•┈┈┈┈•••✦﷽✦•••┈┈┈┈•
(سوال نمبر 4330)
بالغ اور نابالغ اولاد اگر مطلقہ بیوی کے پاس ہے تو اولاد کا خرچہ کس پر ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک شخص نے اپنی زوجہ کو دو سال ہوگی طلاق دے دی ہے ایک بچہ باپ کے ساتھ ہے جو کہ بالغ ہے اور ماں کے ساتھ 2 بچے ہیں جن کی عمریں 20 اور 14 سال ہیں باپ ان کا خرچ بھی بھیجتا ہے کیا باپ پر طلاق یافتہ بیوی کے ساتھ رہنے والی اولاد کا نفقہ لازم ہے یا نہیں؟ مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنے والے بچے اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور نا ہی باپ کی کوئی بات مانتے ہیں وہ ماں کے ساتھ رہتے ہیں اور اسی کی سب باتیں مانتے ہیں کیا ایسی صورت میں باپ ماں کے ساتھ رہنے والی اولاد کا نفقہ روک سکتا ہے شریعت میں اس پر ایسا کرنے سے کوئی گناہ تو نہیں۔
سائل:-سجاد بشیر پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ماں کے ساتھ جو دو بچے ہیں 14 سال والا کا خرچہ تو باپ پر ہے اور جو 20 سال ہے کا ہے اگر وہ کماتا ہو شادی کر لیا ہو پھر باپ پر خرچ نہیں
اور اگر غیر شادی شدہ ہو اور کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو اسی طرح غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے بالغہ ہوں یا نابالغہ جب تک شادی نہ ہو اس وقت تک ان کا نفقہ خرچہ والد پر ہے چاہے میاں بیوی ساتھ ہوں یا ان میں جدائی ہوگئی ہو اور اگر باپ کمانے کے قابل نہ ہو تو بچوں کی والدہ قرض لےکر ان پر خرچ کرے گی اور پھر اس قرض کی ادائیگی باپ پر لازم ہوگی
حاصل کلام یہ ہے کہ
اگر اولاد نابالغ ہے یا بالغ ہے لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ہے یا غیر شادی شدہ لڑکیاں ہیں تو ان کا نان نفقہ خرچہ باپ پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم ہے۔
اور اگر کوئی عذر شرعی نہیں تو 20 سال والا کا خرچہ باپ پر نہیں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے
والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، وهذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج واستحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر بخلاف نفقة الزوجة، فإن استحقاق ذلك باعتبار العقد لتفريغها نفسها له فتستحق موسرة كانت، أو معسرة فأما الاستحقاق هنا باعتبار الحاجة فلا يثبت عند عدم الحاجة.
(المبسوط للسرخسی: (223/5، ط: دار المعرفة)
الھندیة میں ہے
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة....وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد
بالغ اور نابالغ اولاد اگر مطلقہ بیوی کے پاس ہے تو اولاد کا خرچہ کس پر ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ
ایک شخص نے اپنی زوجہ کو دو سال ہوگی طلاق دے دی ہے ایک بچہ باپ کے ساتھ ہے جو کہ بالغ ہے اور ماں کے ساتھ 2 بچے ہیں جن کی عمریں 20 اور 14 سال ہیں باپ ان کا خرچ بھی بھیجتا ہے کیا باپ پر طلاق یافتہ بیوی کے ساتھ رہنے والی اولاد کا نفقہ لازم ہے یا نہیں؟ مطلقہ بیوی کے ساتھ رہنے والے بچے اپنے باپ کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے اور نا ہی باپ کی کوئی بات مانتے ہیں وہ ماں کے ساتھ رہتے ہیں اور اسی کی سب باتیں مانتے ہیں کیا ایسی صورت میں باپ ماں کے ساتھ رہنے والی اولاد کا نفقہ روک سکتا ہے شریعت میں اس پر ایسا کرنے سے کوئی گناہ تو نہیں۔
سائل:-سجاد بشیر پنجاب پاکستان
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نحمده ونصلي علي رسوله الكريم
وعلیکم السلام ورحمة الله وبركاته
الجواب بعونه تعالي عز وجل
ماں کے ساتھ جو دو بچے ہیں 14 سال والا کا خرچہ تو باپ پر ہے اور جو 20 سال ہے کا ہے اگر وہ کماتا ہو شادی کر لیا ہو پھر باپ پر خرچ نہیں
