Type Here to Get Search Results !

جب مختلف فیہ مسائل میں ہم کسی بھی مفتی کے قول پر عمل کر سکتے ہیں تو ائمہ ثلاثہ کے مسائل پر عمل کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟

 (سوال نمبر 4413)
 جب مختلف فیہ مسائل میں ہم کسی بھی مفتی کے قول پر عمل کر سکتے ہیں تو ائمہ ثلاثہ کے مسائل پر عمل کیوں نہیں کر سکتے ہیں؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ 
مفتی صاحب کی بارگاہ میں سوال ہمارے اکابر حضرات میں بہت سے مسائل میں اختلاف ہے تو اگر کوئی شخص ان اکابر کے مسئلے کو فولو کرتا ہے جن کے نزدیک ٹرین میں نماز نہیں ہوتی تو کیا وہ شخص ارجنٹ وقت میں ان اکابر کے مسئلہ پر عمل کر سکتا ہے جن کے نزدیک ٹرین میں نماز ہو جاتی ہے۔مع دلائل کے جواب عنایت فرمائیں۔
اور اگر ایسا کرنا جائز ہے تو ائمہ اربع میں سے جس امام کے مسئلہ پر چاہے عمل کیو نہیں کر سکتے۔؟
سائلہ:- شاہین شہر مکرانہ انڈیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل 

