•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
"ایک وہم کا ازالہ"
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
"قسط اول"
"برائے کرم اس پوسٹ کو کوئی شخص اپنے اوپر قیاس نہ کریں کیونکہ یہ ایک وہم کا ازالہ ہے آج کل جو جس کو چاہتا ہے کافر، مرتد اور فاسق بغیر شرعی ثبوت کے بغیر پختہ دلیل کے بغیر اتمام حجت کے صرف شک وشبہ کی بنیاد پر یا حسد کی بنیاد پر یا اپنی شہرت حاصل کرنے کی بنیاد پر بلکہ بات بات پر حکم کفر و ارتداد دے دیتا ہے اور اس کو نہیں معلوم کہ ہر علم والے پر علم والا ہے ایسے مفتیان کرام کے لئے بطور زجر و تنبیہ ہے کہ آئندہ کفر کی مشین پر تالا لگا کر رکھے اور کسی پر حکم لگانے سے پہلے اس سے اتمام حجت کریں اور اس تحریر یا قول کے تمام احکام پر غور کریں۔
"کہ اگر اس میں کوئی ضعیف سے ضعیف نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں یعنی حکم؛ کفر و ارتداد کا نہ دیں بلکہ مسلمان ہونے کا ہی حکم دیا جائے ۔
اسی میں سب کی بھلائی ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے صرف اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی بنیاد پر کافر و مرتد کا حکم نہیں فرمایا جب کہ اس کے تمام کلمات کفریہ ہیں اس کے باوجود کف لسانی کا حکم دیا اور یزید لعین کا ظلم وستم اہل بیت کے ساتھ مشہور و معروف ہے پھر بھی صحیح تحقیق نہ پانے کی وجہ سے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ قدس سرہ نے حکم کفر نہیں لگایا بلکہ پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کف لسانی کا حکم دیا کیونکہ حکم کفر لگانے کے لئے ثبوت کافی نہیں تھا جبکہ ہمارے دوسرے ائمہ نے کفر کا حکم دیا لیکن ہمارے امام کف لسانی کا حکم دیا اسی لئے حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"کیوں کہ اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا".(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 184)
اور آج کچھ مفتیان کرام حکم تکفیر کی مشین گن کو چوبیس گھنٹہ تانے ہوئے ہیں کہ کون ہیں جو میری بات کو نہیں مانتا اتنی سی بات پر حکم کفر وارتداد لگا دیتا ہے جبکہ ابھی اسے کافر اور مرتد کی پہچان بھی نہیں ہوئی ہے اور ان صاحب کے ایک دو حواری ہوتے ہیں جو نفس پرست ہوتے ہیں وہ ان کی غلامی میں جی حضور جی حضور کہتے رہتے ہیں اور بے چارے جی حضوری کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور وہ بھی اس زد میں آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں سے محبت و اتفاق اٹھا لیا گیا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک بات پھیلی ہوئی ہے کہ بریلی کے علما سب کو خواہ مخواہ کافر کہ دیتے ہیں اسی لئے پڑھے لکھے لوگ الگ ہوجاتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے اس تحریر کو لکھا گیا ہے
"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بریلی والے معمولی معمولی باتوں پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے اس کو لکھا جارہا ہے".
(1)."کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو".
(2).".اگر کسی نے بغیر پختہ ثبوت کے کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو کافر اور مرتد کہا وہ خود کافر اور مرتد ہوگیا اس پر توبہ،تجدید ایمان و تجدید نکاح تجدید بیعت سب لازم ہے اسے امام بنانا جائز نہیں. نہ خود اس کی نماز ، نماز ہے نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز درست. اور نہ اس کا کوئی حکم نافذ بلکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ پہلے اس سے توبہ و تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا مطالبہ کریں .اگر یہ سب کرے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے میل جول سلام کلام سب بند کردیں".
