(سوال نمبر 4337)
کیا تنخواہ سے ٹیکس کٹنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا تنخواہ سے ٹیکس کٹنے سے زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
میری تنخواہ سے اگر ٹیکس بھی کٹ جائے اچھا خاصا جو کے زکوۃ کی رقم سے بھی زیادہ ہو تو اس کے باوجود بھی مجھے زکوۃ دینی ہو گی کیا ؟
سائل:- سعادت ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زکوٰۃ الگ چیز ہے اور ٹیکس الگ چیز ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے مال سے زکوٰة قبول فرمائیں اور اس زکوٰة کے ساتھ ان کو پاک کردیں جبکہ ٹیکس کا نظام سوائے ناگزیر قومی ضرورت کے ٹیکسوں کے عموماً ظلم اور چوری کے مشابہ ہیں تو پھر اس مال کے ساتھ مزید عوام پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس صورت میں ٹیکس کا نظام زکوة جسے اہم اسلامی نبوی فریضہ کے قائم مقام ہرگز نہیں ہوسکتا
زکاۃ عبادت ہے اس کا ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں ٹیکس کوئی بھی حکومت اپنے اخراجات سامنے رکھ کر مخصوص قوانین کے مطابق عوام سے وصول کرتی ہے لہذا اگر زکاۃ واجب ہو تو ٹیکس دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی بلکہ اس کی ادائیگی علیحدہ سے کرنا ضروری ہے اور زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو مالک بناکر دینا ضروری ہے اس لیے ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم اگرچہ وہ جائز مصارف مثلاً تعمیرات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ ہورہی ہو، تب بھی اس رقم کی ادائیگی کے وقت زکاۃ کی نیت سے دینے سے بھی زکاۃ ادا نہیں ہوگی البتہ زکاۃ کا سال مکمل ہونے تک جتنا ٹیکس واجب الادا ہو اتنی رقم کل سرمایہ سے منہا کرلی جائے اس کے بعد جو رقم بنیادی ضرورت سے زائد ہو اس پر زکات واجب ہوگی۔ اور ٹیکس کی جتنی مقدار کی ادائیگی فی الحال یعنی زکاۃ کا سال مکمل ہونے کے وقت تک لازم نہ ہوئی ہو، وہ منہا نہیں کی جائے گا۔
زکوة اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عائد فریضہ ہے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا تارک واجب القتل ہیں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اجتماع ہے کہ ایسے شخص سے لڑائی کی جائے گی اور اگر وہ زکوٰة نہ دے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اسی لئے عہدِ صدیقی اکبر میں منکرین زکوٰة کے خلاف باقاعدہ قتال ہوا جبکہ ٹیکس معروضی حالات میں وقتی طورپر لاگو کیا جاسکتا ہے پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو امانت داری کے ساتھ امت اسلامیہ کی حفاظت یا بہبود کے لیے خرچ کیا جائے لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ چلتا ہو تو پھر ٹیکس لگانا ظلم قرار پاتا ہے۔عہدِنبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ایک عورت نے بدکاری کرلی اس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو پتھر مار کر رجم کرنے کا حکم دیا اس کاخون حضرت خالد رضی اللہ عنہ پر بھی گرگیا انہوں نے اس عورت کے بارے میں برے الفاظ استعمال کئے تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا خالد رضی اللہ عنہ حوصلہ کرو اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کو بھی بخش دیا جائے ۔ (صحیح مسلم سنن ابی داؤد)
فتاوی شامی میں ہے
قال في التنجيس والولوالجية: السلطان الجائر إذا أخذ الصدقات، قيل: إن نوى بأدائها إليه الصدقة عليه لايؤمر بالأداء ثانياً؛ لأنه فقير حقيقةً. ومنهم من قال: الأحوط أن يفتى بالأداء ثانياً، كما لو لم ينو؛ لانعدام الاختيار الصحيح، وإذا لم ينو، منهم من قال: يؤمر بالأداء ثانياً. وقال أبو جعفر: لا؛ لكون السلطان له ولاية الأخذ فيسقط عن أرباب الصدقة، فإن لم يضعها موضعها لايبطل أخذه، وبه يفتى، وهذا في صدقات الأموال الظاهرة، أما لو أخذ منه السلطان أموالاً مصادرةً ونوى أداء الزكاة إليه، فعلى قول المشايخ المتأخرين يجوز. والصحيح أنه لا يجوز وبه يفتى؛ لأنه ليس للظالم ولاية أخذ الزكاة من الأموال الباطنة. اهـ.
