Type Here to Get Search Results !

کیا مندرجہ ذیل دونوں احادیث صحیح ہیں؟

 (سوال نمبر 4410)
کیا مندرجہ ذیل دونوں احادیث صحیح ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ حدیث شریف میں بیان ہوا "من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین (الفقیہ و المتفقہ ج 1ص 79)
یعنی جس کے ساتھ رب عزوجل بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرماتا ہے۔ 2/ حضور علیہ السلام نے فرمایا فقیہ واحد اشدّ علی الشیطان من الف عابد۔
(جامع ترمذی باب العلم ص 384)یعنی ایک فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہے
کیا یہ دونوں حدیثیں درست ہیں ۔برائے کرم تحقیقی جواب عنایت فرمائیں۔
سائلہ :- اقرا عالمہ فاضلہ اقرا عطاریہ لاہور پاکستان 
...........................
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

ہاں مذکورہ دونوں احادیث صحیح ہیں ایک صحیح بخاری میں ہے 
اور دوسری مشکوٰۃ  ترمذی اور ابن ماجۃ میں ہے۔
دونوں احادیث مع سند ملاحظہ کریں 
١/ حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عُفَيْرٍ ، ‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، ‏عَنْ يُونُسَ ، ‏‏‏‏‏‏عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ حُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، ‏‏‏‏‏‏سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ خَطِيبًا، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏يَقُولُ:‏‏‏‏ مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي، ‏‏‏‏‏‏وَلَنْ تَزَالَ هَذِهِ الْأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللَّهِ لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ.
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، ان سے وہب نے یونس کے واسطے سے نقل کیا، وہ ابن شہاب سے نقل کرتے ہیں، ان سے حمید بن عبدالرحمٰن نے کہا کہ میں نے معاویہ سے سنا۔ وہ خطبہ میں فرما رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے (اور یہ عالم فنا ہوجائے) ۔
 ٢/ وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقِیْہٌ وَاحِدٌ اَشَدُّ عَلَی الشَّیْطَانِ مِنْ اَلْفِ عَابِدِ۔(راوہ الجامع ترمذی وابن ماجۃ)
اور حضرت عبداللہ ابن عباس راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا۔ ایک فقیہ (یعنی عالم دین) شیطان پر ایک ہزار عابدوں سے زیادہ سخت ہے۔
(جامع ترمذی وسنن ابن ماجہ)  
مقابلہ کا یہ مسلم اصول ہے کہ کامیابی اس آدمی کے حصہ میں آتی ہے جو اپنے مد مقابل کے داؤ پیچ سے بخوبی واقف ہو اور اس کا توڑ جانتا ہو۔ چنانچہ ہم خود دیکھتے ہیں کہ مقابلہ کے اکھاڑہ میں وہ آدمی جو اپنے ظاہری قویٰ اور جسم کے اعتبار سے کوئی اہمیت نہیں رکھتا اپنے اس مقابل کو پچھاڑ دیتا ہے جو جسم و بدن کے اعتبار سے اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور ہوتا ہے کیونکہ وہ جب مقابلہ میں آتا ہے تو اس کا دماغ بنیادی طور پر مقابل کے ہر وار سے بچاؤ کی شکل اور اس کے ہر داؤ کا جواب اپنے خزانہ میں رکھتا ہے نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کامیابی اسی ہی سے ہوتی ہے۔ دنیا میں باطنی طور پر انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان ہے جو اپنے مکر و فریب کی طاقت سے لوگوں کو گمراہی کی وادی میں پھینکتا رہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ لوگ جو شیطان کے مکر و فریب سے واقف نہیں ہوتے اور اس کی طاقت و قوت کا جواب نہیں رکھتے وہ گمراہ ہوجاتے ہیں مگر ایسے لوگ جو اس کے ہر داؤ کا جواب رکھتے ہیں اور اس کی طاقت و قوت کی شہ رگ پر ان کا ہاتھ ہوتا ہے وہ نہ صرف یہ کہ خود اس کی گمراہی سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی محفوظ رکھتے ہیں اور یہ لوگ وہی عالم ہوتے ہیں جن کے قلب و دماغ نور الہٰی کی مقدس روشنی سے منوّر اور ان کے ذہن و فکر علم و معرفت کی طاقت سے بھر پور ہوتے ہیں۔ اسی لئے اس حدیث میں فرمایا جا رہا ہے کہ شیطان کے مقابلہ میں ایک ہزار عابد جتنی طاقت رکھتے ہیں اتنی طاقت تنہا ایک عالم کے پاس ہوتی ہے کیونکہ جب شیطان لوگوں پر اپنے مکر و فریب کا جال ڈالتا ہے اور انہیں خواہشات نفسانی میں پھنسا کر گمراہی کے راستہ پر لگا دینا چاہتا ہے تو عالم اس کی چال سمجھ لیتا ہے چناچہ وہ لوگوں پر شیطان کی گمراہی کو ظاہر کرتا ہے اور ایسی تدابیر انہیں بتادیتا ہے جن پر عمل کرنے سے وہ شیطان کے ہر حملے سے محفوظ رہتے ہیں۔ برخلاف اس کے وہ عابد جو صرف عبادت ہی عبادت کرنا جانتا ہے اور علم و معرفت سے کوسوں دور ہوتا ہے وہ تو محض اپنی ریاضت و مجاہدہ اور عبادت میں مشغول رہتا ہے اسے یہ خبر بھی نہیں ہونے پاتی کہ شیطان کس چور دروازے سے اس کی عبادت میں خلل ڈال رہا ہے اور اس کی تمام سعی و کوشش کو ملیا میٹ کر رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ظاہری طور پر وہ عبادت میں مشغول رہتا ہے، مگر لا علم ہونے کی وجہ سے وہ شیطان کے مکر و فریب میں پھنسا ہوا ہوتا ہے اس لئے نہ وہ خود شیطان کی گمراہی سے محفوظ رہتا ہے اور نہ وہ دوسروں کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ کم از کم فرض علوم حاصل کرنا ہر مرد و زن پر فرض ہے۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
13/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area