(3).*کسی سنی مسلمان کو کوئی شخص تصادم کی وجہ سے یا بطور سب و شتم وہابی کہا اس پر حکم کفر نہیں ہاں اگر کسی سنی صحیح العقیدہ کو اعتقادا وہابی کہا تو حکم کفر ہوگا ورنہ نہیں
الجواب ۔
"سنی کو وہابی کہنا کیسا ہے"..؟
"کیا سنی مسلمان کو وہابی یا دیوبندی کہنے والا ہر حال میں کافر ہوجائے گا یا نہیں۔".؟
الجواب ۔سنی کو سب و شتم کے طور پر وہابی کہا تو اس پر حکم کفر نہیں ۔ہاں اگر اعتقادا کہا تو کفر کا حکم ہوگا ۔
۔حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
زید نے اگر بکر ،عمر ،خالد کو وہابی دیوبندی بہ نیت سب و شتم کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر ان سنیوں کو وہابی دیوبندی اعتقاد کر کے ان کو وہابی دیوبندی کہا ہے تو زید خود کافر ہے (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 375)
پھر ص 377 پر ہے کہ اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر کافر اعتقاد کرکے کہا ہے تو خود کافر (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 377)
پھر ایک سوال ہوا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تصادم کی وجہ سے کافر کہے تو کیا حکم ہے ؟
اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر اس نے مسلمان کو گالی گلوج کے طور پر کافر کہا ہے جیسا کہ سوال میں ظاہر ہے تو کہنے والا گنہگار ہوا ۔کافر نہ ہوا ۔اور اگر اس نے اعتقاد کرکے کافر کہا ہے تو کہنے والا خود کافر ہے
"قسط اول"
"برائے کرم اس پوسٹ کو کوئی شخص اپنے اوپر قیاس نہ کریں کیونکہ یہ ایک وہم کا ازالہ ہے آج کل جو جس کو چاہتا ہے کافر، مرتد اور فاسق بغیر شرعی ثبوت کے بغیر پختہ دلیل کے بغیر اتمام حجت کے صرف شک وشبہ کی بنیاد پر یا حسد کی بنیاد پر یا اپنی شہرت حاصل کرنے کی بنیاد پر بلکہ بات بات پر حکم کفر و ارتداد دے دیتا ہے اور اس کو نہیں معلوم کہ ہر علم والے پر علم والا ہے ایسے مفتیان کرام کے لئے بطور زجر و تنبیہ ہے کہ آئندہ کفر کی مشین پر تالا لگا کر رکھے اور کسی پر حکم لگانے سے پہلے اس سے اتمام حجت کریں اور اس تحریر یا قول کے تمام احکام پر غور کریں۔
"کہ اگر اس میں کوئی ضعیف سے ضعیف نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں یعنی حکم؛ کفر و ارتداد کا نہ دیں بلکہ مسلمان ہونے کا ہی حکم دیا جائے ۔
اسی میں سب کی بھلائی ہے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے صرف اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی بنیاد پر کافر و مرتد کا حکم نہیں فرمایا جب کہ اس کے تمام کلمات کفریہ ہیں اس کے باوجود کف لسانی کا حکم دیا اور یزید لعین کا ظلم وستم اہل بیت کے ساتھ مشہور و معروف ہے پھر بھی صحیح تحقیق نہ پانے کی وجہ سے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ قدس سرہ نے حکم کفر نہیں لگایا بلکہ پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کف لسانی کا حکم دیا کیونکہ حکم کفر لگانے کے لئے ثبوت کافی نہیں تھا جبکہ ہمارے دوسرے ائمہ نے کفر کا حکم دیا لیکن ہمارے امام کف لسانی کا حکم دیا اسی لئے حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"کیوں کہ اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا".(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 184)
اور آج کچھ مفتیان کرام حکم تکفیر کی مشین گن کو چوبیس گھنٹہ تانے ہوئے ہیں کہ کون ہیں جو میری بات کو نہیں مانتا اتنی سی بات پر حکم کفر وارتداد لگا دیتا ہے جبکہ ابھی اسے کافر اور مرتد کی پہچان بھی نہیں ہوئی ہے اور ان صاحب کے ایک دو حواری ہوتے ہیں جو نفس پرست ہوتے ہیں وہ ان کی غلامی میں جی حضور جی حضور کہتے رہتے ہیں اور بے چارے جی حضوری کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور وہ بھی اس زد میں آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں سے محبت و اتفاق اٹھا لیا گیا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک بات پھیلی ہوئی ہے کہ بریلی کے علما سب کو خواہ مخواہ کافر کہ دیتے ہیں اسی لئے پڑھے لکھے لوگ الگ ہوجاتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے اس تحریر کو لکھا گیا ہے
"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بریلی والے معمولی معمولی باتوں پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے اس کو لکھا جارہا ہے".
(1)."کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو".
(2).".اگر کسی نے بغیر پختہ ثبوت کے کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو کافر اور مرتد کہا وہ خود کافر اور مرتد ہوگیا اس پر توبہ،تجدید ایمان و تجدید نکاح تجدید بیعت سب لازم ہے اسے امام بنانا جائز نہیں. نہ خود اس کی نماز ، نماز ہے نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز درست. اور نہ اس کا کوئی حکم نافذ بلکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ پہلے اس سے توبہ و تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا مطالبہ کریں .اگر یہ سب کرے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے میل جول سلام کلام سب بند کردیں".
