سیرتِ حضرت خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا
________(❤️)_________
قبولِیّتِ دُعا کا ایک سبب
حضرتِ سیِّدُنا عَلِیُّ المرتضیٰ، شیرِ خدا کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْـکَرِیْم سے روایت ہے ، فرماتے ہیں کہ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ” مَا مِنْ دُعَآءٍ اِلَّا وَبَیْنَہٗ وَ بَیْنَ السَّمَآءِ حِجَابٌ حَتّٰی یُصَلّٰی عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ فَاِنْ فُعِلَ اِنْخَرَقَ ذٰلِكَ الْحِجَابُ وَ دَخَلَ الدُّعَآءُ وَ اِذَا لَمْ يُفْعَلْ رَجَعَ ذٰلِكَ الدُّعَآءُ ہر دُعا اور آسمان کے درمیان ايك حجاب ہوتا ہے حتی کہ مجھ پر اور میری آل پر دُرُود پڑھا جائے، اگر ایسا کیا جائے تو وہ پردہ چاک ہو جاتا ہے اور دُعا آسمان میں داخِل ہو جاتی ہے اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو وہ پلٹ آتی ہے۔ “ (الصلات والبشر، الباب الثانى، الحديث الثانى والخمسون، ص۸۳)
؏ دُعا کے ساتھ نہ ہَووے اگر درود شریف
نہ ہووے حشر تلک بھی بَرآور حاجات
قبولِیَّت ہے دُعا کو درود کے باعث
یہ ہے درود کہ ثابت کرامات و برکات ( ماہنامہ نعت( اکتوبر۱۹۹۵ء)، ص۴۱)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تاریکیوں کا خاتمہ
چھٹی صدی عیسوی جب ہر طرف ظلم وبَرْبَرِیَّت اور قتل وغارت گری کا دَور دَورہ تھا، اَخلاقی ومعاشی، مُعَاشرتی و سیاسی زندگی میں انتہائی گھناؤنی بُرائیاں جنم لے چکی تھیں، ظُلْم کی حد یہ تھی کہ چھوٹی چھوٹی بے گناہ بچیوں کو زندہ دَرْگَور (دفن) کر دیا جاتا تھا، زِناکاری جیسے اخلاق سوز جرائم کا ایسے کھلے عام اِرْتِکاب ہوتا تھا کہ گویا یہ گُناہ ہی نہ ہوں، ہر چہار جانب شرک وکفر کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، جہالت وبے وقوفی کی انتہا یہ تھی کہ انسان اپنے خالِقِ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت سے منہ موڑ کر خود کے تراشیدہ (اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے) باطِل معبودوں کی پوجا پاٹ میں مصروف تھا کہ کائناتِ ارضی کی ان اندھیر وادیوں کو کفر کی تاریکیوں سے نجات دینا جب منظورِ معبودِ حقیقی ہوتا ہے تو مکہ مُعَظَّمَہ کی پاک سرزمین میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور کا سورج طُلُوع فرما دیتا ہے، چنانچہ پھر کائنات کا ذرہ ذرہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے، گوشہ گوشہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے منور ہو جاتا ہے، ظلم وکفر کی تاریک بدلیاں چھٹ جاتی ہیں اور زمانہ حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے پُرنور ہو جاتا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔
سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خَلْقِ خُدا کو صرف اس ایک معبودِ حقیقی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی طرف بلاتے ہیں جو سب کا خالق و مالِک ہے، نہ اس کی کوئی اَوْلاد ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، وہ سب کا پالنے والا ہے، سب اسی سے رِزْق پاتے اور اسی کے دَرْ سے حاجتیں بَر لاتے ہیں۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کو اس معبودِ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی دعوت دیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حق کی پکار پر لبیک کہا جاتا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں، تَنِ نازنین (یعنی مبارک جسم) پر پتھر برسائے جاتے ہیں، اِتِّہام و دُشْنام طرازی (جھوٹے الزامات وگالیوں) کے تیروں کی بارِش کر دی جاتی ہے اور کل تک کا سب کی آنکھوں کا تارا آج سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ایسے نازُک دَور میں جو ہستیاں حق کی پُکار پر لبیک کہتی ہوئی سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سرفراز ہوئیں اور ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اے ایمان والو! “ کی پکار کی سب سے پہلے حق دار قرار پائیں، ان میں ایک نمایاں نام مجسمۂ حُسْنِ اخلاق، پاکیزہ سیرت و بلند کِردار، فہم وفراست اور عقل ودانش سے سرشار، جُود وسخا کی پیکر، صِدْق و وفا کی خُوگر اُس عظیمُ الْقَدر ذات سُتُودَہ صِفات کا ہے جنہوں نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا، حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مُشَرَّف ہوئیں، اللہ ربُّ الْعِزّت نے جنہیں جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وَساطت سے سلام بھیجا، جنہوں نے حبیبِ کِبْرِیَاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت بابرکت میں کم وبیش 25 سال رہنے کی سعادت حاصل کی، جنہوں نے شِعْبِ ابی طالِب میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مَحْصُور رہ کر رفاقت، محبت اور وَارَفتگی کا مِثالی نمونہ پیش کیا، جنہوں نے اپنی ساری دولت حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں میں ڈھیر کر دی، جن کی قبر میں ہادیِ برحق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اترے اور اپنے دستِ اقدس سے انہیں قبر میں اُتارا، تاریخ میں جنہیں طاہِرہ و صِدِّیقہ جیسے عظیم الشّان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، یہ خاتونِ جنت حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی والِدہ ماجِدہ، نوجوانانِ جنت کے سرداروں حضراتِ حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی نانی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سروَرِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ ہیں، آپ کی حَیَات میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا اور آپ کو جنت میں شور وغل سے پاک محل کی بشارت سنائی۔
قدم قدم حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ہر ہر قدم پر سیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، رحمةٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائی۔ اس سلسلے میں ابتدائے وحی کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اعلیٰ کِردار کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرتِ سیِّدنا علّامہ محمد بن اسحاق مَدَنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ سیّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب بھی کُفّار کی جانب سے اپنا ردّ اور تکذیب وغیرہ کوئی ناپسندیدہ بات سن كر غمگین ہو جاتے اس کے بعد حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس تشریف لاتے تو اِن کے باعِث آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وہ رنج وغم کی کیفیت دُور ہو جاتی۔ “
؏ وہ انیسِ غم، مُوْنِسِ بے کساں
وہ سُکُونِ دل، مالکِ انس و جاں
وہ شریک حَیَات، شہِ لامکاں
سیما پہلی ماں کہفِ امن و اماں
حق گزارِ رفاقت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک انمول مَدَنی پھول
اس سے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عظیم شان کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اُس دَور میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا جب اسلام کے ماننے والوں کو طرح طرح کی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی حَیَاتِ طَیِّبَہ کے اس دَرَخْشاں (روشن وچمک دار) پہلو سے ہمیں یہ مَدَنی پُھول چننے کو ملتا ہے کہ خواہ کیسے ہی کٹھن حالات ہو، کیسی ہی مشکلات کا سامنا ہو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت وفرمانبرداری سے رُوگردانی ہرگز نہیں کرنی چاہئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لائے ہوئے پیارے دین ” اِسلام “ کی خاطِر مالی وجانی کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
تَعَارُفِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قُرَیش کی ایک باہمت، بلند حوصلہ اور زِیْرَک (عَقْل مند) خاتون تھیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا جاہلیت کے دَور شر وفساد میں ہی طاہِرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔
اوّلین اِزْدِواجی زندگی
سرکارِ ابدِ قرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ نِکاح میں منسلک ہونے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شادی ہو چکی تھی پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوئی اِس کے فوت ہو جانے کے بعد عتیق بن عابِد مخزومی سے، جب یہ بھی وفات پا گیا تو کئی رؤسائے قریش نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو شادی کے لئے پیغام دیا لیکن آپ نے انکار فرما دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا پھر خود سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شادی کی درخواست کی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حبالۂ عقد میں آئیں۔
وِلادت اور نام ونسب
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت باسعادت عامُ الْفِیْل سے 15 سال پہلے ہے۔ نام خدیجہ، والِد کا نام خُوَیْلِد اور والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔ والِد کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے: ” خُوَیْلِد بن اَسَد بن عَبْدُ الْعُزّٰی بن قُصَیّ بن کِلَاب بن مُرَّة بن کَعْب بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ “ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ” فاطِمہ بنتِ زَائِدة بن اَصَمّ بن ھَرِم بن رواحہ بن حَجَر بن عَبْد بن مَعِیْص بن عامِر بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِر رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصال حضرتِ قُصَیّ بِنْ کِلَاب میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ اس حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت سب سے کم واسِطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے ملتا ہے۔
کنیت والقاب
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کُنْیَت اُمُّ الْقَاسِم اور اُمِّ ھِند ہے۔ لقب بہت سے ہیں جن میں سب سے مشہور الکبریٰ ہے۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ کو طاھِرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
مُتَفَرِّق فضائل و مَنَاقِب
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل و مناقِب بےشمار ہیں۔ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وِصال ہو گیا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کثر ت سے آپ کا ذکر فرماتے اور اپنی بلند وبالا شان کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔ روایت میں ہے کہ بارہا جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔
یادِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا
ایک بار حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن حضرتِ ہالہ بنتِ خُوَیْلِد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سرکارِ رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہونے کی اجازت طلب کی، ان کی آواز حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جُھرجُھری لی ۔
چار۴ افضل جنتی خواتین
اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ان چار۴ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے رِوایَت ہے فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زمین پر چار۴ خُطُوط (Line's) کھینچ کر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ” اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ “ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنتی عورتوں میں سب سے زِیادہ فضیلت والی یہ