أقول: يعني وإذا لم يكن له ولاية أخذها لم يصح الدفع إليه وإن نوى الدافع به التصدق عليه؛ لانعدام الاختيار الصحيح، بخلاف الأموال الظاهرة؛ لأنه لما كان له ولاية أخذ زكاتها لم يضر انعدام الاختيار ولذا تجزيه سواء نوى التصديق عليه أو لا، هذا، وفي مختارات النوازل: السلطان الجائر إذا أخذ الخراج يجوز، ولو أخذ الصدقات أو الجبايات أو أخذ مالا مصادرة إن نوى الصدقة عند الدفع قيل يجوز أيضا وبه يفتى، وكذا إذا دفع إلى كل جائر نية الصدقة؛ لأنهم بما عليهم من التبعات صاروا فقراء والأحوط الإعادة اهـ وهذا موافق لما صححه في المبسوط، وتبعه في الفتح، فقد اختلف التصحيح والإفتاء في الأموال الباطنة إذا نوى التصدق بها على الجائر وعلمت ما هو الأحوط.قلت: وشمل ذلك ما يأخذه المكاس؛ لأنه وإن كان في الأصل هو العاشر الذي ينصبه الإمام، لكن اليوم لاينصب لأخذ الصدقات بل لسلب أموال الناس ظلماً بدون حماية، فلاتسقط الزكاة بأخذه، كما صرح به في البزازية. فإذا نوى التصديق عليه كان على الخلاف المذكور (قوله: لأنهم بما عليهم إلخ) علة لقوله قبله: "الأصح الصحة"، وقوله: بما عليهم تعلق بقوله: فقراء۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 289)
میری تنخواہ سے اگر ٹیکس بھی کٹ جائے اچھا خاصا جو کے زکوۃ کی رقم سے بھی زیادہ ہو تو اس کے باوجود بھی مجھے زکوۃ دینی ہو گی کیا ؟
سائل:- سعادت ملتان پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
زکوٰۃ الگ چیز ہے اور ٹیکس الگ چیز ہے
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے اے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے مال سے زکوٰة قبول فرمائیں اور اس زکوٰة کے ساتھ ان کو پاک کردیں جبکہ ٹیکس کا نظام سوائے ناگزیر قومی ضرورت کے ٹیکسوں کے عموماً ظلم اور چوری کے مشابہ ہیں تو پھر اس مال کے ساتھ مزید عوام پر ظلم ڈھائے جاتے ہیں اس صورت میں ٹیکس کا نظام زکوة جسے اہم اسلامی نبوی فریضہ کے قائم مقام ہرگز نہیں ہوسکتا
زکاۃ عبادت ہے اس کا ٹیکس سے کوئی تعلق نہیں ٹیکس کوئی بھی حکومت اپنے اخراجات سامنے رکھ کر مخصوص قوانین کے مطابق عوام سے وصول کرتی ہے لہذا اگر زکاۃ واجب ہو تو ٹیکس دینے سے زکاۃ ادا نہیں ہوگی بلکہ اس کی ادائیگی علیحدہ سے کرنا ضروری ہے اور زکاۃ کی ادائیگی صحیح ہونے کے لیے کسی مستحقِ زکاۃ شخص کو مالک بناکر دینا ضروری ہے اس لیے ٹیکس کی مد میں کاٹی جانے والی رقم اگرچہ وہ جائز مصارف مثلاً تعمیرات اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں وغیرہ میں خرچ ہورہی ہو، تب بھی اس رقم کی ادائیگی کے وقت زکاۃ کی نیت سے دینے سے بھی زکاۃ ادا نہیں ہوگی البتہ زکاۃ کا سال مکمل ہونے تک جتنا ٹیکس واجب الادا ہو اتنی رقم کل سرمایہ سے منہا کرلی جائے اس کے بعد جو رقم بنیادی ضرورت سے زائد ہو اس پر زکات واجب ہوگی۔ اور ٹیکس کی جتنی مقدار کی ادائیگی فی الحال یعنی زکاۃ کا سال مکمل ہونے کے وقت تک لازم نہ ہوئی ہو، وہ منہا نہیں کی جائے گا۔
