Type Here to Get Search Results !

فقہا حکم کفر و ارتداد لگانے میں کافی احتیاط فرماتے ہیں قسط اول

•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
 "قسط اول"
"فقہا حکم کفر و ارتداد لگانے میں کافی احتیاط فرماتے ہیں"
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
محقق مسائل کثیرہ ،مفتی آعظم بہار حضرت مفتی محمد ثناء اللہ خان ثناء القادری مرپاوی
یہ مضمون تین قسطوں میں ہے اور پھر ایک قسط سوال اور جواب کے طرز پر ہوگا".
"ایک وہم کا ازالہ".
"قسط اول"
یہ مضمون ایک وہم کا ازالہ ہے آج کل جو جس کو چاہتا ہے کافر ،مرتد اور فاسق ؛ بغیر شرعی ثبوت کے بغیر پختہ دلیل کے یا حسد کی بنیاد پر یا اپنی شہرت حاصل کرنے کی بنیاد پر بلکہ بات بات پر حکم کفر و ارتداد لگا دیتا ہے اور اس کو نہیں معلوم کہ ہر علم والے پر علم والا ہے ایسے مفتیان کرام کے لئے متنبہ کیا جا رہا ہے کہ آئندہ کفر کی مشین گن پر تالا لگا کر رکھیں اور کسی پر حکم لگانے سے پہلے اس سے اتمام حجت کرلیں اور اس تحریر یا قول کے تمام پہلوؤں پر غور کریں۔
"کہ اگر اس میں کوئی ضعیف سے ضعیف نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں یعنی حکم کفر و ارتداد نہ دیں بلکہ مسلمان ہونے کا ہی حکم دیا جائے".
آج یہ مسلک حق اہل سنت وجماعت کچھ مفتیان کرام کی وجہ سے بدنام ہورہا ہے ایک سنی دوسرے سنی کو زبردستی کافر اور مرتد بنارہا ہے ۔ کیا اسے یہ بھی معلوم نہیں کہ کفر پلٹتا بھی ہے اگر آپ نے کسی پر بغیر تحقیقات کے کافر اور مرتد کا حکم لگا دیا اولا تو وہ حکم نافذ ہی نہ ہوگا کیونکہ وہ آپ سے شرعی ضابطہ کے تحت ثبوت طلب کرے گا کہ کس دلیل سے کس عبارت سے کس قول سے یہ فتویٰ دیا گیا اگر آپ پختہ ثبوت پیش نہیں کرتے تو خود وہ سب حکم آپ پر فورا لوٹ آئے گا۔ ابھی آپ مسلمان تھے اور کسی ایک غلطی سے آپ کافر ہوگئے اس لئے کفر و ارتداد کا فتویٰ دینے کے لئے بہت علم و گہرائیٔ فکر کی ضرورت ہے ۔
  سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اسماعیل دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی بنیاد پر کافر و مرتد کا حکم نہیں فرمایا جب کہ اس کے تمام کلمات کفریہ ہیں اس کے باوجود کف لسانی کا حکم اختیار کیا اور اسی طرح یزید لعین کا ظلم وستم اہل بیت کے ساتھ مشہور و معروف ہے پھر بھی صحیح تحقیق نہ پانے کی وجہ سے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ قدس سرہ نے حکم کفر نہیں لگایا بلکہ پختہ ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کف لسانی کا حکم دیا کیونکہ حکم کفر لگانے کے لئے ثبوت کافی نہیں تھا جبکہ ہمارے دوسرے ائمہ نے کفر کا حکم دیا لیکن ہمارے امام کف لسانی کا حکم دیا اسی لئے حضور شارح بخاری حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
"کیوں کہ اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا".(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 184)
اور آج کچھ مفتیان کرام حکم تکفیر کی مشین گن کو چوبیس گھنٹہ تانے ہوئے ہیں کہ کون ہیں جو میری بات کو نہیں مانتا لہذا اس پر حکم کفر و ارتداد لگا دیتا ہے جبکہ ابھی اسے کافر اور مرتد کی پہچان بھی نہیں ہوئی ہے اور ان صاحب کے ایک دو حواری ہوتے ہیں جو نفس پرست ہوتے ہیں وہ ان کی غلامی میں جی حضور جی حضور کہتے رہتے ہیں اور بے چارے جی حضوری کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں اور وہ بھی اس زد میں آجاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم لوگوں سے محبت واتفاق اٹھا لیا گیا ہے اور ہمارے معاشرے میں ایک بات یہ بھی پھیلائی گئی ہے کہ بریلی کے علما سب کو خواہ مخواہ کافر بناتے ہیں اسی لئے پڑھے لکھے لوگ الگ ہوجاتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے اس تحریر کو لکھنے کا شرف حاصل کیا۔
(1).."کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بریلی والے معمولی معمولی باتوں پر کفر کا فتویٰ دیتے ہیں اسی وہم کو دور کرنے کے لئے فقیر قادری کو یہ مضمون لکھنے کا شرف حاصل ہوا".