عورتیں ہیں: (۱) خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد
؏ دُعا کے ساتھ نہ ہَووے اگر درود شریف
نہ ہووے حشر تلک بھی بَرآور حاجات
قبولِیَّت ہے دُعا کو درود کے باعث
یہ ہے درود کہ ثابت کرامات و برکات ( ماہنامہ نعت( اکتوبر۱۹۹۵ء)، ص۴۱)
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
تاریکیوں کا خاتمہ
چھٹی صدی عیسوی جب ہر طرف ظلم وبَرْبَرِیَّت اور قتل وغارت گری کا دَور دَورہ تھا، اَخلاقی ومعاشی، مُعَاشرتی و سیاسی زندگی میں انتہائی گھناؤنی بُرائیاں جنم لے چکی تھیں، ظُلْم کی حد یہ تھی کہ چھوٹی چھوٹی بے گناہ بچیوں کو زندہ دَرْگَور (دفن) کر دیا جاتا تھا، زِناکاری جیسے اخلاق سوز جرائم کا ایسے کھلے عام اِرْتِکاب ہوتا تھا کہ گویا یہ گُناہ ہی نہ ہوں، ہر چہار جانب شرک وکفر کی گھنگھور گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں، جہالت وبے وقوفی کی انتہا یہ تھی کہ انسان اپنے خالِقِ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت سے منہ موڑ کر خود کے تراشیدہ (اپنے ہاتھوں سے بنائے ہوئے) باطِل معبودوں کی پوجا پاٹ میں مصروف تھا کہ کائناتِ ارضی کی ان اندھیر وادیوں کو کفر کی تاریکیوں سے نجات دینا جب منظورِ معبودِ حقیقی ہوتا ہے تو مکہ مُعَظَّمَہ کی پاک سرزمین میں اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور کا سورج طُلُوع فرما دیتا ہے، چنانچہ پھر کائنات کا ذرہ ذرہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے جگمگا اٹھتا ہے، گوشہ گوشہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے منور ہو جاتا ہے، ظلم وکفر کی تاریک بدلیاں چھٹ جاتی ہیں اور زمانہ حُضُور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نور سے پُرنور ہو جاتا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خوشبو سے مہک اٹھتا ہے۔
سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خَلْقِ خُدا کو صرف اس ایک معبودِ حقیقی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی طرف بلاتے ہیں جو سب کا خالق و مالِک ہے، نہ اس کی کوئی اَوْلاد ہے اور نہ وہ کسی سے پیدا ہوا، وہ سب کا پالنے والا ہے، سب اسی سے رِزْق پاتے اور اسی کے دَرْ سے حاجتیں بَر لاتے ہیں۔ جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم لوگوں کو اس معبودِ حقیقی عَزَّ وَجَلَّ کی عِبادت کی دعوت دیتے ہیں تو بجائے اس کے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے حق کی پکار پر لبیک کہا جاتا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر مصائب و آلام کے پہاڑ توڑے جاتے ہیں، راہ میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں، تَنِ نازنین (یعنی مبارک جسم) پر پتھر برسائے جاتے ہیں، اِتِّہام و دُشْنام طرازی (جھوٹے الزامات وگالیوں) کے تیروں کی بارِش کر دی جاتی ہے اور کل تک کا سب کی آنکھوں کا تارا آج سب سے بڑا دشمن قرار دے دیا جاتا ہے ۔ ایسے نازُک دَور میں جو ہستیاں حق کی پُکار پر لبیک کہتی ہوئی سب سے پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے سرفراز ہوئیں اور ” یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اے ایمان والو! “ کی پکار کی سب سے پہلے حق دار قرار پائیں، ان میں ایک نمایاں نام مجسمۂ حُسْنِ اخلاق، پاکیزہ سیرت و بلند کِردار، فہم وفراست اور عقل ودانش سے سرشار، جُود وسخا کی پیکر، صِدْق و وفا کی خُوگر اُس عظیمُ الْقَدر ذات سُتُودَہ صِفات کا ہے جنہوں نے عورتوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کیا، حضورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت سے جو سب سے پہلے مُشَرَّف ہوئیں، اللہ ربُّ الْعِزّت نے جنہیں جبریل امین عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وَساطت سے سلام بھیجا، جنہوں نے حبیبِ کِبْرِیَاء صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی صحبت بابرکت میں کم وبیش 25 سال رہنے کی سعادت حاصل کی، جنہوں نے شِعْبِ ابی طالِب میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ مَحْصُور رہ کر رفاقت، محبت اور وَارَفتگی کا مِثالی نمونہ پیش کیا، جنہوں نے اپنی ساری دولت حُضُورِ انور صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قدموں میں ڈھیر کر دی، جن کی قبر میں ہادیِ برحق صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اترے اور اپنے دستِ اقدس سے انہیں قبر میں اُتارا، تاریخ میں جنہیں طاہِرہ و صِدِّیقہ جیسے عظیم الشّان القاب سے یاد کیا جاتا ہے، یہ خاتونِ جنت حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی والِدہ ماجِدہ، نوجوانانِ جنت کے سرداروں حضراتِ حَسَنَیْنِ کَرِیْمَیْن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کی نانی جان، اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سروَرِ دوعالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ ہیں، آپ کی حَیَات میں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے کسی اور سے نِکاح نہ فرمایا اور آپ کو جنت میں شور وغل سے پاک محل کی بشارت سنائی۔
قدم قدم حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ
اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے ہر ہر قدم پر سیِّدُ الْمُرْسَلِیْن، رحمةٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا حوصلہ بڑھایا اور ہمت بندھائی۔ اس سلسلے میں ابتدائے وحی کے موقع پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے اعلیٰ کِردار کی جھلک نمایاں طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ حضرتِ سیِّدنا علّامہ محمد بن اسحاق مَدَنی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ فرماتے ہیں کہ سیّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم جب بھی کُفّار کی جانب سے اپنا ردّ اور تکذیب وغیرہ کوئی ناپسندیدہ بات سن كر غمگین ہو جاتے اس کے بعد حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس تشریف لاتے تو اِن کے باعِث آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی وہ رنج وغم کی کیفیت دُور ہو جاتی۔ “
؏ وہ انیسِ غم، مُوْنِسِ بے کساں
وہ سُکُونِ دل، مالکِ انس و جاں
وہ شریک حَیَات، شہِ لامکاں
سیما پہلی ماں کہفِ امن و اماں
حق گزارِ رفاقت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ایک انمول مَدَنی پھول
اس سے اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی عظیم شان کا اظہار ہوتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اُس دَور میں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تصدیق کی اور ہر مشکل سے مشکل وقت میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا ساتھ دیا جب اسلام کے ماننے والوں کو طرح طرح کی مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا تھا۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی حَیَاتِ طَیِّبَہ کے اس دَرَخْشاں (روشن وچمک دار) پہلو سے ہمیں یہ مَدَنی پُھول چننے کو ملتا ہے کہ خواہ کیسے ہی کٹھن حالات ہو، کیسی ہی مشکلات کا سامنا ہو، اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اِطاعت وفرمانبرداری سے رُوگردانی ہرگز نہیں کرنی چاہئے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی جانب سے آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لائے ہوئے پیارے دین ” اِسلام “ کی خاطِر مالی وجانی کسی قسم کی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
تَعَارُفِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا
حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا قُرَیش کی ایک باہمت، بلند حوصلہ اور زِیْرَک (عَقْل مند) خاتون تھیں، اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو بہت بہترین اوصاف سے نوازا تھا جن کی بدولت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا جاہلیت کے دَور شر وفساد میں ہی طاہِرہ کے پاکیزہ لقب سے مشہور ہو چکی تھیں۔
اوّلین اِزْدِواجی زندگی
سرکارِ ابدِ قرار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتۂ نِکاح میں منسلک ہونے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی شادی ہو چکی تھی پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوئی اِس کے فوت ہو جانے کے بعد عتیق بن عابِد مخزومی سے، جب یہ بھی وفات پا گیا تو کئی رؤسائے قریش نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو شادی کے لئے پیغام دیا لیکن آپ نے انکار فرما دیا اور کسی کا بھی پیغام قبول نہ کیا پھر خود سرکارِ دوعالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو شادی کی درخواست کی اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے حبالۂ عقد میں آئیں۔
وِلادت اور نام ونسب
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وِلادت باسعادت عامُ الْفِیْل سے 15 سال پہلے ہے۔ نام خدیجہ، والِد کا نام خُوَیْلِد اور والِدہ کا نام فاطمہ ہے۔ والِد کی طرف سے آپ کا نسب اس طرح ہے: ” خُوَیْلِد بن اَسَد بن عَبْدُ الْعُزّٰی بن قُصَیّ بن کِلَاب بن مُرَّة بن کَعْب بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِرّ “ اور والِدہ کی طرف سے یہ ہے: ” فاطِمہ بنتِ زَائِدة بن اَصَمّ بن ھَرِم بن رواحہ بن حَجَر بن عَبْد بن مَعِیْص بن عامِر بن لُؤَیّ بن غالِب بن فَهِر رسولِ خُدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نسب کا اِتِّصال حضرتِ قُصَیّ بِنْ کِلَاب میں جا کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نسب رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب شریف سے مل جاتا ہے۔ اس حوالے سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ دیگر ازواجِ مطہرات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ کی نسبت سب سے کم واسِطوں سے آپ کا نسب رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نسب سے ملتا ہے۔
کنیت والقاب
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی کُنْیَت اُمُّ الْقَاسِم اور اُمِّ ھِند ہے۔ لقب بہت سے ہیں جن میں سب سے مشہور الکبریٰ ہے۔ مروی ہے کہ زمانۂ جاہلیت میں آپ کو طاھِرہ کہہ کر پکارا جاتا تھا۔
مُتَفَرِّق فضائل و مَنَاقِب
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے فضائل و مناقِب بےشمار ہیں۔ سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت محبت تھی حتی کہ جب آپ کا وِصال ہو گیا تو پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کثر ت سے آپ کا ذکر فرماتے اور اپنی بلند وبالا شان کے باوجود آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی سہیلیوں کا اکرام فرماتے۔ روایت میں ہے کہ بارہا جب آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہِ اقدس میں کوئی شے پیش کی جاتی تو فرماتے: اسے فلاں عورت کے پاس لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ کی سہیلی تھی، اسے فلاں عورت کے گھر لے جاؤ کیونکہ وہ خدیجہ سے محبت کرتی تھی۔
یادِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنھا
ایک بار حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بہن حضرتِ ہالہ بنتِ خُوَیْلِد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے سرکارِ رِسالَت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے بارگاہِ اقدس میں حاضِر ہونے کی اجازت طلب کی، ان کی آواز حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے بہت ملتی تھی چنانچہ اس سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا اجازت طلب کرنا یاد آ گیا اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جُھرجُھری لی ۔
