(سوال نمبر 2161)
حیض سے پاکی کے بعد غسل کب کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماءکرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق
کہ اگر کسی کو حیض چھ دن آتا ہو یعنی چھٹے دن کے نصف تک تو چھٹے دن ہی غسل کریں گی اور روزے کے بارے میں کیا حکم ؟
سحری سے پہلے غسل کرنا ہوگا ؟؟
رہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائلہ: مریم شہر بھیرہ گروپ دینی معلومات شرعی سوال و جواب بھیرہ شریف پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
جب چھ دن حیض کی عادت ہو اور چھٹے دن حیض آنا بند ہوجائے تو چھٹے دن ہی غسل کرکے نماز اداکرے گی اور آج کا اور جتنے دن روزہ نہ رکھ سکی اتنے دن کے روزہ کی قضا کرے گی نماز کی نہیں
واضح رہے کہ جب کوئی عورت ماہواری سے پاک ہوجائے اور پاکی کی علامت ظاہر ہوجائے اور وہ وقت کسی نماز کا بھی ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ غسل کرکے نماز کا وقت نکلنے سے قبل تکبیر تحریمہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے تو اس وقت کی نماز اس عور ت پر لازم ہوجائے گی، اور اس نماز کی بعد میں قضا کرنی ہوگی اور اگر غسل کرکے اتنا وقت باقی ہو کہ سہولت سے وقت کے اندر مکمل نماز عورت ادا کرسکتی ہے اس صورت میں اسی وقت پاکی حاصل کرکے نماز ادا کرنا ضروری ہے، اب غسل کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ حیض کے دنوں کی گنتی کرنا عورت پر لازم ہے؛ تاکہ پاکی اور ناپاکی کے احکام کا لحاظ رکھ کر جس وقت غسل فرض ہو اس کا اہتمام کرے کہ اسی پر عورت کی نمازوں کا دارومدار ہے
کما فی الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة
(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل ) ولبس الثياب ( والتحريمة ) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها حتى لو طهرت في وقت العيد لا بد أن يمضي وقت الظهر كما في السراج وهل تعتبر التحريمة في الصوم الأصح لا وهي من الطهر مطلقا وكذا الغسل لو لأكثره وإلا فمن الحيض فتقضي إن بقي بعد الغسل والتحريمة ولو لعشرة فقدر التحريمة فقط لئلاتزيد أيامه على عشرة فليحفظ ( و ) وطؤها ( يكفر مستحله ) كما جزم به غير واحد
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 295)
کما فی حاشية رد المحتار على الدر المختار
(قوله: ولو لعشرة الخ) أي ولو انقطع لعشرة فتقضي الصلاة إن بقي قدر التحريمة فقط، و الحاصل أن زمن الغسل من الحيض لو انقطع لأقله لأنها إنما تطهر بعد الغسل فإذا أدركت من آخر الوقت قدر ما يسع الغسل فقط لم يجب عليها قضاء تلك الصلاة لأنها لم تخرج من الحيض في الوقت بخلاف ما إذا كان يسع التحريمة أيضًا؛ لأن التحريمة من الطهر فيجب القضاء۔
(حاشية رد المختار على الدر المختار - (1 / 297)
والله ورسوله اعلم بالصواب
حیض سے پاکی کے بعد غسل کب کرے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں علماءکرام و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے متعلق
کہ اگر کسی کو حیض چھ دن آتا ہو یعنی چھٹے دن کے نصف تک تو چھٹے دن ہی غسل کریں گی اور روزے کے بارے میں کیا حکم ؟
سحری سے پہلے غسل کرنا ہوگا ؟؟
رہنمائی فرما دیں
جزاک اللہ خیرا کثیرا
سائلہ: مریم شہر بھیرہ گروپ دینی معلومات شرعی سوال و جواب بھیرہ شریف پاکستان
.....................................
نحمده و نصلي على رسوله الأمين
وعليكم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالى عز وجل
جب چھ دن حیض کی عادت ہو اور چھٹے دن حیض آنا بند ہوجائے تو چھٹے دن ہی غسل کرکے نماز اداکرے گی اور آج کا اور جتنے دن روزہ نہ رکھ سکی اتنے دن کے روزہ کی قضا کرے گی نماز کی نہیں
واضح رہے کہ جب کوئی عورت ماہواری سے پاک ہوجائے اور پاکی کی علامت ظاہر ہوجائے اور وہ وقت کسی نماز کا بھی ہو اور اس بات کا امکان ہو کہ غسل کرکے نماز کا وقت نکلنے سے قبل تکبیر تحریمہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے تو اس وقت کی نماز اس عور ت پر لازم ہوجائے گی، اور اس نماز کی بعد میں قضا کرنی ہوگی اور اگر غسل کرکے اتنا وقت باقی ہو کہ سہولت سے وقت کے اندر مکمل نماز عورت ادا کرسکتی ہے اس صورت میں اسی وقت پاکی حاصل کرکے نماز ادا کرنا ضروری ہے، اب غسل کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
یاد رہے کہ حیض کے دنوں کی گنتی کرنا عورت پر لازم ہے؛ تاکہ پاکی اور ناپاکی کے احکام کا لحاظ رکھ کر جس وقت غسل فرض ہو اس کا اہتمام کرے کہ اسی پر عورت کی نمازوں کا دارومدار ہے
کما فی الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة
(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل ) ولبس الثياب ( والتحريمة ) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها حتى لو طهرت في وقت العيد لا بد أن يمضي وقت الظهر كما في السراج وهل تعتبر التحريمة في الصوم الأصح لا وهي من الطهر مطلقا وكذا الغسل لو لأكثره وإلا فمن الحيض فتقضي إن بقي بعد الغسل والتحريمة ولو لعشرة فقدر التحريمة فقط لئلاتزيد أيامه على عشرة فليحفظ ( و ) وطؤها ( يكفر مستحله ) كما جزم به غير واحد
(الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (1 / 295)
کما فی حاشية رد المحتار على الدر المختار
(قوله: ولو لعشرة الخ) أي ولو انقطع لعشرة فتقضي الصلاة إن بقي قدر التحريمة فقط، و الحاصل أن زمن الغسل من الحيض لو انقطع لأقله لأنها إنما تطهر بعد الغسل فإذا أدركت من آخر الوقت قدر ما يسع الغسل فقط لم يجب عليها قضاء تلك الصلاة لأنها لم تخرج من الحيض في الوقت بخلاف ما إذا كان يسع التحريمة أيضًا؛ لأن التحريمة من الطهر فيجب القضاء۔
(حاشية رد المختار على الدر المختار - (1 / 297)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و
٥/٤/٢٠٢٢
٣ رمضان المبارك
٥/٤/٢٠٢٢
٣ رمضان المبارك