(3).*کسی سنی مسلمان کو کوئی شخص تصادم کی وجہ سے یا بطور سب و شتم وہابی کہا اس پر حکم کفر نہیں ہاں اگر کسی سنی صحیح العقیدہ کو اعتقادا وہابی کہا تو حکم کفر ہوگا ورنہ نہیں
الجواب ۔
"سنی کو وہابی کہنا کیسا ہے"..؟
"کیا سنی مسلمان کو وہابی یا دیوبندی کہنے والا ہر حال میں کافر ہوجائے گا یا نہیں۔".؟
الجواب ۔سنی کو سب و شتم کے طور پر وہابی کہا تو اس پر حکم کفر نہیں ۔ہاں اگر اعتقادا کہا تو کفر کا حکم ہوگا ۔
۔حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
زید نے اگر بکر ،عمر ،خالد کو وہابی دیوبندی بہ نیت سب و شتم کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر ان سنیوں کو وہابی دیوبندی اعتقاد کر کے ان کو وہابی دیوبندی کہا ہے تو زید خود کافر ہے (فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 375)
پھر ص 377 پر ہے کہ اگر سب وشتم اور زجر کے طور پر کہا ہے تو گنہگار ہے اور اگر کافر اعتقاد کرکے کہا ہے تو خود کافر (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 377)
پھر ایک سوال ہوا کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو تصادم کی وجہ سے کافر کہے تو کیا حکم ہے ؟
اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ اگر اس نے مسلمان کو گالی گلوج کے طور پر کافر کہا ہے جیسا کہ سوال میں ظاہر ہے تو کہنے والا گنہگار ہوا ۔کافر نہ ہوا ۔اور اگر اس نے اعتقاد کرکے کافر کہا ہے تو کہنے والا خود کافر ہے
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 379)
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریر سے واضح ہوا کہ کسی سنی کو تصادم یعنی باہم ٹکراؤ ( تصادم بمعنی باہم ٹکرانا ۔ٹکڑ ہونا فیروز الغات ص 362) کی وجہ سے دیوبندی کہ دینے سے قائل کافر نہیں کہا جائے گا ۔
حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"نمازوں کے بعد سلام پڑھنا بلاشبہ جائز و مستحسن ہے اور باعث اجر و ثواب ۔کسی وقت بھی سلام پڑھا جائے ۔یہ اللہ عزوجل کے ارشاد "یایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما "کے مطابق باعث اجر وثواب ہے ۔لیکن اگر کوئی فرض نماز کے بعد اسے جائز و مستحسن سمجھتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں پڑھتا وہ کافر نہیں ۔اسے کافر کہنا حرام و گناہ ہے بلکہ ایک تقدیر پر اسے کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے".
"اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ذہن نشین کرلیا جائے کہ صلوۃ وسلام سے منع کرنا یہ وہابیوں،دیوبندیوں کی خاص نشانی ہے ۔صلوۃ و سلام سے صرف وہابی ، دیوبندی ہی منع کرتے ہیں ۔کوئی سنی صلوۃ وسلام سے منع نہیں کرتا ۔اس لئے صلاۃ وسلام سے منع کرنا وہابی دیوبندی ہونے کی علامت ہے"
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریر سے واضح ہوا کہ کسی سنی کو تصادم یعنی باہم ٹکراؤ ( تصادم بمعنی باہم ٹکرانا ۔ٹکڑ ہونا فیروز الغات ص 362) کی وجہ سے دیوبندی کہ دینے سے قائل کافر نہیں کہا جائے گا ۔
حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"نمازوں کے بعد سلام پڑھنا بلاشبہ جائز و مستحسن ہے اور باعث اجر و ثواب ۔کسی وقت بھی سلام پڑھا جائے ۔یہ اللہ عزوجل کے ارشاد "یایھا الذین آمنوا صلوا علیہ وسلموا تسلیما "کے مطابق باعث اجر وثواب ہے ۔لیکن اگر کوئی فرض نماز کے بعد اسے جائز و مستحسن سمجھتا ہے اور کسی وجہ سے نہیں پڑھتا وہ کافر نہیں ۔اسے کافر کہنا حرام و گناہ ہے بلکہ ایک تقدیر پر اسے کافر کہنے والا خود کافر ہوجاتا ہے".