چار۴ افضل جنتی خواتین
اُمُّ المؤمنین حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ان چار۴ خواتین میں سے ہیں جنہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جنتی عورتوں میں سب سے افضل قرار دیا ہے، جیسا کہ حضرت سیِّدُنا عبد الله بن عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے رِوایَت ہے فرماتے ہیں کہ ایک بار رسولِ کائنات، شہنشاہِ موجودات صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے زمین پر چار۴ خُطُوط (Line's) کھینچ کر فرمایا: تم جانتے ہو یہ کیا ہیں؟ صحابۂ کِرَام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عرض کی: ” اَللہُ وَ رَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ یعنی اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہتر جانتے ہیں۔ “ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جنتی عورتوں میں سب سے زِیادہ فضیلت والی یہ
عورتیں ہیں: (۱) خدیجہ بنتِ خُوَیْلِد
(۲) فاطِمہ بنتِ مُحَمَّد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم)
(۳)فِرعون کی بیوی آسیہ بنتِ مُزَاحِم
(۴) اور مَرْیَم بنتِِ عِمْران۔ (رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُنَّ)
دنیا میں جنتی پھل سے لطف اندوز
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دنیا میں رہتے ہوئے جنتی پھل سے لطف اندوز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جنّتی انگور کِھلائے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سفرِ آخرت
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتہ اِزدِواج میں منسلک ہونے کے بعد تاحیات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُعاملات میں آپ کی ممد ومُعَاوِن رہیں اور ہر قسم کی پریشانی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی غم گساری کرتی رہیں بالآخر نبوت کے دسویں سال، دس رَمَضَانُ الْمُبَارَک کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے داعِیِ اَجَل کو لبیک کہا اور اپنے آخِرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی۔
نمازِ جنازہ
جس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا وِصال ہوا اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے آپ پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ” فِیْ الْوَاقِع (دَرْحقیقت) کُتُبِ سِیَر (سیرت کی کتابوں) میں عُلَماء نے یہی لکھا ہے کہ اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے جنازۂ مُبَارَکہ کی نماز نہ ہوئی کہ اس وقت یہ نماز ہوئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کا حکم ہوا ہے۔
تدفین
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں واقع حَجُوْن کے مقام پر دفن کیا گیا۔ حُضُور رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود بہ نفس نفیس آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔
سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا كی اَوْلاد
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا وہ خوش نصیب اور بلند رتبہ خاتون ہیں جنہوں نے کم وبیش 25 برس تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِ اقدس میں رہنے کی سعادت حاصِل کی اور سِوائے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے کہ وہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے پیدا ہوئے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اَوْلادِ اَطہار اِنہیں سے ہوئی آپ مؤمنین کی سب سے پہلی ماں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔ شہنشاہِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں آنے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح ہو چکا تھا، پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوا۔ ابوہالہ سے دو۲ فرزند ہالہ اور ہِنْد پیدا ہوئے اور دونوں ایمان لا كر شَرَفِ صحابيت سے مُشَرَّف ہوئے۔ ابوہالہ کی موت کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عتیق بن عابِد مخزومی سے نِکاح فرمایا، اس سے ایک لڑکی ہِنْدہ پیدا ہوئی، یہ بھی ایمان لا کر شرفِ صحابیت سے مُشَرَّف ہوئیں۔
رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَوْلادِ پاک
سرکارِ نامدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
دنیا میں جنتی پھل سے لطف اندوز
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو دنیا میں رہتے ہوئے جنتی پھل سے لطف اندوز ہونے کا شرف بھی حاصل ہے چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو جنّتی انگور کِھلائے۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
سفرِ آخرت
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رشتہ اِزدِواج میں منسلک ہونے کے بعد تاحیات آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُعاملات میں آپ کی ممد ومُعَاوِن رہیں اور ہر قسم کی پریشانی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی غم گساری کرتی رہیں بالآخر نبوت کے دسویں سال، دس رَمَضَانُ الْمُبَارَک کو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے داعِیِ اَجَل کو لبیک کہا اور اپنے آخِرت کے سفر کا آغاز فرمایا۔ بوقتِ وفات آپ کی عمر مُبارَک 65 برس تھی۔
نمازِ جنازہ
جس وَقْت آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا وِصال ہوا اس وقت تک نمازِ جنازہ کا حکم نہیں آیا تھا اس لئے آپ پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ اعلیٰ حضرت، امامِ اہلسنت مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں: ” فِیْ الْوَاقِع (دَرْحقیقت) کُتُبِ سِیَر (سیرت کی کتابوں) میں عُلَماء نے یہی لکھا ہے کہ اُمُّ المؤمنین خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے جنازۂ مُبَارَکہ کی نماز نہ ہوئی کہ اس وقت یہ نماز ہوئی ہی نہ تھی۔ اس کے بعد اس کا حکم ہوا ہے۔
تدفین
آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو مکہ مُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں واقع حَجُوْن کے مقام پر دفن کیا گیا۔ حُضُور رحمتِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم خود بہ نفس نفیس آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی قبر میں اترے اور اپنے مقدس ہاتھوں سے دفن فرمایا۔
سَیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا كی اَوْلاد
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا وہ خوش نصیب اور بلند رتبہ خاتون ہیں جنہوں نے کم وبیش 25 برس تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت ِ اقدس میں رہنے کی سعادت حاصِل کی اور سِوائے حضرتِ سیِّدُنا ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے کہ وہ حضرتِ ماریہ قبطیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے پیدا ہوئے، آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی تمام اَوْلادِ اَطہار اِنہیں سے ہوئی آپ مؤمنین کی سب سے پہلی ماں اور رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لانے والی سب سے پہلی خاتون ہیں۔ شہنشاہِ ذی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے نِکاح میں آنے سے پہلے دو۲ مرتبہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا نِکاح ہو چکا تھا، پہلے ابوہالہ بن زُرَارَہ تمیمی سے ہوا۔ ابوہالہ سے دو۲ فرزند ہالہ اور ہِنْد پیدا ہوئے اور دونوں ایمان لا كر شَرَفِ صحابيت سے مُشَرَّف ہوئے۔ ابوہالہ کی موت کے بعد حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عتیق بن عابِد مخزومی سے نِکاح فرمایا، اس سے ایک لڑکی ہِنْدہ پیدا ہوئی، یہ بھی ایمان لا کر شرفِ صحابیت سے مُشَرَّف ہوئیں۔
رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَوْلادِ پاک
سرکارِ نامدار، دو عالَم کے مالِک ومختار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے
تین۳ شہزادے
(۱) حضرت سیِّدنا قاسِم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ
(۲)حضرت سیِّدنا عَبْدُ اللہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ
(۳) حضرت سَیِّدنا ابراھیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ
اور چار۴ شہزادیاں:
اور چار۴ شہزادیاں:
(۱) حضرت سیِّدَتُنا زینب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا
(۲) حضرت سیِّدَتُنا رُقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا
(۳) حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَ
(۲) حضرت سیِّدَتُنا رُقیہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا
(۳) حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ کُلثوم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَ
(۴) حضرتِ سیِّدَتُنا فاطِمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا تھیں۔
اور سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سب اولاد حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے ہوئی۔ شہزادگان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا عہدِ طُفُولیت میں ہی انتقال فرما گئے جبکہ چاروں شہزادیاں حیات رہیں اور بڑی ہو کر اپنے اپنے گھر والیاں ہوئیں۔ سِوائے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے تینوں شہزادیاں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہدِ مُبَارَک میں ہی انتقال فرما گئیں، حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے پردۂ ظاہِری فرمانے کے چھ۶ ماہ بعد انتقال فرمایا۔ اللہ رَبُّ الْعِزّت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
قابِلِ رَشْک موت
پیاری پیاری اسلامی بہنو! فُیُوضِ صحابہ وصحابیات وغیرہ اخیارِ امت سے فیض یاب ہونے کے لئے آپ بھی تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ! اس مَدَنی ماحول کی برکت سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان صالحین اُمَّت کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کا ذہن بنتا ہے، آئیے! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو کر صحابہ وصالحین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم اَجْمَعِیْن سے فیض یاب ہونے والی ایک اسلامی بہن کی قابلِ رشک مَدَنی بہار ملاحظہ فرمائیے اور جھومئے، چنانچہ مرکز الاولیا (لاہور) کی ایک ذمے دار اسلامی بہن کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ میری والِدہ ایک عرصے سے گُردوں کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ربیع النُّور شریف کے پُرنور مہینے میں پہلی مرتبہ ہم ماں بیٹی دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے اللہ اللہ اور مرحبا یامصطفےٰ کی پُرکیف صداؤں سے گونجتے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں شریک ہوئیں۔ شرعی پردہ کرنے کے لئے مَدَنی بُرقع پہننے، آئندہ بھی سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے اور مزید اچھی اچھی نیتیں کر کے ہم دونوں گھر لوٹ آئیں۔ رات کے وقت امی جان کو یکایک دل کا دَورہ پڑا، سنّتوں بھرے اجتماع میں گونجنے والی اللہ اللہ کی مسحور کُن صداؤں کا نشہ گویا ابھی باقی تھا شاید اسی لئے میری امی جان اپنی زندگی کے آخری تقریباً 25 مِنَٹ اللہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا وِرْد کرتی رہیں اور پِھر ...پِھر...اُن کی رُوْح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔
؏ عَفْوْ فرما خطائیں مِری اے عَفُوّ!
