مطبوعہ دار الکتب العلمیة بیروت)
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں
جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت الہ آباد میں کر لی ہے، تو اب الہ آباد وطنِ اقامت ہو گیا۔ نماز پوری پڑھی جائے گی، جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ، اگرچہ ہر ہفتہ پر بلکہ ہر روز الہ آباد سے کہیں تھوڑی تھوڑی دور یعنی دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ،ورنہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہو گی، مثلاً: الہ آباد میں پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہو گا ،تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا اگرچہ دوسری جگہ الہ آباد کے ضلع میں، بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگرچہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا، تو اقامت صحیح ہو گئی نماز پوری پڑھی جائے گی، جبکہ وہ دوسری جگہ الہ آباد سے چھتیس کوس یعنی ستاون اٹھاون میل کے فاصلے پر نہ ہو ،غرض قیام کی نیت کرتے وقت ان خیالوں کا اعتبار ہے، بعد کو جو پیش آئے اس کا لحاظ نہیں، مثلاً: پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرا لیا اور اس کے بعد اتفاقاً چند راتوں کے لیے اور جگہ جانا ہوا ،جو الہ آباد سے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں، اگرچہ دس بیس بلکہ چھپن میل تک ہو تو سفر نہ ہو گا، اس مقامِ دیگر میں بھی نماز پوری پڑھنی ہو گی اور الہ آباد میں بھی ان سب صورتوں کو خوب غور سے سمجھ لو۔
سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن اپنے فتاوی میں فرماتے ہیں
جب تک کسی خاص جگہ پندرہ دن ٹھہرنے کی نیت الہ آباد میں کر لی ہے، تو اب الہ آباد وطنِ اقامت ہو گیا۔ نماز پوری پڑھی جائے گی، جب تک وہاں سے تین منزل کے ارادہ پر نہ جاؤ، اگرچہ ہر ہفتہ پر بلکہ ہر روز الہ آباد سے کہیں تھوڑی تھوڑی دور یعنی دوسری جگہ شب باشی کا ارادہ نہ ہو ،ورنہ وہ نیت پورے پندرہ دن کی نہ ہو گی، مثلاً: الہ آباد میں پندرہ روز ٹھہرنے کی نیت کی اور ساتھ ہی یہ معلوم تھا کہ ان میں ایک شب دوسری جگہ ٹھہرنا ہو گا ،تو یہ پورے پندرہ دن کی نیت نہ ہوئی اور سفر ہی رہا اگرچہ دوسری جگہ الہ آباد کے ضلع میں، بلکہ اس سے تین چار ہی کوس کے فاصلہ پر ہو اور اگر پندرہ راتوں کی نیت پوری یہیں ٹھہرنے کی تھی اگرچہ دن میں کہیں اور جانے اور واپس آنے کا خیال تھا، تو اقامت صحیح ہو گئی نماز پوری پڑھی جائے گی، جبکہ وہ دوسری جگہ الہ آباد سے چھتیس کوس یعنی ستاون اٹھاون میل کے فاصلے پر نہ ہو ،غرض قیام کی نیت کرتے وقت ان خیالوں کا اعتبار ہے، بعد کو جو پیش آئے اس کا لحاظ نہیں، مثلاً: پندرہ رات پورے کا قیام ٹھہرا لیا اور اس کے بعد اتفاقاً چند راتوں کے لیے اور جگہ جانا ہوا ،جو الہ آباد سے تین منزل کے فاصلہ پر نہیں، اگرچہ دس بیس بلکہ چھپن میل تک ہو تو سفر نہ ہو گا، اس مقامِ دیگر میں بھی نماز پوری پڑھنی ہو گی اور الہ آباد میں بھی ان سب صورتوں کو خوب غور سے سمجھ لو۔
(فتاوی رضویہ ج8 ص251 رضا فاؤنڈیشن لاھور)
والله ورسوله اعلم بالصواب
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
15/09/2023
15/09/2023