"اس کے ساتھ یہ بھی ضرور ذہن نشین کرلیا جائے کہ صلوۃ وسلام سے منع کرنا یہ وہابیوں،دیوبندیوں کی خاص نشانی ہے ۔صلوۃ و سلام سے صرف وہابی ، دیوبندی ہی منع کرتے ہیں ۔کوئی سنی صلوۃ وسلام سے منع نہیں کرتا ۔اس لئے صلاۃ وسلام سے منع کرنا وہابی دیوبندی ہونے کی علامت ہے"
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 456.457)
ان سب وجہوں سے کوئی شخص اسے دیوبندی کہتا ہے تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا۔ کیونکہ آج کل یہ سب چیزیں سنی بریلی کی پہچان ہے
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
اس لئے صلوۃ وسلام سے منع کرنا وہابی ، دیوبندی ہونے کی علامت ہے۔اگر یہاں یہی قصد ہو تو اگر کسی نے منع کرنے والے کو اس بنا پر کافر کہا کہ وہ وہابی دیوبندی ہے تو اس نے صحیح ہی کہا ۔اس لئے کہ وہابی دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر ہے اس شخص نے منع کرنے والے کو صلوۃ وسلام سے منع کرنے کی بنا پر وہابی دیوبندی نہیں کہا ۔بلکہ صلوۃ وسلام سے منع کرنے سے اس نے یہ سمجھا کہ یہ وہابی دیوبندی ہے ۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 457)
اس سے ثابت ہوا کہ کسی کو صلوۃ وسلام سے منع کرنے کی وجہ سے شک کی بنیاد پر دیوبندی سمجھا یعنی شک کیا تو وہ اس شک کی بنیاد پر کافر نہ کہلائے گا جیسا کہ حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی مسلمان کو کافر کہنے کا حکم بہت سخت ہے ۔حدیث میں ہے ' جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا اور واقع میں وہ کافر نہیں تو کہنے والے پر کفر لوٹ آتا ہے۔ فقہا فرماتے ہیں : اگر کسی مسلمان بھائی کو اعتقاد کرکے کافر کہا تو کہنے والا کافر ہے ۔اور اگر گالی کے طور پر کہا تو وہ گنہگار ہے اور تعزیر کا مستحق ہے
ان سب وجہوں سے کوئی شخص اسے دیوبندی کہتا ہے تو کہنے والا کافر نہیں ہوگا۔ کیونکہ آج کل یہ سب چیزیں سنی بریلی کی پہچان ہے
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ۔
اس لئے صلوۃ وسلام سے منع کرنا وہابی ، دیوبندی ہونے کی علامت ہے۔اگر یہاں یہی قصد ہو تو اگر کسی نے منع کرنے والے کو اس بنا پر کافر کہا کہ وہ وہابی دیوبندی ہے تو اس نے صحیح ہی کہا ۔اس لئے کہ وہابی دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر ہے اس شخص نے منع کرنے والے کو صلوۃ وسلام سے منع کرنے کی بنا پر وہابی دیوبندی نہیں کہا ۔بلکہ صلوۃ وسلام سے منع کرنے سے اس نے یہ سمجھا کہ یہ وہابی دیوبندی ہے ۔
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 457)
اس سے ثابت ہوا کہ کسی کو صلوۃ وسلام سے منع کرنے کی وجہ سے شک کی بنیاد پر دیوبندی سمجھا یعنی شک کیا تو وہ اس شک کی بنیاد پر کافر نہ کہلائے گا جیسا کہ حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ۔
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی مسلمان کو کافر کہنے کا حکم بہت سخت ہے ۔حدیث میں ہے ' جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا اور واقع میں وہ کافر نہیں تو کہنے والے پر کفر لوٹ آتا ہے۔ فقہا فرماتے ہیں : اگر کسی مسلمان بھائی کو اعتقاد کرکے کافر کہا تو کہنے والا کافر ہے ۔اور اگر گالی کے طور پر کہا تو وہ گنہگار ہے اور تعزیر کا مستحق ہے
(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 368)
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا۔
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا۔
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 184)
کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے
کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 156)
"میرے احباب اس تحریر پر خوب غور فرمائیں کہ کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے".
"اتمام بمعنی تمام کرنا. انجام کو پہنچنا. کمال تکمیل اتمام حجت"
"حجت کا پورا ہونا ۔فیصلہ کن بات ۔آخری دلیل۔ معاملہ طے کرنا۔ جھگڑا مٹانا ۔ انتہائی کوشش کرنا" (فیروز اللغات ص 64)
دیکھا اتمام حجت یعنی فیصلہ کن بات یعنی اس شخص سے تمام پہلو پر تمام اشکال پر تمام دلائل پر بحث کرکے اس کے قول اور تحریر کی بابت نیت معلوم کرکے ہر طرح سے حجت قائم کرکے اور ہر احتمال سے کفر کا پہلو نکلے تب جاکر حکم کفر دیا جائے ورنہ نہیں اس طرح حجت کی جائے کہ اس کے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہے لیکن آج کل اتمام حجت کیا تحریر دیکھا اور فورا کفر کا حکم دے دیا جاتا ہے نہ کوئی حجت ۔نہ کوئی سوال و جواب اور فورا کفر کا فتویٰ دیا جاتا ہے یہ فتویٰ قابل قبول نہیں اس سے پرہیز لازم ہے اور بغیر اتمام حجت کے کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا ۔
مسئلہ اصل میں یوں ہے کہ اگر کسی نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا کام کیا جس کے سو پہلو ہوں اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے سو بات نہیں، بات صرف ایک ہے اور اس میں پہلو سو ہیں ۔ ان سو پہلوؤں میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہیں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ۔اگرچہ وہ اسلام کا پہلو خفی ہو ۔اس ایک ایسی بات کہنے والے کے بارے میں محققین متکلمین و فقہا یہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو کافر نہ کہا جائے۔