شوق و توفیق نیکی کی دے مجھ کو تُو
جاری دل کر کہ ہر دم رہے ذکرِ ھُو
عادتِ بد بدل اور کر نیک خُو
٭…٭…٭…٭…٭…٭
سیرتِ حضرت سَوْدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاسارا وقت دُرُود خوانی
حضرتِ سیِّدنا اُبَیّ بن کَعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے بارگاہِ رِسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُود پڑھتا ہوں، آپ فرمائیں کہ میں ذکر و اوراد کا کتنا وقت دُرُود خوانی کے لئے مقرر کروں؟ فرمایا: جتنا تم چاہو۔ میں نے کہا: ایک چوتھائی...؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر اس سے بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: آدھا...؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر اور بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: دو۲ تَہائی...؟ فرمایا: جتنا چاہو، لیکن اگر اور اِضافہ کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: میں سارا وَقْت دُرُود ہی پڑھوں گا۔فرمایا: تب تمہارے غموں کو کافی ہو گا اور تمہارے گناہ مِٹا دے گا۔
؏ ہر درد کی دوا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
تعویذِ ہر بَلا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ظلماتِ شرک سے انوارِ توحید تک
چھٹی صدی عیسوی جب انسان جاہلیت کے زمانۂ شروفساد میں اپنی حَیَات کے قیمتی ایّام غفلت میں پڑے بسر کر رہا تھا اور اس کا رُواں رُواں کفر وشرک کی نجاستوں سے لِتھڑا ہوا تھا تب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عرب کے ریگ زاروں اور کوہساروں میں اپنے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا۔ آفتابِ رِسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارگاہِ ربُّ الْاَنام عَزَّ وَجَلَّ سے وہ پیارا دین اسلام لے کر اس کرۂ ارضی پر تشریف لائے جس نے اپنے نُور سے جاہلیت کے اندھیروں کو دُور کر دیا اور شرک وکفر کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو توحید وایمان کے انوار سے جگمگا کر راہِ ہِدایت پر گام زَن کیا۔
السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اِعْلانِ نبوت فرمایا اور لوگوں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی تو بغض وحَسَد سے پاک دل رکھنے والی نیک طینت ہستیوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق پر لبیک کہا، ان کے اَعْضا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعت کے لئے جھک گئے اور قُلُوب واذہان (دل ودماغ) دین اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہو گئے۔ اس طرح یہ پاک باز ہستیاں کفر وجہالت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آ گئیں۔ ان میں سے وہ حضرات جنہوں نے اسلام کو اس کے ابتدائی دنوں میں قبول کیا، قرآنِ کریم نے اِنہیں اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے دل نشین خطاب سے نوازا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تین۳ عظیم وجلیل بشارتیں بھی سنائیں کہ
٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن سے راضی ہے۔
٭وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی ہیں۔
٭اُن کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں گے۔
چنانچہ پارہ گیارہ ، سورۂ توبہ، آیَت نمبر 100 میں ہے:
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰۰) (پ۱۱، التوبة: ۱۰۰)
ترجمۂ کنزالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مُہاجِر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے، اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور اُن کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
یہ اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ جنہوں نے اِسلام کو اس کے ابتدائی ایّام میں قبول کیا اور سب سے پہلے حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت ورِسالت کی گواہی دی، اِن میں سے جلیل القدر صَحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا سُھَیْل بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے بھائی حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زَوْجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَوْدَہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی تھیں۔
صبر واستقامت
پیاری پیاری اسلامی بہنو! یہ وہ دَور تھا کہ جب اِسلام کے جِلَوْ (ہم راہی) میں آنے والوں کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا اور اس کی ایذا رسانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جاتی تھی، ایسے پُرآشوب دَور میں یہ نیک سیرت وپاک طبیعت ذواتِ مُقَدَّسہ اِسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہوئیں اور اس پختگی کے ساتھ وابستہ رہیں کہ کفر وشر کے تُند وتیز جھونکے بھی ان کے پایۂ ثبات (استقامت) میں لَغْزِش نہ لا سکے۔
ہجرتِ حبشہ کی اجازت
جب دین اسلام کے پیروکاروں پر کفار کی جانب سے جور وسِتَم کی انتہا ہو گئی اور ان کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو غم گسارِ جہاں، شفیع مُذنِباں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دین اسلام کے فِدائیوں کو یہ کہتے ہوئے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی اِجازت مرحمت فرما دی کہ ” اِنَّ بِاَرْضِ الْحَبَشَةِ مَلِكًا لَا يُظْلَمُ اَحَدٌ عِنْدَهٗ فَالْحَقُوْا بِبِلَادِهٖ حَتّٰى يَجْعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ فَرَجًا وَّمَخْرَجًا مِمَّا اَنْتُمْ فِيْهِ سرزمین حبشہ میں ایسا عادِل بادشاہ ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظُلْم نہیں کیا جاتا، تم لوگ اس کے ملک میں چلے جاؤ حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے لئے کُشَادْگی اور اِن مَصائِب سے نکلنے کا راستہ بنا دے جس میں تم مبتلا ہو۔ “
مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ اور کفار کا تَعَاقُب
کُفَّارِ مکہ کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا پتا چلا تو اُن ظالموں نے اِن لوگوں کی گِرِفتاری کے لئے اِن کا تَعَاقُب کیا لیکن یہ لوگ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے اس لئے کفار ناکام واپس لوٹے۔ یہ مُہَاجِرین کا قافلہ حبشہ کی سرزمین میں اتر کر امن وامان کے ساتھ خدا کی عِبادت میں مصروف ہو گیا۔ چند دنوں بعد ناگہاں یہ خبر پھیل گئی کہ کفارِ مکہ مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر سن کر چند لوگ حبشہ سے مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آ کر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ بعض لوگ تو پھر حبشہ چلے گئے مگر کچھ لوگ مکہ میں رُوپوش ہو کر رہنے لگے لیکن کفارِ مکہ نے ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان لوگوں پر پہلے سے بھی زیادہ ظُلْم ڈھانے لگے تو حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر لوگوں کو حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ حبشہ سے واپس آنے والے اور ان کے ساتھ دوسرے مظلوم مسلمان کل تراسی (۸۳) مَرد اور اٹھارہ عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ ([6]) اِس دوسری بار کی ہجرت میں حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زوجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی شریک ہوئے۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی مکہ واپسی
ہجرت کے کچھ عرصہ بعد حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اپنے شوہر حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے ساتھ مکہ مُعَظَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً واپس آ گئیں۔ اس وَقْت بھی کُفَّارِ ناہنجار مسلمانوں کی ایذا رسانی میں اسی طرح سرگرم تھے اور ان کی تکلیف دہی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ لیکن یہ دونوں مقدس ہستیاں سرکارِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قرب سے فیض یاب ہونے کے لئے مکہ میں رہائش پذیر دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہیں مقیم ہو گئیں اور کفارِ بداطوار کے ظلم وستم نہایت صبر وتحمل سے سہتی رہیں لیکن اپنے ایمان کے لہلہاتے ہوئے چمن کو شرک وکفر کی آگ کی ہلکی سی آنچ تک نہ آنے دی۔
دَو۲ مُبارَک خواب
ایک رات حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب دیکھا کہ شہنشاہِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیدل چلتے ہوئے اِن کی طرف مُتَوجِّہ ہوئے حتی کہ اپنے پائے اقدس ان کی گردن پر رکھتے ہوئے گزر گئے۔ جب آپ نے اپنے شوہر (حضرتِ سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) کو اس خواب کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا: اگر تمہارا خواب سچا ہے تو عنقریب میں یقینی طور پر وفات پا جاؤں گا اور سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تجھ سے نِکاح فرمائیں گے۔
پھر ایک دوسری رات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب دیکھا کہ چاند ٹوٹ کر آپ پر گِر پڑا ہے اور آپ کروٹ کے بل لیٹی ہوئی ہیں۔ بیدار ہونے پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اس خواب کا بھی اپنے شوہر سے تذکِرہ کیا۔ انہوں نے کہا: اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں بہت جلد انتقال کر جاؤں گا اور تم میرے بعد شادی کرو گی۔ خواب حقیقت کے رُوپ میں حضرتِ سَکْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کا انتقالجس دن حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنا دوسرا خواب بیان کیا تھا اسی دن حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ بیمار ہو گئے، کچھ دن بیمار رہے اور پھر بہت جلد اس دارِ ناپائیدار سے رخصت ہو کر دارِ آخرت کی طرف کوچ فرما گئے۔
مصائب وآلام کا پہاڑ
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ذرا غور فرمائیے! سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے وہ لمحات کس قدر غم انگیز اور تکلیف دِہ ثابت ہوئے ہوں گے کہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے شوہر نامدار حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُوفات پا گئے تھے، یقیناً آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر مَصائب و آلام کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو گا اور پھر ایسے میں کہ جب کوئی ہم ساز وہم خیال بھی پاس موجود نہ ہو تو مصیبت میں اور اِضافہ ہو جاتا ہے، ایسے تکلیف دِہ حالات میں بڑے بڑے سُورْماؤں (بہادروں) کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور پایۂ ثبات میں لرزِش آجاتی ہے، لیکن قربان جائیے حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عزم واستقلال اور استقامت عَلَی الْاِسْلام پر کہ ایسے جاں سوز اور روح فرسا اوقات میں بھی زبان پر حرفِ شِکایَت نہ آنے دیا اور سینہ سِپَر ہو کر تمام مصائب وآلام کا مقابلہ کیا۔ حبیبِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مُشَرَّف ہونا اگرچہ بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں منظور ہو چکا تھا لیکن سوال یہ اٹھتا تھا کہ ایسا کیسے ہو...؟
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وفات کے بعد:-