اور اگر غیر شادی شدہ ہو اور کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہ ہو اسی طرح غیرشادی شدہ لڑکیاں چاہے بالغہ ہوں یا نابالغہ جب تک شادی نہ ہو اس وقت تک ان کا نفقہ خرچہ والد پر ہے چاہے میاں بیوی ساتھ ہوں یا ان میں جدائی ہوگئی ہو اور اگر باپ کمانے کے قابل نہ ہو تو بچوں کی والدہ قرض لےکر ان پر خرچ کرے گی اور پھر اس قرض کی ادائیگی باپ پر لازم ہوگی
حاصل کلام یہ ہے کہ
اگر اولاد نابالغ ہے یا بالغ ہے لیکن کسی عذر شرعی کی وجہ سے کمانے کے قابل نہیں ہے یا غیر شادی شدہ لڑکیاں ہیں تو ان کا نان نفقہ خرچہ باپ پر اس کی حیثیت کے مطابق لازم ہے۔
اور اگر کوئی عذر شرعی نہیں تو 20 سال والا کا خرچہ باپ پر نہیں۔
المبسوط للسرخسی میں ہے
والذي قلنا في الصغار من الأولاد كذلك في الكبار إذا كن إناثا؛ لأن النساء عاجزات عن الكسب؛ واستحقاق النفقة لعجز المنفق عليه عن كسبه. وإن كانوا ذكورا بالغين لم يجبر الأب على الإنفاق عليهم لقدرتهم على الكسب، إلا من كان منهم زمنا، أو أعمى، أو مقعدا، أو أشل اليدين لا ينتفع بهما، أو مفلوجا، أو معتوها فحينئذ تجب النفقة على الوالد لعجز المنفق عليه عن الكسب، وهذا إذا لم يكن للولد مال فإذا كان للولد مال فنفقته في ماله؛ لأنه موسر غير محتاج واستحقاق النفقة على الغني للمعسر باعتبار الحاجة إذ ليس أحد الموسرين بإيجاب نفقته على صاحبه بأولى من الآخر بخلاف نفقة الزوجة، فإن استحقاق ذلك باعتبار العقد لتفريغها نفسها له فتستحق موسرة كانت، أو معسرة فأما الاستحقاق هنا باعتبار الحاجة فلا يثبت عند عدم الحاجة.
(المبسوط للسرخسی: (223/5، ط: دار المعرفة)
الھندیة میں ہے
نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة....وبعد الفطام يفرض القاضي نفقة الصغار على قدر طاقة الأب وتدفع إلى الأم حتى تنفق على الأولاد، فإن لم تكن الأم ثقة تدفع إلى غيرها لينفق على الولد
(الھندیة: (560/1- 561، ط: دار الفکر)
و فيها أيضا
و فيها أيضا
(561/1، ط: دار الفکر)
رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان.
فإن أبى أن يكتسب وينفق عليهم يجبر على ذلك، ويحبس كذا في المحيط وإن كان لا يقدر على الكسب يفرض القاضي عليه النفقة ويأمر الأم حتى تستدين على زوجها، ثم ترجع بذلك على الأب إذا أيسر.
و فيها أيضا:
رجل معسر له ولد صغير إن كان الرجل يقدر على الكسب يجب عليه أن يكتسب وينفق على ولده كذا في فتاوى قاضي خان.
فإن أبى أن يكتسب وينفق عليهم يجبر على ذلك، ويحبس كذا في المحيط وإن كان لا يقدر على الكسب يفرض القاضي عليه النفقة ويأمر الأم حتى تستدين على زوجها، ثم ترجع بذلك على الأب إذا أيسر.
و فيها أيضا:
(562/1- 563، ط: دار الفکر)
الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ ذلك عليهم إلى وقت بلوغهم كسائر أملاكهم....ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان۔
الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب، ولم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا، أو يؤاجرهم وينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، وأما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل، أو خدمة كذا في الخلاصة ثم في الذكور إذا سلمهم في عمل فاكتسبوا أموالا فالأب يأخذ كسبهم وينفق عليهم، وما فضل من نفقتهم يحفظ ذلك عليهم إلى وقت بلوغهم كسائر أملاكهم....ولا يجب على الأب نفقة الذكور الكبار إلا أن الولد يكون عاجزا عن الكسب لزمانة، أو مرض ومن يقدر على العمل لكن لا يحسن العمل فهو بمنزلة العاجز كذا في فتاوى قاضي خان۔
والله ورسوله اعلم بالصواب
_________(❤️)_________
کتبہ :- فقیہ العصر حضرت علامہ مولانا مفتی محمد مجيب قادری صاحب قبلہ مدظلہ العالیٰ النورانی لهان ١٨خادم دارالافتاء البركاتي علماء فاونديشن شرعي سوال و جواب ضلع سرها نيبال
06/09/2023