کافر اور مرتد کہنے میں احتیاط کریں ورنہ وہ کفر لگانے والے پر خود بخود لوٹ جاتا ہے۔
(1)."کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے وہ ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو".
(2).". ہمارے فقہا اور مشائخ فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے بغیر پختہ ثبوت کے کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو کافر اور مرتد کہا وہ خود کافر اور مرتد ہوگیا اس پر توبہ ، تجدید ایمان و تجدید نکاح تجدید بیعت سب لازم ہے اسے امام بنانا جائز نہیں. نہ خود اس کی نماز نماز ہے نہ اس کے پیچھے کسی کی نماز درست. اور نہ اس کا کوئی حکم نافذ بلکہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ پہلے اس سے توبہ و تجدید ایمان اور تجدید نکاح کا مطالبہ کریں .اگر یہ سب کرے تو ٹھیک ہے ورنہ اس سے میل جول سلام کلام سب بند کردیں"۔
الجواب ۔ یہ خیال کہ مشائخ بریلی خواہ مخواہ کافر اور مرتد کا حکم دیتے ہیں یہ جھوٹ اور افواہ ہے ۔
کچھ لوگوں کا مسلک سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت کو بدنام کرنے کی سازش ہے ۔بریلی والے حکم تکفیر اور حکم ارتداد لگانے میں کافی احتیاط فرماتے ہیں ۔آج تک ثبوت نہیں ہے کہ بغیر اتمام حجت کے کسی کو کافر اور مرتد کہا گیا ہو ۔
آپ ہماری اس تحریر کو بغور پڑھیں اور بریلوی مسلک کو سمجھیں ۔
مسئلہ تکفیر میں علماء کے دو گروہ ہیں
 (1) جمہور فقہا (2): محققین متکلمین ۔
جمہور فقہا ایسے قول پر جو ظاہر معنی کے اعتبار سے کفر ہو تو قائل کی تکفیر کرتے ہیں ۔لیکن متکلمین کا مذہب یہ ہے کہ جب قائل کی مراد معلوم نہ ہو اور تاویل کا احتمال ہو اگرچہ ضعیف سے ضعیف احتمال باقی ہو تو ایسے قائل کی تکفیر نہیں کرتے ۔کف لسان کرتے ہیں جس کی پوری تفصیل مسند وقت حجۃ اللہ علی العالمین سرکار سیدی مفتی اعظم ہند قدس سرہ نے اپنے رسالہ مبارکہ "الموت الاحمر". میں تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے اسی لئے سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ نے اسماعیل دہلوی کو کافر کہنے میں مذہب متکلمین کے مطابق سکوت فرمایا اور اس میں اس کا بھی احتمال ہے کہ دہلوی کی توبہ مشہور ہونے کی وجہ سے کف لسان فرمایا۔ اور مقام احتیاط میں کافر کہنے سے کف عوامی شہرت کافی ہے۔ ۔اگر بریلی کے مشائخ بات بات پر حکم تکفیر دیتے تو اسماعیل دہلوی پر بھی حکم تکفیر اور حکم ارتداد فرماتے لیکن ایسا نہیں ہوا ۔