ان دنوں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ان سے کچھ روز پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالِب کے وفات پاجانے کی وجہ سے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت زِیادہ مغموم اور رنجیدہ خاطِر تھے کیونکہ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسالت پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُوْنِس وغم خوار اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بچوں کی والِدہ تھیں اور ابوطالِب بھی ہر مشکل گھڑی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدد کرتے تھے، چنانچہ تین۳ یا پانچ۵ روز کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے ان دونوں کا انتقال کر جانا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بڑا دل دَوز سانحہ تھا اور اسی باعث آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سال کو غم واَلَم کا سال قرار دیا چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے عَامُ الْحُزْن کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے: غم وپریشانی کا سال۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس میں حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی جو قدر ومَنْزِلَت تھی صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اسے جانتے تھے اس لئے وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَفْسُرْدَگی کی وجہ سے بھی بخوبی واقِف تھے، چنانچہ حُضُورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نِکاح کی پیشکش ایک دن جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُکی زَوْجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بارگاہِ رِسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرا خیال ہے کہ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تنہائی نے آ لیا ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ میرے بچوں کی ماں اور گھر کی نگہبان تھی۔ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عرض کیا: آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شادی کیوں نہیں فرما لیتے؟ استفسار فرمایا: کس سے؟ عرض کیا: اگر چاہیں تو باکِرہ (کنواری) سے اور اگر چاہیں تو ثَیِّبَہ (یعنی طلاق یافتہ یا بیوہ) سے۔ فرمایا: باکِرہ کون ہے؟ عرض کیا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سب سے زیادہ محبوب شخص کی شہزادی عائشہ بنتِ ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا۔ پھر فرمایا: ثَیِّبَہ کون ہے؟ عرض کیا: سَودہ بنتِ زَمَعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائی ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین کی پیروی کرتی ہیں۔ اس پر حُضُورِ اقدس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِرشاد فرمایا: جاؤ! دونوں کو میری طرف سے نِکاح کا پیغام دے دو۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاکو نِکاح کا پیغام
سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے اِجازت پا کر حضرتِ سیِّدَتُنا خَولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ہاں تشریف لے گئیں، اِن کے والِدَین سے اس سلسلے میں بات چیت کی پھر حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس آ کر کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہیں کیا خوب خیر وبرکت عطا فرمائی ہے۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے نِکاح کا پیغام دوں۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: میں چاہتی ہوں کہ تم میرے والِد کے پاس جا کر اِنہیں یہ بات بتاؤ۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد بہت زیادہ بوڑھے تھے انہیں اس قدر بڑھاپا آیا ہوا تھا کہ حج بھی ادا نہ کر سکے تھے۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بات سن کر حضرتِ خَولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اِن کے پاس تشریف لے آئیں اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے مُطابِق سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: خولہ بنتِ حکیم۔ پوچھا: کیا کام ہے؟ کہا: مجھے حضرتِ مُحَمَّد بن عَبْدُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھیجا ہے تاکہ میں ان کی طرف سے سَودہ کو نِکاح کا پیغام دوں۔ اس پر اُنہوں نے کہا: کفو تو اچھا ہے، تمہاری سہیلی (یعنی حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: انہیں یہ رشتہ پسند ہے۔ کہا: اسے میرے پاس بُلا لاؤ۔
حضرتِ سیِّدَتُنا خَولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ میں حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ان کے والِد کے پاس لائی تو وہ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کہنے لگے: اے میری بچی! یہ کہتی ہیں کہ مُحَمَّد بن عَبْدُ اللہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے تمہاری طرف نِکاح کا پیغام بھیجا ہے، وہ اچھے کفو ہیں، کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہاری شادی اُن سے کر دوں؟ حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے جواب دیا: جی ہاں۔
حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی رائے معلوم کرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد زَمعَہ بن قیس کہنے لگے: اِنہیں (یعنی رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو) میرے پاس بُلا لائیے۔ جب سَیِّدُ الثَّقَلَیْن، نَبِیُّ الْحَرَمَیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے تو انہوں نے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کر دیا۔ اور اس طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، رسولِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آکر اُمَّہَاتُ المؤمنین کی فہرست میں شامِل ہو گئیں۔ اعلانِ نبوت کے 10ویں سال، شوال المکرم کے مہینے میں حُضُور سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا۔
؏ہ نساءِ نبی طیِّبات و خلیق
جن کے پاکیزہ تر سارے طَور و طریق
جو بہرحال نُورِ خُدا کی رفیق
اہلِ اِسلام کی مادَرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نِکاح پر حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاکے بھائی کا ردِّ عمل
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ایک بھائی عَبْد بن زَمعَہ جو اِن دِنوں حج کے لئے گیا ہوا تھا (اور ابھی تک مُشَرَّف بہ اسلام نہیں ہوا تھا) ، جب وہ واپس آیا اور اِسے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کا عِلْم ہوا تو غیظ وغضب اور رنج وملال کے سبب اپنے سر میں خاک ڈالنے لگا۔
اِسلام لانے کے بعد...
پھر جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کی بصارت وبصیرت کو نورِ اِسلام سے روشن کر دیا اور وہ قبولِ اسلام سے مُشَرَّف ہوئے، کفارِ ناہنجار کے معبودانِ باطلہ کے منکر اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک اور معبودِ حقیقی ہونے کے معتقد ہوئے اور حُضُور سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسالت پر ایمان لا کر تمام عقائدِ اِسلامیہ کے مُعْتَرِف ہوئے تو اپنی اس گُزَشتہ حرکت پر نادِم وپشیمان ہوتے ہوئے کہا: ” لَعَمْرُكَ اِنِّیْ لَسَفِيْهٌ يَّوْمَ اَحْثِىْ فِیْ رَاْسِیْ التُّرَابَ اَنْ تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ قسم ہے زندگی کی! اُس دن میں نادان اورکم عقل تھا کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح کرنے کی وجہ سے میں نے اپنے سر میں مٹی ڈالی تھی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! کفر ایک تاریک کھائی اور اسلام ایک روشن مَنارہ ہے، کفر اپنے مقتداؤں (پیروکاروں) کو جہنّم کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے اور اسلام کا پیروکار جنت کی اَبَدی وسَرْمَدی نعمتوں سے فلاح یاب ہوتا ہے، کفر پر اِصرار ابوجہل جیسا بدبخت بناتا اور اسلام پر استقامت کے ساتھ حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دیدار صحابیت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرماتا ہے۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے:
؏ لَعَمْرُكَ مَا الْاِنْسَانُ اِلَّا بِدِيْنِهِ
فَلَا تَتْرُكِ التَّقْوىٰ اِتَّكَالًا عَلَى النَّسَبِ
لَقَدْ رَفَعَ الْاِسْلَامُ سَلْمَانَ فَارِسِ
وَقَدْ وَضَعَ الشِّرْكُ الشَّقِیَّ اَبَا لَهَبِ
یعنی قسم ہے زندگی کی! انسان دین کے بغیر کچھ بھی نہیں لہٰذا تم نسب پر بھروسا کرتے ہوئے تقویٰ کو ترک مت کرو کہ اِسلام نے حضرتِ سیِّدُنا سَلْمَان فارِسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بلند فرما دیا اور شرک نے ابولہب کو بدبخت بنا دیا۔
ہجرتِ مدینہ
جب مسلمانوں کو مُشْرِکِین کی طرف سے ایذائیں دئیے جانے کا سلسلہ بہت طویل ہو گیا اور ان کے ظلم وسِتَم سے مسلمانوں پر عرصۂ حَیَات تنگ ہو گیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اپنے پیارے وطن مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں زندگی بسر کرنا دُوْبَھر (دُشْوار) ہو گیا تو سَیِّدُالْمُرْسَلِیْن، خاتَمُ النَّبِیِّیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کو مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِـیْمًا کی طرف ہجرت کی اِجازت مرحمت فرما دی اور کچھ روز بعد خود بھی ہجرت فرما کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا تشریف لے گئے اور اس کے گلی کوچوں کو اپنے جلوؤں سے جگمگانے لگے۔ مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں قیام پذیر ہونے کے کچھ عرصہ بعد حُضُورِ اکرم، رسولِ محتشم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ زَیْد بن حارثہ اور اپنے غُلام حضرتِ ابورَافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو 500 دِرْہَم اور دو۲ اونٹ دے کر مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا بھیجا اور یہ حضرتِ فاطمہ، حضرتِ اُمِّ کلثوم، حضرتِ سَودہ بنتِ زَمعَہ، حضرتِ اُسَامہ اور حضرتِ اُمِّ اَیْمَن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم کو لے کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا آ گئے۔ جب یہ حضرات مدینہ شریف پہنچے ان دِنوں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجدِ نَبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اس کے گِرد حجروں کی تعمیر فرما رہے تھے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں حجروں میں اپنے اہل وعیال کو ٹھہرایا۔
مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِـیْمًا میں قیام
مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں قیام کے کچھ عرصہ بعد تک تو صرف حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہی حُضُورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہیں پھر سات۷ یا آٹھ۸ ماہ بعد حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی رخصت ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس حاضِر ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پے در پے متعدد نِکاح فرمائے اور کئی خواتین کو شرفِ زوجیت سے نوازا۔
رِضائے رسول کی طَلَب
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت ہی دین دار اور سلیقہ شِعار خاتون تھیں، کاشانۂ نَبَوی میں آنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہمیشہ رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا کے حُصُول کے لئے کوشاں رہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا یہ بات یقینی طور پر جانتی تھیں کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب ازواج سے زیادہ حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے محبت فرماتے ہیں نیز عمر رسیدہ ہونے کے سبب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے طلاق نہ دے دیں چنانچہ آپ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس میں فرحت وسُرور داخِل کرنے اور اپنا اندیشہ دُور کرنے کی غرض سے اپنی باری کا دن بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہبہ کر دیا جیسا کہ ترمذی شریف کی رِوایَت میں حضرتِ سیِّدنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرتِ سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں طلاق دے دیں گے تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ) مجھے طلاق مت دیجئے گا، مجھے اپنی زوجیت میں ہی رکھئے اور میری باری کا دن حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے مقرر فرما دیجئے۔ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے منظور فرما کر ایسا ہی کیا۔
