Type Here to Get Search Results !

ماء مستعمل پاک ہے یا ناپاک اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کیسا ہے؟

 ماء مستعمل پاک ہے یا ناپاک اس کو پینا اور اس سے آٹا گوندھنا کیسا ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ 
مستعمل پانی پاک ہوتا ہے اگر اس سے ناپاک بدن یا کپڑے وغیرہ دھوئیں گے تو پاک ہو جائیں گے ۔مستعمل پانی پاک ہے اس کا پینا یا اس سے روٹی کھانے کے لئے آٹا گوندھنا مکروہ تنزیہی ہے۔ (حوالہ اسلامی بہنوں کی نماز، طہارت کا بیان) 
مندرجہ بالا عبارت میں یہ بتایا گیا ہے کہ مستعمل پانی پاک ہے اور اس سے ناپاک بدن یا کپڑے وغیرہ دھوئیں گے تو پاک ہو جائیں گے لیکن اس کو پی نہیں سکتے اس سے آٹا وغیرہ گوندھنا مکروہ تنزیہی ہے ۔ایسا کیوں اگر وہ پانی پاک ہے تو اسے پی کیوں نہیں سکتے اس پر تشفی بخش جواب عنایت فرما دیں۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا ۔
سائلہ:عالمہ رقیہ ممبئی
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ 
الجواب بعون الملک الوھاب:-
ماء مستعمل پاک ہے یا ناپاک اس میں ائمہ کرام کا اختلاف ہے،امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ عنہ کا ایک قول یہ ہے کہ ماء مستعمل نجاست غلیظہ ہے۔اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ نجاست خفیفہ ہے۔تیسرا قول یہ ہے کہ وہ پاک ہے،لیکن پاک کرنے والا نہیں ہے۔مفتیٰ بہ اور راجح قول یہی ہے کہ وہ پاک ہے،لیکن پاک کرنے والا نہیں ہے۔کوئی ایسا قول نہیں ہے جو یہ بتائے کہ ماء مستعمل مطہر یعنی پاک کرنے والا ہے،کیوں کہ ایک مرتبہ اس نے ازالۂ نجاست حکمیہ کردیا تو مزیداسی حالت میں نجاست حکمیہ کا ازالہ نہیں کرسکتا،ماءمستعمل پاک اس لیے ہے کہ اس میں ناپاکی نہیں آئی ہےاور فتویٰ بھی اسی پر ہے۔ 
اب اگر وہ سارے اقوال سامنے رکھے جائیں تو ان میں ناپاکی کا بھی توحکم ہے،اس لیے اس کو پیا کیسے جائے؟یا آٹا وغیرہ کیسے گوندھا جائے،لہٰذا ایسے معاملات وحالات میں کہ جہاں چند اقوال وچند صورتیں ہوں احتیاط ضروری ہے،نیز ماء مستعمل سے گھن آتی ہے،بایں وجہ بھی اسے نہیں پینا چاہیے۔اور مفتی بہ جو قول ہے وہ یہی ہے کہ مستعمل پانی پاک ہے،لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ پاک تو ہے لیکن پاک کرنے والا نہیں ہے،اسی وجہ سے اگر کسی نےماء مستعمل سے وضو کیا تووضو نہیں ہوگا،غسل جنابت کیا تو غسل بھی نہ ہوگا۔آپ نے جس کتاب کا حوالہ دیا ہے اس میں جو یہ لکھا ہےکہ ناپاک بدن یا ناپاک کپڑے دھوئیں گےتو پاک ہوجائیں گے اس سے مراد نجاست حکمیہ نہیں ہے بلکہ نجاست حقیقیہ ہے۔یعنی ہاتھ ، کپڑے یا بدن پر پیشاب ،پاخانہ یا کوئی نجس چیز لگ گئی ہے تو اگر مستعمل پانی سے اسے دھویاجائےتو یہ ازالہ ٔنجاست حقیقہ کرے گا ،لیکن نجاست حکمیہ کا ازالہ نہیں کرے گایعنی بے وضو شخص وضو کرے تو وضو نہیں ہوگا،اور جنابت والا غسل کرے تو غسل نہیں ہوگا۔ البتہ بدن پر اگر نجاست حقیقیہ مثلا پیشاب یاپاخانہ لگا ہے،اوراس سے اگر دھویا جائے وہ نجاست کو زائل کردے گا،تین مرتبہ اگر دھل دیا جائے تو وہ کپڑا پاک ہوجائے گا،اور بدن بھی پاک ہوجائے گا۔کتاب میں مرقوم مسئلہ کا یہی مطلب ہے۔  
