کیا شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ مقلد نہیں تھے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
شاہ ولی اللہ کسی مذہب کی تقلید نہیں کرتے تھے کیوں کہ اللہ نے ان کو بہت علم عطا کیا تھا اس وجہ سے آپ تقلید نہیں کرتے تھے اور ان کے مقلد ہونے کا کوئی ثبوت بھی نہیں ہے کیا یہ صحیح ہے رہنمائی فرمائیں
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
وعلیکم السلام و رحمتہ اللہ و برکاتہ
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
شاہ صاحب ، اپنی وسعت علم وقت نظر قوت استدلال ملکہ استنباط ، سلامت فہم صفائی قلب ، اتباع سنت جمع بین العلم و العمل و غیرہ کمالات ظاہری و باطنی کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اپنے لیے تقلید کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس کے با وجود فرماتے ہیں:
استفدت منہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثلاثہ امور خلاف مکان عندی وما کانت طبعی تمیل الیہ اشد میل فصارت ھذہ الاستفادہ من براھین الحق تعالی علی احدھا الوصاتہ بترک الالتفات الی التسب ، و ثانیھا الوصاتہ بالتقلید بھذہ المذھب الا ربع لا اخراج منھا و التوفیق ما استطعت و جبلتی تابی التقلید و تانف منہ راسا ولکن شئ طلب منی التعبد بہ بخلاف نفسی و ھھنا نکتہ طویت ذکرھا وقد تفطنت بحمداللہ ھذہ الحیلتہ و ھذہ الوصاتہ۔،
میں نے اپنے عندیہ اور اپنے شدید میلان طبع کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے تین تین امور استفادہ کۓ تو یہ استفادہ میرے لیے برہان حق بن گیا ۔، ان میں سے ایک تو اس بات کی وصیت تھی کی میں اسباب کی طرف سے توجہ ترک کردوں، اور دوسری یہ تھی کہ میں مذاہب اربع کا اپنے آپ کو پابند کروں اور ان سے نہ نکلوں اور تابا مکان تطبیق و توفیق کروں لیکن یہ ایسی چیز تھی جو میری طبیعت کے خلاف مجھ سے بطور تعبد طلب کی
گئ تھی اور یہاں پر ایک نکتہ ہے جسے میں نے ذکر نہیں کیا اور الحمد للہ مجھے اس حیلہ اور اس وصیت کا بھید معلوم ہو گیا ہے معلوم ہوا آپ کی طبیعت اور جبلت کے خلاف نبی علیہ السلام کی جانب سے آپکو تقلید کرنے پر مامور کیا گیا اور دائرہ تقلید سے خارج ہونے سے منع کیا گیا لیکن کسی خاص مذہب کو معین نہیں کیا گیا بلکہ مذاہب اربعہ میں دائرہ منحصر رکھا گیا البتہ مذاہب اربعہ کی تحقیق و تفتیش اور چھان بین کے بعد جب ترجیح کا وقت آیا اور اس کی جستجو کے لیے آپ کی روح مضطرب ہوئی تو دربار رسالت سے اس طور پر رہنمائی ہوئی ۔۔ عرفنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذھب الحنفی طریقہ انیقہ ھی ادق الطرق بالسنتہ المعروفتہ التی ،ای الامام و صحابیہ، قول اقربھم بھا فی المسئلتہ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفین الذین کانوں ا من علماء الحدیث فرب شئ سکت عنہ الثلاثتہ فی الاصول وما یعرضو انفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ و الکل مذھب حنفی،،
نبی علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ مذھب حنفی میں ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جو دوسروں طریقہ کی بہ نسبت اس سنت مشہورہ کے زیادہ موافق ہے، جس کی تدوین اور تنقیح امام بخاری اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں ہوئی اور وہ یہ ہے کہ
ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ ابو یوسف اور امام محمد ، سے جس کا قول سنت معروفہ سے قریب تر ہو لے لیا جاۓ پھر اس کے بعد ان فقہاء حنفیہ کی پیروی کی جاۓ جو فقیہ ہونے کے ساتھ حدیث کے بھی عالم تھے۔ کیونکہ بہت سے ایسے مسائل ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اصول میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہا اور نفی بھی نہیں کی لیکن احادیث انہیں بتلا رہی ہیں تو لازمی طور پر اس کو تسلیم کیا جاۓگا اور یہ سب مذہب حنفی ہی ہے
اس عبارت سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے شاہ ولی اللہ دربار رسالت سے کس مذہب کی طرف رہنمائی کی گئ، نیز سارے مذاہب میں کون اوفق بالسنتہ المعروفہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ مذہب حنفی ہے، جیسا کی فیوض الحرمین کی اس عبارت سے معلوم ہوا تو بلا شبہ شاہ صاحب کے نزدیک وہی قابل ترجیح اور لائق اتباع ہے،
(فیوض الحرمین )
خدا بخش لائبریری پٹنہ میں بخاری شریف کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے، جو شاہ صاحب کے درس میں رہا۔ اس میں اپ کے تلمیذ محمد بن پیر محمد بن شیخ ابو الفتح نے پڑھا ہے تلمیذ مذکور نے درس بخاری کے ختم کی تاریخ 6 شوال 1159 ھ لکھی ہے، اور جمنا کے قریب جامع فیروزی میں ختم ہونا لکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنے دست مبارک سے اپنی سند امام بخاری تک تحریر فرماکر تلمیذ مذکور کے لیے سند اجازت تحدیث لکھی اور آخر میں اپنے نام کے ساتھ یہ کلمات تحریر فرماۓ۔
الجواب اللھم ھدایۃ الحق الصواب :-
شاہ صاحب ، اپنی وسعت علم وقت نظر قوت استدلال ملکہ استنباط ، سلامت فہم صفائی قلب ، اتباع سنت جمع بین العلم و العمل و غیرہ کمالات ظاہری و باطنی کی نعمتوں سے مالا مال ہونے کی وجہ سے اپنے لیے تقلید کی ضرورت نہیں سمجھتے تھے اس کے با وجود فرماتے ہیں:
استفدت منہ صلی اللہ علیہ وسلم، ثلاثہ امور خلاف مکان عندی وما کانت طبعی تمیل الیہ اشد میل فصارت ھذہ الاستفادہ من براھین الحق تعالی علی احدھا الوصاتہ بترک الالتفات الی التسب ، و ثانیھا الوصاتہ بالتقلید بھذہ المذھب الا ربع لا اخراج منھا و التوفیق ما استطعت و جبلتی تابی التقلید و تانف منہ راسا ولکن شئ طلب منی التعبد بہ بخلاف نفسی و ھھنا نکتہ طویت ذکرھا وقد تفطنت بحمداللہ ھذہ الحیلتہ و ھذہ الوصاتہ۔،
میں نے اپنے عندیہ اور اپنے شدید میلان طبع کے خلاف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
سے تین تین امور استفادہ کۓ تو یہ استفادہ میرے لیے برہان حق بن گیا ۔، ان میں سے ایک تو اس بات کی وصیت تھی کی میں اسباب کی طرف سے توجہ ترک کردوں، اور دوسری یہ تھی کہ میں مذاہب اربع کا اپنے آپ کو پابند کروں اور ان سے نہ نکلوں اور تابا مکان تطبیق و توفیق کروں لیکن یہ ایسی چیز تھی جو میری طبیعت کے خلاف مجھ سے بطور تعبد طلب کی