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی مسلمان کو کافر کہنے کا حکم بہت سخت ہے ۔حدیث میں ہے ' جس نے اپنے کسی مسلمان بھائی کو کافر کہا اور واقع میں وہ کافر نہیں تو کہنے والے پر کفر لوٹ آتا ہے۔ فقہا فرماتے ہیں : اگر کسی مسلمان بھائی کو اعتقاد کرکے کافر کہا تو کہنے والا کافر ہے ۔اور اگر گالی کے طور پر کہا تو وہ گنہگار ہے اور تعزیر کا مستحق ہے 
(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 368)
حضور شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ
اگر کسی کے قول میں سو احتمالات ہوں ننانوے احتمالات کفر کے ہوں اور ایک اسلام کا اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو اسے کافر کہنے سے کف لسان کیا جائے گا 
(فتاویٰ شارح بخاری جلد سوم ص 184)
کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے 
(فتاوی شارح بخاری جلد سوم ص 156)
"میرے احباب اس تحریر پر خوب غور فرمائیں کہ کسی پر فتویٰ لگانے کے لئے اتمام حجت کرلینی ضروری ہے".
"اتمام بمعنی تمام کرنا. انجام کو پہنچنا. کمال تکمیل اتمام حجت"
حجت کا پورا ہونا ۔فیصلہ کن بات ۔آخری دلیل۔ معاملہ طے کرنا۔ جھگڑا مٹانا ۔ انتہائی کوشش کرنا (فیروز اللغات ص 64)
دیکھا اتمام حجت یعنی فیصلہ کن بات یعنی اس شخص سے تمام پہلو پر تمام اشکال پر تمام دلائل پر بحث کرکے اس قائل کے قول اور تحریر کی بابت نیت معلوم کرکے ہر طرح سے حجت قائم کریں پھر ہر احتمال سے کفر کا پہلو نکلے تب جاکر حکم کفر دیا جائے ورنہ نہیں اس طرح حجت کی جائے کہ اس کے قول میں کوئی شک وشبہ باقی نہ رہے لیکن آج کل اتمام حجت کیا ؟ تحریر دیکھا اور فورا کفر کا حکم دے دیا جاتا ہے نہ کوئی حجت ۔نہ کوئی سوال و جواب اور فورا کفر کا فتویٰ دیا جاتا ہے اسی لئے یہ مسلک بدنام ہورہا ہے حالانکہ وہ ہمارے فقہا بھی نہیں ہیں لہذا ایسا فتویٰ قابل قبول نہیں اس سے پرہیز لازم ہے اور بغیر اتمام حجت کے کوئی حکم نافذ نہیں ہوتا ۔
مسئلہ اصل میں یوں ہے کہ اگر کسی نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا کام کیا جس کے سو پہلو ہوں اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے سو بات نہیں بات صرف ایک ہے اور اس میں پہلو سو ہیں ۔ ان سو پہلوؤں میں سے ننانوے پہلو کفر کے ہیں اور صرف ایک پہلو اسلام کا ۔اگرچہ وہ اسلام کا پہلو خفی ہو ۔اس ایک ایسی بات کہنے والے کے بارے میں محققین متکلمین یہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو کافر نہ کہا جائے۔