اگر اس سے مراد نجاست حکمیہ ہو اور وہ پاک ہوجائے تو یہ درست نہیں ہے،مستعمل پانی سے نجاست حکمیہ زائل نہیں ہوتا یعنی اس سے وضو نہیں کرسکتے، اور دیگر کاموں میں اس کا استعمال مکروہ ہوتا ہے۔ 
دلائل ملاحظہ فرمائیں:
  ماء مستعمل کے تعلق سے تنویر الابصاراوردرمختارمیں ہے:
’’(و)حکمہ انہ (لیس بطھور)لحدث بل لخبث علی الراجح المعتمد‘‘
ترجمہ: ماءِمستعمل کاحکم یہ ہے کہ وہ حدث کے لیےمطہر نہیں ہے لیکن راجع معتمد قول کے مطابق وہ نجاست(حقیقیہ) کے لیے مطہر ہے 
 اسی کے تحت رد المحتار میں ہے:
’’مرتبط بقولہ بل لخبث ای نجاسۃ حقیقیۃ فانہ یجوز ازالتھا بغیر الماء المطلق من المائعات ‘‘
ترجمہ: علی الراجح ماتن کے قول بل الخبث کے متعلق ہے یعنی نجاست حقیقیہ،کیونکہ اسے ماء مطلق کے علاوہ دیگر مائع اشیا ء کے ذریعے زائل کرنابھی جائز ہے۔ 
(رد المحتار المطبوع مع الدر المختار ،جلد: 1، صفحہ: 391، مطبوعہ بیروت)
 فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
 ” یجوز تطھیر النجاسۃ بالماء وبکل مائع طاھر یمکن ازالتھا بہ ومن المائعات الماء المستعمل وعلیہ الفتوی ١ھ ملخصا.(فتاویٰ عالمگیری جلد اول صفحہ ٤١)
ترجمہ:پانی اور ہربہنے والی شی کے ذریعہ نجاست کو زائل کرنا جائز ہے،مائعات سے ماء مستعمل بھی ہے،اور اسی پر فتویٰ ہے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان قادری قدس سرہ ’’فتاویٰ رضویہ شریف‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں:
 راجح و معتمد یہ ہے کہ مکلف پر جس عضو کا دھونا کسی نجاست حکمیہ مثل حدث و جنابت و انقطاع حیض و نفاس کے سبب بالفعل واجب ہے وہ عضو یا اس کا کوئی حصہ اگرچہ ناخن یا ناخن کا کنارہ آب غیر کثیر میں کہ نہ جاری ہے نہ دہ در دہ بے ضرورت پڑ جانا پانی کو قابل وضو و غسل نہیں رکھتا یعنی پانی مستعمل ہو جاتا ہے کہ خود پاک ہے اور نجاست حکمیہ سے تطہیر نہیں کر سکتا اگر چہ نجاست حقیقیہ اس سے دھو سکتے ہیں یہی قول نجیح و رجیح ہے ۔
(فتاویٰ رضویہ مترجم، جلد دوم صفحہ نمبر 113)    
درمختار میں ہے:
”ھوطاھروھو الظاھر لكن يكره شربه والعجن به تنزيها للاستقذار“
(درمختارمعردالمحتار،جلد1،ص: 390،مطبوعہ کوئٹہ)
 ترجمہ:ظاہر قول کے مطابق مستعمل پانی پاک ہے،لیکن اس کا پینااوراس سے آٹا گوندھنا، مکروہ تنزیہی ہے،کیونکہ اس سے گھن آتی ہے۔   
ردالمحتارمیں علامہ ابنِ عابدین شامی علیہ رحمۃ اللہ ایک مقام پرلکھتے ہیں:
” لأنه يصير شاربا،للماء المستعمل وهو مكروه تنزيها“
(رد المحتار علی الدرالمختار،جلد1،صفحہ 351،مطبوعہ کوئٹہ)
 ترجمہ: کیونکہ وہ ماء مستعمل کو پینے والا ہوجائے گا اور یہ مکروہ تنزیہی ہے۔
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
________(❤️)_________
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی سراج احمد قادری مصباحی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی 
خادم:غوثیہ دار الافتا وخطیب وامام مسجد غوث الوریٰ ساتیولی وسئی ایسٹ پالگھر مہاراشٹر
17/ستمبر 2023،اتوار

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area