Type Here to Get Search Results !

کیا جس کی سیلری 8000 روپئے ہو وہ زکوٰۃ لے سکتی ہے ؟

 (سوال نمبر 4407)
کیا جس کی سیلری 8000 روپئے ہو وہ زکوٰۃ لے سکتی ہے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ  
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک بچی ہے وہ ایک مدرسے میں پڑتی ہے تعلیم حاصل کرتی ہے مدرسے میں اور وہاں پہ وہ پڑھاتی بھی ہے اس کی سیلری 8 ہزار روپے وہاں سے ملتی ہے اور اس کے پاس ایک انگوٹھی ہے سونے کی اور اس کے والدین مزدوری کرتے ہیں وہ گھر کا خرچہ اس کے والدین بل وغیرہ جو ہوتا ہے وہ ادا کرتے ہیں تو ایا کہ وہ لڑکی زکوۃ لے سکتی ہے اپنے ماموں سے یا اپنے کسی اور رشتہ دار سے یا نفلی صدقہ لے سکتی ہے برائے مہربانی مدلل جواب ارشاد فرمائیے جزاکم اللہ خیرا  
سائل:- کامران گجرات پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 
نفلی صدقہ لے سکتی ہے زکات نہیں لے سکتی ہے اہل زکوٰۃ وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ کے 
اللہ کا فرمان ہے 
اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ وَ فِی الرِّقَابِ وَ الْغٰرِمِیْنَ وَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِؕ(ترجمہ کنزالايمان)
زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار اور جو اسے تحصيل کرکے لائيں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے اور گردنيں چھوڑانے ميں اور قرضداروں کو اوراللہ کی راہ ميں اور مسافر کو ۔(التوبۃ:۹ / ۶۰)
الفقراء فقیر کی جمع ہے جسکے پاس اپنی ضرورت گھروالوں کی ضرورت یعنی کھانا پینا کپٹرے اور مکان وغیرہ کیلئے کچھ نہ ہو تو اسے زكات میں سے اتنا دیا جائے گا جو اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک سال تک کافی ہو۔
المساکین مسکین کی جمع ہے جسکے پاس اپنی ضرورت کا آدھا ہو یا اس سے زیادہ ہو مثلاً اس کے پاس سو روپے ہوں اور وہ دو سو کا محتاج ہو تو زكات سے اسکو اتنا دیا جائے گا جو اس کے لیے اور اس کے گھر والوں کے لیے ایک سال تک کافی ہو
البتہ اگر سخت ضرورت ہے اور مالک نصاب نہیں تو بقدر ضرورت ماموں سے یا کسی رشتے دار سے زکات لے سکتی ہے 
جبکہ سخت ضرورت ہو اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر رقم نہیں ہے اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی اگر کسی کے پاس کچھ زیور اور ضرورت سے زائد کچھ نقدی ہو تو اگر دونوں کی قیمت ملاکر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر بنتی ہے تو اس کو زکاۃ دینا جائز نہیں ہے اگر اس سے کم قیمت بنتی ہے اس کو زکاۃ دینا جائز ہوگا۔پر ایسے شخص کو لینا مناسب نہیں۔
یاد رہے اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کو زکات دینا جائز نہیں ہے۔ اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلًا بھائی، بہن، چاچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد کو زکاۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکات ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے؛ اس لیے کہ اس میں زکات کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، اسی طرح بہو اور داماد کو بھی زکات دینا جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے
لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصاباً أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضاً للتجارة أو لغير التجارة فاضلاً عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي، والشرط أن يكون فاضلاً عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحاً مكتسباً، كذا في الزاهدي. .......ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب، كذا في الهداية ۔ ويجوز الدفع إلى من عداهم من بني هاشم كذرية أبي لهب؛ لأنهم لم يناصروا النبي صلى الله عليه وسلم، كذا في السراج الوهاج. هذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة، فأما التطوع فيجوز الصرف إليهم، كذا في الكافي''۔ 
(1/189، باب المصرف، کتاب الزکاة)
علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر مرغينانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ متوفی ۵۹۳ھ فرماتے ہيں (الأصل فيہ قولہ تَعَالٰی (اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰكِیْنِ) الآيۃ، فہذہ ثمانيۃ أصناف، وقد سقط منھا المؤلفۃ قلوبھم،لأن اللہ تَعَالٰی أعزّ الإسلام وأغنی عنھم) وعلی ذلک انعقد الإجماع (والفقير من لہ أدنی شيئ، والمسکين من لا شيء لہ) وھذا مروي عن أبي حنيفۃ رحمہ اللہ؛ وقد قيل علی العکس.
يعنی، مصارفِ زکاۃ ميں اصل (دليل)اللہ تَعَالٰی کا فرمان ہے زکوٰۃ تو انہيں لوگوں کے لئے ہے محتاج اور نرے نادار(کنزالايمان) 
تو يہ آٹھ مصارف ہيں اور ان مصارف سے اَلْمُؤَلَّفَةِ قُلُوْبُهُمْ، يعنی، جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے، ساقط ہوگيا کيونکہ اللہ تَعَالٰی نے اسلام کو عزّت بخشی اور ان لوگوں سے غنی فرماديا اور اسی پر اجماع ہے۔
فقير وہ ہے جس کے پاس ادنی چيز ہو اور مسکين وہ ہے جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو، يہ فرمان امام اعظم ابو حنيفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے جبکہ (فقير و مسکين کی تعريف ميں) اس کے برعکس بھی فرماياگيا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
12/9/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area