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے محض سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا وخوش نُودی پانے اور بروزِ قیامت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں اُٹھنے کے لئے جس عظیم ایثار وقربانی کا مُظاہَرہ فرمایا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا سینہ محبتِ رسول کا خزینہ تھا اور اتنی بڑی قربانی دے کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے وہ اعلیٰ تاریخ رقم کی ہے جس کی مثال نادر ونایاب ہے۔ اےکاش! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عشقِ رسول کا ایک ذرّہ ہمیں بھی نصیب ہو جائے اور ہم گناہ ونافرمانیوں سے کنارہ کَش ہو کر عَمَلی طور پر سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُطِیع وفرمانبردار ہو جائیں۔
اور سِوائے حضرتِ ابراہیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کے سب اولاد حضرتِ خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے ہوئی۔ شہزادگان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا عہدِ طُفُولیت میں ہی انتقال فرما گئے جبکہ چاروں شہزادیاں حیات رہیں اور بڑی ہو کر اپنے اپنے گھر والیاں ہوئیں۔ سِوائے حضرتِ سیِّدَتُنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے تینوں شہزادیاں پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے عہدِ مُبَارَک میں ہی انتقال فرما گئیں، حضرتِ بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پیارے آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے دنیا سے پردۂ ظاہِری فرمانے کے چھ۶ ماہ بعد انتقال فرمایا۔ اللہ رَبُّ الْعِزّت کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
قابِلِ رَشْک موت
پیاری پیاری اسلامی بہنو! فُیُوضِ صحابہ وصحابیات وغیرہ اخیارِ امت سے فیض یاب ہونے کے لئے آپ بھی تبلیغ قرآن وسنت کی عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو جائیے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ! اس مَدَنی ماحول کی برکت سے عمل کا جذبہ پیدا ہوتا ہے اور ان صالحین اُمَّت کی سیرت پر عمل پیرا ہونے کا ذہن بنتا ہے، آئیے! دعوتِ اسلامی کے مَدَنی ماحول سے وابستہ ہو کر صحابہ وصالحین رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم اَجْمَعِیْن سے فیض یاب ہونے والی ایک اسلامی بہن کی قابلِ رشک مَدَنی بہار ملاحظہ فرمائیے اور جھومئے، چنانچہ مرکز الاولیا (لاہور) کی ایک ذمے دار اسلامی بہن کے بیان کا خُلاصہ ہے کہ میری والِدہ ایک عرصے سے گُردوں کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ربیع النُّور شریف کے پُرنور مہینے میں پہلی مرتبہ ہم ماں بیٹی دعوتِ اسلامی کے اسلامی بہنوں کے اللہ اللہ اور مرحبا یامصطفےٰ کی پُرکیف صداؤں سے گونجتے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اِجتِماع میں شریک ہوئیں۔ شرعی پردہ کرنے کے لئے مَدَنی بُرقع پہننے، آئندہ بھی سنّتوں بھرے اجتماعات میں شرکت کرنے اور مزید اچھی اچھی نیتیں کر کے ہم دونوں گھر لوٹ آئیں۔ رات کے وقت امی جان کو یکایک دل کا دَورہ پڑا، سنّتوں بھرے اجتماع میں گونجنے والی اللہ اللہ کی مسحور کُن صداؤں کا نشہ گویا ابھی باقی تھا شاید اسی لئے میری امی جان اپنی زندگی کے آخری تقریباً 25 مِنَٹ اللہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا وِرْد کرتی رہیں اور پِھر ...پِھر...اُن کی رُوْح قَفَسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔
؏ عَفْوْ فرما خطائیں مِری اے عَفُوّ!
شوق و توفیق نیکی کی دے مجھ کو تُو
جاری دل کر کہ ہر دم رہے ذکرِ ھُو
عادتِ بد بدل اور کر نیک خُو
٭…٭…٭…٭…٭…٭
سیرتِ حضرت سَوْدہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاسارا وقت دُرُود خوانی
حضرتِ سیِّدنا اُبَیّ بن کَعب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے بارگاہِ رِسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں عرض کیا: یا رسولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر کثرت سے دُرُود پڑھتا ہوں، آپ فرمائیں کہ میں ذکر و اوراد کا کتنا وقت دُرُود خوانی کے لئے مقرر کروں؟ فرمایا: جتنا تم چاہو۔ میں نے کہا: ایک چوتھائی...؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر اس سے بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: آدھا...؟ فرمایا: جتنا چاہو، اگر اور بڑھا دو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: دو۲ تَہائی...؟ فرمایا: جتنا چاہو، لیکن اگر اور اِضافہ کرو تو تمہارے لئے بہتر ہے۔ میں نے کہا: میں سارا وَقْت دُرُود ہی پڑھوں گا۔فرمایا: تب تمہارے غموں کو کافی ہو گا اور تمہارے گناہ مِٹا دے گا۔
؏ ہر درد کی دوا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
تعویذِ ہر بَلا ہے صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّد
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
ظلماتِ شرک سے انوارِ توحید تک
چھٹی صدی عیسوی جب انسان جاہلیت کے زمانۂ شروفساد میں اپنی حَیَات کے قیمتی ایّام غفلت میں پڑے بسر کر رہا تھا اور اس کا رُواں رُواں کفر وشرک کی نجاستوں سے لِتھڑا ہوا تھا تب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عرب کے ریگ زاروں اور کوہساروں میں اپنے پیارے حبیب، حبیبِ لبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو مبعوث فرمایا۔ آفتابِ رِسالت، ماہتابِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بارگاہِ ربُّ الْاَنام عَزَّ وَجَلَّ سے وہ پیارا دین اسلام لے کر اس کرۂ ارضی پر تشریف لائے جس نے اپنے نُور سے جاہلیت کے اندھیروں کو دُور کر دیا اور شرک وکفر کی تاریکیوں میں بھٹکتی ہوئی انسانیت کو توحید وایمان کے انوار سے جگمگا کر راہِ ہِدایت پر گام زَن کیا۔
السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ
تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے جب اِعْلانِ نبوت فرمایا اور لوگوں کو قبولِ اسلام کی دعوت دی تو بغض وحَسَد سے پاک دل رکھنے والی نیک طینت ہستیوں نے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی دعوتِ حق پر لبیک کہا، ان کے اَعْضا اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی اِطاعت کے لئے جھک گئے اور قُلُوب واذہان (دل ودماغ) دین اسلام کی خدمت کے لئے تیار ہو گئے۔ اس طرح یہ پاک باز ہستیاں کفر وجہالت کی تاریکیوں سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آ گئیں۔ ان میں سے وہ حضرات جنہوں نے اسلام کو اس کے ابتدائی دنوں میں قبول کیا، قرآنِ کریم نے اِنہیں اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ کے دل نشین خطاب سے نوازا اور ساتھ ہی ساتھ یہ تین۳ عظیم وجلیل بشارتیں بھی سنائیں کہ
٭ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُن سے راضی ہے۔
٭وہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے راضی ہیں۔
٭اُن کے لئے ایسے باغ تیار کر رکھے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں گے۔
چنانچہ پارہ گیارہ ، سورۂ توبہ، آیَت نمبر 100 میں ہے:
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ (۱۰۰) (پ۱۱، التوبة: ۱۰۰)
ترجمۂ کنزالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مُہاجِر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو (پیروی کرنے والے) ہوئے، اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور اُن کے لئے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ اِن میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
یہ اَلسّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ جنہوں نے اِسلام کو اس کے ابتدائی ایّام میں قبول کیا اور سب سے پہلے حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت ورِسالت کی گواہی دی، اِن میں سے جلیل القدر صَحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا سُھَیْل بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے بھائی حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زَوْجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَوْدَہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی تھیں۔
صبر واستقامت
پیاری پیاری اسلامی بہنو! یہ وہ دَور تھا کہ جب اِسلام کے جِلَوْ (ہم راہی) میں آنے والوں کو ہر طرح سے ستایا جاتا تھا اور اس کی ایذا رسانی میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی جاتی تھی، ایسے پُرآشوب دَور میں یہ نیک سیرت وپاک طبیعت ذواتِ مُقَدَّسہ اِسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہوئیں اور اس پختگی کے ساتھ وابستہ رہیں کہ کفر وشر کے تُند وتیز جھونکے بھی ان کے پایۂ ثبات (استقامت) میں لَغْزِش نہ لا سکے۔
ہجرتِ حبشہ کی اجازت
جب دین اسلام کے پیروکاروں پر کفار کی جانب سے جور وسِتَم کی انتہا ہو گئی اور ان کے مظالم نے مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا تو غم گسارِ جہاں، شفیع مُذنِباں صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان دین اسلام کے فِدائیوں کو یہ کہتے ہوئے سرزمین حبشہ کی طرف ہجرت کی اِجازت مرحمت فرما دی کہ ” اِنَّ بِاَرْضِ الْحَبَشَةِ مَلِكًا لَا يُظْلَمُ اَحَدٌ عِنْدَهٗ فَالْحَقُوْا بِبِلَادِهٖ حَتّٰى يَجْعَلَ اللّٰهُ لَكُمْ فَرَجًا وَّمَخْرَجًا مِمَّا اَنْتُمْ فِيْهِ سرزمین حبشہ میں ایسا عادِل بادشاہ ہے کہ اس کے ہاں کسی پر ظُلْم نہیں کیا جاتا، تم لوگ اس کے ملک میں چلے جاؤ حتی کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ تمہارے لئے کُشَادْگی اور اِن مَصائِب سے نکلنے کا راستہ بنا دے جس میں تم مبتلا ہو۔ “
مسلمانوں کی ہجرتِ حبشہ اور کفار کا تَعَاقُب
کُفَّارِ مکہ کو جب ان لوگوں کی ہجرت کا پتا چلا تو اُن ظالموں نے اِن لوگوں کی گِرِفتاری کے لئے اِن کا تَعَاقُب کیا لیکن یہ لوگ کشتی پر سوار ہو کر روانہ ہو چکے تھے اس لئے کفار ناکام واپس لوٹے۔ یہ مُہَاجِرین کا قافلہ حبشہ کی سرزمین میں اتر کر امن وامان کے ساتھ خدا کی عِبادت میں مصروف ہو گیا۔ چند دنوں بعد ناگہاں یہ خبر پھیل گئی کہ کفارِ مکہ مسلمان ہو گئے۔ یہ خبر سن کر چند لوگ حبشہ سے مکہ لوٹ آئے مگر یہاں آ کر پتا چلا کہ یہ خبر غلط تھی۔ چنانچہ بعض لوگ تو پھر حبشہ چلے گئے مگر کچھ لوگ مکہ میں رُوپوش ہو کر رہنے لگے لیکن کفارِ مکہ نے ان لوگوں کو ڈھونڈ نکالا اور ان لوگوں پر پہلے سے بھی زیادہ ظُلْم ڈھانے لگے تو حُضُور صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم نے پھر لوگوں کو حبشہ چلے جانے کا حکم دیا۔ چنانچہ حبشہ سے واپس آنے والے اور ان کے ساتھ دوسرے مظلوم مسلمان کل تراسی (۸۳) مَرد اور اٹھارہ عورتوں نے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔ ([6]) اِس دوسری بار کی ہجرت میں حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عَمْرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ اور آپ کی زوجہ حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی شریک ہوئے۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی مکہ واپسی