اگر کسی بات میں مختلف پہلو ہوں اور ایک پہلو ایسا ہو جو کفر نہیں اور قائل کی نیت معلوم نہ ہو تو مفتی پر لازم ہے کہ اس معنی کا لحاظ کرے اور ایسے قائل کی تکفیر نہ کرے ۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 391)
ہاں بخلاف دیابنہ کے طواغیت اربعہ کی کفری عبارتوں کے کہ ان میں کسی بھی تاویل کی گنجائش نہیں نہ قریب کی نہ بعید کی اس لئے حکم کفر ہوا۔
*کیوں کہ دیوبندی شان الوہیت و رسالت میں گستاخی کرنے کی وجہ سے کافر و مرتد ہے ۔خواہ مخواہ کسی کو کافر اور مرتد کہنے سے پرہیز کریں ۔
ہمارے علما یہاں تک فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کسی کو تصادم یعنی باہم ٹکراؤ کی وجہ سے یا سب وشتم یا جھگڑا کی وجہ سے کسی کو کافر کہا تو حکم کفر نہیں ہوگا جب تک کہ کسی مسلم کو کافر جان کر کافر نہ کہا اس وقت تک کفر سے بچایا جائے گا۔
۔درمختار میں ہے ۔
عزر الشاتم بیا کافر ۔وھل یکفر ۔ان اعتقد المسلم کافرا نعم و الا لا یعنی اے کافر کہ کر گالی دینے والے کو سزا دی جائے گی اور کیا وہ کافر ہوجایے گا ؟ ہاں ! اگر مسلمان کا کافر اعتقاد کرے ورنہ نہیں۔(فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 412)
ہندیہ میں ہے کہ المختار للفتوی فی جنس ھذہ المسائل ان القائل یمثل ھذہ المقالات ان کان اراد الشتم ولا یعتقدہ کافرا لا یکفر و ان کان یعتقدہ کافرا فخاطبہ بھذا بناء علی اعتقادہ انہ کافر یکفر یعنی اس قسم کے مسائل میں فتوی اس پر ہے کہ ایسی بات کہنے والے نے اگر گالی کا قصد کیا ہے ۔کافر اعتقاد نہیں کیا ہے تو اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔اور اگر اس نے اپنے اعتقاد کی بنا پر کہ وہ کافر ہے ۔اور اپنے مخاطب کو کافر اعتقاد کرکے کافر کہا تو قائل کی تکفیر کی جائے گی (عالمگیری جلد دوم ص 268)
الحاصل : کسی سنی صحیح العقیدہ مسلمان کو بلا شرعی گرفت کے اسے کافر اور مرتد کہا تو یہ کفر اس پر لوٹ جائے گا اور وہ تجدید ایمان و نکاح تجدید بیعت و خلافت کریں ۔
"کسی مسلمان کے کفر کا حکم دینے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شبہ نہ ہو".(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 472)
اب اس عبارت سے واضح ہوا کہ کسی مسلمان کو کافر کہنے کے لئے ایسا ثبوت چاہیئے جس میں کوئی شک و شبہ نہ ہو اور کسی کی تحریر میں یا قول میں اس طرح کا ثبوت نہ ہو اور بغیر شرعی ثبوت کے اسے کافر و مرتد جس نے کہا ہے کفر اس پر لوٹ جائے گا اور یہی فقہائے کرام کا بھی فتوی ہے۔
"کسی مسلمان کو کافر کہا تو کیا حکم ہوگا".
