Type Here to Get Search Results !

لڑکا سعودی میں لڑکی انڈیا میں نکاح کیسے کرے؟


•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4272)
لڑکا سعودی میں لڑکی انڈیا میں نکاح کیسے کرے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ 
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ زید سعودی عرب میں ہے اور ہندہ ہندوستان میں ہے دونوں نکاح کرنا چاہتے ہیں تو اس کی کیا صورت ہوگی تفصیلی جواب ارسال فرماۓ مہربانی ہوگی
سائل:- عبداللطیف مقام بہرائچ شریف یوپی انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
سعودی سے انڈیا اکر نکاح کرے کچھ قیود و شروط کے ساتھ ان لائن ویڈیو کال پر نکاح کیا جا سکتا ہے۔
انٹرنیٹ اور ٹیلی فون پر نکاح جائز ہے لیکن اس میں انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میں دھوکہ فراڈ اور غلط بیانی کے امکانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
اس بابت جواز کی دو صورتیں ہیں 
١/ انٹرنیٹ پر ویڈیو کال کے ذریعے کیے گئے نکاح میں غلط بیانی کے امکانات بہت کم ہیں کیونکہ اس میں لڑکا، لڑکی،گواہان، وکیل اور دیگر اعزاء و اقارب سب نہ صرف ایک دوسرے سے بات بھی کر سکتے ہیں بلکہ دیکھ بھی سکتے ہیں۔
٢/ انٹرنیٹ پر آڈیو کال یا ٹیلی فون کے ذریعے بھی نکاح اگر پوری تحقیق کے ساتھ کیا جائے غلط بیانی کا امکان نہیں رہے گا۔
یاد رہے کہ اس جواز کی کچھ شرطیں ہیں کہ بدون شروط جائز نہیں ہے 
اولا نکاح کا فارم پر کریں 
لڑکا کا وکیل اور وکیل بنانے کے دو گواہ وہاں ہوں، اور لڑکی کا وکیل اور وکیل بنانے کے دو گواہ لڑکے کے پاس ہوں۔ پھر جو فریق باہر ہے اس کا نام، پتہ اور مخصوص جگہ پر دستخط کرنے کے لیے وہ فارم اس کے پاس بھیجے جائیں۔ اس طرح باہر والا فریق اپنے متعلقہ تمام کوائف پر کرے اور واپس بھیج دے۔ یاد رہے لڑکی کی تمام ضروری معلومات اور حق مہر وغیرہ سب کچھ وضاحت سے درج ہونا چاہیے، کوئی جملہ مبہم نہ ہو۔جب دونوں فریق اپنے اپنے کوائف مکمل کر لیں تو پھر دو گواہ بنالیں ان کے بھی نام، پتہ اور دستخط کروائیں اب نکاح خواں کو چاہیے کہ وہ جہاں نکاح پڑھائے موجود فریق سے تمام معلومات حاصل کرنے کے بعد انٹرنیت یا ٹیلی فون کے ذریعے باہر والے فریق سے بھی پوری وضاحت طلب کرے تاکہ جو کچھ فارم میں لکھا ہے اس کی تصدیق ہو جائے۔اب آخر میں لڑکے اور لڑکی کی اجازت سے دو گواہوں کی موجودگی میں انٹرنیٹ یا ٹیلی فون کے ذریعے ایجاب و قبول کروایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ لڑکے کا جو وکیل نکاح خوان کے پاس موجود ہے اُس سے بھی ایجاب و قبول کروایا جائے۔ یعنی لڑکے کا وکیل کہے کہ میں نے فلاں لڑکی اتنے حق مہر کے عوض ان شرائط کے تحت ان گواہوں کے روبرو اپنے فلاں موکل کے نکاح کے لیے قبول کی۔
اگر درج بالا احتیاطی تدابیر کو مدّ نظر رکھ کر انٹر نیٹ یا ٹیلی فون پر نکاح پڑھا جائے تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے، اس میں کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ تمام تر احتیاطی تدابیر کے باوجود کسی فریق کی طرف سے بھی کوئی دھوکہ، فراڈ اور غلط بیانی ثابت ہو جائے تو یہ نکاح، نکاح فضولی کی طرح زوجین کو قبول یا رد کرنے کا اختیار ہوگا۔ فریقین آزاد ہونگے کہ جہاں چاہے اپنی رضا مندی سے نکاح کر سکیں گے۔ اس بابت مفتی قاسم عطاری صاحب قبلہ فرماتے ہیں 
نکاح صحیح ہونے کے لئے چند شرائط کا پایاجانا ضروری ہے جن میں سے ایجاب وقبول کا ایک مجلس میں ہونابھی ضروری ہے ۔ لہٰذانیٹ یاٹیلی فون پرنکاح درست نہیں کہ ایجاب وقبول کی مجلس مختلف ہے ہاں اگرنیٹ یاٹیلی فون پرکسی کو وکیل بنادیاجائے اوروہ وکیل گواہوں کی موجودگی میں اپنے مؤکل کانکاح پڑھادے توشرعاًجائزہوگا۔ 
(دارالافتاء اہل سنت فتاوی نمبر 5246)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
02/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area