ہجرت کے کچھ عرصہ بعد حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اپنے شوہر حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کے ساتھ مکہ مُعَظَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفاً وَّتَعْظِیْماً واپس آ گئیں۔ اس وَقْت بھی کُفَّارِ ناہنجار مسلمانوں کی ایذا رسانی میں اسی طرح سرگرم تھے اور ان کی تکلیف دہی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے۔ لیکن یہ دونوں مقدس ہستیاں سرکارِ رِسالت مآب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قرب سے فیض یاب ہونے کے لئے مکہ میں رہائش پذیر دیگر مسلمانوں کے ساتھ یہیں مقیم ہو گئیں اور کفارِ بداطوار کے ظلم وستم نہایت صبر وتحمل سے سہتی رہیں لیکن اپنے ایمان کے لہلہاتے ہوئے چمن کو شرک وکفر کی آگ کی ہلکی سی آنچ تک نہ آنے دی۔
دَو۲ مُبارَک خواب
ایک رات حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب دیکھا کہ شہنشاہِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پیدل چلتے ہوئے اِن کی طرف مُتَوجِّہ ہوئے حتی کہ اپنے پائے اقدس ان کی گردن پر رکھتے ہوئے گزر گئے۔ جب آپ نے اپنے شوہر (حضرتِ سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ) کو اس خواب کے بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا: اگر تمہارا خواب سچا ہے تو عنقریب میں یقینی طور پر وفات پا جاؤں گا اور سیِّدِ عالَم، نورِ مجسم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تجھ سے نِکاح فرمائیں گے۔
پھر ایک دوسری رات آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے خواب دیکھا کہ چاند ٹوٹ کر آپ پر گِر پڑا ہے اور آپ کروٹ کے بل لیٹی ہوئی ہیں۔ بیدار ہونے پر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اس خواب کا بھی اپنے شوہر سے تذکِرہ کیا۔ انہوں نے کہا: اگر تیرا خواب سچا ہے تو میں بہت جلد انتقال کر جاؤں گا اور تم میرے بعد شادی کرو گی۔ خواب حقیقت کے رُوپ میں حضرتِ سَکْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ کا انتقالجس دن حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے اپنا دوسرا خواب بیان کیا تھا اسی دن حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہ بیمار ہو گئے، کچھ دن بیمار رہے اور پھر بہت جلد اس دارِ ناپائیدار سے رخصت ہو کر دارِ آخرت کی طرف کوچ فرما گئے۔
مصائب وآلام کا پہاڑ
پیاری پیاری اسلامی بہنو! ذرا غور فرمائیے! سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے وہ لمحات کس قدر غم انگیز اور تکلیف دِہ ثابت ہوئے ہوں گے کہ جب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے شوہر نامدار حضرتِ سیِّدنا سَکْرَان بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُوفات پا گئے تھے، یقیناً آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا پر مَصائب و آلام کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو گا اور پھر ایسے میں کہ جب کوئی ہم ساز وہم خیال بھی پاس موجود نہ ہو تو مصیبت میں اور اِضافہ ہو جاتا ہے، ایسے تکلیف دِہ حالات میں بڑے بڑے سُورْماؤں (بہادروں) کے حوصلے پست ہو جاتے ہیں اور پایۂ ثبات میں لرزِش آجاتی ہے، لیکن قربان جائیے حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عزم واستقلال اور استقامت عَلَی الْاِسْلام پر کہ ایسے جاں سوز اور روح فرسا اوقات میں بھی زبان پر حرفِ شِکایَت نہ آنے دیا اور سینہ سِپَر ہو کر تمام مصائب وآلام کا مقابلہ کیا۔ حبیبِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت سے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا مُشَرَّف ہونا اگرچہ بارگاہِ الٰہی عَزَّ وَجَلَّ میں منظور ہو چکا تھا لیکن سوال یہ اٹھتا تھا کہ ایسا کیسے ہو...؟
حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی وفات کے بعد:-
ان دنوں اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اور ان سے کچھ روز پہلے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے چچا ابوطالِب کے وفات پاجانے کی وجہ سے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم بہت زِیادہ مغموم اور رنجیدہ خاطِر تھے کیونکہ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، سیِّدُ الْاَنبیا، محبوبِ کِبْرِیَا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بہت ہی محبوب زوجہ مطہرہ ، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسالت پر عورتوں میں سب سے پہلے ایمان لانے والی، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مُوْنِس وغم خوار اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے بچوں کی والِدہ تھیں اور ابوطالِب بھی ہر مشکل گھڑی میں آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مدد کرتے تھے، چنانچہ تین۳ یا پانچ۵ روز کے فاصلے سے یکے بعد دیگرے ان دونوں کا انتقال کر جانا آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے لئے بڑا دل دَوز سانحہ تھا اور اسی باعث آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اس سال کو غم واَلَم کا سال قرار دیا چنانچہ روایت میں ہے کہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے عَامُ الْحُزْن کا نام دیا۔ جس کا مطلب ہے: غم وپریشانی کا سال۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس میں حضرتِ سیِّدَتُنا خدیجۃ الکبریٰ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی جو قدر ومَنْزِلَت تھی صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان اسے جانتے تھے اس لئے وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی اَفْسُرْدَگی کی وجہ سے بھی بخوبی واقِف تھے، چنانچہ حُضُورِاقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو نِکاح کی پیشکش ایک دن جلیل القدر صحابِیِ رسول حضرتِ سیِّدنا عثمان بن مظعون رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُکی زَوْجۂ محترمہ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا بارگاہِ رِسالت مآب عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں حاضِر ہو کر عرض گزار ہوئیں: یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! میرا خیال ہے کہ حضرتِ خدیجہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے نہ ہونے کی وجہ سے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو تنہائی نے آ لیا ہے؟ فرمایا: ہاں! وہ میرے بچوں کی ماں اور گھر کی نگہبان تھی۔ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے عرض کیا: آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم شادی کیوں نہیں فرما لیتے؟ استفسار فرمایا: کس سے؟ عرض کیا: اگر چاہیں تو باکِرہ (کنواری) سے اور اگر چاہیں تو ثَیِّبَہ (یعنی طلاق یافتہ یا بیوہ) سے۔ فرمایا: باکِرہ کون ہے؟ عرض کیا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی مخلوق میں آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سب سے زیادہ محبوب شخص کی شہزادی عائشہ بنتِ ابوبکر صِدِّیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا۔ پھر فرمایا: ثَیِّبَہ کون ہے؟ عرض کیا: سَودہ بنتِ زَمَعہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، وہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر ایمان لائی ہیں اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے فرامین کی پیروی کرتی ہیں۔ اس پر حُضُورِ اقدس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اِرشاد فرمایا: جاؤ! دونوں کو میری طرف سے نِکاح کا پیغام دے دو۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاکو نِکاح کا پیغام
سرکارِ عالی وقار، محبوبِ ربِّ غفّار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے اِجازت پا کر حضرتِ سیِّدَتُنا خَولہ بنتِ حکیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ہاں تشریف لے گئیں، اِن کے والِدَین سے اس سلسلے میں بات چیت کی پھر حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے پاس آ کر کہا: اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہیں کیا خوب خیر وبرکت عطا فرمائی ہے۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے پوچھا: وہ کیا؟ کہا: مجھے رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے تمہارے پاس بھیجا ہے تاکہ میں تمہیں حُضُورِ اقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی طرف سے نِکاح کا پیغام دوں۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: میں چاہتی ہوں کہ تم میرے والِد کے پاس جا کر اِنہیں یہ بات بتاؤ۔
حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد بہت زیادہ بوڑھے تھے انہیں اس قدر بڑھاپا آیا ہوا تھا کہ حج بھی ادا نہ کر سکے تھے۔ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی بات سن کر حضرتِ خَولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا اِن کے پاس تشریف لے آئیں اور زمانۂ جاہلیت کے دستور کے مُطابِق سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا: کون ہے؟ کہا: خولہ بنتِ حکیم۔ پوچھا: کیا کام ہے؟ کہا: مجھے حضرتِ مُحَمَّد بن عَبْدُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے بھیجا ہے تاکہ میں ان کی طرف سے سَودہ کو نِکاح کا پیغام دوں۔ اس پر اُنہوں نے کہا: کفو تو اچھا ہے، تمہاری سہیلی (یعنی حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا) اس بارے میں کیا کہتی ہیں؟ حضرتِ سیِّدَتُنا خولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے فرمایا: انہیں یہ رشتہ پسند ہے۔ کہا: اسے میرے پاس بُلا لاؤ۔
حضرتِ سیِّدَتُنا خَولہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا فرماتی ہیں کہ میں حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ان کے والِد کے پاس لائی تو وہ حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے کہنے لگے: اے میری بچی! یہ کہتی ہیں کہ مُحَمَّد بن عَبْدُ اللہ (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم) نے تمہاری طرف نِکاح کا پیغام بھیجا ہے، وہ اچھے کفو ہیں، کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہاری شادی اُن سے کر دوں؟ حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے جواب دیا: جی ہاں۔
حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کی رائے معلوم کرنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے والِد زَمعَہ بن قیس کہنے لگے: اِنہیں (یعنی رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کو) میرے پاس بُلا لائیے۔ جب سَیِّدُ الثَّقَلَیْن، نَبِیُّ الْحَرَمَیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تشریف لائے تو انہوں نے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کر دیا۔ اور اس طرح آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا، رسولِ خدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں آکر اُمَّہَاتُ المؤمنین کی فہرست میں شامِل ہو گئیں۔ اعلانِ نبوت کے 10ویں سال، شوال المکرم کے مہینے میں حُضُور سیِّدِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے نِکاح فرمایا۔
؏ہ نساءِ نبی طیِّبات و خلیق
جن کے پاکیزہ تر سارے طَور و طریق
جو بہرحال نُورِ خُدا کی رفیق
اہلِ اِسلام کی مادَرانِ شفیق
بانُوانِ طہارت پہ لاکھوں سلام
صَلُّوْا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
نِکاح پر حضرتِ سودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَاکے بھائی کا ردِّ عمل
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا ایک بھائی عَبْد بن زَمعَہ جو اِن دِنوں حج کے لئے گیا ہوا تھا (اور ابھی تک مُشَرَّف بہ اسلام نہیں ہوا تھا) ، جب وہ واپس آیا اور اِسے حضرتِ سَودہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے حُضُورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ نِکاح کا عِلْم ہوا تو غیظ وغضب اور رنج وملال کے سبب اپنے سر میں خاک ڈالنے لگا۔
اِسلام لانے کے بعد...