کسی مسلمان کی طرف کفر کی نسبت بھی کفر ہے اس لئے کہ اسے کافر بنانے کے مترادف ہے حدیث شریف میں ۔
"من قال لاخیہ یا کافر فقد باء بھا باحدھما" یعنی جس نے کسی مسلم بھائی کو کافر کہا تو یہ ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لوٹ گیا ۔
یعنی کسی کو کافر و مرتد کہا وہ اگر کافر و مرتد ہے تو ٹھیک ہے ورنہ کہنے والا خود کافر ہوجائے گا (فتاویٰ شارح بخاری جلد دوم ص 493 بحوالہ مسلم شریف)
جس کے کلمات میں تاویل ممکن ہے اس کی تکفیر کرنا مناسب نہیں ۔جیسا کہ شامی میں ہے
ولکن یمکن التاویل فینبغی ان کا یکفر یعنی چونکہ تاویل ممکن ہے اس لئے اب تکفیر کرنا مناسب نہیں (شامی جلد 6 ص368)
درمختار میں ہے کہ
"لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن او کان فی کفرہ خلاف ولو کان ذلک روایۃ ضعیفۃ". یعنی کسی مسلم کے کافر ہونے کا فتوی اس وقت تک نہیں دیا جائے گا جب تک کہ اس کے کلام کو کسی اچھے معنی پر محمول کرنا ممکن ہو یا اس کے کفر ہونے میں اختلاف ہو اگرچہ کسی ضعیف روایت ہی کی وجہ سے ہو 
(درمختار جلد 7 ص 367)
سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ
"فرض قطعی ہے کہ اہل قبلہ کے ہر قول و فعل کو اگرچہ بظاہر کیسا ہی شنیع و فظیع ہو حتی الامکان کفر سے بچائیں اگر کوئی ضعیف سے ضعیف ۔نجیف سے نجیف تاویل پیدا ہو جس کی رو سے حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اس کی طرف جائیں ۔اور اس کے سوا ہر گز احتمال جانب کفر جاتے ہوں خیال میں نہ لائیں"
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
یعنی کوئی شخص کسی کے کلمات میں احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف گیا تو وہ اسلام مغلوب اور کفر کو غالب کرنے والا ہے جبکہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ
الاسلام یعلو ولا یعلی یعنی اسلام غالب رہتا ہے مغلوب نہیں ہوتا 
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
لہذا کسی مسلم کو کافر اور مرتد کہنے سے بچنا لازم کیونکہ کسی مسلمان کو کافر اور مرتد کہنے کے لئے ایسا ثبوت درکار ہے جس میں کوئی شک وشبہ نہ ہو اگر اس کے قول یا تحریر میں حکم اسلام نکل سکتا ہو تو اسی پر فتویٰ دیا جائے اور اس کے سوا اگر ہزار احتمال جانب کفر جاتے ہو اس پر خیال نہ لائیں بلکہ مسلمان کہا جائے لیکن آج کل کفر کی مشین جیب میں رکھا جاتا ہے اور جس پر چائے کافر اور مرتد ہونے کا فتویٰ دے دیا جاتا ہے ۔ لیکن مشائخ بریلی شریف کا یہ طریقہ اور عادت وفکر نہیں ہے
 کیونکہ سرکار سیدی اعلی حضرت عظیم البرکت امام احمد رضا خان قادری بریلی شریف قدس سرہ ارشاد فرماتے ہیں کہ:
"احتمال اسلام چھوڑ کر احتمالات کفر کی طرف جانے والے اسلام کو مغلوب اور کفر کو غالب کرتے ہیں"
(فتاویٰ رضویہ جلد جدید 12 ص 317)
اس فتوی میں معتدد مرتبہ احتمال کا استعمال ہوا تو یہ احتمال کیا ہے تو سنئے احتمال بمعنی شک شبہ ۔وہم ۔گمان ۔جمع احتمالات ۔احتمالی قانونی ۔قانون کی رو سے کوئی گمان یا قیاس (فیروز اللغات ص 72)
ردالمحتار جلد 6 کے حوالہ سے ہے کہ ۔
تحقیق مشائخ نے مسئلہ تکفیر کے بارے میں ذکر کیا ہے کہ اگر اس میں ننانوے احتمال کفر کے ہوں اور ایک احتمال نفی کفر کا ہوتو اولی یہ ہے کہ مفتی اور قاضی اس کو نفی کفر کے احتمال پر محمول کرے
اور فتاوی خلاصہ و جامع المفصولین و محیط وفتاویٰ عالمگیری وغیرہا میں ہے ۔
"اگر مسئلہ میں متعدد وجوہ موجب کفر ہوں اور فقط ایک تکفیر سے مانع ہو تو مفتی و قاضی پر لازم ہے کہ اسی وجہ کی طرف میلان کرے اور مسلمان کے بارے میں حسن ظن رکھتے ہوئے اس کے کفر کا فتویٰ نہ دے پھر اگر درحقیقت قائل کی نیت میں وہی وجہ ہے جو تکفیر سے مانع ہے تو وہ مسلمان ہے ورنہ مفتی و قاضی کا کلام کو اس وجہ پر محمول کرنا جو موجب تکفیر نہیں ہے .قائل کو کچھ نفع نہ دے گا".