اگر کسی بات میں مختلف پہلو ہوں اور ایک پہلو ایسا ہو جو کفر نہیں اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اس معنی کا لحاظ کرے اور ایسے قائل کی تکفیر نہ کرے ۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 391)
*ہاں دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں ۔کسی کو دیوبندی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اعتقاد کرکے دیوبندی کہا ۔درمختار میں ہے ۔
عزر الشاتم بیا کافر ۔وھل یکفر ۔ان اعتقد المسلم کافرا نعم و الا لا یعنی اے کافر کہ کر گالی دینے والے کو سزا دی جائے گی اور کیا وہ کافر ہو جائے گا ؟ ہاں ! اگر مسلمان کا کافر اعتقاد کرے ورنہ نہیں۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 412)
ہندیہ میں ہے کہ المختار للفتوی فی جنس ھذہ المسائل ان القائل یمثل ھذہ المقالات ان کان اراد الشتم ولا یعتقدہ کافرا لا یکفر وان کان یعتقدہ کافرا فخاطبہ بھذا بناء علی اعتقادہ انہ کافر یکفر یعنی اس قسم کے مسائل میں فتوی اس پر ہے کہ ایسی بات کہنے والے نے اگر گالی کا قصد کیا ہے ۔کافر اعتقاد نہیں کیا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔اور اگر اس نے اپنے اعتقاد کی بنا پر کہ وہ کافر ہے ۔اور اپنے مخاطب کا کافر اعتقاد کرکے کافر کہا تو قائل کی تکفیر کی جائے گی (عالمگیری جلد دوم ص 268)
الحاصل : کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو بلا شرعی گرفت کے اسے کافر اور مرتد کہا تو یہ کفر اس پر لوٹ جائے گا اور وہ تجدید ایمان و نکاح تجدید بیعت و خلافت کریں ۔
"کسی مسلمان کے کفر کا حکم کرنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو"
"میرے احباب اس تحریر پر خوب غور فرمائیں کہ کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے".
"اتمام بمعنی تمام کرنا. انجام کو پہنچنا. کمال تکمیل اتمام حجت"
"حجت کا پورا ہونا ۔فیصلہ کن بات ۔آخری دلیل۔ معاملہ طے کرنا۔ جھگڑا مٹانا ۔ انتہائی کوشش کرنا" (فیروز اللغات ص 64)
دیکھا اتمام حجت یعنی فیصلہ کن بات یعنی اس شخص سے تمام پہلو پر تمام اشکال پر تمام دلائل پر بحث کرکے اس کے قول اور تحریر کی بابت نیت معلوم کرکے ہر طرح سے حجت قائم کرکے اور ہر احتمال سے کفر کا پہلو نکلے تب جاکر حکم کفر دیا جائے ورنہ نہیں اس طرح حجت کی جائے کہ اس کے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہے لیکن آج کل اتمام حجت کیا تحریر دیکھا اور فورا کفر کا حکم دے دیا جاتا ہے نہ کوئی حجت ۔نہ کوئی سوال و جواب اور فورا کفر کا فتویٰ دیا جاتا ہے یہ فتویٰ قابل قبول نہیں اس سے پرہیز لازم ہے اور بغیر اتمام حجت کے کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا ۔
مسئلہ اصل میں یوں ہے کہ اگر کسی نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا کام کیا جس کے سو پہلو ہوں اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے سو بات نہیں، بات صرف ایک ہے اور اس میں پہلو سو ہیں ۔ ان سو پہلوؤں میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہیں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ۔اگرچہ وہ اسلام کا پہلو خفی ہو ۔اس ایک ایسی بات کہنے والے کے بارے میں محققین متکلمین و فقہا یہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو کافر نہ کہا جائے۔
اگر کسی بات میں مختلف پہلو ہوں اور ایک پہلو ایسا ہو جو کفر نہیں اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اس معنی کا لحاظ کرے اور ایسے قائل کی تکفیر نہ کرے ۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 391)
*ہاں دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہیں ۔کسی کو دیوبندی کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اسے اعتقاد کرکے دیوبندی کہا ۔درمختار میں ہے ۔
عزر الشاتم بیا کافر ۔وھل یکفر ۔ان اعتقد المسلم کافرا نعم و الا لا یعنی اے کافر کہ کر گالی دینے والے کو سزا دی جائے گی اور کیا وہ کافر ہو جائے گا ؟ ہاں ! اگر مسلمان کا کافر اعتقاد کرے ورنہ نہیں۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 412)
ہندیہ میں ہے کہ المختار للفتوی فی جنس ھذہ المسائل ان القائل یمثل ھذہ المقالات ان کان اراد الشتم ولا یعتقدہ کافرا لا یکفر وان کان یعتقدہ کافرا فخاطبہ بھذا بناء علی اعتقادہ انہ کافر یکفر یعنی اس قسم کے مسائل میں فتوی اس پر ہے کہ ایسی بات کہنے والے نے اگر گالی کا قصد کیا ہے ۔کافر اعتقاد نہیں کیا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔اور اگر اس نے اپنے اعتقاد کی بنا پر کہ وہ کافر ہے ۔اور اپنے مخاطب کا کافر اعتقاد کرکے کافر کہا تو قائل کی تکفیر کی جائے گی (عالمگیری جلد دوم ص 268)
الحاصل : کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو بلا شرعی گرفت کے اسے کافر اور مرتد کہا تو یہ کفر اس پر لوٹ جائے گا اور وہ تجدید ایمان و نکاح تجدید بیعت و خلافت کریں ۔
"کسی مسلمان کے کفر کا حکم کرنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو"
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 472)
اب اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چاہیئے جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو اور کسی کی تحریر میں یا قول میں اس طرح کا ثبوت نہیں ہے اور بغیر شرعی ثبوت کے اسے کافر و مرتد جس نے کہا ہےکفر اس پر لوٹ جائے گا اور یہی فقہائے کرام کا بھی فتوی ہے۔
"کسی مسلمان کو کافر کہا تو کیا حکم ہوگا".
کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت بھی کفر ہے اس لئے کہ اسے کافر بنانے کے مترادف ہے حدیث شریف میں ۔
"من قال لآخیہ یا کافر فقد باء بھا باحدھما"یعنی جس نے کسی مسلم بھائی کو کافر کہا تو یہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ گیا ۔
یعنی کسی کو کافر و مرتد کہا وہ اگر کافر و مرتد ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجایے گا (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 493 بحوالہ مسلم شریف)
جس کے کلمات میں تاویل ممکن ہے اس کی تکفیر کرنا مناسب نہیں ۔جیسا کہ شامی میں ہے
"ولکن یمکن التاویل فینبغی ان کان یکفر". یعنی چونکہ تاویل ممکن ہے اس لئے اب تکفیر کرنا مناسب نہیں (شامی جلد 6 ص368)
درمختار میں ہے کہ
"لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ". یعنی کسی مسلم کے کافر ہونے کا فتویٰ اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے کلام کو کسی اچھے معنی پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اگرچہ کسی ضعیف روایت ہی کی وجہ سے ہو
اب اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چاہیئے جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو اور کسی کی تحریر میں یا قول میں اس طرح کا ثبوت نہیں ہے اور بغیر شرعی ثبوت کے اسے کافر و مرتد جس نے کہا ہےکفر اس پر لوٹ جائے گا اور یہی فقہائے کرام کا بھی فتوی ہے۔
"کسی مسلمان کو کافر کہا تو کیا حکم ہوگا".
کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت بھی کفر ہے اس لئے کہ اسے کافر بنانے کے مترادف ہے حدیث شریف میں ۔
"من قال لآخیہ یا کافر فقد باء بھا باحدھما"یعنی جس نے کسی مسلم بھائی کو کافر کہا تو یہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ گیا ۔
یعنی کسی کو کافر و مرتد کہا وہ اگر کافر و مرتد ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجایے گا (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 493 بحوالہ مسلم شریف)
جس کے کلمات میں تاویل ممکن ہے اس کی تکفیر کرنا مناسب نہیں ۔جیسا کہ شامی میں ہے
"ولکن یمکن التاویل فینبغی ان کان یکفر". یعنی چونکہ تاویل ممکن ہے اس لئے اب تکفیر کرنا مناسب نہیں (شامی جلد 6 ص368)
درمختار میں ہے کہ
"لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ". یعنی کسی مسلم کے کافر ہونے کا فتویٰ اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے کلام کو کسی اچھے معنی پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اگرچہ کسی ضعیف روایت ہی کی وجہ سے ہو
(درمختار جلد 7 ص 367)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"فرض قطعی ہے کہ اہل قبلہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف ۔نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں ۔اور اس کے سوا ہر گز احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں"
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"فرض قطعی ہے کہ اہل قبلہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف ۔نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں ۔اور اس کے سوا ہر گز احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں"
(فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں (فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
یعنی کوئی شخص کسی کے کلمات میں احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف گیا تو وہ اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرنے والا ہے جبکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
الاسلام یعلو ولا یعلی یعنی اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا
احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں (فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
یعنی کوئی شخص کسی کے کلمات میں احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف گیا تو وہ اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرنے والا ہے جبکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
الاسلام یعلو ولا یعلی یعنی اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا
(فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
لہذا کسی مسلم کو کافر اور مرتد کہنے سے بچنا لازم کیونکہ کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو اگر اس کے قول یا تحریر میں حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اسی پر فتویٰ دیا جائے اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانب کفر جاتے ہو اس پر خیال نہ لائیں بلکہ مسلمان کہا جائیں لیکن آج کل کفر کی مشین گن جیب میں رکھ کر گھومتے ہیں اور جس پر چاہے کفر و ارتداد کی گولی چلاکر فتویٰ دے دیا جاتا ہے کہ فلاں کافر و مرتد ہو گیا ۔جبکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں"