پھر جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے ان کی بصارت وبصیرت کو نورِ اِسلام سے روشن کر دیا اور وہ قبولِ اسلام سے مُشَرَّف ہوئے، کفارِ ناہنجار کے معبودانِ باطلہ کے منکر اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے ایک اور معبودِ حقیقی ہونے کے معتقد ہوئے اور حُضُور سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی نبوت ورِسالت پر ایمان لا کر تمام عقائدِ اِسلامیہ کے مُعْتَرِف ہوئے تو اپنی اس گُزَشتہ حرکت پر نادِم وپشیمان ہوتے ہوئے کہا: ” لَعَمْرُكَ اِنِّیْ لَسَفِيْهٌ يَّوْمَ اَحْثِىْ فِیْ رَاْسِیْ التُّرَابَ اَنْ تَزَوَّجَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم سَوْدَةَ بِنْتَ زَمْعَةَ قسم ہے زندگی کی! اُس دن میں نادان اورکم عقل تھا کہ جب رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے سودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے ساتھ نِکاح کرنے کی وجہ سے میں نے اپنے سر میں مٹی ڈالی تھی۔
صَلُّوا عَلَی الْحَبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلٰی مُحَمَّد
پیاری پیاری اسلامی بہنو! کفر ایک تاریک کھائی اور اسلام ایک روشن مَنارہ ہے، کفر اپنے مقتداؤں (پیروکاروں) کو جہنّم کی طرف کھینچ کر لے جاتا ہے اور اسلام کا پیروکار جنت کی اَبَدی وسَرْمَدی نعمتوں سے فلاح یاب ہوتا ہے، کفر پر اِصرار ابوجہل جیسا بدبخت بناتا اور اسلام پر استقامت کے ساتھ حُضُور عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا دیدار صحابیت جیسی عظیم نعمت سے سرفراز فرماتا ہے۔ کسی نے کیا خوب فرمایا ہے:
؏ لَعَمْرُكَ مَا الْاِنْسَانُ اِلَّا بِدِيْنِهِ
فَلَا تَتْرُكِ التَّقْوىٰ اِتَّكَالًا عَلَى النَّسَبِ
لَقَدْ رَفَعَ الْاِسْلَامُ سَلْمَانَ فَارِسِ
وَقَدْ وَضَعَ الشِّرْكُ الشَّقِیَّ اَبَا لَهَبِ
یعنی قسم ہے زندگی کی! انسان دین کے بغیر کچھ بھی نہیں لہٰذا تم نسب پر بھروسا کرتے ہوئے تقویٰ کو ترک مت کرو کہ اِسلام نے حضرتِ سیِّدُنا سَلْمَان فارِسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُ کو بلند فرما دیا اور شرک نے ابولہب کو بدبخت بنا دیا۔
ہجرتِ مدینہ
جب مسلمانوں کو مُشْرِکِین کی طرف سے ایذائیں دئیے جانے کا سلسلہ بہت طویل ہو گیا اور ان کے ظلم وسِتَم سے مسلمانوں پر عرصۂ حَیَات تنگ ہو گیا جس کی وجہ سے مسلمانوں کا اپنے پیارے وطن مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْـمًا میں زندگی بسر کرنا دُوْبَھر (دُشْوار) ہو گیا تو سَیِّدُالْمُرْسَلِیْن، خاتَمُ النَّبِیِّیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسلمانوں کو مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِـیْمًا کی طرف ہجرت کی اِجازت مرحمت فرما دی اور کچھ روز بعد خود بھی ہجرت فرما کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا تشریف لے گئے اور اس کے گلی کوچوں کو اپنے جلوؤں سے جگمگانے لگے۔ مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں قیام پذیر ہونے کے کچھ عرصہ بعد حُضُورِ اکرم، رسولِ محتشم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے حضرتِ زَیْد بن حارثہ اور اپنے غُلام حضرتِ ابورَافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا کو 500 دِرْہَم اور دو۲ اونٹ دے کر مَکَّۃُ الْمُکَرَّمَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا بھیجا اور یہ حضرتِ فاطمہ، حضرتِ اُمِّ کلثوم، حضرتِ سَودہ بنتِ زَمعَہ، حضرتِ اُسَامہ اور حضرتِ اُمِّ اَیْمَن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُم کو لے کر مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا آ گئے۔ جب یہ حضرات مدینہ شریف پہنچے ان دِنوں رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مسجدِ نَبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور اس کے گِرد حجروں کی تعمیر فرما رہے تھے۔ پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِنہیں حجروں میں اپنے اہل وعیال کو ٹھہرایا۔
مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِـیْمًا میں قیام
مَدِیْنَۃُ الْمُنَوَّرَہ زَادَھَا اللہُ شَرَفًا وَّتَعْظِیْمًا میں قیام کے کچھ عرصہ بعد تک تو صرف حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہی حُضُورِ انور صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ رہیں پھر سات۷ یا آٹھ۸ ماہ بعد حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بھی رخصت ہو کر آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پاس حاضِر ہو گئیں۔ اس کے بعد آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے پے در پے متعدد نِکاح فرمائے اور کئی خواتین کو شرفِ زوجیت سے نوازا۔
رِضائے رسول کی طَلَب
اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا بہت ہی دین دار اور سلیقہ شِعار خاتون تھیں، کاشانۂ نَبَوی میں آنے کے بعد آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا ہمیشہ رسولِ خُدا، احمدِ مجتبیٰ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا کے حُصُول کے لئے کوشاں رہیں۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا یہ بات یقینی طور پر جانتی تھیں کہ تاجدارِ رِسالت، شہنشاہِ نبوت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سب ازواج سے زیادہ حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا سے محبت فرماتے ہیں نیز عمر رسیدہ ہونے کے سبب آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو یہ اندیشہ بھی ہوا کہ کہیں رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم مجھے طلاق نہ دے دیں چنانچہ آپ نے رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے قلبِ اقدس میں فرحت وسُرور داخِل کرنے اور اپنا اندیشہ دُور کرنے کی غرض سے اپنی باری کا دن بھی اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو ہبہ کر دیا جیسا کہ ترمذی شریف کی رِوایَت میں حضرتِ سیِّدنا ابنِ عبّاس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہُمَا سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرتِ سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کو اس بات کا اندیشہ ہوا کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم انہیں طلاق دے دیں گے تو انہوں نے عرض کیا: (یا رسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! ) مجھے طلاق مت دیجئے گا، مجھے اپنی زوجیت میں ہی رکھئے اور میری باری کا دن حضرتِ عائشہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے لئے مقرر فرما دیجئے۔ رسولِ کریم، رَءُوْفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اسے منظور فرما کر ایسا ہی کیا۔
سُبْحٰنَ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ! اُمُّ المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا سَودہ بنتِ زَمعَہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے محض سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی رِضا وخوش نُودی پانے اور بروزِ قیامت آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی زوجیت میں اُٹھنے کے لئے جس عظیم ایثار وقربانی کا مُظاہَرہ فرمایا ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کا سینہ محبتِ رسول کا خزینہ تھا اور اتنی بڑی قربانی دے کر آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا نے وہ اعلیٰ تاریخ رقم کی ہے جس کی مثال نادر ونایاب ہے۔ اےکاش! آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنۡہَا کے عشقِ رسول کا ایک ذرّہ ہمیں بھی نصیب ہو جائے اور ہم گناہ ونافرمانیوں سے کنارہ کَش ہو کر عَمَلی طور پر سرکارِ نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے مُطِیع وفرمانبردار ہو جائیں۔
________(❤️)_________
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
________(❤️)_________