اسی طرح بزازیہ ۔بحر الرائق و مجمع الانہر وحدیقہ ندیہ میں ہے ۔تارتارخانیہ وبحر وسل الحسام وتنبیہ الولاۃ وغیرہا میں ہے ۔
"لایکفر بالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ و مع الاحتمال لانھایۃ لانھایہ".یعنی احتمال کے ہوتے ہوئے تکفیر نہیں کی جائے گی کیونکہ کفر انتہائی سزا ہے جو انتہائی جرم کا مقتضی ہے اور احتمال کی موجودگی میں انتہائی جرم نہ ہوا
پھر بحر الرائق وتنویر الابصار وحدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے
"والذی تحر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علی محمل حسن".یعنی جس نے ایسے مسلمان کی تکفیر کا فتویٰ دینے سے اجتناب کیا جس کے کلام کا تاویل ممکن ہے ۔اس نے اچھا کیا (شرح بہار شریعت جلد نہم ص 398.399)
اور حضور صدر الشریعہ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ
کسی کلام میں چند معنے بنتے ہیں بعض کفر کی طرف جاتے ہیں بعض اسلام کی طرف تو اس شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی ۔کلمہ کفر ہونے سے قائل کا کافر ہونا ضروری نہیں (بہار شریعت جلد نہم ص)
کسی نے کسی پر بلاوجہ کفر کا فتویٰ دیا تو خود کافر ہوگیا
(فتاوی شارح بخاری جلد دوم ص 442)
یعنی کسی نے کسی قول پر یا کسی تحریر پر یا کسی تقریر پر بغیر اتمام حجت کئے بغیر ہر احتمال پر بحث کئے بغیر سوچے سمجھے کفر کا فتویٰ لگا دیا تو کفر اسی پر لوٹ آئے گا
اسے تجدید ایمان و نکاح اور تجدید بیعت اور تجدید خلافت مطلق سب کرنا لازم ہے ۔
اور کسی کو کسی جگھڑا کی بنیاد یا بحث کی بنیاد یا کوئی بغیر تحقیقی بات یا پھر اس کے ہر پہلو پر غور کرنے سے پہلے کسی مسلم پر کفر کا فتویٰ لگانا جائز نہیں اور جس پر لگایا اگر وہ اس کے مستحق نہیں پھر وہ کفر لوٹ آئے گا فتویٰ لگانے والے پر ہاں اگر صریح لفظ کفریہ ہو تو صریح لفظ نیت کا محتاج نہیں ہے
الحاصل ہمارے فقہاء کرام حکم کفر و ارتداد لگانے میں کافی احتیاط کا پہلو اختیار کرتے ہیں اس لئے یہ کہنا کہ مشائخ بریلی خواہ مخواہ کفر کا فتوی دیتے ہیں تو یہ بے بنیاد بات ہے ۔جھوٹ پر مبنی ہے ۔ایسے لوگوں کی آپ بات نہ مانیں ۔
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
کتبہ :- حضرت علامہ مولانا مفتی محمد ثناء اللہ خاں ثناء القادری
صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی ساکن مرپاوی سیتا مڑھی بہار
5 صفر المظفر 1445
مطابق 27 اگست 2023.

قسط دوم اور قسط سوم کا انتظار کریں جاری رہے گا
(اگر ٹائیپنگ میں غلطی ہوگئی ہو تو ہرسنل پر اطلاع کریں تاکہ پی ڈی ایف فائل میں درست کردیاجائے ۔)

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area