گئ تھی اور یہاں پر ایک نکتہ ہے جسے میں نے ذکر نہیں کیا اور الحمد للہ مجھے اس حیلہ اور اس وصیت کا بھید معلوم ہو گیا ہے معلوم ہوا آپ کی طبیعت اور جبلت کے خلاف نبی علیہ السلام کی جانب سے آپکو تقلید کرنے پر مامور کیا گیا اور دائرہ تقلید سے خارج ہونے سے منع کیا گیا لیکن کسی خاص مذہب کو معین نہیں کیا گیا بلکہ مذاہب اربعہ میں دائرہ منحصر رکھا گیا البتہ مذاہب اربعہ کی تحقیق و تفتیش اور چھان بین کے بعد جب ترجیح کا وقت آیا اور اس کی جستجو کے لیے آپ کی روح مضطرب ہوئی تو دربار رسالت سے اس طور پر رہنمائی ہوئی ۔۔ عرفنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان فی المذھب الحنفی طریقہ انیقہ ھی ادق الطرق بالسنتہ المعروفتہ التی ،ای الامام و صحابیہ، قول اقربھم بھا فی المسئلتہ ثم بعد ذلک یتبع اختیارات الفقھاء الحنفین الذین کانوں ا من علماء الحدیث فرب شئ سکت عنہ الثلاثتہ فی الاصول وما یعرضو انفیہ ودلت الاحادیث علیہ فلیس بد من اثباتہ و الکل مذھب حنفی،،
نبی علیہ السلام نے مجھے بتایا کہ مذھب حنفی میں ایک ایسا عمدہ طریقہ ہے جو دوسروں طریقہ کی بہ نسبت اس سنت مشہورہ کے زیادہ موافق ہے، جس کی تدوین اور تنقیح امام بخاری اور ان کے اصحاب کے زمانہ میں ہوئی اور وہ یہ ہے کہ
ائمہ ثلاثہ یعنی امام ابو حنیفہ ابو یوسف اور امام محمد ، سے جس کا قول سنت معروفہ سے قریب تر ہو لے لیا جاۓ پھر اس کے بعد ان فقہاء حنفیہ کی پیروی کی جاۓ جو فقیہ ہونے کے ساتھ حدیث کے بھی عالم تھے۔ کیونکہ بہت سے ایسے مسائل ہیں کہ ائمہ ثلاثہ نے اصول میں ان کے متعلق کچھ نہیں کہا اور نفی بھی نہیں کی لیکن احادیث انہیں بتلا رہی ہیں تو لازمی طور پر اس کو تسلیم کیا جاۓگا اور یہ سب مذہب حنفی ہی ہے
اس عبارت سے بخوبی واضح ہوجاتی ہے شاہ ولی اللہ دربار رسالت سے کس مذہب کی طرف رہنمائی کی گئ، نیز سارے مذاہب میں کون اوفق بالسنتہ المعروفہ ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ مذہب حنفی ہے، جیسا کی فیوض الحرمین کی اس عبارت سے معلوم ہوا تو بلا شبہ شاہ صاحب کے نزدیک وہی قابل ترجیح اور لائق اتباع ہے،
(فیوض الحرمین )
خدا بخش لائبریری پٹنہ میں بخاری شریف کا ایک قلمی نسخہ موجود ہے، جو شاہ صاحب کے درس میں رہا۔ اس میں اپ کے تلمیذ محمد بن پیر محمد بن شیخ ابو الفتح نے پڑھا ہے تلمیذ مذکور نے درس بخاری کے ختم کی تاریخ 6 شوال 1159 ھ لکھی ہے، اور جمنا کے قریب جامع فیروزی میں ختم ہونا لکھا ہے۔ حضرت شاہ صاحب نے اپنے دست مبارک سے اپنی سند امام بخاری تک تحریر فرماکر تلمیذ مذکور کے لیے سند اجازت تحدیث لکھی اور آخر میں اپنے نام کے ساتھ یہ کلمات تحریر فرماۓ۔
العمری نسبا، الدھلوی وطنا، الاشعری عقیدتہ، الصوفی طریقتہ الحنفی عملا، والشافعی تدریسا، خادم التفسیر والحدیث ، والفقہ والعربیتہ والکلام۔
اس تحریر کے نیچے شاہ رفع الدین صاحب دہلوی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ،، بیشک یہ تحریر بالامیر میرے والد محترم کے قلم کی لکھی ہوئی یے، نیز شاہ عالم کی مہر بھی بطور تصدیق ثبت ہے۔
اس تحریر کے نیچے شاہ رفع الدین صاحب دہلوی نے یہ عبارت لکھی ہے کہ،، بیشک یہ تحریر بالامیر میرے والد محترم کے قلم کی لکھی ہوئی یے، نیز شاہ عالم کی مہر بھی بطور تصدیق ثبت ہے۔
________(❤️)_________
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
واللہ ورسولہ اعلم بالصواب
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
کتبہ:- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد دانش حنفی
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی
ہلدوانی نینیتال
ہلدوانی نینیتال
9917420179