زکوة اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف سے عائد فریضہ ہے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان میں سے ایک رکن ہے جس کا تارک واجب القتل ہیں صحابہ اکرام رضی اللہ عنہ کا اس بات پر اجتماع ہے کہ ایسے شخص سے لڑائی کی جائے گی اور اگر وہ زکوٰة نہ دے تو اس کو قتل کردیا جائے گا اسی لئے عہدِ صدیقی اکبر میں منکرین زکوٰة کے خلاف باقاعدہ قتال ہوا جبکہ ٹیکس معروضی حالات میں وقتی طورپر لاگو کیا جاسکتا ہے پھر اس سے حاصل ہونے والی رقم کو امانت داری کے ساتھ امت اسلامیہ کی حفاظت یا بہبود کے لیے خرچ کیا جائے لیکن اگر اس کے بغیر گزارہ چلتا ہو تو پھر ٹیکس لگانا ظلم قرار پاتا ہے۔عہدِنبوت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ایک عورت نے بدکاری کرلی اس نے خود کو سزا کے لیے پیش کردیا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کو پتھر مار کر رجم کرنے کا حکم دیا اس کاخون حضرت خالد رضی اللہ عنہ پر بھی گرگیا انہوں نے اس عورت کے بارے میں برے الفاظ استعمال کئے تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا خالد رضی اللہ عنہ حوصلہ کرو اس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس لینے والا بھی ایسی توبہ کرے تو اس کو بھی بخش دیا جائے ۔ (صحیح مسلم سنن ابی داؤد)
فتاوی شامی میں ہے
قال في التنجيس والولوالجية: السلطان الجائر إذا أخذ الصدقات، قيل: إن نوى بأدائها إليه الصدقة عليه لايؤمر بالأداء ثانياً؛ لأنه فقير حقيقةً. ومنهم من قال: الأحوط أن يفتى بالأداء ثانياً، كما لو لم ينو؛ لانعدام الاختيار الصحيح، وإذا لم ينو، منهم من قال: يؤمر بالأداء ثانياً. وقال أبو جعفر: لا؛ لكون السلطان له ولاية الأخذ فيسقط عن أرباب الصدقة، فإن لم يضعها موضعها لايبطل أخذه، وبه يفتى، وهذا في صدقات الأموال الظاهرة، أما لو أخذ منه السلطان أموالاً مصادرةً ونوى أداء الزكاة إليه، فعلى قول المشايخ المتأخرين يجوز. والصحيح أنه لا يجوز وبه يفتى؛ لأنه ليس للظالم ولاية أخذ الزكاة من الأموال الباطنة. اهـ.
أقول: يعني وإذا لم يكن له ولاية أخذها لم يصح الدفع إليه وإن نوى الدافع به التصدق عليه؛ لانعدام الاختيار الصحيح، بخلاف الأموال الظاهرة؛ لأنه لما كان له ولاية أخذ زكاتها لم يضر انعدام الاختيار ولذا تجزيه سواء نوى التصديق عليه أو لا، هذا، وفي مختارات النوازل: السلطان الجائر إذا أخذ الخراج يجوز، ولو أخذ الصدقات أو الجبايات أو أخذ مالا مصادرة إن نوى الصدقة عند الدفع قيل يجوز أيضا وبه يفتى، وكذا إذا دفع إلى كل جائر نية الصدقة؛ لأنهم بما عليهم من التبعات صاروا فقراء والأحوط الإعادة اهـ وهذا موافق لما صححه في المبسوط، وتبعه في الفتح، فقد اختلف التصحيح والإفتاء في الأموال الباطنة إذا نوى التصدق بها على الجائر وعلمت ما هو الأحوط.قلت: وشمل ذلك ما يأخذه المكاس؛ لأنه وإن كان في الأصل هو العاشر الذي ينصبه الإمام، لكن اليوم لاينصب لأخذ الصدقات بل لسلب أموال الناس ظلماً بدون حماية، فلاتسقط الزكاة بأخذه، كما صرح به في البزازية. فإذا نوى التصديق عليه كان على الخلاف المذكور (قوله: لأنهم بما عليهم إلخ) علة لقوله قبله: "الأصح الصحة"، وقوله: بما عليهم تعلق بقوله: فقراء۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين (2 / 289)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
07/09/2023
07/09/2023