مفتان کرام کے مابین جو مسائل میں اختلاف ہے جس کا اپ نے ذکر کیا مثلا 
١/ چین کی گھڑی ٢/ لاؤڈ اسپیکر پر نماز ٣/ ڈیجٹل تصاویر و ویڈیوز ٤/ چلتی ٹرین میں نماز، ٥/ قربانی کا بکرا وزن کر کے خریدنا، ٦/ خواتین کے لئے سونا چاندی کے علاوہ دیگر دھاتوں سے بنی ہوئی آرٹیفشل جیولری،
٧/ مزارات پر خواتیں کا جانا 
٨/ صاحب نصاب کا میت کے نام سے قربانئ دینا وغیرہم 
یہ سب فروعی مسائل ہیں آپ کسی پر بھی عمل کر سکتے ہیں عند الشرع گناہ نہیں چونکہ یہ فروعی مسائل ہیں 
اور ائمہ اربعہ کے جو اختلافات ہیں وہ اصول میں اختلافات ہیں اس لیے حنفی بلاوجہ شرعی دیگر ائمہ ثلاثہ کے احکام پر عمل نہیں کر سکتے ۔
ائمہ اربعہ کے مسائل 
اصولی ہیں قیاسی واجتہادی نہیں کما لا یخفی علی عالم۔
جب کسی مسئلہ میں علماء کے فتوے مختلف ہو جائیں تو مقدور بھر تحقیق کرنے کے بعد جس عالم کو علم اور تقویٰ میں دوسروں سے زیادہ اور افضل سمجھیں اس کا اتباع کریں اور دوسرے علماء کو برا بھلا کہتے نہ پھریں
ماہر مفتی کا انتخاب اور در صورت اختلاف ان میں سے اس شخص کے فتوے کو ترجیح دینا جو اس کے نزدیک علم اور تقویٰ میں سب سے زیادہ ہو یہ کام ہر صاحب معاملہ کے ذمہ خود لازم ہے اس کا کام یہ تو نہیں کہ علماء کے فتووں میں کسی فتوے کو ترجیح دے لیکن یہ اسی کا کام ہے کہ مفتیوں اور علماء میں سے جس کو اپنے نزدیک علم اور دیانت کے اعتبار سے زیادہ افضل جانتا ہے اس کے فتوے پر عمل کرے مگر دوسرے علماء اور مفتیوں کو برا کہتا نہ پھرے
واضح رہے حنفی مفتیان کرام کا اختلاف الگ ہے اور ائمہ اربعہ کا اختلاف الگ ہے ۔
بیک وقت چاروں کے مسلک پر عمل ہو نہیں سکتا مثلاً جسم سے خون کا نکلنا ایک امام مجتہد کے نزدیک قرآن و حدیث کی روشنی میں ناقض وضوء ہے دوسرے امام مجتہد کے نزدیک ناقض وضوء نہیں ہے اگر کسی شخص کے جسم سے خون نکلا تو اسے کیا حکم دیا جائے گا؟ وہ شخص وضوء کرے یا نہ کرے؟ اور اگر کوئی شخص یہ کہے کہ کسی وقت ایک امام کی تقلید کو اختیار کروں گا اور دوسرے وقت دوسرے کی تقلید کرلوں گا تو اس سے تشہّی یعنی نفس پرستی کا دروازہ کھلتا ہے مثلاً ایک شخص نے وضوء کیا اور اس کے جسم سے خون نکل گیا اس سے کہا گیا وضوء کرو اس نے کہا میں اس مسئلہ میں امام شافعی رحمہ اللہ کا مقلد ہوں ان کے نزدیک نہیں ٹوٹتا پھر اس نے مسّ مرأة کرلیا کسی عورت کو چھو لیا اس سے کہا گیا کہ وضوء کرو اس لئے کہ امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک مسّ مرأة ناقض وضوء ہے اُس نے کہا میں اس مسئلہ میں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا مقلد ہوں ان کے نزدیک اس سے وضوء نہیں ٹوٹتا ایسی حالت میں اگر یہ بغیر وضوء کئے نماز پڑھے گا تو کسی کے نزدیک بھی اس کی نماز درست نہ ہوگی پھر اس کا نفس ذرا ذرا سے بہانوں سے پٹری بدلنے کا حکم دے گا مثلاً تقلید کرتے تھے امام شافعی رحمہ اللہ کی اور وضوء کے بعد بیوی کو چھو لیا سردی کا زمانہ ہے سوچا کہ چلو آج امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی اس مسئلہ میں تقلید اختیار کئے لیتے ہیں یہ شریعت اور دین پر عمل نہ ہوگا؛ بلکہ ہواوٴ ہوس کا اتباع ہوجائے گا
حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں فإذا کان إنسان جاہل فی بلاد الہند وبلاد ماوراء النہر ولیس ہناک عالم شافعي ولا مالکي ولا حنبلي ولا کتاب من کتب ہذہ المذاہب وجب علیہ أن یقلد لمذہب أبي حنیفة ویحرم علیہ أن یخرج من مذہبہ بأنہ حینئذ یخلع من عنقہ ربقة الإسلام ویبقی سدی مہملاً (انصاف: ۷۰) 
جب کوئی جاہل عامی انسان 
ہندوستان اور ماوراء النہر کے شہروں میں ہو (کہ جہاں مذہب حنفی پر ہی زیادہ تر عمل ہوتا ہے) اور وہاں کوئی شافعی، مالکی اور حنبلی عالم نہ ہو اور نہ ان مذاہب کی کوئی کتاب ہو تو اس وقت اس پر واجب ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مذہب کی تقلید کرے اور اس پر حرام ہے کہ حنفی مذہب کو ترک کردے کیونکہ اس صورت میں شریعت کی رسی اپنی گردن سے نکال پھینکنا ہے اور مہمل وبیکار بن جانا ہے۔
یاد رہے چاروں امام امام ابوحنیفہ امام مالک امام شافعی اورامام احمد بن حنبل رَضِیَ اللہُ عَنْھُمْ اَجْمَعِیْن حق پر ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک امام کی پیروی اس لئے ضروری ہے کہ اگر ایسا نہ ہو تو ہر شخص اپنے نفس کی پیروی کرے گا اور جب دل چاہے گا جس امام کا مسئلہ آسان اور نفس کی خواہش کے مطابق اسے محسوس ہوگا اس پر عمل کرلے گااور یہ شریعتِ مطہرہ کا مذاق اڑانا ہے کیونکہ بہت سے مسائل ایسے ہیں کہ بعض ائمّہ کے نزدیک حلال اور وہی مسائل بعض ائمّہ کے نزدیک حرام ہیں اور یہ نفس کا پیرو کارصبح ایک امام کی پیروی کرتے ہوئے ایک مسئلہ کو حرام سمجھ کراس لئے عمل نہ کرے گا کہ اس میں اس کے نفس کا مفاد نہیں ہے اور جب شام کو بلکہ اسی لمحے اس میں اپنا مفاد نظر آئے گاتو دوسرے امام کا مذہب اختیار کرتے ہوئے اسی مسئلہ کو اپنے لئے حلال کر لے گا اور اس طرح فقط خواہشِ نفس کی بنیاد پر احکامِ شرعیہ کو کھیل بناکر پامال کرتا پھرے گا اس لئے انسان کو خواہشِ نفس پر عمل کرنے کے بجائے دین وشریعت پر عمل کرنے کیلئے کسی ایک امام مجتہد کا مُقلّد ہونا ضروری ہے ورنہ وہ فلاح وہدایت ہرگز نہ پاسکے گا۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
13_09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area