لہذا کسی مسلم کو کافر اور مرتد کہنے سے بچنا لازم کیونکہ کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو اگر اس کے قول یا تحریر میں حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اسی پر فتویٰ دیا جائے اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانب کفر جاتے ہو اس پر خیال نہ لائیں بلکہ مسلمان کہا جائیں لیکن آج کل کفر کی مشین گن جیب میں رکھ کر گھومتے ہیں اور جس پر چاہے کفر و ارتداد کی گولی چلاکر فتویٰ دے دیا جاتا ہے کہ فلاں کافر و مرتد ہو گیا ۔جبکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں"
(فتاوی رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
اس فتوی میں معتدد مرتبہ احتمال کا استعمال ہوا تو یہ احتمال کیا ہے تو سنئے احتمال بمعنی شک شبہ ۔وہم ۔گمان ۔جمع احتمالات ۔احتمالی قانونی ۔قانون کی رو سے کوئی گمان یا قیاس ( فیروز اللغات ص 72)
ردالمحتار جلد 6 کے حوالہ سے ہے کہ
تحقیق مشائخ نے مسئلہ تکفیر کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا ہوتو اولی یہ ہے کہ مفتی اور قاضی اس کو نفی کفر کے احتمال پر محمول کرے
اور فتاوی خلاصہ و جامع المفصولین و محیط وفتاویٰ عالمگیری وغیرہا میں ہے ۔
"اگر مسئلہ میں متعدد وجوہ موجب کفر ہوں اور فقط ایک تکفیر سے مانع ہو تو مفتی و قاضی پر لازم ہے کہ اسی وجہ کی طرف میلان کرے اور مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے اس کے کفر کا فتویٰ نہ دے پھر اگر درحقیقت قائل کی نیت میں وہی وجہ ہے جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان ہے ورنہ مفتی و قاضی کا کلام کو اس وجہ پر محمول کرنا جو موجب تکفیر نہیں ہے .قائل کو کچھ نفع نہ دے گا"
اسی طرح بزازیہ ۔بحر الرائق و مجمع الانہر وحدیقہ ندیہ میں ہے ۔تارتارخانیہ وبحر وسل الحسام وتنبیہ الولاۃ وغیرہا میں ہے ۔
*لایکفر بالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ و مع الاحتمال لانھایۃ*.یعنی احتمال کے ہوتے ہوئے تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ کفر انتہائی سزا ہے جو انتہائی جرم کا مقتضی ہے اور احتمال کی موجودگی میں انتہائی جرم نہ ہوا
پھر بحر الرائق وتنویر الابصار وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے
"والذی تحر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن".یعنی جس نے ایسے مسلمان کی تکفیر کا فتویٰ دینے سے اجتناب کیا جس کے کلام کا تاویل ممکن ہے ۔اس نے اچھا کیا (شرح بہار شریعت جلد نہم ص 398.399)
اور حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔کلمہ کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضروری نہیں (بہار شریعت جلد نہم ص )
"کسی نے کسی پر بلاوجہ کفر کا فتویٰ دیا تو خود کافر ہوگیا."
اس فتوی میں معتدد مرتبہ احتمال کا استعمال ہوا تو یہ احتمال کیا ہے تو سنئے احتمال بمعنی شک شبہ ۔وہم ۔گمان ۔جمع احتمالات ۔احتمالی قانونی ۔قانون کی رو سے کوئی گمان یا قیاس ( فیروز اللغات ص 72)
ردالمحتار جلد 6 کے حوالہ سے ہے کہ
تحقیق مشائخ نے مسئلہ تکفیر کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا ہوتو اولی یہ ہے کہ مفتی اور قاضی اس کو نفی کفر کے احتمال پر محمول کرے
اور فتاوی خلاصہ و جامع المفصولین و محیط وفتاویٰ عالمگیری وغیرہا میں ہے ۔
"اگر مسئلہ میں متعدد وجوہ موجب کفر ہوں اور فقط ایک تکفیر سے مانع ہو تو مفتی و قاضی پر لازم ہے کہ اسی وجہ کی طرف میلان کرے اور مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے اس کے کفر کا فتویٰ نہ دے پھر اگر درحقیقت قائل کی نیت میں وہی وجہ ہے جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان ہے ورنہ مفتی و قاضی کا کلام کو اس وجہ پر محمول کرنا جو موجب تکفیر نہیں ہے .قائل کو کچھ نفع نہ دے گا"
اسی طرح بزازیہ ۔بحر الرائق و مجمع الانہر وحدیقہ ندیہ میں ہے ۔تارتارخانیہ وبحر وسل الحسام وتنبیہ الولاۃ وغیرہا میں ہے ۔
*لایکفر بالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ و مع الاحتمال لانھایۃ*.یعنی احتمال کے ہوتے ہوئے تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ کفر انتہائی سزا ہے جو انتہائی جرم کا مقتضی ہے اور احتمال کی موجودگی میں انتہائی جرم نہ ہوا
پھر بحر الرائق وتنویر الابصار وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے
"والذی تحر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن".یعنی جس نے ایسے مسلمان کی تکفیر کا فتویٰ دینے سے اجتناب کیا جس کے کلام کا تاویل ممکن ہے ۔اس نے اچھا کیا (شرح بہار شریعت جلد نہم ص 398.399)
اور حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔کلمہ کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضروری نہیں (بہار شریعت جلد نہم ص )
"کسی نے کسی پر بلاوجہ کفر کا فتویٰ دیا تو خود کافر ہوگیا."
