Type Here to Get Search Results !

دیوالی کے موقع سے پھول بیچنا کیسا ہے؟


•┈┈┈┈•••✦✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4277)
دیوالی کے موقع سے پھول بیچنا کیسا ہے؟
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ  
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان کرام مسلہء ذیل کے بارے میں کہ دیوالی کے موقع پر پھول بیچنا جائز ہے کہ نہیں دوسرا مسئلہ  یہ ہے کہ دو مسلمان ملکر تجارت کرنا چاہتے ہیں ایک کا روپیہ حرام طریقے سے کمایا جبکہ دوسرا حلال طریقے سے کمایا ہے
سوال یہ ہے کہ ایسی شرکت جائز ہے کہ نہیں؟ 
سائل:-عاشق علی ناسک انڈیا
✦•••••••••••••✦❀✦•••••••••••••✦
 نحمده ونصلي علي رسوله الكريم 
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته 
الجواب بعونه تعالي عز وجل
 
١/ ہر وہ چیز جو گناہ میں مماونت ہو اس کی تجارت جائز نہیں ہے جیسے ہٹاخہ راکھی مورتی وغیرہ 
مذکورہ صورت میں اگر اپ پہلے سے پھول بیچنے کی تجارت کرتے ہیں تو اس دن بھی بیچ سکتے ہیں ورنہ خاص اسی دن نہ بیچے اگر دیوالی میں اس کی ضرورت پڑتی ہو تو۔۔ یہ معاونت اثم ہے ورنہ تجارت جائز ہے 
اللہ سبحانہ تعالٰی کا فرمان ہے
و لاتعاونوا علی الاثم و العدوان۔
یعنی اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو (پ 6 سورہ مائدہ آیت 2)
 اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں حضور صدر الشریعہ علیہ الرحمہ بہار شریعت میں تحریر فرماتے ہیں کہ افیون وغیرہ جس کا کھانا نا جائز ہے ایسوں کے ہاتھ فروخت کرنا جو کھاتے ہیں ناجائز ہے کہ اس میں گناہ پر اعانت ہے
(بہار شریعت ج 16 ص 106)
اور راکھی کا استعمال صرف رکھشابندھن کے لئے ہوتا ہے جو یہاں کے غیرمسلموں کا مذہبی شعار ہے تو راکھی کی تجارت بھی گناہ پر اعانت ہوئی اس لئے یہ تجارت بھی ناجائز ہے ( فتاوی مرکز تربیت افتاء ج 2 ص 238)
٢/ حرام مال کی شراکت جائز نہیں ہے 
یعنی کسی ایسے شخص کو کاروبار میں شریک کرنا جس کا کل سرمایہ حرام ہو شرعاً جائز نہیں ہاں اگر لاعلمی میں ایسی کوئی شراکت قائم کی گئی ہو اور اس کے نتیجے میں خریدوفروخت کرکے اس پر سے نفع کمایا گیا ہو تو اس صورت میں صحیح قول کے مطابق کمایا ہوا نفع حلال ہوگا تاہم حرام مال کے مالک پر اس کے اصل سرمایہ کے بقدر مال واجب التصدق ہوگا۔
 فتاوی شامی میں ہے 
توضيح المسألة ما في التاتارخانية حيث قال: رجل اكتسب مالا من حرام ثم اشترى فهذا على خمسة أوجه: أما إن دفع تلك الدراهم إلى البائع أولا ثم اشترى منه بها أو اشترى قبل الدفع بها ودفعها، أو اشترى قبل الدفع بها ودفع غيرها، أو اشترى مطلقا ودفع تلك الدراهم، أو اشترى بدراهم أخر ودفع تلك الدراهم. قال أبو نصر: يطيب له ولا يجب عليه أن يتصدق إلا في الوجه الأول، وإليه ذهب الفقيه أبو الليث، لكن هذا خلاف ظاهر الرواية فإنه نص في الجامع الصغير: إذا غصب ألفا فاشترى بها جارية وباعها بألفين تصدق بالربح. وقال الكرخي: في الوجه الأول والثاني لا يطيب، وفي الثلاث الأخيرة يطيب، وقال أبو بكر: لا يطيب في الكل، لكن الفتوى الآن على قول الكرخي دفعا للحرج عن الناس اهـ. وفي الولوالجية: وقال بعضهم: لا يطيب في الوجوه كلها وهو المختار، ولكن الفتوى اليوم على قول الكرخي دفعا للحرج لكثرة الحرام ۔
(رد المحتار كتاب البيوع باب المتفرقات ج: 7 ص 490)
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________ 
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
02/09/2023

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.

Top Post Ad

Below Post Ad

Ads Area