(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 442)
یعنی کسی نے کسی قول پر یا کسی تحریر پر یا کسی تقریر پر بغیر اتمام حجت کئے بغیر ہر احتمال پر بحث کئے بغیر سوچے سمجھے کفر کا فتوی لگا دیا تو کفر اسی پر لوٹ آئے گا۔
اسے تجدید ایمان و نکاح اور تجدید بیعت اور تجدید خلافت مطلق سب کرنا لازم
اور کسی کو کسی جگھڑا کی بنیاد یا بحث کی بنیاد یا کوئی بغیر تحقیقی بات یا پھر اس کے ہر پہلو پر غور کرنے سے پہلے کسی مسلم پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں اور جس پر لگایا اگر وہ اس کے مستحق نہیں پھر وہ کفر لوٹ آئے گا فتویٰ لگانے والے پر
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :-: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
یعنی کسی نے کسی قول پر یا کسی تحریر پر یا کسی تقریر پر بغیر اتمام حجت کئے بغیر ہر احتمال پر بحث کئے بغیر سوچے سمجھے کفر کا فتوی لگا دیا تو کفر اسی پر لوٹ آئے گا۔
اسے تجدید ایمان و نکاح اور تجدید بیعت اور تجدید خلافت مطلق سب کرنا لازم
اور کسی کو کسی جگھڑا کی بنیاد یا بحث کی بنیاد یا کوئی بغیر تحقیقی بات یا پھر اس کے ہر پہلو پر غور کرنے سے پہلے کسی مسلم پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں اور جس پر لگایا اگر وہ اس کے مستحق نہیں پھر وہ کفر لوٹ آئے گا فتویٰ لگانے والے پر
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :-: حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی مرپاوی سیتا مڑھی بہار
5 صفر المظفر 1445
مطابق 27 اگست 2023
5 صفر المظفر 1445
مطابق 27 اگست 2023
الجواب صحیح
نفس جواب صحیح ہے مندرجہ ذیل وضاحت کے ساتھ۔
اگر زید نے بکر کو جھگڑے میں وہابی کہا مگر بکر کو لگا اعتقادا مجھے کافر کہا اس کے جواب میں بکر نے کہا مجھے وہابی کہنے کی وجہ سے تم کافر ہو پھر اگر زید وضاحت کردے کہ میں نے اعتقادا نہیں کہا
پھر بکر کہے میں اس شرط پر کافر کہا کہ مجھے اعتقادا وہابی دیوبندی کہا اب جب شرط نہیں تو مشروط بھی نہیں اگر بکر وضاحت کردے تو بات مسموع ہوگی
بہار شریعت میں ہے
اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنیٔ کفر کا ارادہ کیا مَثَلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی ہے تو کلام کا مُحْتَمَل ہونا نفع نہ دیگا ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر ہونا ضَرور نہیں ۔( بہارِ شریعت ج ۹ ص ۱۷۳)
یعنی جب قائل سے کفریہ الفاظ صادر اور ثابت بھی ہوجا ئے پھر بھی اسے کافر نہیں کہی گے تاآنکہ قائل خود اس کا اقرار نہ کرے۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
نفس جواب صحیح ہے مندرجہ ذیل وضاحت کے ساتھ۔
اگر زید نے بکر کو جھگڑے میں وہابی کہا مگر بکر کو لگا اعتقادا مجھے کافر کہا اس کے جواب میں بکر نے کہا مجھے وہابی کہنے کی وجہ سے تم کافر ہو پھر اگر زید وضاحت کردے کہ میں نے اعتقادا نہیں کہا
پھر بکر کہے میں اس شرط پر کافر کہا کہ مجھے اعتقادا وہابی دیوبندی کہا اب جب شرط نہیں تو مشروط بھی نہیں اگر بکر وضاحت کردے تو بات مسموع ہوگی
بہار شریعت میں ہے
اگر معلوم ہو کہ قائل نے معنیٔ کفر کا ارادہ کیا مَثَلاً وہ خود کہتا ہے کہ میری مُراد یہی ہے تو کلام کا مُحْتَمَل ہونا نفع نہ دیگا ۔ یہاں سے معلوم ہوا کہ کلمہ کے کفر ہونے سے قائل کا کافِر ہونا ضَرور نہیں ۔( بہارِ شریعت ج ۹ ص ۱۷۳)
یعنی جب قائل سے کفریہ الفاظ صادر اور ثابت بھی ہوجا ئے پھر بھی اسے کافر نہیں کہی گے تاآنکہ قائل خود اس کا اقرار نہ کرے۔
والله ورسوله أعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
24/08/2023
24/08/2023